بد نصیب ہے وہ سرزمین جسے……
آج ہم ایک ایسی اندھیری اور بند گلی میں پہنچ چکے ہیں جہاں سے باہر نکلنے کے لیے ہمیں راستہ نہیں ملتا۔
KARACHI:
بات دراصل یہ ہے کہ جمہوریت چھوت کی بیماری ہے جو مغرب سے آئی اور دنیا کے ان متعدد ملکوں کو لاحق ہوئی جو بادشاہت سے نو آبادیاتی نظام کے چنگل میں آئے اور اس سے رہا ہوئے تو انھیں جمہوریت کے سہانے خواب دکھائے گئے اور وہ ان خوابوں کے اسیر ہوئے، بیسویں صدی رخصت ہوگئی۔
اکیسویں صدی کے اکیس برس ہم گزار چکے، اس وقت بھی ایشیا اور افریقا کے متعدد ملکوں میں ''جمہوریت بحال کرو'' اور ''ہمیں آمرانہ طرز حکومت نہیں چاہیے'' کے نعرے لگ رہے ہیں۔ ہمارے یہاںبھی سنا ہے کہ عوام کادم لبوں پر ہے، اشرافیہ آرام سے ہے۔
امریکا کی پرانی اتحادی بعض جماعتیںاور امریکا کے کچھ ناراض دوست آج انقلاب لانے اور آخری سانس تک امریکی استعمار اور ان کے تابعدار بالا دست طبقات سے آزادی کی جنگ لڑنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ غرض سب کچھ حسب سابق ہے ،کچھ خاص نہیں بدلا۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے 47ء میں روشنی اور راحت کی تلاش کا سفر آغاز کیا تھا لیکن آہستہ آہستہ تاریکی اور خوف کا غلبہ بڑھتا گیا اور آج ہم ایک ایسی اندھیری اور بند گلی میں پہنچ چکے ہیں جہاں سے باہر نکلنے کے لیے ہمیں راستہ نہیں ملتا۔ غربت، جہالت، بیروزگاری ، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی چمگادڑیں ہم پر صبح وشام جھپٹتی ہیں، ہمارا لہو پیتی ہیں اور ہم چمگادڑوں سے نجات پانے کی سبیل کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے دست وگریباں ہوتے ہیں اور اسے اپنی بہادری سے تعبیر کرتے ہیں۔
ہم اس وقت جن اندھیروںمیں بھٹک رہے ہیں ایسے میں وہ لوگ یاد آتے ہیں جنھوں نے اپنے اپنے سماج کے اندھیرے میں خرد افروزی کے چراغ جلائے اور اس پر انھیں داد ملنے کے بجائے سزائیں دی گئیں۔ ان ہی میں سے ایک گالیلیو تھا۔ جسے عموماً ہمارے یہاں گلیلیو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
اس نے ایک ایسے زمانے میں جب عقیدہ راسخ تھا کہ دنیا چپٹی ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے ، یہ اعلان کیا کہ زمین گول ہے اور وہ اپنے محور پر سورج کے گرد گردش کرتی ہے اور اپنے اس کہے کی سزا پائی۔ وہ اب سے 446 برس پہلے پیدا ہوا اور آج سے 368 برس پہلے گزر گیا۔ اپنے دور کا ماہر طبیعات ، ریاضی کا استاد ، فلسفی اور موجد۔ ایک ایسا سائنس دان جس کی ایجادات سائنس اور ٹیکنالوجی کے انقلاب کا سبب بنیں۔
آج گالیلیو کی یاد بہ طور خاص اس لیے آئی کہ 1984 میں ہمارے ایک دانشور اور ادیب منصور سعید نے جرمن زبان کے مشہور ادیب برتولت بریخت کے ڈرامے ''گالیلیو'' کا ترجمہ کیا اور پھر اسے کراچی میں اسٹیج پر پیش کیا وہ کتاب میرے سامنے ہے۔ یہ جنرل ضیاء الحق کی حکمرانی کا تاریک دور تھا۔ جس میں سانس لینے اور آزادی سے اپنا نقطۂ نظر بیان کرنے پر بندش تھی۔
ایسے زمانے میں اس ڈرامے کا ترجمہ اور پھر اسٹیج پر اس کی پیشکش کسی بغاوت سے کم نہ تھی۔ اس ڈرامے کی ایسی پذیرائی ہوئی جس کی مثال کم کم ملتی ہے۔منصور سعید ہمارے درمیان نہیں اور کب کے اس دارفانی سے رخصت ہوچکے ہیںاور ان کا ترجمہ شدہ یہ ڈراما جو ان کے کاغذات میں دبا ہوا تھا ، اسے ان کی بیگم عابدہ اور ان کی بیٹی ثانیہ سعید نے ڈھونڈ کر نکالا ، مقتدرہ قومی زبان نے اسے شایع کیا ۔ اس کی اشاعت کے حوالے سے اس ڈرامے میں بنیادی کردار ادا کرنے والے اسلم اظہر نے منصور سعید اور ان کے بنائے ہوئے تھیٹر گروپ ''دستک'' کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ:
''ہم نے اپنے ڈراموں میں ''اسلوب'' کے اظہار کے لیے مختلف استعاروں اور علامتوں سے مدد لی۔ ان استعاروں اور علامتوں کی خوبی یہ تھی کہ حکمران اسے '' نام نہاد دانشوروں '' کی ہوائی باتیں خیال کرتے اور انھیں کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہ ہوتے ، اس کے برعکس طلبہ ، کارکن ، صحافی ، ادیب اور عمومی لوگ ان استعاروں اور علامتوں سے خوب محظوظ ہوتے اور اپنے ردعمل کا اظہار بھی کرتے۔بیسوی صدی میں استعارہ اور علامت نگاری کے نمایندہ عظیم ادیبوں میں سے ایک جرمن ڈراما نگار برتولت بریخت بھی تھے۔ ان کا شاہکار ڈراما ''گلیلیو کی زندگی'' استعارہ اور علامت نگاری کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ اس ڈرامے کو ''عوام بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ'' کے بنیادی نظریے کے حوالے سے تحریر کیا گیا تھا اور ہمارے مقاصد پورے کرنے کے لیے اس سے زیادہ کوئی موزوں فن پارہ نہیں ہوسکتا تھا۔''
''گلیلیو'' کو بریخت نے اس وقت لکھا جب نازی جرمنی میں فاشزم اپنے عروج پر تھا' اس وقت سے اب تک یہ ڈراما دنیا کے کئی ایسے ملکوں میں کھیلا گیا ہے جہاں فوج اور کلیساکی طرف سے خیال پر پہرے ہیں اور سنسر شپ کی کڑی پابندیاں ہیں۔ پاکستان میں یہ ڈراما 80ء کی دہائی سے کئی مرتبہ کھیلا گیا ہے اور ہر مرتبہ اس نے دیکھنے والوں کو متاثر کیا ' 2010میں اسے بہ زبانِ فارسی ایران میں پیش کیا گیا اور وہاں کی حبس زدہ فضا میں اس نے بے پناہ داد وصول کی۔ ایران میں پیش کیے جانے والے اس ڈرامے میں احمد شاملوکی شاعری بھی شامل کردی گئی تھی جس نے ایرانی ناظرین کو رونے پر مجبور کردیا۔
ایرانیوں نے شاہ کے ظلم وبربریت کا دور گزار کر جس نئے دورِ ستم کا سامنا کیا اور کررہے ہیں اسے نظر میں رکھیے تو بریخت کے اس ڈرامے کو اسٹیج کرنے کا فیصلہ بہت مشکل تھا اور وہاں کے سیاسی حالات میں بروقت بھی۔
اب سے دس برس پہلے منصور سعید کے ترجمہ شدہ اس ڈرامے کے کچھ حصے اسٹیج پر پیش کیے گئے جن میں لوگوں نے ان کی بیٹی اور ملک کی نامور اداکارہ ثانیہ سعید کی صداکاری اور اداکاری کی جھلکیاں دیکھیں۔ بریخت نے اس ڈرامے میں دو جملے لکھے ہیں۔ پہلا جملہ انڈریا کا ہے جو کلیسا کے سامنے گلیلیو کی معذرت کے صدمے سے نڈھال ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ معذرت دراصل سچ کا قتل ہے۔ انڈریا چیخ کر کہتا ہے ۔''بدنصیب ہے وہ سرزمین جہاں ہیرو جنم نہیںلیتے۔''
اس کا زہر میں بجھا ہوا یہ جملہ سن کر دل شکستہ گالیلیو کہتاہے:'' نہیں انڈریا! بدنصیب ہے وہ سرزمین جسے ہیرو کی ضرورت ہو۔''
گالیلیوکا یہ جملہ ہر اس سرزمین کے لیے سچا ہے جہاں عقل وخرد کا سفر رکا ہوا ہو اور جہاں لوگ ہیرو کی تلاش میں پھرتے ہوں۔ ہم بھی ایک ایسی ہی سرزمین پر رہتے ہیں۔ جہاںصبح وشام ہیرو تلاش کیے جاتے ہیں اور وہ ڈھونڈے سے ہاتھ نہیں آتے۔ گلیلیو نے اپنے مفلس اور بدحال لوگوں کے لیے ایک خواب دیکھا تھا' سائنس اور ٹیکنالوجی سے ہمکنار ہوجانے والے ایک ایسے سماج کا خواب جہاں ''موچی کاکام تھا جوتے بنانا...پر اب خود اس کے پاؤں میں ہیں جوتے... بدلے کسان جب بدلا زمانہ...اب فصل بھی اپنے لیے ہیں بوتے...جودودھ مالکوں کو تھا پلانا...اب اپنے بچوں کو ہیں دیتے...اورحد تو یہ کہ تعمیر راج مزدور نے کیا جو گھر...کمبخت نے خود قبضہ کرلیا اس پر...اور کون نہ بننا چاہے گا...خود اپنا مالک اور آقا؟''
دنیا اور انسان نے لاکھوںسال کے ارتقاء کا پرپیچ سفر طے کیا ہے۔ جہاں تک سماج اور معاشرے کا تعلق ہے تو اس کو وجودمیں آئے ہوئے چند ہزار سال ہی ہوئے ہیں۔ کھیتی باڑی کا آغاز ہوا تو انسانوں نے بستیاں آباد کیں۔ معاشرہ بڑی سست رفتاری سے آگے بڑھتا رہا۔ سیکڑوں سال کے بعد ہی کوئی بڑی تبدیلی یا ایجاد سامنے آتی تھی لیکن آج سے چند سوسال پہلے سماج نے کروٹ بدلی۔ پیداواری طور طریقے بدلے، نت نئی ایجادات ہوئیں، سائنس اور ٹیکنالوجی میں تیز رفتار پیش رفت ہونے لگی اور 20 ویں صدی تک پوری دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا۔
ہر ملک اور معاشرے کی مجبوری بن گئی کہ اسے ترقی کرنی ہے تو اپنے اندر بنیادی نوعیت کی تبدیلی لائے۔ جن ملکوں نے یہ کام کرلیا وہ آگے نکل گئے اور جو ایسا کرنے میں ناکام رہے وہ 21 ویں صدی میں بھی پسماندگی کی دلدل سے باہر نہیں نکل سکے۔ ہمارا شمار بھی ایسے ہی ملکوں میں کیا جانے لگا ہے۔
یہ سچ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جو قومیں خود کچھ کرنے اور آگے بڑھنے سے ڈرتی ہیں۔ وہ ہیرو کی تلاش میں رہتی ہیںہیرو پر انحصار ایک خطرناک جوا ہے کیونکہ ہیرو بننے والے ہی بالآخر ولن ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ آج کل ہم کئی ملکوں میں دیکھ رہے ہیں۔ واقعی بدنصیب ہے وہ سرزمین جسے ہیرو کی ضرورت ہو۔کیا ہم ایک ایسی ہی سرزمین پر رہتے ہیں؟