چندہ برائے یونیورسٹی
پنجاب یونیورسٹی میں ہزاروں طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مگر آج لیٹنر کو کوئی نہیں جانتا ...
BANGKOK:
ہمارا اصل مسئلہ کیا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر طالب علم کے ذہن پر روز بھر پور دستک دیتا ہے۔ میرے جیسا بے علم انسان ذہنی طور پر اب ان اہل نظر لوگوں سے اپنے آپ کو قریب محسوس کرتا ہے جو کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوہری مسئلہ اخلاقی ہے۔ بے سمت سیاست، غیر مستحکم معاشیات، غارت گری اور دہشت گردی اپنی جگہ پر۔ یہ تو علامات ہیں۔ ان سب کو کسی شخص نے ہی ٹھیک کرنا ہے۔ اور وہ مسئلہ جب انسان کے اوپر آ کر ٹھہرتا ہے تو اصل بحران شروع ہو جاتا ہے۔ اخلاقی بگاڑ اب خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ ہم وہ ہر غلط کام کرنے پر تیار ہیں جو دنیا کا کوئی ملک یا شہری سوچ بھی نہیں سکتا۔ مساجد کے فرقہ وارانہ استعمال سے لے کر ووٹ کی طاقت کو بے حرمت کرنے تک، ذبح شدہ جانوروں کے بدن میں پانی بھرنے سے لے کر انسانی اعضاء کی خرید و فروخت تک، لالچ اور تعصب کا ایک سمندر ہے جس میں ہم غرقاب ہو چکے ہیں۔ جو لوگ اس میں شامل نہیں وہ جبر کے نظام میں بے بسی سے ہر وقت ارد گرد دیکھ رہے ہیں کہ شائد کوئی مسیحا آ جائے۔ مگر میری دانست میں ہر شخص اپنی جگہ قوت مسیحائی رکھتا ہے۔ شرط صرف اور صرف اخلاقی طور پر اپنے آپ کو تیار کر کے صحیح سمت میں عمل کرنا ہے۔ ہزاروں درخشاں مثالیں آج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ عمل اور پیہم عمل! اخلاقی بگاڑ کوئی ایک دو سال میں پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ ایک طویل عرصے تک اہلیت اور میرٹ کو شعوری طور پر برباد کرنے سے نمودار ہوا ہے۔ ہمارے حکمران ہٹلر کے مشہور دروغ گو وزیر گوئبلز سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ اتنا جھوٹ اور اس ڈھٹائی سے کہ الاماں۔ مگر صاحبان! حالات کا دھارا بدل چکا ہے۔ اب میں ان لوگوں کی گرفت دیکھتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ مہلت ختم ہو چکی ہے۔
قائد کراچی تشریف لائے۔ نو زایدہ پاکستان کے معاشی حالات بہت مشکل تھے۔ انھوں نے اپنے اے۔ڈی۔سی کو حیدر آباد کے ایک ہندو کاروباری خاندان کے پاس بھجوایا۔ پیغام دیا کہ آپ اس ملک میں بلا خوف و خطر کاروبار کریں اور ملک کی معاش میں اپنا کردار ادا کریں۔ جو اب ملا کہ ہمارا خاندان فیصلہ کر چکا ہے کہ ہم انڈیا جائینگے۔ یہ ایڈوانی خاندان تھا۔ قائد فراست اور تدبر کے اُس زینہ پر تھے کہ اس عظیم ملک میں تمام مذاہب کے لوگوں کو پاکستان کی سر بلندی کے لیے کام کرتا دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ ہر قسم کے تعصب سے بالا تر تھے۔
1947ء میں پاکستان میں 1000-1500 یہودی تھے۔ یہ تمام لوگ کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاور یعنی پورے ملک میں عام شہریوں کی طرح زندگی گزار رہے تھے۔ کراچی میں اکثریت مراٹھی زبان بولنے والے بنی اسرائیلی فرقے سے منسلک تھی۔ جب کہ بغدادی فرقے کی نمایندگی قدرے کم تھی۔ اس کے بالکل برعکس پشاور میں نجاران فرقہ کثرت سے تھا۔ آپ حیران ہونگے کہ قیام پاکستان اور اس سے پہلے ان لوگوں کے متعلق معاشرہ میں منفی جذبات تقریباً نہ ہونے کے برابر تھے۔ ان کی عبادت گاہیں ہر اس شہر میں موجود تھیں جہاں یہ لوگ بستے تھے۔ جیسے پشاور میں ان کی دو عبادت گاہیں تھیں۔ کوئٹہ میں ایک اور لاہور میں بھی ایک موجود تھی۔ کراچی میں کیونکہ ان کی آبادی زیادہ تھی چنانچہ وہاں قیام پاکستان سے پہلے ایک بہت بڑی عبادت گاہ تعمیر کی گئی تھی جو نشتر روڈ اور جمیلہ اسٹریٹ کی نکر پر تھی۔ کراچی میونسپل کارپوریشن میں ابراہیم ریبسن نام کا ایک کونسلر بھی تھا۔ یہ تین بار کونسلر منتخب ہوا تھا۔ آپ کراچی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے وہاں موسیٰ سموکی نام کے آرکیٹیکٹ کی بے شمار عمارتیں نظر آئیں گی۔ کیماڑی کا میولز مینشن، بی۔وی۔سی ہائی اسکول، گون ہال، خالق دینا ہال، کھارادر کی جعفر فادو ڈسپنسری، ایڈورڈ ہاؤس اور کراچی کا مشہور فلیگ اسٹاف ہاؤس تمام موسیٰ سموکی نے ڈیزائن کیے تھے۔ ان میں سے اکثر عمارتیں اب ختم ہو چکی ہیں۔ اسی طرح برسٹل ہوٹل، کارلٹن ہوٹل اور نارتھ ویسٹرن ہوٹل بھی اسی شخص کی تخلیق تھی۔ کراچی میں سلمان ڈیوڈ نام کا تجارتی بازار بھی تھا۔ موسیٰ سموکی یہودی تھا اور اس نے بہت خوبصورت عمارتیں تخلیق کی تھیں۔ اس کو کسی نے بھی تکلیف نہیں پہنچائی تھی۔ اس کو کسی مسلمان نے بالکل تنگ نہیں کیا تھا۔
گوتلب لیٹنر 1840ء میں بوڈاپسٹ میں پیدا ہوا وہ ایک جرمن نسل یہودی تھا۔ اُس میں مختلف زبانیں سیکھنے کی حیرت انگیز صلاحیت موجود تھی۔ صرف نو برس کی عمر میں وہ یورپ کی آٹھ مختلف زبانیں سیکھ چکا تھا۔ کچھ محققین کے مطابق اس نے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن تمام تاریخ دان اس پر ایک رائے نہیں رکھتے۔ لیٹنر کو مختلف قومیت کے لوگوں سے ملنے اور انکو سمجھنے کا جنون تھا۔ اس نے جوانی میں ترکی میں تدریسی کام شروع کر دیا تھا۔ وہ اٹھارہ برس کی عمر میں لندن کے کنگز کالج میں مختلف مذاہب کا عالم بن چکا تھا۔ اسی نوعمری میں اس نے عربی، ترکی اور یونانی زبانیں پڑھانا شروع کر دی تھیں۔ 23 سال کی عمر میں وہ کنگز کالج کے اورئینٹل سیکشن کا پروفیسر ڈین، ماسٹر آف آرٹس، لسانیات کا عالم اور قانون کا ڈاکٹر بن چکا تھا۔ لندن میں اس نے واکنگ ہوسٹل چلانا شروع کر دیا۔ اس میں مسلمان طالب علم کثرت میں رہتے تھے۔ لیٹنر نے 4500 پاؤنڈ میں یہ ہوسٹل خریدا اور اسے اورئینٹل درسگاہ بنا دیا۔ اس نے اسی جگہ پر مسلمان طالب علموں کے لیے ایک شاندار مسجد بنانے کا ارادہ کیا۔ بھوپال کی نواب زادی نے اس کو مسجد بنانے کے لیے 5000 پاؤنڈ عطیہ کیے اور لیٹنر نے صرف ایک سال کی قلیل مدت میں مسلمانوں کے لیے ایک بے مثال مسجد تعمیر کر دی۔
1854ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل کی پوسٹ کے لیے اشتہار دیا گیا۔ لیٹنر کے دو مسائل تھے۔ ایک تو وہ برطانوی نہیں تھا اور دوسرا وہ عمر میں بہت چھوٹا تھا۔ اس کے بعد وہ تمام امیدواروں سے بازی لے گیا اور اسے حکومت نے گورنمنٹ کالج لاہور کا پرنسپل متعین کر دیا۔ میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا مگر شائد وہ اس عظیم درسگاہ کا سب سے کم عمر پرنسپل تھا۔ بہت قلیل مدت میں لیٹنر کا انتظامیہ سے جھگڑا ہو گیا۔ حکومت چاہتی تھی کہ اس کالج سے ایک مخصو ص نقطہ نظر کے وہ لوگ نکلیں جو برطانوی نظام میں نچلے درجہ کی ملازمتیں اختیار کرنے میں کامیاب ہوں۔ مگر لیٹنر کا خیال تھا کہ طالب علموں کو اتنی پختہ علمی بنیاد فراہم کی جائے کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں بھر پور کامیابی حاصل کر سکیں۔ لیٹنر نے گورنمنٹ کالج اور دیگر درسگاہوں میں سائنس کو ترجیح دی۔ اس نے مغربی طرز کا ایک نصاب مرتب کیا جو کہ لوگوں کو مغرب سے برابر ہونے کے علمی مواقع فراہم کرے۔ مولوی محمد حسین آزادؔ جو کالج میں ایک معلم تھے، اس کام میں لیٹنر کے معاون تھے۔ بلکہ محمد حسین آزادؔ تو یہ چاہتے تھے کہ تمام علوم کو اردو میں پڑھانا چاہیے تا کہ طالب علموں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ یہ لیٹنر ہی تھا جس نے گورنمنٹ کالج کا موٹو، سپری اوڈی (جاننے کی سمت) بہت خاموشی سے منظور کروا لیا۔
میری نظر میں لیٹنر ایک خداداد صلاحیتوں سے بھر پور انسان تھا۔ اس نے عربی گرائمر کی تین کتابیں مسلمانوں کی تاریخ، انگریزی ڈرامے کے اردو ترجمے، عربی کے رسالے، انگریزی کے ہفتہ وار دو رسالے ترتیب دیے۔ اس نے انگریزی کا ایک اخبار" انڈین نقطہ نظر "(Indian Public Opinion) شروع کر دیا۔ اس اخبار کا نام بعد میں سول اور ملٹری گرٹ رکھ دیا گیا۔ اس اخبار میں رڈیارڈ کپلنگ جیسا نوبل انعام یافتہ شخص برسوں کام کرتا رہا۔ لیٹنر نے مساجد پر بے مثال تحقیقی کام مرتب کیے۔ وہ ایک بے چین روح تھی۔ وہ پنجاب بلکہ ہندوستان کی تمام زبانیں سیکھنا چاہتا تھا اور اس نے یہ انتہائی مشکل کام بہت تھوڑے عرصے میں مکمل کر دیا۔ اسے بلتستان سے عشق تھا۔ وہ وہاں اکثر جا کر وہاں کی زبان اور لوگوں کی تہذیب پر تحقیق کرتا رہتا تھا۔ وہ اصل میں عام لوگوں کی زندگی کا طالب علم تھا۔
لیٹنر نے ایک بے مثال کام کر ڈالا۔ اسے لاہور میں ایک یونیورسٹی کی عدم موجودگی کا افسوس تھا۔ حکومت اس سلسلے میں انتشار کا شکار تھی۔ اس نے لوگوں سے چندہ لینا شروع کر دیا۔ وہ سب کو قائل کرتا کہ ایک اچھی یونیورسٹی صرف لاہور یا پنجاب کی نہیں بلکہ پورے اس خطے کی ضرورت ہے۔ لوگ لیٹنر کے علمی کارناموں سے متاثر تھے۔ انھوں نے اسے دل کھول کر چندہ اور عطیات دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے، اس نے 32000 پاؤنڈ جمع کر لیے۔ اس عطیہ سے پنجاب یونیورسٹی جیسی عظیم درسگاہ شروع ہوئی۔ دراصل یہ لیٹنر کے خواب کی تکمیل تھی کہ لاہور میں عام لوگوں کے لیے بلا کسی تفریق کے ایک عظیم الشان یونیورسٹی وجود میں آ گئی۔ وہ کسی لحاظ سے پیچھے نہیں رہا بلکہ وہ پنجاب یونیورسٹی کا پہلا رجسٹرار لگ گیا۔ بقول لیٹنر کے، اس نے اس خطے میں سیکڑوں اسکول اور کالجوں کی بنیاد رکھی ہے۔ وہ برطانوی عالموں کو ہمیشہ سمجھاتا تھا کہ وہ انڈیا، پنجاب اور مسلمانوں کے متعلق بہت کم جانتے ہیں۔ وہ یہاں کے لوگوں کے حقوق کے متعلق تقاریر کرتا تھا اور برطانیہ میں لوگوں کو سمجھاتا تھا کہ مسلمانوں کا کلچر اور تہذیب انتہائی پُر وقار، قدیم اور شاندار ہے۔ کئی بار تو وہ اس بات پر برطانوی علماء سے لڑ پڑتا تھا۔ لیکن اب لیٹنر کی علمی حیثیت اس قدر مستحکم ہو چکی تھی کہ اس کے خیالات کو رد کرنا تقریباً نا ممکن تھا۔ اب پوری دنیا اس کی باتوں، جذبات اور علم سے مرعوب تھی۔ پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار سے وہ پنجاب کا انسپکٹر آف اسکولز بن گیا اور اس نے دیوانوں کی طرح پنجاب میں نئے اسکولوں کی بنیاد رکھنی شروع کر دی۔ مرتے وقت لیٹنر کو پچاس زبانیں بولنی آتیں تھیں۔ وہ یہ تمام عظیم کارنامے سر انجام دے کر خاموشی سے واپس یورپ چلا گیا۔
اُس کی قائم شدہ پنجاب یونیورسٹی میں ہزاروں طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مگر آج لیٹنر کو کوئی نہیں جانتا شائد بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ لیٹنر آج کے پاکستان میں ہوتا تو اس کے ساتھ کیا سلوک روا رکھ جاتا؟ شائد وہ تاوان کے لیے اغوا ہو چکا ہوتا! جس طرح اُس عظیم شخص نے لوگوں سے چندہ مانگ کر اس خطہ کو ایک درخشاں یونیورسٹی دی! شائد آج کچھ لوگ اس کا تاوان ادا کرنے کے لیے چندہ مانگ رہے ہوتے! مگر شائد وہ یہ کام کرنے کی ہمت بھی نہ کر سکتے کیونکہ لیٹنر مسلمان نہیں تھا؟
ہمارا اصل مسئلہ کیا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر طالب علم کے ذہن پر روز بھر پور دستک دیتا ہے۔ میرے جیسا بے علم انسان ذہنی طور پر اب ان اہل نظر لوگوں سے اپنے آپ کو قریب محسوس کرتا ہے جو کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوہری مسئلہ اخلاقی ہے۔ بے سمت سیاست، غیر مستحکم معاشیات، غارت گری اور دہشت گردی اپنی جگہ پر۔ یہ تو علامات ہیں۔ ان سب کو کسی شخص نے ہی ٹھیک کرنا ہے۔ اور وہ مسئلہ جب انسان کے اوپر آ کر ٹھہرتا ہے تو اصل بحران شروع ہو جاتا ہے۔ اخلاقی بگاڑ اب خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ ہم وہ ہر غلط کام کرنے پر تیار ہیں جو دنیا کا کوئی ملک یا شہری سوچ بھی نہیں سکتا۔ مساجد کے فرقہ وارانہ استعمال سے لے کر ووٹ کی طاقت کو بے حرمت کرنے تک، ذبح شدہ جانوروں کے بدن میں پانی بھرنے سے لے کر انسانی اعضاء کی خرید و فروخت تک، لالچ اور تعصب کا ایک سمندر ہے جس میں ہم غرقاب ہو چکے ہیں۔ جو لوگ اس میں شامل نہیں وہ جبر کے نظام میں بے بسی سے ہر وقت ارد گرد دیکھ رہے ہیں کہ شائد کوئی مسیحا آ جائے۔ مگر میری دانست میں ہر شخص اپنی جگہ قوت مسیحائی رکھتا ہے۔ شرط صرف اور صرف اخلاقی طور پر اپنے آپ کو تیار کر کے صحیح سمت میں عمل کرنا ہے۔ ہزاروں درخشاں مثالیں آج بھی ہمارے سامنے ہیں۔ عمل اور پیہم عمل! اخلاقی بگاڑ کوئی ایک دو سال میں پیدا نہیں ہوا بلکہ یہ ایک طویل عرصے تک اہلیت اور میرٹ کو شعوری طور پر برباد کرنے سے نمودار ہوا ہے۔ ہمارے حکمران ہٹلر کے مشہور دروغ گو وزیر گوئبلز سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ اتنا جھوٹ اور اس ڈھٹائی سے کہ الاماں۔ مگر صاحبان! حالات کا دھارا بدل چکا ہے۔ اب میں ان لوگوں کی گرفت دیکھتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ مہلت ختم ہو چکی ہے۔
قائد کراچی تشریف لائے۔ نو زایدہ پاکستان کے معاشی حالات بہت مشکل تھے۔ انھوں نے اپنے اے۔ڈی۔سی کو حیدر آباد کے ایک ہندو کاروباری خاندان کے پاس بھجوایا۔ پیغام دیا کہ آپ اس ملک میں بلا خوف و خطر کاروبار کریں اور ملک کی معاش میں اپنا کردار ادا کریں۔ جو اب ملا کہ ہمارا خاندان فیصلہ کر چکا ہے کہ ہم انڈیا جائینگے۔ یہ ایڈوانی خاندان تھا۔ قائد فراست اور تدبر کے اُس زینہ پر تھے کہ اس عظیم ملک میں تمام مذاہب کے لوگوں کو پاکستان کی سر بلندی کے لیے کام کرتا دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ ہر قسم کے تعصب سے بالا تر تھے۔
1947ء میں پاکستان میں 1000-1500 یہودی تھے۔ یہ تمام لوگ کراچی، لاہور، کوئٹہ اور پشاور یعنی پورے ملک میں عام شہریوں کی طرح زندگی گزار رہے تھے۔ کراچی میں اکثریت مراٹھی زبان بولنے والے بنی اسرائیلی فرقے سے منسلک تھی۔ جب کہ بغدادی فرقے کی نمایندگی قدرے کم تھی۔ اس کے بالکل برعکس پشاور میں نجاران فرقہ کثرت سے تھا۔ آپ حیران ہونگے کہ قیام پاکستان اور اس سے پہلے ان لوگوں کے متعلق معاشرہ میں منفی جذبات تقریباً نہ ہونے کے برابر تھے۔ ان کی عبادت گاہیں ہر اس شہر میں موجود تھیں جہاں یہ لوگ بستے تھے۔ جیسے پشاور میں ان کی دو عبادت گاہیں تھیں۔ کوئٹہ میں ایک اور لاہور میں بھی ایک موجود تھی۔ کراچی میں کیونکہ ان کی آبادی زیادہ تھی چنانچہ وہاں قیام پاکستان سے پہلے ایک بہت بڑی عبادت گاہ تعمیر کی گئی تھی جو نشتر روڈ اور جمیلہ اسٹریٹ کی نکر پر تھی۔ کراچی میونسپل کارپوریشن میں ابراہیم ریبسن نام کا ایک کونسلر بھی تھا۔ یہ تین بار کونسلر منتخب ہوا تھا۔ آپ کراچی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے وہاں موسیٰ سموکی نام کے آرکیٹیکٹ کی بے شمار عمارتیں نظر آئیں گی۔ کیماڑی کا میولز مینشن، بی۔وی۔سی ہائی اسکول، گون ہال، خالق دینا ہال، کھارادر کی جعفر فادو ڈسپنسری، ایڈورڈ ہاؤس اور کراچی کا مشہور فلیگ اسٹاف ہاؤس تمام موسیٰ سموکی نے ڈیزائن کیے تھے۔ ان میں سے اکثر عمارتیں اب ختم ہو چکی ہیں۔ اسی طرح برسٹل ہوٹل، کارلٹن ہوٹل اور نارتھ ویسٹرن ہوٹل بھی اسی شخص کی تخلیق تھی۔ کراچی میں سلمان ڈیوڈ نام کا تجارتی بازار بھی تھا۔ موسیٰ سموکی یہودی تھا اور اس نے بہت خوبصورت عمارتیں تخلیق کی تھیں۔ اس کو کسی نے بھی تکلیف نہیں پہنچائی تھی۔ اس کو کسی مسلمان نے بالکل تنگ نہیں کیا تھا۔
گوتلب لیٹنر 1840ء میں بوڈاپسٹ میں پیدا ہوا وہ ایک جرمن نسل یہودی تھا۔ اُس میں مختلف زبانیں سیکھنے کی حیرت انگیز صلاحیت موجود تھی۔ صرف نو برس کی عمر میں وہ یورپ کی آٹھ مختلف زبانیں سیکھ چکا تھا۔ کچھ محققین کے مطابق اس نے اسلام قبول کر لیا تھا لیکن تمام تاریخ دان اس پر ایک رائے نہیں رکھتے۔ لیٹنر کو مختلف قومیت کے لوگوں سے ملنے اور انکو سمجھنے کا جنون تھا۔ اس نے جوانی میں ترکی میں تدریسی کام شروع کر دیا تھا۔ وہ اٹھارہ برس کی عمر میں لندن کے کنگز کالج میں مختلف مذاہب کا عالم بن چکا تھا۔ اسی نوعمری میں اس نے عربی، ترکی اور یونانی زبانیں پڑھانا شروع کر دی تھیں۔ 23 سال کی عمر میں وہ کنگز کالج کے اورئینٹل سیکشن کا پروفیسر ڈین، ماسٹر آف آرٹس، لسانیات کا عالم اور قانون کا ڈاکٹر بن چکا تھا۔ لندن میں اس نے واکنگ ہوسٹل چلانا شروع کر دیا۔ اس میں مسلمان طالب علم کثرت میں رہتے تھے۔ لیٹنر نے 4500 پاؤنڈ میں یہ ہوسٹل خریدا اور اسے اورئینٹل درسگاہ بنا دیا۔ اس نے اسی جگہ پر مسلمان طالب علموں کے لیے ایک شاندار مسجد بنانے کا ارادہ کیا۔ بھوپال کی نواب زادی نے اس کو مسجد بنانے کے لیے 5000 پاؤنڈ عطیہ کیے اور لیٹنر نے صرف ایک سال کی قلیل مدت میں مسلمانوں کے لیے ایک بے مثال مسجد تعمیر کر دی۔
1854ء میں گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل کی پوسٹ کے لیے اشتہار دیا گیا۔ لیٹنر کے دو مسائل تھے۔ ایک تو وہ برطانوی نہیں تھا اور دوسرا وہ عمر میں بہت چھوٹا تھا۔ اس کے بعد وہ تمام امیدواروں سے بازی لے گیا اور اسے حکومت نے گورنمنٹ کالج لاہور کا پرنسپل متعین کر دیا۔ میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا مگر شائد وہ اس عظیم درسگاہ کا سب سے کم عمر پرنسپل تھا۔ بہت قلیل مدت میں لیٹنر کا انتظامیہ سے جھگڑا ہو گیا۔ حکومت چاہتی تھی کہ اس کالج سے ایک مخصو ص نقطہ نظر کے وہ لوگ نکلیں جو برطانوی نظام میں نچلے درجہ کی ملازمتیں اختیار کرنے میں کامیاب ہوں۔ مگر لیٹنر کا خیال تھا کہ طالب علموں کو اتنی پختہ علمی بنیاد فراہم کی جائے کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں بھر پور کامیابی حاصل کر سکیں۔ لیٹنر نے گورنمنٹ کالج اور دیگر درسگاہوں میں سائنس کو ترجیح دی۔ اس نے مغربی طرز کا ایک نصاب مرتب کیا جو کہ لوگوں کو مغرب سے برابر ہونے کے علمی مواقع فراہم کرے۔ مولوی محمد حسین آزادؔ جو کالج میں ایک معلم تھے، اس کام میں لیٹنر کے معاون تھے۔ بلکہ محمد حسین آزادؔ تو یہ چاہتے تھے کہ تمام علوم کو اردو میں پڑھانا چاہیے تا کہ طالب علموں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ یہ لیٹنر ہی تھا جس نے گورنمنٹ کالج کا موٹو، سپری اوڈی (جاننے کی سمت) بہت خاموشی سے منظور کروا لیا۔
میری نظر میں لیٹنر ایک خداداد صلاحیتوں سے بھر پور انسان تھا۔ اس نے عربی گرائمر کی تین کتابیں مسلمانوں کی تاریخ، انگریزی ڈرامے کے اردو ترجمے، عربی کے رسالے، انگریزی کے ہفتہ وار دو رسالے ترتیب دیے۔ اس نے انگریزی کا ایک اخبار" انڈین نقطہ نظر "(Indian Public Opinion) شروع کر دیا۔ اس اخبار کا نام بعد میں سول اور ملٹری گرٹ رکھ دیا گیا۔ اس اخبار میں رڈیارڈ کپلنگ جیسا نوبل انعام یافتہ شخص برسوں کام کرتا رہا۔ لیٹنر نے مساجد پر بے مثال تحقیقی کام مرتب کیے۔ وہ ایک بے چین روح تھی۔ وہ پنجاب بلکہ ہندوستان کی تمام زبانیں سیکھنا چاہتا تھا اور اس نے یہ انتہائی مشکل کام بہت تھوڑے عرصے میں مکمل کر دیا۔ اسے بلتستان سے عشق تھا۔ وہ وہاں اکثر جا کر وہاں کی زبان اور لوگوں کی تہذیب پر تحقیق کرتا رہتا تھا۔ وہ اصل میں عام لوگوں کی زندگی کا طالب علم تھا۔
لیٹنر نے ایک بے مثال کام کر ڈالا۔ اسے لاہور میں ایک یونیورسٹی کی عدم موجودگی کا افسوس تھا۔ حکومت اس سلسلے میں انتشار کا شکار تھی۔ اس نے لوگوں سے چندہ لینا شروع کر دیا۔ وہ سب کو قائل کرتا کہ ایک اچھی یونیورسٹی صرف لاہور یا پنجاب کی نہیں بلکہ پورے اس خطے کی ضرورت ہے۔ لوگ لیٹنر کے علمی کارناموں سے متاثر تھے۔ انھوں نے اسے دل کھول کر چندہ اور عطیات دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے، اس نے 32000 پاؤنڈ جمع کر لیے۔ اس عطیہ سے پنجاب یونیورسٹی جیسی عظیم درسگاہ شروع ہوئی۔ دراصل یہ لیٹنر کے خواب کی تکمیل تھی کہ لاہور میں عام لوگوں کے لیے بلا کسی تفریق کے ایک عظیم الشان یونیورسٹی وجود میں آ گئی۔ وہ کسی لحاظ سے پیچھے نہیں رہا بلکہ وہ پنجاب یونیورسٹی کا پہلا رجسٹرار لگ گیا۔ بقول لیٹنر کے، اس نے اس خطے میں سیکڑوں اسکول اور کالجوں کی بنیاد رکھی ہے۔ وہ برطانوی عالموں کو ہمیشہ سمجھاتا تھا کہ وہ انڈیا، پنجاب اور مسلمانوں کے متعلق بہت کم جانتے ہیں۔ وہ یہاں کے لوگوں کے حقوق کے متعلق تقاریر کرتا تھا اور برطانیہ میں لوگوں کو سمجھاتا تھا کہ مسلمانوں کا کلچر اور تہذیب انتہائی پُر وقار، قدیم اور شاندار ہے۔ کئی بار تو وہ اس بات پر برطانوی علماء سے لڑ پڑتا تھا۔ لیکن اب لیٹنر کی علمی حیثیت اس قدر مستحکم ہو چکی تھی کہ اس کے خیالات کو رد کرنا تقریباً نا ممکن تھا۔ اب پوری دنیا اس کی باتوں، جذبات اور علم سے مرعوب تھی۔ پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار سے وہ پنجاب کا انسپکٹر آف اسکولز بن گیا اور اس نے دیوانوں کی طرح پنجاب میں نئے اسکولوں کی بنیاد رکھنی شروع کر دی۔ مرتے وقت لیٹنر کو پچاس زبانیں بولنی آتیں تھیں۔ وہ یہ تمام عظیم کارنامے سر انجام دے کر خاموشی سے واپس یورپ چلا گیا۔
اُس کی قائم شدہ پنجاب یونیورسٹی میں ہزاروں طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ مگر آج لیٹنر کو کوئی نہیں جانتا شائد بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ لیٹنر آج کے پاکستان میں ہوتا تو اس کے ساتھ کیا سلوک روا رکھ جاتا؟ شائد وہ تاوان کے لیے اغوا ہو چکا ہوتا! جس طرح اُس عظیم شخص نے لوگوں سے چندہ مانگ کر اس خطہ کو ایک درخشاں یونیورسٹی دی! شائد آج کچھ لوگ اس کا تاوان ادا کرنے کے لیے چندہ مانگ رہے ہوتے! مگر شائد وہ یہ کام کرنے کی ہمت بھی نہ کر سکتے کیونکہ لیٹنر مسلمان نہیں تھا؟