دامن نچوڑ دیں تو…
بجلی چوری روکنے کا غلغلہ بھی عروج پر ہے، عملاً بجلی چوری کے سدباب کے لیے ’’پارٹی مشہوری‘‘ کے سوا کچھ نہیں ہورہا
وہ بھی کیا اچھا زمانہ تھا جب صرف لوڈ شیڈنگ کے لفظ پر اکتفا کرتے اور کرم فرما سمجھ جاتے کہ جو ''پہلو'' میں نہیں اسی لنگور کا ذکر خیر ہے، اب تو وہ زمانہ کہ ہر چیز میں لوڈ شیڈنگ کی رسم چل نکلی ہے، سو واضح کرنا ضروری ہے، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا ذکر کرنا مقصود ہے۔ چند ساعتیں قبل لوڈ شیڈنگ کی برائے نام کمی کو جس طرح سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا اب وہ حالات ''ہوا'' ہو چکے ہیں اور لوڈ شیڈنگ کی وبا ملکی فضا میں پھر سے چھا گئی ہے۔ اس سوال کا جواب حاصل کرنا نہایت ضروری ہے کہ کچھ لمحوں تک ہی سہی مگر لوڈ شیڈنگ میں کمی آئی کہاں سے تھی اور کیسے آئی تھی؟ پڑھنے والوں کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ موجودہ حکومت کے قیام کے بعد بجلی کے کتنے کنکشن جاری ہوئے؟ موجودہ حکومت نے آتے ہی نئے صارفین کو میٹر جاری کرنے میں ہاتھ حد درجہ ''ماٹھا'' رکھا ہے۔ کراچی کی صورتحال یہ ہے کہ بجلی کے میٹروں کے حصول کے لیے جس طرح سے لوگ دفاتر میں خوار ہو رہے ہیں لیکن انھیں بار بار طواف کے باوجود میٹر نہیں دیے جا رہے ہیں، تیز تر وزرا صاحبان سے شاید یہ صورت حال سات پردوں میں مخفی ہے۔ صارفین کو یہ جواب دیا جاتا ہے ''مال شارٹ'' ہے، اس ''فالٹ'' کو کمائی کا دھندا بنا لیا گیا ہے۔ صاف الفاظ میں صارف کو کہہ دیا جاتا ہے میٹر کئی ماہ تک نہیں مل سکتا، ہاں! اگر میٹر ''ایڈوانس'' لگانے کی سکت رکھتے ہیں پھر فیس بھرنی پڑے گی۔ عرض کیا جاتا ہے کتنی فیس؟ یوں معاملات ''حصہ بقدر جثہ'' طے ہوجاتے ہیں، گویا جو میٹر عام طور پر پانچ سے سات ہزار میں لگا کرتا تھا وہ اب پندرہ سے بیس ہزار تک میں لگ رہے ہیں۔ میٹرز کی کھلم کھلا دستیابی میں ناکامی کے بعد ایک طرف صارفین ''رُل'' رہے ہیں، دوسری جانب لٹ رہے ہیں۔ فائدے میں وہ اہلکار ہیں جن کی اس وجہ سے ''چاندی'' اور عوام ''مٹی'' بن رہے ہیں۔
نئے میٹر اور بجلی کے تار کی ناپیدی سے ایک طرف بجلی کے حصول کے خواہش مند شہری حالت کرب میں ہیں، دوسری جانب جن کے میٹر کسی بنا پر خراب ہیں ان میں کچھ تو کامل عیاشی کر رہے ہیں اور کچھ بل کی صورت میں ''جگا ٹیکس'' دے رہے ہیں۔ خراب میٹر والے ایسے صارفین جن کا بل اوسطاً چند سو آتا تھا وہ خراب میٹر کے انعام میں اب بھی اوسطاً چند سو روپے کا بل ہی ادا کر رہے ہیں، چاہے موجودہ حالات میں وہ ہزاروں یونٹ ہی کیوں نہ استعمال کر رہے ہوں۔ اسی تصویر کا دوسرا رخ ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ ایک گھر میں بڑی فیملی رہائش پذیر تھی جس کا ماہانہ بل ہزاروں میں آتا تھا، اسی دوران میٹر داغ مفارقت دے گیا، بعد میں اس گھر میں ایسا کنبہ رہائش پذیر ہوا جس کے ہاں آسائش کی کوئی چیز نہیں لیکن خراب میٹر کی کرم فرمائی کی بنا پر چند سو روپے بل دینے والے خاندان کو اوسط کی ''مار'' ہر ماہ ہزاروں روپے بل دینے کی صورت پڑ رہی ہے۔ بجلی صارفین پہلے ہی اپنی قوت اور معاشی ہمت سے کہیں زیادہ بل حکومت کو ادا کررہے ہیں، کم از کم ان پر حکومت اتنی کرم نوازی کرے کہ بجلی کے باوا آدم بروقت میٹر، تار اور ٹرانسفارمر جاری کریں۔ اس سے اور نہیں تو کچھ تو بجلی استعمال کرنے والوں کی اشک شوئی ہو پائے گی۔
بجلی بچاؤ کے دعوے اور بجلی چوری روکنے کا غلغلہ بھی عروج پر ہے، عملاً بجلی چوری کے سدباب کے لیے ''پارٹی مشہوری'' کے سوا کچھ نہیں ہورہا، کہیں زور بازو کی روایت ہمیشہ کی طرح چل رہی ہے، کہیں ہاتھوں پر قانون کے دستانے پہن کر قوم کی اس امانت میں خیانت کی جارہی ہے۔ سابق حکومتوں پر کرپشن کے الزامات ہماری سیاسی ریت رہی ہے، مگر موجودہ حالات میں کیا سب کچھ ''پوتر'' ہوگیا ہے؟ بدنصیبی کہہ لیں کہ حالات میں رتی بھر فرق تو نظر آنا چاہیے تھا، وہ بھی نظر نہیں آرہا۔ بجلی چوری اور ضیاع کو ہی سامنے رکھتے ہیں، عام شہری کے ذہن میں بجلی چوری کی فہرست میں ایسے نام آتے ہیں جو بندوق، خوف، اثر و رسوخ اور مار دھاڑ کے کرشماتی اوصاف کے زور پر یہ کارنامہ سر انجا م دیتے ہوں۔
بجلی چوری کے ضمن میں ان خوبیوں کے حامل مہربانوں کی حقیقت اپنی جگہ مسلم، مگر بجلی چوری میں وہ بھی شامل ہیں جو ''تر دامنی'' کا دعویٰ کرتے ہیں، جو ملک کے سیاسی امام کہلاتے ہیں، جو خود کو قانون کے رکھوالے گردانتے ہیں۔ کہے پر یقین نہیں تو تحقیق اور تفتیش کے ہنر آپ کے ہاتھ میں ہیں، جستجو کی راہ پر چند قدم اٹھائیے حیرتوں کے در وا نہ ہوئے تو گلہ کیجیے۔ ایسے شرفاء جن کی ماہانہ آمدن لاکھوں میں ہے، وہ صرف چند روپے کے بل دے رہے ہیں، زیادہ کی زحمت نہیں تو ذرا سا سوچنے کی زحمت گوارا کرلیجیے، جن کی آمدن بلامبالغہ لاکھوں میں ہو، جن کے گھروں میں دنیا کی ہر ''لٹرم پٹرم'' موجود اور استعمال ہوتی ہو، کیا ان کے بل چند روپوں میں آسکتے ہیں؟ دل دکھاتا ہوا سوال یہ ہے کیا یہ بجلی چوری نہیں؟ دراصل اس ملک کے قانون حد سے زیادہ نرالے اور توے سے بڑھ کر کالے ہیں، جہاں ''شودر'' گرداننے والے کماتے ہوں اور ''پوتر'' کہلانے والے ''کھاتے'' ہوں، وہاں ہر سو ہرا ہی ہرا نظر نہ آئے تو کیا نظر آئے۔
نئے میٹر اور بجلی کے تار کی ناپیدی سے ایک طرف بجلی کے حصول کے خواہش مند شہری حالت کرب میں ہیں، دوسری جانب جن کے میٹر کسی بنا پر خراب ہیں ان میں کچھ تو کامل عیاشی کر رہے ہیں اور کچھ بل کی صورت میں ''جگا ٹیکس'' دے رہے ہیں۔ خراب میٹر والے ایسے صارفین جن کا بل اوسطاً چند سو آتا تھا وہ خراب میٹر کے انعام میں اب بھی اوسطاً چند سو روپے کا بل ہی ادا کر رہے ہیں، چاہے موجودہ حالات میں وہ ہزاروں یونٹ ہی کیوں نہ استعمال کر رہے ہوں۔ اسی تصویر کا دوسرا رخ ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ ایک گھر میں بڑی فیملی رہائش پذیر تھی جس کا ماہانہ بل ہزاروں میں آتا تھا، اسی دوران میٹر داغ مفارقت دے گیا، بعد میں اس گھر میں ایسا کنبہ رہائش پذیر ہوا جس کے ہاں آسائش کی کوئی چیز نہیں لیکن خراب میٹر کی کرم فرمائی کی بنا پر چند سو روپے بل دینے والے خاندان کو اوسط کی ''مار'' ہر ماہ ہزاروں روپے بل دینے کی صورت پڑ رہی ہے۔ بجلی صارفین پہلے ہی اپنی قوت اور معاشی ہمت سے کہیں زیادہ بل حکومت کو ادا کررہے ہیں، کم از کم ان پر حکومت اتنی کرم نوازی کرے کہ بجلی کے باوا آدم بروقت میٹر، تار اور ٹرانسفارمر جاری کریں۔ اس سے اور نہیں تو کچھ تو بجلی استعمال کرنے والوں کی اشک شوئی ہو پائے گی۔
بجلی بچاؤ کے دعوے اور بجلی چوری روکنے کا غلغلہ بھی عروج پر ہے، عملاً بجلی چوری کے سدباب کے لیے ''پارٹی مشہوری'' کے سوا کچھ نہیں ہورہا، کہیں زور بازو کی روایت ہمیشہ کی طرح چل رہی ہے، کہیں ہاتھوں پر قانون کے دستانے پہن کر قوم کی اس امانت میں خیانت کی جارہی ہے۔ سابق حکومتوں پر کرپشن کے الزامات ہماری سیاسی ریت رہی ہے، مگر موجودہ حالات میں کیا سب کچھ ''پوتر'' ہوگیا ہے؟ بدنصیبی کہہ لیں کہ حالات میں رتی بھر فرق تو نظر آنا چاہیے تھا، وہ بھی نظر نہیں آرہا۔ بجلی چوری اور ضیاع کو ہی سامنے رکھتے ہیں، عام شہری کے ذہن میں بجلی چوری کی فہرست میں ایسے نام آتے ہیں جو بندوق، خوف، اثر و رسوخ اور مار دھاڑ کے کرشماتی اوصاف کے زور پر یہ کارنامہ سر انجا م دیتے ہوں۔
بجلی چوری کے ضمن میں ان خوبیوں کے حامل مہربانوں کی حقیقت اپنی جگہ مسلم، مگر بجلی چوری میں وہ بھی شامل ہیں جو ''تر دامنی'' کا دعویٰ کرتے ہیں، جو ملک کے سیاسی امام کہلاتے ہیں، جو خود کو قانون کے رکھوالے گردانتے ہیں۔ کہے پر یقین نہیں تو تحقیق اور تفتیش کے ہنر آپ کے ہاتھ میں ہیں، جستجو کی راہ پر چند قدم اٹھائیے حیرتوں کے در وا نہ ہوئے تو گلہ کیجیے۔ ایسے شرفاء جن کی ماہانہ آمدن لاکھوں میں ہے، وہ صرف چند روپے کے بل دے رہے ہیں، زیادہ کی زحمت نہیں تو ذرا سا سوچنے کی زحمت گوارا کرلیجیے، جن کی آمدن بلامبالغہ لاکھوں میں ہو، جن کے گھروں میں دنیا کی ہر ''لٹرم پٹرم'' موجود اور استعمال ہوتی ہو، کیا ان کے بل چند روپوں میں آسکتے ہیں؟ دل دکھاتا ہوا سوال یہ ہے کیا یہ بجلی چوری نہیں؟ دراصل اس ملک کے قانون حد سے زیادہ نرالے اور توے سے بڑھ کر کالے ہیں، جہاں ''شودر'' گرداننے والے کماتے ہوں اور ''پوتر'' کہلانے والے ''کھاتے'' ہوں، وہاں ہر سو ہرا ہی ہرا نظر نہ آئے تو کیا نظر آئے۔