2014ء کا افغانستان۔۔۔
امریکا نے کرزئی کی مدد سے افغانستان میں جو کچھ کیا وہ عراق اور ویت نام سے مختلف نہیں ہے...
افغانستان میں اپنی صدارتی عمر طبعی پوری کرنے والے صدر حامد کرزئی نے برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ امریکا کی افغانستان میں موجودگی کا ہمیں کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔ امریکا نے ہمارے لیے کوئی کام نہیں کیا بلکہ ہمارے خلاف کام کرتا رہا، کرزئی نے طالبان کو اپنا بھائی اور امریکا کو اپنا مخالف قرار دیا، افغان صدر کرزئی نے امریکا پر یہ الزام بھی لگایا کہ امریکا کو جو رقم افغان پولیس کو دینا چاہیے تھی وہ رقم اس نے نجی سیکیورٹی اداروں کو دی اور قبائلی لشکر تشکیل دینے پر بھی صرف کر دی، جس کے نتیجے میں بدامنی، بدعنوانی اور ڈکیتیوں کو فروغ ملا۔ اس کے برخلاف برطانیہ نے پاکستان سے افغانستان کے تعلقات بہتر بنانے میں مدد کی۔
نیٹو کے سربراہ اینڈرز فوگ راسموسین نے کہا ہے کہ ہمیں خدشہ ہے کہ حامد کرزئی اپنی صدارتی مدت میں سیکیورٹی معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے اور یہ کام اپنے جانشین کے لیے ورثے میں چھوڑ دیں گے۔ اس وقت افغانستان میں لگ بھگ 57 ہزار غیرملکی فوجی موجود ہیں۔ راسموسین کا کہنا ہے کہ القاعدہ پاکستان میں کمزور ہو گئی ہے اور آخری سانسیں لے رہی ہے لیکن کئی ملکوں میں القاعدہ کے مختلف گروپ امریکا اور یورپی ملکوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں۔ راسموسین نے کہا کہ رواں سال کے اختتام تک افغانستان سے بین الاقوامی فوج کا انخلا قطعی ہے۔ اس سال اپریل میں افغانستان میں عام انتخابات ہونے والے ہیں، جس میں حامد کرزئی کے بھائی سمیت 11 امیدوار حصہ لے رہے ہیں اور کابل میں انتخابی مہم کا آغاز ہو گیا ہے۔ روسی الیکشن کمیشن کے سربراہ ولادی میر پوتن نے بتایا ہے کہ روس کا الیکشن کمیشن افغانستان کے الیکشن کمیشن کو صدارتی انتخابات میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ حامد کرزئی نیٹو کے سربراہ راسموسین اور روسی الیکشن کمیشن کے سربراہ ولادی میر پوتن کے بیانات سے 2014ء کے افغانستان کا منظرنامہ سامنے آتا ہے۔ ویسے تو امریکا کی تاریخ جارحیت کی تاریخ ہی ہے لیکن بش جونیئر نے اکیسویں صدی کے آغاز میں جو دو جارحانہ کارروائیاں عراق اور افغانستان پر حملوں کی شکل میں کیں، ان کارروائیوں نے نہ صرف امریکا کی اقتصادی زندگی کو تہہ و بالا کر دیا بلکہ امریکا کو ایک ایسی صورت حال سے دوچار کر دیا کہ اس کے وہ اہداف جو عراق اور افغانستان پر حملوں کے حوالے سے متعین کیے گئے تھے وہ تو پس منظر میں چلے گئے اب ایک زیادہ پرخطر مستقبل امریکا کے سامنے ہے۔
عراق پر امریکی حملے کی وجہ صدام حسین کی خطرناک ترین ہتھیاروں کی ذخیرہ اندوزی بتایا گیا تھا، جو دنیا کے لیے ایک خطرے کی علامت سمجھے جا رہے تھے۔ دنیا کو اس نام نہاد خطرے سے بچانے کے لیے امریکا نے ساری دنیا کی شدید مخالفت کے باوجود جو حملہ کیا تھا، حملے کے کچھ ہی عرصے بعد خود امریکی خفیہ ایجنسیوں نے اعتراف کیا کہ صدام حسین کے پاس ایسے کسی خطرناک ہتھیاروں کا کوئی ذخیرہ نہ تھا جسے بنیاد بنا کر بش نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ امریکی ایجنسیوں کے اس انکشاف کے بعد بش کی حماقت کا پردہ تو چاک ہوا ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ دنیا کی نظروں میں امریکا اس طرح ذلیل و رسوا ہوا کہ عراق پر حملہ صرف اور صرف سابق امریکی صدر بش کی ایسی حماقت ثابت ہوا جس میں عزت تو گئی ہی اربوں ڈالر اور امریکی اور اتحادی فوج کے ہزاروں جوانوں کی جانوں کا ضیاع الگ ہوا اور پانچ لاکھ سے زیادہ عراقی اس احمقانہ جنگ میں لقمہ اجل بن گئے۔
جب 9/11 کا وقوعہ ہوا تو صدر بش نے گلی محلے کے دادا کی طرح افغانستان پر حملہ کر دیا۔ اس حملے کا جواز یہ بتایا گیا کہ 9/11 کا حملہ القاعدہ نے کروایا تھا اور القاعدہ کا سربراہ افغانستان میں روپوش ہے۔ اس امکان کو سامنے رکھ کر بش نے جو حماقت کی وہ عراقی حملے سے بھی مہنگی پڑ گئی، ہزاروں نیٹو سپاہیوں کا جانی نقصان ہوا، کھربوں ڈالر کا جنگی نقصان ہوا اور 5 لاکھ سے زیادہ بے گناہ افغان اس جنگ میں مارے گئے۔ بش کی حماقت محض ایک شخص کی حماقت نہ تھی بلکہ ایک ایسا جنگی جرم تھا جس کے خلاف اقوام متحدہ کی بین الاقوامی جنگی جرائم کی کورٹ میں مقدمہ چلا کر 10 لاکھ انسانوں کے بے جواز قتل کے لیے سخت سزا دی جاتی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا بش اپنی صدارتی مدت پوری کر کے عیش کی زندگی گزار رہا ہے اور اس کے جانشین اوباما کو بش کے جرائم کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس غیر ذمے داری کی وجہ سے آیندہ کسی امریکی صدر کے اسی قسم کی حماقتوں کے لیے راہ ہموار ہو گئی ہے اور دنیا امریکا کی بے راہ روی سے عاجز ہے۔
ہم نے افغانستان کے پیش منظر کا جائزہ لینے کے لیے اس کے پس منظر کا مختلف احوال اس لیے بیان کیا ہے کہ اس کی روشنی میں مستقبل کی امریکی پالیسیوں کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔ افغانستان میں امریکا کی آمد کے بعد اس کا سب سے بڑا حمایتی اور مددگار حامد کرزئی ہی تھا، اگر حامد کرزئی کی حمایت امریکا اور نیٹو کو حاصل نہ ہوتی تو امریکا کا یہاں زیادہ دیر رکنا ممکن نہ تھا، اس طرح کرزئی کو امریکا کی حمایت اور سرپرستی حاصل نہ ہوتی تو کرزئی کا بحیثیت صدر زیادہ عرصہ افغانستان میں رہنا ممکن نہ تھا، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ جیسے جیسے نیٹو کے افغانستان سے نکلنے کا وقت قریب آ رہا ہے ان دونوں دوستوں کو ایک دوسرے سے شکایتوں کی بیماری شروع ہوگئی ہے۔ حامد کرزئی کا کہنا ہے کہ امریکا کی افغانستان میں موجودگی کا کچھ فائدہ نہیں ہوا، امریکا یہاں رہ کر ہمارے خلاف کام کرتا رہا۔ کرزئی فرما رہے ہیں کہ امریکا نے افغان پولیس کو دی جانے والی رقم کو قبائلی لشکر کی تیاری اور خفیہ ایجنسیوں پر خرچ کر کے جو غلطی کی ہے اس کا نتیجہ افغانستان میں بدامنی، بدعنوانی، چوری اور ڈکیتیوں میں اضافے کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ حامد کرزئی اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر رہے ہیں جس کا مقصد 2014ء میں نیٹو کے انخلا کے بعد افغانستان میں سیکیورٹی کے مقاصد کی خاطر ایک محدود تعداد میں امریکی فوج رکھنا ہے۔
امریکا نے کرزئی کی مدد سے افغانستان میں جو کچھ کیا وہ عراق اور ویت نام سے مختلف نہیں ہے۔ اب مسئلہ یہ نہیں رہا کہ امریکا اور کرزئی نے افغانستان کے لیے کیا کیا، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ اب افغانستان کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟ سب سے پہلے امریکی حکمرانوں کو یہ پالیسی ترک کرنا ہو گی کہ وہ بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کو توڑتے ہوئے جس ملک پر چاہیں حملہ کر سکتے ہیں کیونکہ آزاد اور خود مختار ملکوں پر محض اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات یا حماقتوں سے چڑھ دوڑنے کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ دنیا کو منظم طور پر چلانے اور دنیا کو پر امن بنانے کی ساری امیدیں ختم ہو جاتی ہیں اور خود حملہ آوروں کو بھی جانی نقصان کے علاوہ کھربوں ڈالر کا مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اب امریکا کو چین کے خلاف گھیراؤ کی پالیسی کو ترک کر کے بقائے باہمی کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔
افغانستان کا سب سے بڑا مسئلہ اس تباہ حال ملک کی بحالی کا ہے جو دس سالہ جنگ کے دوران زندگی کے ہر شعبے میں تنزل کا شکار ہو گیا ہے۔ افغانستان ایک قبائلی دور سے گزر رہا ہے اور قبائلی معاشرت کی وجہ سے وہ ترقی کے راستے پر پیشرفت سے قاصر ہے۔ اس صورت حال سے نکلنے کے لیے افغانستان میں 2014ء کے بعد بیرونی افواج رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ 2014ء میں ایسی دوررس منصوبہ بندیوں کی ضرورت ہے جو افغان معیشت کو منشیات کے پنجے سے نکال کر صنعت و تجارت کے راستے پر ڈال سکے۔ اپریل 2014ء میں جو انتخابات ہونے جا رہے ہیں ان میں حصہ لینے والوں کا منشور ہی افغانستان کی بحالی اور افغانستان کو ایک صنعتی اور تجارتی ملک بنانا ہونا چاہیے۔ افغانستان میں متحارب طاقتوں کو اب بلاجواز اور مبہم نعرے بازی کی سیاست سے نکل کر افغانستان کو ترقی اور خوشحالی کے راستے پر ڈالنا ہو گا۔ اور اس کے لیے شرط اول اس ملک میں تعلیم کو عام اور لازمی کرنا ہے۔ روس بھارت وغیرہ 2014ء کے بعد افغانستان میں اپنی جگہ بنانے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں، اگر وہ افغانستان کی بحالی اور افغانستان کو ایک صنعتی و تجارتی ملک بنانے کے لیے افغانستان میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو انھیں افغانستان اور پاکستان کے ساتھ مل کر یہ کردار ادا کرنا چاہیے، یہی 2014ء کا تقاضا ہے، ورنہ مفادات کی کھینچا تانی جاری رہی تو افغانستان مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا۔