کراچی میں دودھ کے نرخوں کا مسئلہ
کراچی میں کھلے دودھ اور دہی کے نرخ پنجاب کے شہروں سے مختلف ہیں۔
گزشتہ دو برس سے کراچی میں دودھ کے تاجروں اور کراچی انتظامیہ کا رویہ شہریوںکے لیے مسئلہ بنا ہوا ہے۔
کراچی کی انتظامیہ دودھ کی قیمتوں کا تعین نہیں پا کررہی اور اس میں پانچ گرمیاں، سردیاں گزرنے کے بعد پھر سردیاں آگئیں اور دو سالوں سے دودھ کے نرخوں کا یہ اہم مسئلہ عدالت عالیہ میں بھی زیر سماعت ہے جہاں کمشنر کراچی کی مصروفیت یا جان بوجھ کر کی جانے والی تاخیر دودھ کا نیا نرخ مقرر نہیں ہونے دے رہی اور اب بھی 2019 میں کراچی انتظامیہ کی طرف سے مقرر کیا جانے والا سرکاری نرخ 94 روپے لیٹر سرکاری طور برقرار تو ہے مگر عملاً صورتحال مختلف ہے۔
کراچی انتظامیہ اپنے فیصلے پر عمل درآمد نہ کراس کی اور کراچی میں کھلے دودھ کی قیمت ڈیڑھ سو روپے لیٹر اور دہی کی قیمت ڈھائی سو روپے کلو تک ہے اور عدالت عالیہ خود نرخ مقرر کرنے کے بجائے کمشنر کراچی کے جواب کی منتظر ہے۔
کراچی میں کھلے دودھ اور دہی کے نرخ پنجاب کے شہروں سے مختلف ہیں۔ پنجاب میں دہی کا استعمال دیگر صوبوں سے زیادہ ہے، لاہور میں دہی کا نرخ ایک سو تیس روپے فی کلو گرام ہے جب کہ دودھ کی ایک سو بیس روپے فی لیٹر فروخت ہورہا ہے۔ کراچی شہر میں دہی دودھ سے مہنگی فروخت کی جاتی ہے۔
کراچی میں ہمیشہ نئے سال کے آغاز پر دودھ اور دہی کے نرخ بڑھا دیے جاتے تھے اور جب شہری نرخ بڑھنے پر احتجاج یا عدالت سے رجوع کرتے تھے تو کراچی انتظامیہ دکھاؤے کا ایکشن لیتی تھی اور اپنے مقررہ کردہ نرخوں کی خلاف ورزی پر اپنے افسروں کے ذریعے دودھ کی دکانوں پر جرمانے کرا کر سرکاری آمدنی میں اضافہ کرلیتی تھی اور مجسٹریٹوں کے ساتھ آنے والا عملہ بھی کام دکھاتا تھا اور جرمانے کی رقم کم کراکر اپنی جیب زیادہ بھرنے اور صاحب کو خوش رکھنے کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔
جب بھی کراچی انتظامیہ دودھ کے تاجروں پر جرمانے کرتی ہے وہ جرمانہ ادا کرکے دودھ میں ملاوٹ بڑھا دیتے ہیں اور سرکاری جرمانوں سے سرکاری آمدنی ضرور بڑھتی ہے مگر عوام کو فائدہ نہیں ہوتا اور وہ بڑھے ہوئے نرخوں پر ہی دودھ خریدتے ہیں۔
کراچی میں مہنگا دودھ فروخت کی باتیں تو ہوتی ہیں مگر دودھ میں ملاوٹ کی کوئی بات کرتا ہے نہ دودھ کا معیار چیک کرنے والے سرکاری ادارے کی کارروائی کہیں نظر آتی ہے کیونکہ دودھ کے نرخ کراچی انتظامیہ مقرر کرتی ہے جس کا دودھ کے معیار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور دودھ کا معیار چیک کرنے والا سرکاری عملہ غائب یا سویا رہتا ہے کیوں کہ ان کا ماہانہ طے ہوتا ہے جو ماہانہ نہیں دیتا، اس کا کبھی کبھی دودھ چیک کرلیا جاتا ہو مگر اس کی خبریں کبھی ظاہر نہیں ہوتیں۔
سرکاری لیبارٹری سے دودھ میں ملاوٹ ثابت نہیں ہوتی جب کہ پنجاب میں متحرک پنجاب فوڈ اتھارٹی کے چھاپوں کی خبریں میڈیا پر اکثر آتی ہیں ۔ میڈیا کی خبروں میں عوام کو بتایا جاتا کہ دیہاتوں سے شہروں میں لایا جانے والا اتنے من دودھ مضر صحت اور غیر معیاری تھا جسے سرکاری افسروں اور عملے کی نگرانی میں ندی نالوں میں بہا کر ضایع کردیا جاتا ہے ۔یہ خبریں سرکاری ہوتی ہیں جنھیں رپورٹر حضرات اپنے کریڈٹ لائن سے چھپواتے ہیں۔ ایسی خبریں اخبارات میں شایع ہونے کے علاوہ ٹی وی اسکرینوں پر بھی نظر آتی ہیں۔
گرمیاں دودھ کا سیزن شمار ہوتی ہیں، جس میں دودھ کی فروخت اور سردیوں میں کم ہوتی ہے اس لیے گرمیوں میں دودھ کے نرخ بڑھائے اور سردیوں میں کم کردیے جاتے ہیں مگر ایک مخصوص نام کی خوب صورت بنی ہوئی دکانوں کے نرخ زیادہ اور سال بھر ایک ہی رہتے ہیں اور وہ دودھ بھی مہنگا ہی فروخت کرتے ہیں جب کہ سردی گرمی بے شمار دکانوں کے نرخ تبدیل بھی ہوتے ہیں اور سردیوں میں کھپت کم ہونے اور مقابلہ بازی میں نرخ کم یا ایک لیٹر دودھ کی خریداری پر اضافی دودھ دینے سے عوام کا فائدہ ہوجاتا ہے۔
کراچی انتظامیہ کی اس بار نااہلی کا ریکارڈ قائم کیا ہے جو نئے نرخ مقرر کررہی ہے نہ عدالت کو مطمئن کررہی ہے، اس تاخیر نے شہریوں کا جینا مشکل کر رکھا ہے اور وہ شہر میں مختلف نرخوں پر دودھ خریدنے پر مجبور ہیں۔