موروثی طاقت اور حقائق

نظریہ مختلف خیالات کے مجموعے کا نام ہے جس کی بدولت مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے اشخاص متحد ہوجاتے ہیں


کوثر علی صدیقی February 08, 2014

لاہور: علم ،عمل، معیار،کردار اور seniority یہ وہ الفاظ ہیں جن کا مفہوم سمجھے بغیر حقائق کو جاننا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ سوکھے کنویں سے پانی نکالنا ۔کسی بھی ادارے یا تحریک میں کامیابی حاصل کر نے کے لیے انتھک محنت کی ضرورت پیش آتی ہے محنت قربانی کا دوسرا نام ہے قربانی کے لیے عمل لازم وملزوم ہے اور عمل سے پہلے علم کا ہو نا لازمی جزوہے یہ وہ جزو ہے جو معیار اور کردار کے بغیر ادھورا ہے یعنی مندرجہ بالا تمام اُمور ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ ادارے سے مراد وہ جگہ ہے جہاں ہم اپنی زندگی کا قیمتی حصہ گزار کر اپنی زندگی کے آخری حصے تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایک شخص گورنمنٹ کے کسی ادارے میں کام کر تا ہے اور اس کی مدت ملازمت 25سال یا 60 سال کی عمر ہے اسے یہ یقین ہو تا ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تنخواہ کا کچھ حصہ پنشن کی صورت میںملے گا جو اس کی آخری امید ہے اس کے برعکس تحریک میں یہ سب مراعات اسے نہیں ملا کرتیں تحریک جو عوام کے فلاح و بہبود اور گلے سڑے سسٹم کو درست کر نے کے لیے چلائی جاتی ہے وہاں صرف اور صرف کارکن اور قائد کا جذبہ ایثاراور قربانی ہوتا ہے یہی وہ بنیاد ہے جو تحریک کی کامیابی کی ضامن بنتی ہے۔

تحریک دو قسم کی ہوتی ہیںایک وہ جو اقتدار حاصل کرنے کے لیے چلائی جاتی ہے اس قسم کی تحریک سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے بعد اختتام پزیر ہوجاتی ہیں دوسری تحریک وہ ہوتی ہے جو عوام کی فلاح و بہبود اور سسٹم کی تبدیلی کے لیے چلائی جاتی ہے جس کا مقصد اوپر سے نچلی سطح تک تبدیلی ہوتا ہے ایسی تبدیلی جس کی افادیت عوام الناس تک یکساں پہنچے۔جہاں ذاتی مفاد نہیں ہوگا اور اجتماعیت کے تصور کو اُجاگر کرنے کی جستجو کی جاتی ہے یقینا ایسی ہی تحریکیں کامیابی کی منازل طے کرتی ہیںلہٰذا تحریک میں شامل افراد کو اپنی گفتار، اخلاق کا شاہانہ انداز میں مظاہرہ کرنا پڑتا ہے جس سے عوام الناس کے دلوں میں اُن کی محبت بیدار ہو یہی بیداری کامیابی کا ضامن بن کر عوام کو متحد کرنے کا ذریعہ بنتی ہے ۔

Seniority کسی بھی ادارے یا تحریک میں شامل افراد کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے یعنی جو شخص جتنا senior ہوتا جاتا ہے اُس کی اہمیت اُس کے ادارے یا تحریک کے لیے بڑھتی جاتی ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ شخص اُس تحریک یا ادارے کے لیے لازم وملزوم ہوجاتا ہے ۔اسی طرح کسی لیڈر کو بھی عوام منتخب کرتے ہیں جو اُن کا قائد کہلاتا ہے جو مظلوم عوام کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے اُن کے شعور کی بیداری کا باعث بنتا ہے اور لا قانونیت، فرقہ واریت اور لسانیت کے بتوں کو پاش پاش کرکے قومی یکجہتی کو اُجاگر کرکے انھیں یکجا کرنے کا سبب بنتا ہے جو ملک و ملت کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرکے امن و امان کے فروغ میں اپنا کلیدی کردا ر ادا کرتا ہے۔ تحریک میں شامل افراد ڈسپلن کے پابند ہوتے ہیں اور جو قائد کے نظریہ کی پابندی نہیں کرتے وہ تحریک کے سچے سپاہی نہیں بن سکتے کیونکہ نظریہ کی پابندی ہی اُن کی پہچان ہوتی ہے کارکنان چاہے سینئر ہوں یا جونیئر وہ تمام ہی تحریک کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں کیونکہ ان کا بنیادی مقصد قائد کے دیے ہوئے نظریے کی پابندی کے ساتھ ساتھ عوام کے بہتر مستقبل کے لیے کوشاں رہنا ہے اور وہ اُسکی تکمیل کے لیے کسی بھی قربانی سے گریز نہیں کرتے بلکہ میدان عمل میں رہ کر اپنا تن من دھن تحریک کی نذر کرکے سچے نظریے اور جائز مقاصد کی تکمیل کرکے معاشرے کو بہتر سے بہتر بنانے میں مصروف عمل رہتے ہیں۔قائد کے لغوی معنیٰ ہیں (رہنما یعنی راستہ دکھانے والا) لیڈر، نظریہ اور عقیدہ سے محبت وہ جزو ہے جسے بیان کرنے کے لیے طویل وقت درکار ہے عقیدہ لفظ عقد سے نکلا ہے اس کا مقصد گرہ لگانا ہے اگر انسان کسی بھی چیز پر عقیدہ مرکوز رکھے تو وہ اس کی بقاء کے لیے اپنے آپ کو فنا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔

نظریہ مختلف خیالات کے مجموعے کا نام ہے جس کی بدولت مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے اشخاص ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوجاتے ہیں یعنی اگر کوئی ظالم و جابر دھونس، ظلم، آمریت کے ذریعے عوام کو غلام بنالے تو فطری طور پر ہر شخص کے ذہن میں اُس کے خلاف نفرت کا لاوا پکتا ہے لیکن فرد واحد ہونے کی وجہ سے وہ یہ سب کچھ اس ظالم سے کہنے کی جرات نہیں کرپاتا لیکن اگر اُسے کوئی ایسا بے باک، جرائتمند آدمی مل جائے جو ظلم و جبر کے نظام کو چیلنج کرے تو ایسا فرد اُس لیڈر کی جانب مائل ہوجائے گا اور اُس سے محبت کرنے لگے گا کیونکہ وہ اُس کے لیے ایک ہیرو کی حیثیت رکھتا ہے اُسے اُس شخص پر یقین ہوتا ہے کہ یہ اُن کے لیے نجات دہندہ کے طور پر سامنے آیا ہے لیکن پاکستان کی موجودہ صورتحال نہایت گھمبیر ہے جہاں 98%مظلوم عوام کو ایک سازش کے تحت 2%مراعات یافتہ طبقے نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے جن کے خلاف ایک عظیم قائد جدوجہد میں مصروف ہے جو تمام مظلوموں اور دکھی انسانیت کے دلوں کی آواز ہے اور ان کے غضب شدہ حقوق کے لیے جدو جہد کر رہا ہے وہ ملک و ملت کے لیے نجات دہندہ ہے جو الطاف حسین کی صورت میں قدرت کا تحفہ ہیں۔آخر وہ کون سی قوت ہے جو کارکنان کو قائد کی طرف نہ صرف مائل کرتی ہے بلکہ قائد کے فرمان پر جان بھی قربان ہے یہ نعرہ لگا کر کارکنان اپنی عہد سازی کا پختہ یقین قائد کو دلاتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ قائد کے دیے ہوئے نظریہ کا پاس رکھنے کے لیے اپنی قیمتی جان بھی قربان کرنے سے گریز نہیں کرتے۔

تحریک کے بانی و قائد سے ہمہ وقت محبت اور ساتھ انھیں یہ احساس بار بار دلاتا ہے کہ تحریکی مشن اور نظریہ کی تکمیل کے لیے انھیں اپنی تمام خواہشات کو ختم کرنا پڑتا ہے ۔ انسان کو زندگی گزارنے کے لیے ضروریات زندگی کا سامان چاہیے ہوتا ہے لیکن تحریکی افراد کو مضبوط اعصاب کا مالک ہونے کا عملی ثبوت دینا پڑتا ہے اگر دھن دولت کو اپنا لیا جائے تو اجتماعیت کا تصور دم توڑ دیتا ہے لہٰذا تحریک کا منشور ہی ان کا محور ہوتا ہے جو انھیں احساس محرومی سے نجات دلاتا ہے اور انھیں ذہنی پختگی فراہم کرکے اتنا منظم کردیتا ہے کہ وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتے ۔ ذہنی پختگی اور نشوونما کے لیے باقاعدہ طور پر تحریک کا بانی نظریہ دینے والا تحریکی ساتھیوں کو نظریہ کی منتقلی میں اہم پیش رفت کرتا ہے جو فکری نشست کہلاتا ہے اور یہی فکری نشست تحریکی ساتھیوں کے لیے قیمتی اثاثہ ثابت ہوتا ہے جو برے سے برے حالات کا سامنا کرنے اور سازشی ہتھکنڈوں کا شکار نہ ہونے کی دلیل ثابت ہوتی ہے کیونکہ ایسی بے شمار تحریکوں نے دنیا میں جنم لینے اور موروثی طاقت رکھنے والوں کا مقابلہ کیا اور کامیابی بھی حاصل کی لیکن جتنی بھی تحریکیں کامیابیوں سے ہمکنار ہوئیں ان کا دارومدار تحریک کے بانی کی بہترین حکمت عملی اور کارکنان کی جدو جہد کے ساتھ ساتھ عوامی تائید کا ہونا بھی بے حد ضروری ہوتا ہے کیونکہ جہاں تحریک کا بانی اپنے نظریہ کی تکمیل کی جدو جہد کرتا ہے وہیں اس کا دارومدار کارکنان ہی ہوتے ہیں۔

کیونکہ کارکنان کا تعلق براہ راست عوام سے ہوتا ہے اورعوام کو یہ یقین ہوتا ہے کہ ان کے مسائل تحریک کی کامیابی کی بدولت ہی حل ہو سکتے ہیںجس کے لیے عوام کا تعاون ہمیشہ شامل حال رہتا ہے جس میں بسا اوقات انھیں بڑی مشکلات اور کٹھن حالات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن نتائج کی پرواہ کیے بغیر تحریکی مشن پر کاربند رہنا ہی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ایسی ہی ایک حق پرست تحریک جو اس ملک میں ایسے گلے سڑے نظام کی تبدیلی کے لیے چلائی جارہی ہے جسکے تحت اس ملک کے 98%مظلوم عوام کے حقوق کو غصب کرنے والے موروثی حکمرانی کرنے والے سیاست دان گزشتہ 6دہائیوں سے عوام کا خون چوس رہے ہیں جو چند خاندانوں پر مشتمل ہیں ان سے جان چھڑائے بغیر اس ملک کی ترقی نا ممکن ہے لہٰذا ایسے حالات کے پیش نظر ملک کے عوام کو بلا تفریق رنگ و نسل حق پرست قیادت کی طرز پر ملک بھر میں تحریک چلانی ہوگی اور ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا پڑے گا تاک اس ملک سے موروثی نظام کا خاتمہ عمل میں لایا جا سکے اور ان چند خاندانوں کی اجارہ داری جو اس ملک پر قائم ہے اس کا سد باب کیا جاسکے اس سلسلے میں حق پرستوں کی تحریک بانی و قائد جناب الطاف حسین کی قیادت میں سرگرم عمل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |