مقالات چغتائی
چغتائی لکھتے ہیں اقبال نے اپنے مزاج اور مطالعے کے زیر اثر ہمیشہ مشرقی رنگ و آہنگ اور مشرقی خو بو کو انسان دوستی سمجھا
لاہور میں ایک شام کا ذکر کرتے ہوئے عبدالرحمن چغتائی کہتے ہیں۔ ''میرا فن جب قدرے اہم ہوگیا تو میرے سامنے محفلوں میں فن کے موضوع اور آرٹ کی اہمیت پر گفتگو ہونے لگی۔ ایک محفل میں بھی جہاں ہم چند دوست بیٹھے تھے فن اور موضوع کی بات چھڑ گئی۔ ایک خاتون مجھ سے مخاطب ہوئیں اور انھوں نے ایک تصویر کا موضوع بڑی تفصیل سے بیان کیا۔ ان کا اصرار تھا کہ میں اس موضوع پر ایک لافانی تصویر بناؤں۔ ابھی میرے مو قلم میں وہ روانی اور پختگی پیدا نہیں ہوئی تھی جو ایک آرٹسٹ کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ بہرحال میں ان خاتون کی گفتگو اس قدر انہماک سے سن رہا تھا جیسے جو تصویر بھی میں بناؤں گا شہزادہ سلیم اور مہرالنسا اس کا موضوع ہوں گے''۔
چغتائی کا اشارہ شہنشاہ اکبر کے دور کے اس واقعے کی طرف تھا جب شہزادہ سلیم دو کبوتر مہرالنسا کے حوالے کرگیا تھا، واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک ہی کبوتر تھا۔ سلیم نے دوسرے کبوتر کے بارے میں پوچھا تو مہرالنسا نے بڑی معصومیت سے وہ کبوتر بھی اڑا دیا جو اس کے ہاتھ میں تھا۔ شہزادہ سلیم اس بھولے پن پر فریفتہ ہوگیا اور یہ اس کی زندگی کا ایک ایسا نازک ترین لمحہ بن گیا جسے وہ کبھی فراموش نہ کرسکا۔ وہ شہنشاہ جہانگیر کہلانے پر بھی شہزادہ سلیم نظر آیا۔ ایسے مناظر اور واقعات تاریخ میں اپنا ایسا نقش چھوڑ جاتے ہیں جنھیں کوئی مٹا نہیں سکتا۔
شیما مجید کی مرتب کردہ کتاب ''مقالات چغتائی'' میں موضوع فن پر اپنے ایک مقالے میں عبدالرحمن چغتائی لکھتے ہیں ''موضوع سے ہی ایسے بلند اور عظیم کردار جنم لیتے ہیں جن کی حیثیت تاریخ میں ناقابل فراموش ہوجاتی ہے''۔
چغتائی نے جب انارکلی کی تصویر بنائی تھی تو وہ اپنی دلکشی اور اظہار کی وجہ سے بڑی مقبول ہوئی۔ اس میں حسن و جمال کا شعور بھی مکمل تھا۔ پھر ایک مختصر سی مدت میں ان کے موضوع اور انفرادیت نے کچھ ایسا سر اٹھایا کہ وہ اپنی طرف دیکھنے والوں کو حیرت سے تکتے اور عمل میں کھو جاتے۔
چغتائی نے آرٹ کے بارے میں علامہ اقبال کے خیالات کا بھی اپنے مقالے میں ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''فنون جمیلہ کے متعلق علامہ اقبال سے بات کرنے کا مجھے کئی بار موقع ملا۔ وہ فن برائے زندگی کے قائل تھے۔ انھیں احساس تھا کہ فن کے لافانی شہ پاروں کے بارے میں ان کا علم محدود ہے اس لیے وہ کہا کرتے تھے کہ جدھر نظر اٹھتی ہے ادھر عورت کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ میں اور ڈاکٹر تاثیر ایک دوسرے کی طرف دیکھتے اور دبی زبان سے کہہ دیتے کہ عورت ہی سے تو زندگی عبارت ہے۔ وہ یہ سن کر مسکرا دیتے اور ان کی مسکراہٹ میں بہت کچھ ہوتا۔ دراصل وہ ہر جذبے کو دبا لینے کے عادی تھے اور چاہتے تھے کہ زندگی سوزوساز اور رموز کی کوئی ایسی شکل اختیار کرے کہ انسان کی افتاد انسانوں کے کام آئے۔ بہرحال آرٹ کے متعلق علامہ اقبال کا نظریہ چاہے کچھ بھی ہو ان کا یہ مقصد قطعی اور واضح تھا کہ انسان اس المیے سے محفوظ رہے جو اس کے تنزل کا باعث ہو۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ آرٹسٹ نے کبھی اپنی روایات سے پہلو تہی نہیں کی''۔
چغتائی لکھتے ہیں اقبال نے اپنے مزاج اور مطالعے کے زیر اثر ہمیشہ مشرقی رنگ و آہنگ اور مشرقی خو بو کو انسان دوستی، عالمگیر اخوت اور عرصہ حیات میں ادائے فرض کے لیے مقدم سمجھا۔ مجھے اعتراف ہے کہ مشرقیت کا یہی احساس و شعور میری تخلیقی جبلت کے لیے نئے فنی راستے تلاش کرنے میں معاون و مددگار رہا۔ میں منفرد اور تجریدی آرٹ کے کل پرزوں اور جھوٹی ریزہ کاری سے دامن بچاتا رہا۔ میں نے اپنی خود اعتمادی پر بھروسہ کیا اور جدید آرٹ کے اس سراب سے اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب ہوگیا۔
عبدالرحمن چغتائی کہتے ہیں کہ کیوب ازم، ڈاڈازم، امپریشن ازم، ماڈرن ازم اور ابسٹرک ازم ہمارے لیے فیشن اور پیروی مغرب سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ جامد اور فرسودہ روایات سے انحراف، ماضی کو مستقبل کا اشاریہ سمجھتے ہوئے اس سے قبول اثر کا رجحان، کارزار زندگی میں ترقی پسندانہ اقدام وہ رہنما اصول ہیں جو اقبال نے صرف اپنی قوم کو ہی نہیں بلکہ پورے مشرق کو عطا کیے ہیں۔ اور یہ واقعہ ہے کہ ان ہی زریں اصولوں میں مشرق اور اہل مشرق کی نجات ہے۔
وہ کہتے ہیں ''کسی آرٹسٹ کو اپنے مشاہدات، محسوسات اور تجربات کو صورت پذیر کرنے کے لیے کن کن منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے، اسے کتنی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ کیسے کیسے دشوار راستوں سے گزرتا ہوا اپنے منتہائے مقصود کا رخ کرتا ہے۔ کس شکوہ، جلال اور احتزاز سے ایک شاہکار گرفت میں لاتا ہے تب اس کے فنکارانہ فرائض کا ایک بحر بیکراں اس کے سامنے پھیل جاتا ہے۔ اسی لمحے وہ اپنے تخلیقی پیمانے میں ان تمام سمندروں کو چھلکانا چاہتا ہے۔ صرف فنکار ہی محسوس کرسکتا ہے کہ وہ لمحہ کتنا مقدس، کتنا کڑا ہوتا ہے۔ اس لمحے کے لمس میں کتنی آگ ہوتی ہے۔ اس لمحے اگر صلاحیتیں ایک فنکار کا ساتھ نہ دیں تو وہ دوسروں کی خوشہ چینی پر اتر آتا ہے اور نقالی کے نئے نئے پینتروں کے باوجود شہرت کے اس گوہر مقصود کو دیکھ نہیں سکتا جس کی خاطر اس نے یہ عظیم پیشہ اختیار کیا تھا۔ ایسا ذہن کبھی فنکار کا ساتھ بھی نہیں دیتا جس پر تقلید کا فالج گر چکا ہو۔ مغرب نے بلاشبہ ہمارے مطالعے اور انتخاب کے لیے ذہنی بلندیوں کا ایک وسیع میدان کھول دیا ہے۔ اب ہم فرسودہ رسموں کو آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ خود نئی راہیں نکالتے ہیں۔ ایجاد کی راہ، تسخیر کی راہ، تجرید کی راہ لیکن فن کا تقاضا ہے کہ ہم انتخاب کے وقت اپنے معاشرے، اپنے تقاضوں، اپنی ضرورتوں اور اپنے ذہنی رجحانات کو فراموش نہ کریں اور ہمارا مقصد یہ ہو کہ اپنے نشانوں سے، اپنے خدوخال سے، اپنی تہذیب اور اپنی ثقافتی قدروں سے جانچے، پہچانے اور پرکھے جائیں''۔