سندھ فیسٹیول جیوے جیوے
گویا مساوات اس قدر تھی کہ غریب مزدور اور کارکنوں کو اتنی اہمیت دی گئی تھی۔۔۔
وادی سندھ کی تاریخ صدیوں پرانی ہے، ایک اندازے کے مطابق تقریباً پندرہ سو قبل مسیح یا اٹھارہ سو قبل مسیح میں یہ سفر طے کرتی مدفون ہوگئی تھی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ آریاؤں کی یلغار اس تہذیب کے لیے آخری وار ثابت ہوئی۔ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ دریائے سندھ کے راستے بدلنے کے سبب یہ تہذیب دریا برد ہوگئی تھی۔ یہ وادی ابھی تک اپنے اندر نجانے کتنے راز سمیٹے ہوئے ہے ، لیکن ایک بات جو یہاں کے آثار بتاتے ہیں کہ یہاں بڑے مہذب لوگ بسا کرتے تھے۔ ان دنوں موئن جو دڑو کا بڑا چرچا ہوا، یہ مردوں کا شہر اپنے قدیم رازوں کی وجہ سے نہیں لیکن اس برس یہ سندھ فیسٹیول کے رنگا رنگ فنکشن کی وجہ سے بہت مشہور ہوا۔
پانچ ہزار سال قبل تعمیر ہونے والا موئن جو دڑو اس قدر منظم اور اعلیٰ شہری شعور کو اجاگر کرتا ہے کہ اگر ان قدیم ٹیلوں، پہاڑوں کے بیچ ذرا تصور کریں کہ ان بنیادوں پر آج بھی وہ شہر اپنے زمانے کے مطابق آباد تھا تو کیا ہمارے سر اس کے وضع سے اکڑے رہیں گے، آج سے پانچ ہزار سال قبل جس ماہر نے ایسی ترتیب سے شہر بنایا کہ جس میں گندے پانی کی نکاسی کے لیے نالیوں کا اعلیٰ نظام جو کہ شہر کے طول و ارض میں پھیلا ہوا ہے کہ آج بھی موئن جو دڑو میں بارش چاہے کیسی ہی شدید ہو ان کھنڈرات میں کھڑا نہیں رہتا بلکہ جلد ہی ان ماہر انجینئر کے بنائے نکاسی کے نظام کے تحت خارج ہوجاتا ہے۔ اسے دیکھ کر کیا ہمیں سکھر کے وہ مظلوم عوام یاد نہیں آرہے جنہوں نے ابھی حال ہی میں اپنے شہر میں ہونے والی گندگیوں کے خلاف جلوس تک نکال ڈالے، علامتی جنازہ اٹھا ڈالا، کیوں کہ آج 2014 کا سکھر غلاظتوں اور گندگی سے اٹا مکھیوں اور مچھروں کی بھنبھناہٹ سے ایسا شاندار میوزک ترتیب دے رہا ہے کہ جس سے یوتھ فیسٹیول کے اس شاندار فنکشن کے میوزیشنز کو بھی ضرور تربیت لینی چاہیے کہ یہ بھی ہماری ہی تہذیب کا ایک جیتا جاگتا حصہ ہے، سکھر والے تو تڑپ کے رہ گئے، ذرا دوسرے شہر بھی ملاحظہ فرمایے، کیا چھوٹے کیا بڑے اور گاؤں تو پھر گاؤں ہیں، جانے دیجیے۔ سڑکوں کی جانب دیکھیے کیا کہتے ہیں، زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں کراچی بھی سندھ کا ہی شہر ہے۔ انڈر پاس کی سڑکوں کے اطراف ہیروئنچیوں کو اینٹوں سے توڑتے دیکھا گیا، گاڑیاں فر فر گزر رہی تھیں کسی بندہ خدا کو توفیق نہ ہوئی کہ رک کر پوچھتا کہ آخر نشے میں چور یہ سڑکوں کی توڑا پھوڑی کیوں ہورہی ہے اور دور دور کوئی قانون کا رکھوالا بھی نہیں کہ جس سے ان کی شکایت درج کرائی جاتی، یقیناً موئن جودڑو میں ایسا کوئی سسٹم نہ ہوگا، ورنہ آج کے اس دور میں پانچ ہزار قبل کے کھنڈرات پر اتنا بھاری بھرکم اسٹیج بنایا جاسکتا تھا؟
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
کیا خوبصورت شعر ہے علامہ اقبال کا۔ پہلے ذکر پانی کا ہوجائے جس کے لیے کراچی سے لے کر روہڑی تک کے فسانے ہیں۔ پانی وہ بھی پینے کا صاف پانی۔ سندھ میں کتنے فیصد لوگ صاف پانی پیتے ہیں اور کتنے فیصد آلودہ پانی پر پلتے پلتے بڑے ہوئے، بوڑھے ہوئے اور گزر بھی گئے، پر صاف پانی نہ ملا پینے کو۔ ہمارے ایک انگریزی اخبار کے صحافی بڑے جذباتی ہیں، اس مسئلے پر وہ کئی بار جھنجوڑ جھنجوڑ کر یہ سمجھاتے رہتے ہیں کہ ہمارے سندھ میں ڈیلٹا کے علاقے میں لوگوں کو جو پانی پینے کے لیے ملتا ہے وہ کتنا غیر موزوں ہے، پینے کے لیے۔ بس ہم کیا کریں ہمارے سینئر ہیں جذباتی ہونا یا غیر جذباتی ہونا یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے لیکن موئن جودڑو میں پانی کے لیے بڑا زبردست نظام تھا، وہاں تقریباً ایک خاص فاصلے پر کنواں موجود ہے، مرحوم تصویر حسین حمیدی کی کتاب تاریخ پاکستان، تہذیب کے نشان میں لکھا ہے کہ ''موئن جو دڑو کے باسیوں کے علاوہ روئے زمین کی کوئی بھی قوم یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ اس نے کنویں تعمیر کرائے، موئن جو دڑو میں تقریباً ہر قدم پر ایک کنواں موجود ہے۔ اصحاب بیر (کنویں والے لوگ) کا تذکرہ جس عہد سے متعلق ہے وہ موئن جو دڑو کے عہد سے جا ملتاہے''۔
لیاری کبھی فٹ بال کے کھیل، میدانوں اور اپنے جفاکش محنتی، باصلاحیت فٹ بالرز کی وجہ سے کراچی بھر میں مشہور تھا، گدھا گاڑی ریس شہر کراچی میں ایک پہچان پیدا کردیتی تھی، گدھوں کی اتنی اہمیت ہے کہ خود بخود گدھوں پر پیار آجاتا تھا۔ لیکن میرے سندھ کے لیاری کو نظر لگ گئی۔ لیکن پانچ ہزار سال قبل یقیناً موئن جو دڑو میں سیاست کا ایسا بازار گرم نہ تھا کہ جس نے برسوں رہنے والے پڑوسیوں کے درمیان بھی دادا گیری اور ہتھیاروں کی دیوار کھڑی کردی، شطرنج کے مہروں کی دریافت نے اور ایک کتبے پر بنی شطرنج کی بساط کے ملنے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ شطرنج کی ابتدا اسی سرزمین سے ہوئی یا یہاں یہ کھیل دلچسپی سے کھیلا جاتا رہا۔ ویسے بھی شطرنج کا کھیل دانش ور اور عقل مندی کی نشانی ہے۔ تب ہی پانچ ہزار سال قبل ایسا جدید شہر بنا ڈالا تھا۔
یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ موئن جو دڑو کے لوگ کپاس کے سب سے پرانے کاشت کار تھے۔ پرانے بابل کے لوگ کپاس کو ''سندھو'' کہتے تھے اور یونانی روئی کے لیے ''سندھون'' کا لفظ استعمال کرتے تھے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس وادی کا نام سندھ اس لیے پڑا ہو۔ گندم کی کاشت کے لیے سندھ زمانہ قدیم میں خاصا مشہور تھا، پانچ ہزار سال قبل جو کچھ بھی ہوتا رہا آج کے کھنڈرات اور وہاں سے ملنے والے نوادرات تو یہی بتاتے ہیں لیکن آج ہمارے سندھ میں گندم اور کپاس کی کاشت تو ہوتی ہے لیکن کاشت کاری کے لیے جن دشوار مراحل سے ہمارے کاشت کار گزرتے ہیں یہ تو وہی جانتے ہیں۔ آج ہم ''وڈیرے کا بیٹا'' کا گانا سن کر کھلکھلا کر ہنستے ہیں لیکن اس میں چھپا طنز محسوس نہیں کرتے۔ اس شہر نے اپنے کھنڈرات سے یہ بھی ظاہر کردیا کہ یہاں روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا تھا یا نہیں لیکن ماہرین کے مطابق اس شہر خموشاں کے ایک حصے میں بنے اچھی طرز کے تعمیر شدہ مکانات کو مزدوروں اور کارکنوں کے لیے مخصوص بنایا گیا۔
گویا مساوات اس قدر تھی کہ غریب مزدور اور کارکنوں کو اتنی اہمیت دی گئی تھی۔ پتہ نہیں اس دور میں الیکشن کے کیا طریقہ کار تھے، صرف منہ چڑھے کارکن سب کچھ بٹور لے جاتے تھے اور جانثار کارکن اپنے گھروں میں منہ لپیٹے اچھے وقتوں کو یاد کرکے آنسو بہاتے رہتے تھے۔ فتح سندھ کو باب الاسلام قرار دیا جاتا ہے، کیوںکہ اس وادی کو محمد بن قاسم نے مسلمانوں کے لیے ایک نئے دیس کا اضافہ کیا۔ یہ سرزمین اسلامی علماء، اولیاء اﷲ اور بزرگان دین کے حوالے سے بہت زرخیز ہے، نجانے کتنے بڑے بڑے قلندر تھے جن سے ہماری نوجوان نسل واقف ہی نہیں، مگر شکر ہے کہ عبداللطیف بھٹائی کا نام سندھ کے حوالے سے واضح نظر آتا ہے، اسی مٹی پر اسلام کی عظمت و جلال کے نشان چپے چپے پر ثبت ہیں، یہاں آج بھی خواتین پردے و روایات کی قائل ہیں، کل بھی سندھ میں علم و حرفت کے خزانے تھے اور آج بھی ہمارے پاس بہت کچھ ہے لیکن ''تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن '' علامہ اقبال نے ایسا کیوں فرمایا تھا؟
بہرحال سندھ فیسٹیول اچھا ہے ۔ ہمارے سندھ کی روایات میں بہت کچھ وہ شامل نہیں ہے جو شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ذرا اتنا لحاظ ضرور رکھیں ورنہ پھر بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا، فیسٹیول تو فیسٹیول ہوتا ہے۔ جیوے جیوے۔