ہائی پرفارمنس سینٹرکی لو پرفارمنس

رمیز راجہ افسران کی بھاری تنخواہیں دیکھ کر بھی حیران ہیں،خصوصا وسیم خان کیلیے تو پی سی بی نوٹ چھاپنے کی مشین ثابت ہوا۔


Saleem Khaliq November 24, 2021
رمیز راجہ افسران کی بھاری تنخواہیں دیکھ کر بھی حیران ہیں،خصوصا وسیم خان کیلیے تو پی سی بی نوٹ چھاپنے کی مشین ثابت ہوا۔ فوٹو: فائل

''آج تو کوئی میچ نہیں ہے،ڈنر ساتھ کرتے ہیں، کچھ اور دوست بھی یو اے ای آئے ہوئے ہیں ان سے بھی ملاقات ہو جائے گی''

ورلڈکپ کے دوران دبئی میں ایک دوست نے دعوت دی جسے میں نے قبول کر لیا، وہاں بعض اور لوگ بھی موجود تھے،سیاست کا موضوع چھڑ گیا، برطانیہ اور امریکا سے تعلق رکھنے والے ''پاکستانیوں''کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت بہترین حالات ہیں، حکومت نے عام آدمی کی زندگی بدل دی،کرپشن اور مہنگائی ختم ہو گئی، جلد ملک یورپ جیسا ہو جائے گا،ایک صاحب نے ان سے کہا کہ ''جناب آپ آخری بار کب پاکستان گئے تھے؟ کیا آپ کو زمینی حقائق کا علم ہے۔

ڈالر یا پاؤنڈ میں کما کر آئیں گے تو سب اچھا لگے گا کیونکہ ہماری کرنسی ڈی ویلیو ہو چکی ہے، ایسا کریں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چند برس کے لیے پاکستان آ جائیں پھر آٹے دال کا بھاؤ پتا چل جائے گا، یہ سن کر امریکی اور برطانوی ''پاکستانی'' بھائیوں کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور وہ کہنے لگے ''تم لوگ کرپٹ سسٹم میں ہی رہنے کے عادی ہو سچے لیڈرز کی قدر ہی نہیں ہے'' اس سے پہلے کے ماحول اور کشیدہ ہوتا میزبان نے کھانا لگنے کا اعلان کر کے سب کو وہاں سے ہٹایا اور وعدہ لیا کہ اب سیاست پر بات نہیں ہو گی صرف کرکٹ پر تبادلہ خیال کریں۔

دیار غیر میں مقیم ہمارے پاکستانی بھائی، بہن جس طرح ملک کے اصل حالات سے واقف نہیں ویسے ہی انھیں کرکٹ کے مسائل کا بھی اتنا پتا نہیں ہوتا، وہ سمجھتے تھے کہ انگلینڈ سے وسیم خان اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آئے اور کرکٹ کو بہتر بنانے کیلیے ایڑی چوٹی کا زور لگا لیا مگر ان کی وہاں قدر نہ ہوئی اور اس ''بیچارے'' کو اپنے وطن واپس جانا پڑا،البتہ اگر آپ سچ جاننا چاہتے ہیں تو نئے چیئرمین رمیز راجہ سے پوچھ لیں، وہ بیچارے پاکستان کرکٹ بورڈ کی ابتر حالت کو دیکھ کر سر پکڑے بیٹھے ہیں، انھیں بیک وقت سی ای او کا کام کرنے کے ساتھ میڈیا،مارکیٹنگ، انٹرنیشنل کرکٹ،پی ایس ایل وغیرہ سب معاملات خود دیکھنے پڑ رہے ہیں، وہ جہاں جائیں مسائل کا انبار لگا نظر آتا ہے، اسی لیے رمیز کی کوشش ہے کہ خاموشی سے کام کرتے رہیں۔

البتہ اس کیلیے ضروری ہے کہ اچھی ٹیم بنائی جائے، گوکہ بہت سے لوگوں کو گھر بھیج دیا گیا مگر اب بھی سابقہ بورڈ کی کئی ''باقیات'' برقرار ہیں، بعض لوگ سفارشیں لگوا کر نوکری بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، کچھ کا کہنا ہے کہ چند ماہ کا کنٹریکٹ باقی ہے ہمیں نکالیں نہیں دوسری ملازمت پانے میں مشکل ہو گی، معاہدے کی تکمیل پر ہم خود چلے جائیں گے، ایک اچھی ٹیم بنانے کے بعد ہی رمیز راجہ پاکستان کرکٹ کو بہتری کی راہ پر گامزن کر سکیں گے، بدقسمتی سے سابقہ بورڈ حکام کے دور میں ایسا نہیں ہوا، ان کی کوشش تھی کہ اچھی ٹیم نہیں اپنی ٹیم بنائیں۔

اگر کسی کے پاس غیر ملکی پاسپورٹ ہو تو ملازمت تقریباً پکی، برطانوی ہونا تو بڑی پوسٹ کیلیے یقینی تھا، ہائی پرفارمنس سینٹر کو ہی دیکھ لیں، نیشنل کرکٹ اکیڈمی کو نئے لیبل میں پیش کیا گیا،پرفارمنس کیا رہی یہ جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، برطانوی نڑاد ندیم خان کو ڈائریکٹر بنایا گیا جنھوں نے کیریئر میں 2 ٹیسٹ اور اتنے ہی ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلے تھے، گرانٹ بریڈبرن کا بطورہیڈ آف ہائی پرفارمنس کوچنگ تقرر ہوا، برطانوی نڑاد ثقلین مشتاق، محمد زاہد اور عتیق الزماں کو مختلف ذمہ داریاں سونپی گئیں، ثقلین کی قابلیت پر شک نہیں مگر یہاں ان کے انتخاب کی بڑی وجہ پاسپورٹ تھا،ایچ پی سی سے ایک، ایک کر کے سب غیرملکی سامان پیک کرکے جاتے رہے یا بھیجا جا رہا ہے۔

محمد یوسف عظیم بیٹسمین رہے مگر کپتانی کی طرح کوچنگ میں ان کی اہلیت کا سب کو علم ہے، وہ میڈیا میں بورڈ آفیشلز پر تنقید کے نشتر برساتے تھے اس لیے ملازمت دے دی گئی، ان سب کی کیا کارکردگی رہی؟ کتنے کھلاڑیوں کی صلاحیتیں نکھاریں؟ ملک کو کون سا ٹیلنٹ فراہم کیا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ ملک میں ہائی پرفارمنس سینٹر کی موجودگی کے باوجود شان مسعود کو آؤٹ آف فارم ہونے پر خامیاں دور کرنے کیلیے جنوبی افریقہ میں گیری کرسٹن کی اکیڈمی جانا پڑا؟ میڈیا کے شور مچانے سے قبل آپ نے کتنی بار اسد شفیق کو بلایا کہ بیٹا آؤ ہم بیٹنگ میں تمہارے مسائل حل کرتے ہیں۔

کوچز کے تقرر میں بھی ایسا ہی ہوا،گورا بریڈ برن بھی پاکستانی رنگ میں رنگ گیا تھا، اپنوں کو نوازا گیا اور کئی باصلاحیت کوچز سفارش نہ ہونے کے سبب ہاتھ ملتے رہ گئے، داغدار ماضی والے بعض کوچز کو کام بھی مل گیا، میڈیا میں بیانات دینے کی وجہ سے مشہور باسط علی منظور نظر رہے جبکہ جاوید میانداد کو خاموش رکھنے کیلیے بھانجے فیصل اقبال کو خوب نوازا گیا، نتیجہ یہ نکلا کہ بس ہاتھا پائی کی نوبت باقی رہ گئی، کھلاڑیوں کے دل میں کوچ کا احترام ہی موجود نہیں، عزت خود کرانے سے ملتی ہے، آپ زبردستی کر کے کسی کو مجبور نہیں کر سکتے۔

قائداعظم ٹرافی کو چھوڑ کر فیصل اب ابوظبی ٹی ٹین لیگ میں خدمات انجام دے رہے ہیں، کیا کسی نے ان سے کچھ پوچھا،اعظم خان کی صلاحیتیں نکھارنے کیلیے من پسند ڈومیسٹک ٹیم میں بھیجا گیا جہاں کمپی ٹیشن نہ ہو،کیا ڈائریکٹر صاحب کے کہنے پر ایسا نہیں ہوا؟ ندیم خان ہی ہائی پرفارمنس سینٹر کے ساتھ شعبہ ڈومیسٹک کرکٹ کے معاملات بھی دیکھ رہے ہیں، کہا گیا کہ کوانٹٹی کم اور کوالٹی بڑھے گی، کیا بہتری آئی؟

رواں برس قائد اعظم ٹرافی کے5راؤنڈز میں صرف ایک میچ کا ہی نتیجہ برآمد ہوا ہے،35 سنچریاں بن گئیں،کیا پاکستان میں اتنے بریڈ مین آ گئے؟ اس سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں ورلڈکلاس بیٹسمینوں کا انبار لگا ہے مگر سچ سب جانتے ہیں، پچز میں بھی کوئی بہتری نہیں آئی۔

رمیز راجہ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں کوئی اور ہوتا تو اتنے مسائل دیکھ کر واپس چلا جاتا مگر مجھے امید ہے وہ بہتری کیلیے ہرممکن کوشش کریں گے، پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، آپ اہل افراد کو موقع دیں،اگر کسی شعبے کیلیے کوئی قابل شخص پورے ملک میں نہ ملے تو بے شک امریکا سے بلا لیں،مگر غیرملکی اپنے نوٹ کھرے کر کر چلے جاتے ہیں، انھوں نے اپنا پروفائل اور ڈالرز بنائے، اب پی سی بی کی ملازمت کے تجربے پر ان کو کوئی اور بھی نوکری دیدے گا، مگر انھوں نے ہماری کرکٹ کے لیے کچھ نہیں کیا۔ البتہ انھیں نجات دہندہ کے روپ میں ان کے دوست میڈیا پر پیش کرتے رہے۔

رمیز راجہ افسران کی بھاری تنخواہیں دیکھ کر بھی حیران ہیں،خصوصا وسیم خان کیلیے تو پی سی بی نوٹ چھاپنے کی مشین ثابت ہوا، چیئرمین خود اعزازی طور پر کام کر رہے ہیں، انھیں نئے لوگوں کو ان کی اہلیت کے مطابق تنخواہیں دینی چاہئیں، موجودہ آفیشلز بھی جو اہلیت سے زیادہ رقوم لے رہے ہیں ان کے تنخواہ میں بھی کمی لائیں، آپ بہتر کام کر سکتے ہیں راجہ صاحب، بس ایسے لوگوں سے بچ کر رہیں جو سابقہ حکام کی بھی جی حضوری کر کے اپنی سیٹ بچاتے رہے،آستینیں جھاڑتے رہیں، اچھے لوگوں کو سامنے لائیں یقیناً جلد پی سی بی میں بہتری آئے گی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں