بارش اور دعوتِ شامی
ہمارے پاس تو وہ بزرگ بھی نہیں رہے جن کی دعاؤں سے بارش برستی تھی۔...
سب سے پہلے میں آپ سے مبارک باد کی درخواست کرتا ہوں کہ طویل قحط سالی کے بعد میرے بارانی گاؤں میں بارش ہوئی ہے۔ اگرچہ اس سال کی گندم کی فصل کا دم آخری لبوں پر تھا لیکن گاؤں کے کاشتکاروں کی زبانی معلوم ہوا کہ گندم کے جو پودے ابھی تک کچھ زندہ ہیں امید ہے وہ اس بارش سے جڑ پکڑ لیں گے اور موسم کے مطابق گندم کے کچھ دانے ہمارے نصیب میں بھی ہوں گے ورنہ دو چار برس پہلے ایک سال ایسا گزر چکا کہ ہمارے کھیت گندم سے محروم رہے اور ہمیں یہاں لاہور میں گھر کی گندم کی جگہ بازار سے گندم خریدنی پڑی جس کا ذائقہ بڑا کھردرا اور بد مزا تھا۔ میں گاؤں کی جس نعمت یعنی گندم کا ذکر کر رہا ہوں یہ خالصتاً قدرتی ہوتی ہے یعنی کھاد وغیرہ سے محفوظ اور پانی بھی صرف بارش کا انتہائی صاف ستھرا انسان کا حصہ صرف زمین تیار کرنے اور اس میں بروقت ہل چلانے اور بیج ڈالنے تک محدود ہوتا ہے باقی سب اللہ تعالیٰ کے حوالے۔
اس سال زبردست قحط تھا جب بھی فون کرتا تو پتہ چلتا کہ نہ صرف یہ کہ بارش نہیں ہوئی بلکہ دور دور تک اس کے آثار بھی نہیں ہیں، آسمان صاف ہے، دعا کیجیے۔ ایسے ہر ٹیلی فون پر مجھے شیخ سعدی کا وہ مشہور شعر یاد آتا جو انھوں نے غلامی کی حالت میں دمشق میں قیام کے دوران کہا تھا۔ انھیں کسی نے یعنی اس درویش اور مسافر شاعر کو لاوارث بنا کر دمشق کے کسی رئیس کے ہاتھ بیچ دیا تھا۔ ان دنوں دمشق میں ایسا قحط پڑا ہوا تھا کہ یار لوگ اور تو اور عشق و عاشقی تک بھی بھول گئے تھے
چناں قحط سالے فتد در دمشق
کہ یاراں فراموش کردند عشق
اس باکمال شاعر نے دمشق کے نام میں سے عشق کو کیسے نکالا اور دونوں کو ایک کر دیا۔ ہم لوگ شاعری اور نکتہ آفرینی سے قطعاً محروم ہیں۔ صرف نقال ہیں چنانچہ یہ زندۂ جاوید شعر نقل کر کے اپنے ہاں کی قحط سالی کو بھی یاد کر لیا۔ اب دیکھتے ہیں بارش کے بعد کتنی گندم پیدا ہوتی ہے اور کتنی گھر میں بازار سے آتی ہے۔ زمینوں کو ٹیوب ویلوں کے محتاج کر دیا ہے جس سے خالی کھیت کم ہو گئے ہیں اس طرح ان کی پیداوار بھی کم لیکن اس کو کھانے والے پہلے سے زیادہ اور آپ نے میری درخواست پر جو مبارک باد دی ہے تو اس کے جواب میں خیر مبارک عرض ہے قبول فرمائیے۔
ہمارے پاس تو وہ بزرگ بھی نہیں رہے جن کی دعاؤں سے بارش برستی تھی۔ ایک بچہ نماز استسقاء میں چھتری لے کر شریک ہوا تو کسی نے کہا کہ ابھی اس کی کیا ضرورت تھی تو اس نے جواب دیا کہ جب اتنے لوگ اللہ سے دعا مانگیں تو وہ ضرور قبول ہو گی اس لیے میں بارش سے بچنے کے لیے چھتری لے کر آیا ہوں۔ جزیرہ نما عرب میں سخت قحط پڑ گیا تو لوگ نماز کے لیے باہر نکلے ان میں عمر بن خطابؓ بھی تھے۔ انھوں نے پوچھا کہ کسی کے پاس حضور پاکؐ کی کوئی چیز ہے ایک صحابی دوڑا ہوا گیا اور گھر سے ایک چادر لے آیا۔ عمرؓ نے اس چادر کو ہاتھوں میں اٹھا کر دعا مانگی کہ اس کے صدقے رحمت فرمائیں۔ ظاہر ہے کہ دعا قبول ہوئی اور قحط سے نجات ملی۔
ان دنوں خشک سالی لاہور میں بھی عروج پر تھی۔ درختوں کے پتے گرد آلود اور انسانوں کے پھیپھڑے بھی باہر کی گندی سانس سے آلودہ اور بے زار۔ کھانسی نزلہ زکام عام لیکن ساتھ ہی سخت سردی بھی۔ شہری زندگی کی آسودگی کے عادی لوگ اس موسم سے نالاں تھے لیکن اب جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو باہر بارش ہو رہی ہے اب جو سردی ہو گی وہ شریفانہ ہو گی۔ خشک یعنی کھانسی نزلے زکام والی نہیں ہو گی۔ اس کے ہم لوگ عادی ہیں بلکہ اس سردی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ خشک سردی ایسی بے زار کن تھی کہ بس سویٹر اور شال میں ہی وقت گزار دیا کوٹ پتلون کی نوبت ہی نہ آئی۔ ملازمت دفتری نہیں گھر بیٹھے کالم لکھ لیا اور دفتر بھجوا دیا۔ یہ بھی ایک عیاشی ہے جو کسی شہر میں ہی ہو سکتی ہے۔ کبھی زیادہ دن کے لیے گاؤں بھی گئے تو وہاں سے بھی کالم فیکس کر دیا مگر اب بجلی ہو گی تو فیکس چلے گا، گاؤں میں بجلی کبھی ہوا کرتی تھی مگر اب کہاں۔ میں برادرم مجیب شامی کی دعوت میں جس کا حال قہقہے ختم ہوں گے تو کچھ لکھا جا سکے گا۔ میں شریک ہوا لیکن جس راستے سے گیا وہ پتہ نہیں کون سا تھا شکر ہے کہ ڈرائیور راستوں سے کچھ شناسا تھا ورنہ ہجے کر کر کے شامی صاحب کے ہاں پہنچتے۔ قدم قدم پوچھ پوچھ کر۔
برادرم شامی مشرقی پنجاب کے مہاجر ہیں شام چوراسی کے مشہور قصبے کے۔ ہماری طرح مقامی یعنی مغربی پنجاب کے نہیں ہیں چنانچہ انھوں نے یہاں اپنی نئی دنیا بنائی اور ایک نئی دنیا آباد کی جس میں وہ الحمد للہ ایک خوشحال پاکستانی شہری کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ دوست احباب کا سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ وہ اکثر بیشتر دعوت کیا کرتے ہیں۔ اس سے قبل جب وہ ذرا مختصر سے گھر میں مقیم تھے تب بھی دعوتوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا مگر مہمانوں کی تعداد ذرا مختصر۔ اب تو کھلا فراخ گھر ہے اور مہمان جتنے بھی ہوں سب آرام سے بیٹھتے ہیں۔ ان کے پہلے گھر کی دعوتوں میں مرحوم اشفاق صاحب ہوا کرتے تھے افسانہ نگار اشفاق صاحب کبھی میرے لیل و نہار کے زمانے میں ایڈیٹر تھے وہ فیضؔ اور سبط حسن کی جگہ آئے تھے۔ شامی صاحب کے ہاں دعوتوں میں ان کی شرکت، میں شامی صاحب کو یاد دلاتا اور وہ ان کو بُلا لیتے۔ ویسے بھی وہ ان دعوتوں کے مستقل شریک تھے۔
شامی صاحب کی دعوت یوں دعوت شیراز تھی کہ دو چار دن پہلے والی ایک دعوت کی طرح اس میں اقتدار کا نشہ نہیں تھا۔ اس دعوت میں زیادہ تر صحافی تھے کیونکہ مقتدر ترین شخص صحافیوں سے ملنا چاہتا تھا۔ شامی صاحب کے ہاں اس دعوت والے کئی صحافی بھی تھے اور شامی صاحب کے دوست بھی۔ ان میں ایک بڑے شاعر اور ہمارے بڑے دوست شعیب بن عزیز بھی تھے وہ آج شعروں کے نہیں لطیفوں کے مشاعرے میں شریک تھے۔ طرحی غیر طرحی ہر قسم کے لطیفے آ رہے تھے اور پوری محفل قہقہہ بار تھی جتنا کھانا لذیذ تھا اتنے ہی شعر اور لطیفے لذیذ تھے۔ معلوم یہ ہوا کہ شامی صاحب کے دستر خواں نے بھی بہت ترقی کر لی ہے۔ اگر آپ اس لائق ہیں تو میں آپ کو شامی صاحب کی کسی دعوت میں شرکت کی دعوت دیتا ہوں اور مجھے اس کے لیے ان سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں خانہ واحد سمجھیں۔ شامی صاحب مجھ سے عمر اور صحافت میں جونیئر ہیں لیکن دنیاوی اور عمرانی امور میں مجھ سے بہت سینئر چنانچہ لاہور میں جب کبھی مجھے کسی خاص مشورے کی ضرورت ہوتی ہے تو میں ان سے رجوع کرتا ہوں اور ان کی رائے کو فوقیت دیتا ہوں۔ ان کی اس دعوت میں ایک مرحوم سینئر صحافی کا ذکر آیا تو انھوں نے میرے ایک خفیہ مشورے کو افشاء کر دیا لیکن کوئی خرابی نہیں ہوئی۔
دعوت بہت دیر تک جاری رہی کیونکہ حاضرین کے لطیفے ختم نہیں ہوتے تھے جب کچھ تھکن محسوس کرتے تو کسی ڈش کی تکرار کا مطالبہ کر دیا جاتا اور لطیفہ گو تازہ دم ہو کر پھر سے شروع ہو جاتے۔ اس طرح یہ سلسلہ کافی دیر تک بلکہ نا مناسب دیر تک جاری رہا یہ تو انصاف نہ ہوا کہ اتنی اچھی دعوت بھی کریں اور اتنے زیادہ لطیفے بھی سنیں دماغ اور پیٹ دونوں کی بدہضمی۔ دیر سے سہی شامی صاحب کو چھٹی مل گئی میرے لیے تو رات کے کھانے کی گنجائش نہیں رہی تھی دوسرے مہمانوں کا پتہ نہیں۔