احتساب کا وقت آگیا غفلت برتنے والے افسران کو گھر بھیج دیں گے سیکریٹری بلدیات
شہرکی حالت بہتربنانےکی ہدایت،حیدرآباد میونسپل کارپوریشن، ایچ ڈی اے ، واسا سمیت دیگر اداروں کی کارکردگی پر عدم اطمینان
صوبائی سیکریٹری بلدیات جاوید حنیف نے حیدرآباد میونسپل کارپوریشن، حیدرآباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی ، واسا سمیت دیگر اداروں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہر میں صفائی، نکاسی و فراہمی آب کی صورتحال انتہائی خراب ہے ۔
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ متعلقہ ادارے غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ ڈویژنل کمشنر جمال مصطفی سید، ڈپٹی کمشنر محمد نواز سوہو، و دیگر افسران کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عوامی شکایات کا انبار ہے، شہر کی صورتحال جائزہ لینے کے بعد اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ شکایات حقیقت پر مبنی ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیاکہ افسران اپنی ذمے داریاں بہتر طریقے سے ادا نہیں کر رہے ، افسران کی کوتاہی کے ساتھ ساتھ انفرا اسٹرکچر، وسائل اور ملازمین کی کمی بھی مسائل کے حل کی راہ میں حائل ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ افسران کے احتساب کا وقت آ گیا ، شہرکی حالت کو فوری بہتر کیا جائے، کوتاہی برتنے والوں کو گھر بھیج دیا جائے گا۔ انہوں نے ہدایت کی کہ نکاسی آب کیلیے از سر نو منصوبہ بندی کی جائے ۔ واسا نمائندوں نے بتایا کہ وادھو واہ کے اوور فلو ہونے کی سب سے بڑی وجہ صفائی نہ ہونا اور نئے نالوں کا پانی وادھو واہ میں گرنا ہے۔ انہوں نے بتایا شہر میں ایک لاکھ 10 ہزار فراہمی آب کے کنکشن ہیں ، روزانہ 6 کروڑ گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے لیکن بل نہ ملنے اور بجٹ کا بڑا حصہ تنخواہوں پر خرچ کرنے سے ادارے کو مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ 25 ملین روپے سرکاری محکموں پر واجب الادا ہیں جبکہ 50 ملین بجلی کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں۔ ڈویژنل کمشنر نے کہا کہ وادھو واہ کے اوور فلو ہونے کی بنیادی وجہ مناسب نگرانی نہ کرنا ہے۔
ڈی سی نے شکایت کی کہ ایچ ڈی اے بلڈرز اور نالوں کے جاری کردہ این او سی کا ریکارڈ بھی ضلعی انتظامیہ کو نہیں دیتا جس پر صوبائی سیکریٹری نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کمشنر کو ہدایت کی کہ 2004 سے جاری تمام این او سیز کی انکوائری کرائی جائے،غیر قانونی این او سی پر افسران کو معطل کیا جائیگا۔ انہوں نے ایچ ڈی اے نمائندوں کو ہدایت کی کہ 3 روز میں یہ رپورٹ جمع کروائیں کہ اس ادارے کا قائم رہنا کیوں ضروری ہے، کیوں کہ اس وقت بلڈرز کو این او سی دینے کے علاوہ کوئی کارکردگی واضح نہیں، اس لیے کیوں نہ ایچ ڈی اے کو ختم کر کے تمام کام، ایچ ایم سی کو دے دیے جائیں۔ انہوں نے ہدایت کی کہ اشتہاری بورڈز سے متعلق پالیسی واضح کی جائے اور اہم شاہراہوں پر بل بورڈ یا سائن بورڈ کے نرخ دوبارہ مقرر کیے جائیں تاکہ آمدنی میں اضافہ ہو۔ اجلاس میں آئندہ مون سون بارشوں سے متعلق بھی غور و خوص کیاگیا۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں ایک بار پھر ڈویژنل و ضلعی انتظامیہ نے بلدیہ سے بیزاری کا ثبوت دیا اور سیکریٹری بلدیات کے سامنے موقف رکھا کہ شدید مالی بحران کا شکار بلدیہ اعلی کو فنڈز کی ضرورت نہیں ۔
سیکریٹری بلدیات جو دراصل صوبائی وزیر جام خان شورو کی جانب سے تعلقہ قاسم آباد کی5 یونین کونسلز پر مشتمل علاقے کیلیے ساڑھے 4 ارب روپے سے بچھائی جانیوالی سیوریج لائن میں غبن کی نشاندہی پر تحقیقات کیلیے آئے تھے اور دوران اجلاس زیادہ تر اسی ایجنڈے پر بات بھی رہی کہ ایچ ڈی اے نے وہاں بغیر کسی منصوبہ بندی کیثر المنزلہ عمارات کیلیے این او سی جاری کر کے معاملے کو سنگین تر بنا دیا ہے۔ایک مرحلے پر جب سیکریٹری بلدیات نے ایچ ایم سی کیلیے رواں سال اے ڈی پی میں رکھی گئی اسکیموں اور فنڈز کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو بتایا گیا کہ 37 یو سیز پر مشتمل حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کیلیے ضلعی و ڈویژنل انتظامیہ نے 92 لاکھ روپے کی صرف ایک اسکیم منظور کی۔
جس کی مد میں صرف 25 لاکھ روپے فراہم کیے گئے ہیں تو سیکریٹری بلدیات اپنی حیرت پر قابو نہ رکھ سکے۔ سیکریٹری بلدیات نے معلوم کیا کہ کرایے اور ایڈورٹائزمنٹ سے آمدنی کی کیا تفصیلات ہیں۔ جس پر انہیں بتایا گیا کہ بلدیہ نے املاک کے کرایوں میں اضافہ کیا تو کرایہ دار، عدالتوں میں چلے گئے جبکہ ماضی میں لطیف آباد اور سٹی کے ٹھیکوں سے بھی خاطر خواہ آمدنی نہیں ہوئی۔ سیکریٹری نے واسا پر واضح کر دیا کہ وہ ابھی سے مون سون بارشوں کیلیے انتظامات کر کے رکھے۔ بعد ازاں جاوید حنیف نے کمشنر اور دیگر افسران کے ہمراہ شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور صورتحال کا جائزہ لیا۔
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ متعلقہ ادارے غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ ڈویژنل کمشنر جمال مصطفی سید، ڈپٹی کمشنر محمد نواز سوہو، و دیگر افسران کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عوامی شکایات کا انبار ہے، شہر کی صورتحال جائزہ لینے کے بعد اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ شکایات حقیقت پر مبنی ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیاکہ افسران اپنی ذمے داریاں بہتر طریقے سے ادا نہیں کر رہے ، افسران کی کوتاہی کے ساتھ ساتھ انفرا اسٹرکچر، وسائل اور ملازمین کی کمی بھی مسائل کے حل کی راہ میں حائل ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ افسران کے احتساب کا وقت آ گیا ، شہرکی حالت کو فوری بہتر کیا جائے، کوتاہی برتنے والوں کو گھر بھیج دیا جائے گا۔ انہوں نے ہدایت کی کہ نکاسی آب کیلیے از سر نو منصوبہ بندی کی جائے ۔ واسا نمائندوں نے بتایا کہ وادھو واہ کے اوور فلو ہونے کی سب سے بڑی وجہ صفائی نہ ہونا اور نئے نالوں کا پانی وادھو واہ میں گرنا ہے۔ انہوں نے بتایا شہر میں ایک لاکھ 10 ہزار فراہمی آب کے کنکشن ہیں ، روزانہ 6 کروڑ گیلن پانی فراہم کیا جاتا ہے لیکن بل نہ ملنے اور بجٹ کا بڑا حصہ تنخواہوں پر خرچ کرنے سے ادارے کو مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ 25 ملین روپے سرکاری محکموں پر واجب الادا ہیں جبکہ 50 ملین بجلی کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں۔ ڈویژنل کمشنر نے کہا کہ وادھو واہ کے اوور فلو ہونے کی بنیادی وجہ مناسب نگرانی نہ کرنا ہے۔
ڈی سی نے شکایت کی کہ ایچ ڈی اے بلڈرز اور نالوں کے جاری کردہ این او سی کا ریکارڈ بھی ضلعی انتظامیہ کو نہیں دیتا جس پر صوبائی سیکریٹری نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کمشنر کو ہدایت کی کہ 2004 سے جاری تمام این او سیز کی انکوائری کرائی جائے،غیر قانونی این او سی پر افسران کو معطل کیا جائیگا۔ انہوں نے ایچ ڈی اے نمائندوں کو ہدایت کی کہ 3 روز میں یہ رپورٹ جمع کروائیں کہ اس ادارے کا قائم رہنا کیوں ضروری ہے، کیوں کہ اس وقت بلڈرز کو این او سی دینے کے علاوہ کوئی کارکردگی واضح نہیں، اس لیے کیوں نہ ایچ ڈی اے کو ختم کر کے تمام کام، ایچ ایم سی کو دے دیے جائیں۔ انہوں نے ہدایت کی کہ اشتہاری بورڈز سے متعلق پالیسی واضح کی جائے اور اہم شاہراہوں پر بل بورڈ یا سائن بورڈ کے نرخ دوبارہ مقرر کیے جائیں تاکہ آمدنی میں اضافہ ہو۔ اجلاس میں آئندہ مون سون بارشوں سے متعلق بھی غور و خوص کیاگیا۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں ایک بار پھر ڈویژنل و ضلعی انتظامیہ نے بلدیہ سے بیزاری کا ثبوت دیا اور سیکریٹری بلدیات کے سامنے موقف رکھا کہ شدید مالی بحران کا شکار بلدیہ اعلی کو فنڈز کی ضرورت نہیں ۔
سیکریٹری بلدیات جو دراصل صوبائی وزیر جام خان شورو کی جانب سے تعلقہ قاسم آباد کی5 یونین کونسلز پر مشتمل علاقے کیلیے ساڑھے 4 ارب روپے سے بچھائی جانیوالی سیوریج لائن میں غبن کی نشاندہی پر تحقیقات کیلیے آئے تھے اور دوران اجلاس زیادہ تر اسی ایجنڈے پر بات بھی رہی کہ ایچ ڈی اے نے وہاں بغیر کسی منصوبہ بندی کیثر المنزلہ عمارات کیلیے این او سی جاری کر کے معاملے کو سنگین تر بنا دیا ہے۔ایک مرحلے پر جب سیکریٹری بلدیات نے ایچ ایم سی کیلیے رواں سال اے ڈی پی میں رکھی گئی اسکیموں اور فنڈز کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو بتایا گیا کہ 37 یو سیز پر مشتمل حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کیلیے ضلعی و ڈویژنل انتظامیہ نے 92 لاکھ روپے کی صرف ایک اسکیم منظور کی۔
جس کی مد میں صرف 25 لاکھ روپے فراہم کیے گئے ہیں تو سیکریٹری بلدیات اپنی حیرت پر قابو نہ رکھ سکے۔ سیکریٹری بلدیات نے معلوم کیا کہ کرایے اور ایڈورٹائزمنٹ سے آمدنی کی کیا تفصیلات ہیں۔ جس پر انہیں بتایا گیا کہ بلدیہ نے املاک کے کرایوں میں اضافہ کیا تو کرایہ دار، عدالتوں میں چلے گئے جبکہ ماضی میں لطیف آباد اور سٹی کے ٹھیکوں سے بھی خاطر خواہ آمدنی نہیں ہوئی۔ سیکریٹری نے واسا پر واضح کر دیا کہ وہ ابھی سے مون سون بارشوں کیلیے انتظامات کر کے رکھے۔ بعد ازاں جاوید حنیف نے کمشنر اور دیگر افسران کے ہمراہ شہر کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا اور صورتحال کا جائزہ لیا۔