حکومت اور اپوزیشن جماعتوں سے نالاں عوام
بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل پر عوام حکومتی جماعت سمیت اپوزیشن جماعتوں سے بھی نالاں ہیں
ملک میں کمر توڑ مہنگائی سے سب پریشان ہیں۔ پٹرول کی قیمتیں ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں اور پٹرول کی قیمتوں کے ساتھ اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ بجلی اور گیس کے بل دیکھ کر شہری سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ دکاندار ہو یا ملازمت پیشہ، ہاتھ ریڑھی سے لے کر صنعت کار تک، سب موجودہ دور حکومت میں بہت پریشان ہیں۔
مہنگائی ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس پریشانی کے عالم میں ہر کوئی سوچنے پر مجبور ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں گزر بسر کیسے ہوگا؟ دکان ہو یا دفتر، نجی محفلوں اور تقریبات میں بھی حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حکومتی وزرا سے سوال کیے جارہے ہیں کہ حکومت کیا کرنے جارہی ہے؟ کیا پی ٹی آئی نے اس تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا؟
اس صورتحال پر اب پی ٹی آئی کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری ہوچکا ہے۔ اگلے ماہ بلدیاتی انتخابات ہونے جارہے ہیں اور عام انتخابات کو دو سال سے بھی کم کا عرصہ رہ گیا ہے۔ حکومتی جماعت تحریک انصاف کے عہدیدار اور حکومتی ارکان بھی پریشان ہیں کہ اگر مہنگائی کا جن قابو نہ ہوا تو انتخابات میں عوام کا ردعمل غضب ناک ہوگا اور پہلے ہی کنٹوٹمنٹ بورڈ انتخابات میں پی ٹی آئی کچھ اچھے نتائج نہیں دے سکی، اب حکمران جماعت کو بلدیاتی انتخابات میں عوام کے پاس جانا ہے اور اپنے امیدواروں کے لیے ووٹ مانگنا ہے۔ لیکن حکمران جماعت اس سے راہِ فرار بھی اختیار نہیں کر سکتی، عوام کا سامنا تو کرنا ہے۔
بڑھتی مہنگائی کی صورتحال میں تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات کےلیے میدان میں اترچکی ہے اور اپوزیشن نے بھی مہنگائی کا نعرہ لگا کر حکومت کے خلاف مارچ شروع کردیے ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی خیبرپختونخوا میں متحرک ہوچکی ہے۔ وفاقی وزیر دفاع پرویزخٹک کے بھائی لیاقت خٹک پیپلزپارٹی سے وابستگی ظاہر کرچکے ہیں اور ان کے بھتیجے احد خٹک پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کرچکے ہیں۔ بلاول بھٹو نے نوشہرہ میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ عام انتخابات کے بعد پشاور کا جلسہ پی ٹی آئی کا پہلا پاور شو تھا۔ پی ٹی آئی نے پشاور میں جلسے کےلیے رنگ روڈ کبوتر چوک کا انتخاب کیا تھا لیکن آخری لمحات میں جلسہ دلہ زاک روڈ پر منتقل کردیا گیا، جو رنگ روڈ کے مقابلے میں چھوٹی جگہ تھی۔
یہ جلسہ پی ٹی آئی کے ماضی کے جلسوں کے مقابلوں میں توقعات کے برعکس تھا۔ پی ٹی آئی ایسا پاور شو نہ کرسکی جس کی توقع کی جارہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جلسے میں موجود پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی پریشان دکھائی رہے تھے۔ اس جلسے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو مخالفیں نے خوب تبصرے کیے اور ایک وقت میں پی ٹی آئی کا پشاور میں ہونے والا جلسہ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ اگرچہ جلسہ پی ٹی آئی کی توقعات کا برعکس تھا لیکن وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے متاثر کن خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن وزیراعظم عمران خان کا جو وژن ہے اس کا پیغام ہم نے پھیلانا ہے۔ ہمیں مہنگائی سے ڈر کر گھروں میں نہیں بیٹھنا، ہمیں مقابلہ کرنا ہے اور اپنا اور اپنے وطن کا دفاع کرنا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے خود میدان میں آنے کا اعلان کیا اور انہوں نے پشاور جلسے کے بعد جنوبی اضلاع میں بھی جلسوں کا اعلان کیا۔ محمود خان نے جنوبی اضلاع میں جلسے شروع کردیے ہیں۔
وزیراعلیٰ محمود خان ایسے وقت میں متحرک ہوئے ہیں اور ان علاقوں میں جلسوں کا انعقاد کیا جارہا ہے جہاں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کیا گیا ہے اور پشاور جلسے پر بھی اپوزیشن نے اعتراض کرتے ہوئے اسے بلدیاتی انتخابات کےلیے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیا لیکن پی ٹی آئی کے قدم رکے نہیں اور پشاور میں دوسرے جلسے کا بھی اعلان کردیا ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی، پٹرول اور بجلی کی بڑھتی قیمتیں، سوئی گیس بحران میں حکمران جماعت کا متحرک ہونا ایک مشکل فیصلہ ہے۔ موجودہ حالات پی ٹی آئی کےلیے سودمند نہیں لیکن خیبرپختونخوا میں وزیراعلیٰ محمود خان عوام میں جانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ تحریک انصاف کے بڑوں کو بھی علم ہے کہ عوام پی ٹی آئی سے موجودہ صورتحال پر خوش نہیں اور آنے والے بلدیاتی انتخابات پی ٹی آئی کےلیے ٹیسٹ کیس ہوگا۔ خیبرپختونخوا سے اقتدار کا سفر شروع کرنے والی پی ٹی آئی کو اب خیبرپختونخوا میں عوامی حمایت کھونے کا ڈر ہے اور عوامی حمایت بچانے کےلیے بیڑہ وزیراعلیٰ محمود خان نے خود اٹھا لیا ہے۔ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی کو مزید متحرک ہونا ہوگا۔
ملک میں بڑھتی مہنگائی پر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے بھی مارچ کا اعلان کیا۔ پی ٹی آئی کے پاور شو کے بعد پی ڈی ایم نے ہفتے کو پشاور میں مارچ کا اعلان کیا تھا۔ رنگ روڈ پر جے یو آئی کے مرکزی دفتر سے پیر زکوڑی پل تک مارچ کرنا تھا۔ مارچ کےلیے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے تیاریاں کر رکھی تھیں۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔ اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے پیش نظر ٹریفک پولیس نے ٹریفک پلان بھی جاری کیا لیکن پی ڈی ایم بھی بھرپور طاقت کا مظاہرہ نہ کرسکی اور پشاور میں ہونے والے پی ٹی آئی کے جلسے کے مقابلے میں پی ڈی ایم کے مارچ میں لوگوں کی تعداد کم رہی۔ پی ڈی ایم قائدین کئی گھنٹوں تک لوگوں کی تعداد بڑھنے کا انتظار کرتے رہے۔ جب وقت گزرنے لگا تو قائدین نے مارچ کا فیصلہ منسوخ کرتے ہوئے تقاریر پر ہی اتفاق کیا۔ جے یو آئی کے پشاور میں بھی بڑی تعداد میں ورکرز موجود ہیں۔ مسلم لیگ نواز اور قومی وطن پارٹی بھی چھوٹی جماعتیں نہیں، لیکن یہ بڑی جماعتیں بھی مل کر پاور شو نہ کرسکیں۔ جس طرح اپوزیشن جماعتوں نے پی ٹی آئی کے ناکام پاور شو پر سوشل میڈیا پر تنقید کی، اسی طرح پی ڈی ایم کے مارچ میں عوام کی عدم دلچپسی پر پی ٹی آئی نے بھی خوب تبصرے کیے۔ پی ڈی ایم مارچ کی ڈرون تصاویر کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا۔
پی ٹی آئی کا پشاور میں ماضی کے مقابلے میں بڑا پاور شو نہ کرنا اور مہنگائی کے خلاف پی ڈی ایم کا ناکام شو عوام کی عدم دلچپسی ظاہر کررہا ہے۔ بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل پر عوام حکومتی جماعت سمیت اپوزیشن جماعتوں سے بھی نالاں ہیں۔ پی ڈی ایم اگلے ماہ حکومت کے خلاف مارچ کا اعلان کرچکی ہے۔ حکومتی جماعت کو عام انتخابات اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کو اسلام آباد مارچ کی بھی فکر ہوگی۔ اس صورتحال میں سیاسی جماعتوں کا مستقبل کیا ہوگا، اس کا تعین بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مہنگائی ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس پریشانی کے عالم میں ہر کوئی سوچنے پر مجبور ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں گزر بسر کیسے ہوگا؟ دکان ہو یا دفتر، نجی محفلوں اور تقریبات میں بھی حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حکومتی وزرا سے سوال کیے جارہے ہیں کہ حکومت کیا کرنے جارہی ہے؟ کیا پی ٹی آئی نے اس تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا؟
اس صورتحال پر اب پی ٹی آئی کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری ہوچکا ہے۔ اگلے ماہ بلدیاتی انتخابات ہونے جارہے ہیں اور عام انتخابات کو دو سال سے بھی کم کا عرصہ رہ گیا ہے۔ حکومتی جماعت تحریک انصاف کے عہدیدار اور حکومتی ارکان بھی پریشان ہیں کہ اگر مہنگائی کا جن قابو نہ ہوا تو انتخابات میں عوام کا ردعمل غضب ناک ہوگا اور پہلے ہی کنٹوٹمنٹ بورڈ انتخابات میں پی ٹی آئی کچھ اچھے نتائج نہیں دے سکی، اب حکمران جماعت کو بلدیاتی انتخابات میں عوام کے پاس جانا ہے اور اپنے امیدواروں کے لیے ووٹ مانگنا ہے۔ لیکن حکمران جماعت اس سے راہِ فرار بھی اختیار نہیں کر سکتی، عوام کا سامنا تو کرنا ہے۔
بڑھتی مہنگائی کی صورتحال میں تحریک انصاف بلدیاتی انتخابات کےلیے میدان میں اترچکی ہے اور اپوزیشن نے بھی مہنگائی کا نعرہ لگا کر حکومت کے خلاف مارچ شروع کردیے ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی خیبرپختونخوا میں متحرک ہوچکی ہے۔ وفاقی وزیر دفاع پرویزخٹک کے بھائی لیاقت خٹک پیپلزپارٹی سے وابستگی ظاہر کرچکے ہیں اور ان کے بھتیجے احد خٹک پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کرچکے ہیں۔ بلاول بھٹو نے نوشہرہ میں عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ عام انتخابات کے بعد پشاور کا جلسہ پی ٹی آئی کا پہلا پاور شو تھا۔ پی ٹی آئی نے پشاور میں جلسے کےلیے رنگ روڈ کبوتر چوک کا انتخاب کیا تھا لیکن آخری لمحات میں جلسہ دلہ زاک روڈ پر منتقل کردیا گیا، جو رنگ روڈ کے مقابلے میں چھوٹی جگہ تھی۔
یہ جلسہ پی ٹی آئی کے ماضی کے جلسوں کے مقابلوں میں توقعات کے برعکس تھا۔ پی ٹی آئی ایسا پاور شو نہ کرسکی جس کی توقع کی جارہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جلسے میں موجود پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی پریشان دکھائی رہے تھے۔ اس جلسے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو مخالفیں نے خوب تبصرے کیے اور ایک وقت میں پی ٹی آئی کا پشاور میں ہونے والا جلسہ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ اگرچہ جلسہ پی ٹی آئی کی توقعات کا برعکس تھا لیکن وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے متاثر کن خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن وزیراعظم عمران خان کا جو وژن ہے اس کا پیغام ہم نے پھیلانا ہے۔ ہمیں مہنگائی سے ڈر کر گھروں میں نہیں بیٹھنا، ہمیں مقابلہ کرنا ہے اور اپنا اور اپنے وطن کا دفاع کرنا ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے خود میدان میں آنے کا اعلان کیا اور انہوں نے پشاور جلسے کے بعد جنوبی اضلاع میں بھی جلسوں کا اعلان کیا۔ محمود خان نے جنوبی اضلاع میں جلسے شروع کردیے ہیں۔
وزیراعلیٰ محمود خان ایسے وقت میں متحرک ہوئے ہیں اور ان علاقوں میں جلسوں کا انعقاد کیا جارہا ہے جہاں بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کیا گیا ہے اور پشاور جلسے پر بھی اپوزیشن نے اعتراض کرتے ہوئے اسے بلدیاتی انتخابات کےلیے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیا لیکن پی ٹی آئی کے قدم رکے نہیں اور پشاور میں دوسرے جلسے کا بھی اعلان کردیا ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی، پٹرول اور بجلی کی بڑھتی قیمتیں، سوئی گیس بحران میں حکمران جماعت کا متحرک ہونا ایک مشکل فیصلہ ہے۔ موجودہ حالات پی ٹی آئی کےلیے سودمند نہیں لیکن خیبرپختونخوا میں وزیراعلیٰ محمود خان عوام میں جانے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ تحریک انصاف کے بڑوں کو بھی علم ہے کہ عوام پی ٹی آئی سے موجودہ صورتحال پر خوش نہیں اور آنے والے بلدیاتی انتخابات پی ٹی آئی کےلیے ٹیسٹ کیس ہوگا۔ خیبرپختونخوا سے اقتدار کا سفر شروع کرنے والی پی ٹی آئی کو اب خیبرپختونخوا میں عوامی حمایت کھونے کا ڈر ہے اور عوامی حمایت بچانے کےلیے بیڑہ وزیراعلیٰ محمود خان نے خود اٹھا لیا ہے۔ آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی کو مزید متحرک ہونا ہوگا۔
ملک میں بڑھتی مہنگائی پر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے بھی مارچ کا اعلان کیا۔ پی ٹی آئی کے پاور شو کے بعد پی ڈی ایم نے ہفتے کو پشاور میں مارچ کا اعلان کیا تھا۔ رنگ روڈ پر جے یو آئی کے مرکزی دفتر سے پیر زکوڑی پل تک مارچ کرنا تھا۔ مارچ کےلیے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے تیاریاں کر رکھی تھیں۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔ اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے پیش نظر ٹریفک پولیس نے ٹریفک پلان بھی جاری کیا لیکن پی ڈی ایم بھی بھرپور طاقت کا مظاہرہ نہ کرسکی اور پشاور میں ہونے والے پی ٹی آئی کے جلسے کے مقابلے میں پی ڈی ایم کے مارچ میں لوگوں کی تعداد کم رہی۔ پی ڈی ایم قائدین کئی گھنٹوں تک لوگوں کی تعداد بڑھنے کا انتظار کرتے رہے۔ جب وقت گزرنے لگا تو قائدین نے مارچ کا فیصلہ منسوخ کرتے ہوئے تقاریر پر ہی اتفاق کیا۔ جے یو آئی کے پشاور میں بھی بڑی تعداد میں ورکرز موجود ہیں۔ مسلم لیگ نواز اور قومی وطن پارٹی بھی چھوٹی جماعتیں نہیں، لیکن یہ بڑی جماعتیں بھی مل کر پاور شو نہ کرسکیں۔ جس طرح اپوزیشن جماعتوں نے پی ٹی آئی کے ناکام پاور شو پر سوشل میڈیا پر تنقید کی، اسی طرح پی ڈی ایم کے مارچ میں عوام کی عدم دلچپسی پر پی ٹی آئی نے بھی خوب تبصرے کیے۔ پی ڈی ایم مارچ کی ڈرون تصاویر کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا۔
پی ٹی آئی کا پشاور میں ماضی کے مقابلے میں بڑا پاور شو نہ کرنا اور مہنگائی کے خلاف پی ڈی ایم کا ناکام شو عوام کی عدم دلچپسی ظاہر کررہا ہے۔ بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل پر عوام حکومتی جماعت سمیت اپوزیشن جماعتوں سے بھی نالاں ہیں۔ پی ڈی ایم اگلے ماہ حکومت کے خلاف مارچ کا اعلان کرچکی ہے۔ حکومتی جماعت کو عام انتخابات اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کو اسلام آباد مارچ کی بھی فکر ہوگی۔ اس صورتحال میں سیاسی جماعتوں کا مستقبل کیا ہوگا، اس کا تعین بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔