مافیاز کے اسباب اور ان کا علاج

جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ جو ادارے اس اختلاف رائے کے بارے میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط؟...


S Nayyer February 08, 2014
[email protected]

ذوالفقار علی بھٹو جب عوامی جلسوں سے خطاب کیا کرتے تھے تو ان کی آستینوں کی پوزیشن یہ ہوتی کہ وہ کلائیوں پر لٹک رہی ہوتی تھیں کیونکہ وہ کف کے بٹن کھول دیا کرتے تھے ۔ ان کی پیروی کرتے ہوئے جیالے بھی اپنے کف کے بٹن نہیں لگایا کرتے تھے اور ملک کا نوجوان طبقہ بھی شلوار قمیض پہن کر اپنی آستین کھلی چھوڑنے لگا تھا۔ بھٹو صاحب نے جب ''ماؤ کیپ'' پہننا شروع کی تو عوام نے بھی اس کیپ کو پہننا شروع کردیا۔ جنرل ضیا الحق پاکستان کے صدر بنے تو سرکاری دفاتر کے افسران اور ملازمین شلوار قمیض اور واسکٹ پہننے لگے۔ سرکاری دفاتر میں نئی نئی مساجد تعمیر کی گئیں اور بقول چوہدری شجاعت سرکاری افسران کی اکثریت نے اپنی واسکٹ کی جیبوں میں کپڑے کی ٹوپی تہہ کرکے رکھنی شروع کردی، جہاں نماز کا وقت ہوا، انھوں نے ٹوپی نکال کر سر پر منڈھی اور جماعت بنا کر کھڑے ہوگئے۔ ''با وضو'' تو وہ پہلے ہی ہر وقت رہنے لگے تھے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں مغربی لباس اور کتے پالنے کے شوق نے عروج پایا۔ اقتدار سنبھالتے ہی انھوں نے اپنے دو عدد پالتو کتوں کے ساتھ تصویر کھنچوا کر اور میڈیا کے ذریعے دنیا کو دکھلا کر یہ پیغام دے دیا تھا کہ وہ مذہبی نہیں بلکہ سیکولر ذہن کے مالک ہیں۔ لہٰذا ان کے دور میں سیکولرازم کو عروج حاصل ہوا۔


کہا جاتا ہے کہ عوام وہی کرتے ہیں جو ان کے حکمران کرتے ہیں۔ عوام اپنے حکمرانوں کا عکس ہوا کرتے ہیں، وہ حکمرانوں کے نقش قدم پر چلا کرتے ہیں۔ بالائی سطح پر جو بھی عمل ہوتا ہے اس کے اثرات نچلی سطح پر پڑتے ہیں۔ اگر اوپر کی سطح پر دیانتداری اور آئین و قانون کی حکمرانی ہوگی تو نچلی سطح پر بھی قانون کی حکمرانی کو فروغ حاصل ہوگا۔ اگر بالائی سطح پر کرپشن کا دور دورہ ہوگا تو نچلی سطح پر ایک اسسٹنٹ کمشنر کا چپراسی بھی رشوت کے لین دین میں ملوث ہوجائے گا۔ کرپشن تو خاص طور سے اوپر کی سطح سے نیچے آتی ہے، لہٰذا اسے کم کرنے کے لیے اوپر کی سطح سے ہی اس کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ جب یہ بالائی سطح پر ختم ہوجائے گی اور حکمران طبقہ آئین، قانون اور ریاست کا احترام کرنا شروع کردے گا تو آئین و قانون کی حرمت نچلی سطح پر بھی نظر آنا شروع ہوجائے گی اور ریاست کا ہر ستون اور ہر ادارہ اپنی اپنی جگہ پر مضبوط ہوکر ایک دوسرے پر کڑی نظر رکھنا شروع کردے گا۔ چیک اینڈ بیلنس کا یہ نظام ہی دراصل جمہوریت کا زیور اور اس کا حسن ہے۔ جب کہ ہم اختلاف رائے اور ایک دوسرے کے سر پھاڑنے کے عمل کو جمہوریت کا حسن قرار دیتے ہیں۔


جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ جو ادارے اس اختلاف رائے کے بارے میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط؟ اور تمام فریق ان فیصلوں کو تسلیم کرلیتے ہیں تو اس سے جمہوریت کا حسن مزید نکھر کر سامنے آتا ہے۔ ایک دوسرے کو گالیاں دے کر اسے جمہوریت کا حسن قرار دینا پرلے درجے کی ڈھٹائی کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ گزشتہ کالم میں ہم نے یہ کہا تھا کہ موجودہ کالم میں ان وجوہات کا جائز ہ لیا جائے گا کہ ہمارے ملک میں مختلف مافیاز، کارٹلز اور دیگر گروہوں کی اس قدر اجارہ داریاں کیوں قائم ہیں؟ جن کی وجہ سے کروڑوں اربوں کا، کالا دھن روزانہ کی بنیاد پر ادھر سے ادھر ہوجاتا ہے اور قومی خزانہ منہ تکتا رہ جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک پر سب سے اوپر کی سطح پر یعنی اقتدار پر جو صاحب قبضہ کرلیتے ہیں ان کا یہ عمل ہی دراصل سب سے بڑی کرپشن کہی جاسکتی ہے۔ گزشتہ نصف صدی میں چار مرتبہ یہ عمل دہرایا گیا اور باقی عرصے میں نام نہاد جمہوری حکمرانوں کے سروں پر یہ تلوار کچے دھاگے سے بندھی لٹکتی رہی۔ جمہوری حکومت کی ایک آنکھ اس لٹکتی تلوار پر ٹکی رہی اور دوسری آنکھ اپنی اور اپنے خاندان کی جیبیں بھرنے کی نگرانی کرتی رہی، اور عوام ہرآمرانہ اور جمہوری دور میں بے حال سے بے حال تر ہوتے چلے گئے۔ جب حکومت اور مملکت کا سربراہ، حکومت کی سربراہی اس طریقے سے حاصل کرے گا، جو آئین میں درج ہی نہیں ہے تو پھر نچلی سطح پر ان مافیاز اور کارٹلز کو کام کرنے سے کس طرح روکا جاسکے گا؟ جو چیز خود غلط ہو، جس عمارت کی بنیاد ہی ٹیڑھی ہو وہ سیدھی کیونکر تعمیر ہوسکتی ہے؟ جو شخص غیر آئینی طریقے سے اقتدار پر قبضہ حاصل کرتا ہے اس کی سب سے پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ ملک کی عدالت سے اقتدار میں اپنی آمد کے جواز کو درست قرار دلوائے۔ اس کے لیے وہ طاقت کا استعمال کرتا ہے ۔


اس کے بعد ڈکٹیٹر کا اگلا نشانہ پارلیمنٹ ہوتی ہے، اس سے قبل وہ اپنی ایک سیاسی جماعت تشکیل دیتا ہے، تمام تر انتخابی حربے استعمال کر کے اسے اکثریت دلواتا ہے اور پھر اس پارلیمنٹ کے ذریعے اپنے تمام غیر آئینی اعمال کو آئینی تحفظ دلواتا ہے۔ اس موقع پر اسے انھی مختلف جرائم پیشہ مافیاز اور کارٹلز سے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں، جنھیں کھلی چھوٹ دینے کے عوض ان جماعتوں کے امیدواروں کی فنڈنگ کی جاتی ہے جو پارلیمنٹ میں آکر ڈکٹیٹر کے ہر اقدام کو قانونی اور آئینی قرار دینے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان ڈکٹیٹرز کو چونکہ عوامی حمایت حاصل نہیں ہوتی ہے، لہٰذا ان کے ادوار میں علاقائی، لسانی اور مسلکی جماعتوں کے گروہوں کو خوب سرپرستی حاصل ہوتی ہے اور ان کی فنڈنگ بھی یہی مافیاز اور کارٹلز کیا کرتے ہیں۔ پھر اپنی ان خدمات کا معاوضہ وہ عوام کی جیبیں خالی کرکے حاصل کرتے ہیں اور حکومت خاموش رہتی ہے۔ پھر عوام یہی چیختے ہیں کہ ''کوئی پوچھنے والا نہیں ہے''۔ ان مافیاز کی اجارہ داریاں توڑنے کا علاج صرف اور صرف عوام کی متحدہ طاقت ہے اور کچھ بھی نہیں۔


گذشتہ صدی میں جنگ عظیم کے دوران جب جاپان نے چین پر حملہ کیا تو چینی انقلاب کے بانی ماوزے تنگ اور چیانگ کائی شیک آپس میں برسر پیکار تھے۔ انھوں نے آپس کی جنگ بند کی اور یہ عہد کیا کہ آؤ باہم مل کر پہلے چین کے مشترکہ دشمن جاپان سے نمٹ لیتے ہیں پھر ہمارے اختلافات اسی جگہ سے دوبارہ شروع ہوں گے، جہاں سے منقطع ہوئے تھے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ایسا ہونا جاپان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ چینی قوم ان کے خلاف یوں متحد ہوجائے گی۔ عوام کی متحدہ طاقت خدا کے بعد اس دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اگر سب سے بالائی سطح پر کوئی بھی شخص اس طریقے سے اقتدار پر قبضہ کرتا ہے، جو طریقہ آئین پاکستان میں درج نہیں تو عوام اگر کچھ بھی نہ کریں اور صرف اپنے گھروں سے نکل کر گھر کے نزدیک واقع سڑک پر آکر بیٹھ جائیں تو کس کی مجال ہے کہ وہ اقتدار کی گدی پر بیٹھا رہ سکے؟ کس مافیا اور کس کارٹل کی جرأت ہے کہ وہ اپنی اجارہ داری قائم رکھ سکے؟ شیخ سعدی نے کہا تھا ''اگر چیونٹیاں متحد ہوجائیں تو شیر کی کھال اتار سکتی ہیں''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔