تم ہی سے اے مجاہدو جہاں کا ثبات ہے… مریم مختار شہید

پاک وطن کی اس دلیر بیٹی نے جان کی قربانی دے کر دفاع پاکستان پر مامور ہر مرد و عورت کا سر فخر سے بلند کردیا


توقیر کھرل November 24, 2021
پاک وطن کی اس دلیر بیٹی نے جان کی قربانی دے کر دفاع پاکستان پر مامور ہر مرد و عورت کا سر فخر سے بلند کردیا۔ (فوٹو: فائل)

فائٹر پائلٹ مریم مختار کا شمار لڑاکا طیارے کی ان پانچ خواتین پائلٹس میں ہوتا تھا جنہیں محاذِ جنگ تک جانے کی اجازت تھی۔ آج ان کی چھٹی برسی ہے۔

کراچی میں پیدا ہونے والی مریم مختار نے اپنے والد صاحب کرنل (ریٹائرڈ) مختار احمد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے فوج میں جانے کا فیصلہ کیا۔

یہ ایک طویل اور مشکل سفر تھا، مگر کہتے ہیں ناں کہ ہر کام کو کرنے کےلیے بس جذبہ ہونا چاہیے۔ ان کا جذبہ ہی ان کی طاقت تھا۔

مریم کے والد کرنل (ر) مختار احمد کہتے ہیں، ''میں نے اپنی بیٹی سے کہا کہ اگر تمہیں ایئرفورس میں جانا ہے تو یہ جان لو کہ اس میں مشکلات ہوتی ہیں، پائلٹ کی زندگی رسک پر ہوتی ہے۔'' اس کے جواب میں مریم نے کہا، ''فرض کیجیے اگر کسی سفر کے دوران میں مجھے کچھ ہوجائے تو آپ تب کیا کریں گے؟''

اس جواب کے بعد مریم کے والد نے انہیں ایئرفورس جوائن کرنے کی اجازت دے دی اور کامیابی کی دعا بھی دی۔

مریم کی والدہ بتاتی ہیں کہ مریم ہماری دوسری بیٹی تھی، اس کی پیدائش پر ہم نے مٹھائی بانٹی اور اس رحمتِ خداوندی کی آمد پر خوشی کا اظہا کیا تھا۔ ''جب مریم کا فورسز جوائن کرنے کا ٹیسٹ پاس ہوا تو مریم نے مجھے کہا کہ میری پیدائش پر جو مٹھائی بانٹی تھی، آج اس کا حق ادا ہوگیا،'' مریم کی والدہ نے بتایا۔

مریم مختار شہید کے بھائی کہتے ہیں کہ مریم نے ٹریننگ کے دوران بھی ہم سے رابطہ منقطع نہیں کیا۔ وہ ہر ایک کو کال کرنا نہیں بھولتی تھی، وہ بہت خوش مزاج تھی۔

شہید مریم کی بہن اور والد بتاتے ہیں کہ وہ اکیڈمی میں ہونے والی تمام سرگرمیوں کے بارے میں بہت مثبت انداز میں بتایا کرتی تھی اور ہم بغور سنتے تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہم بھی اکیڈمی کا حصہ ہیں اور خود کو وہاں محسوس کرتے تھے۔

''تم ہی سے اے مجاہدو، جہاں کا ثبات ہے'' مریم کا پسندیدہ ترین ملّی نغمہ تھا۔ وہ ہر وقت اسے سننا پسند کرتی تھی۔

پائلٹ مارخ، مریم مختار کی کورس میٹ رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ بہت پُرعزم اور پختہ ارادے کی مالک تھی، فیاض دل تھی، اور مستحق لوگوں کی مدد کرنا اس کی عادات میں شامل تھا۔

مریم کی والدہ بتاتی ہیں کہ آخری فلائنگ سے قبل ہمیشہ کی طرح مریم نے بتایا کہ میں جارہی ہوں، اگر آگئی تو آپ کو فون کرلو گی اور اگر میں نہیں آئی تو سمجھیے گا کہ میں شہید ہوگئی ہوں۔ ''میں نے مریم کی شہادت کی خبر سنی تو بیٹی کی وطنِ عزیز کےلیے قربانی کی قبولیت کےلیے نوافل ادا کیے،'' مریم کی والدہ نے بتایا۔

شہادت سے چند ماہ قبل مریم مختار نے نجی ٹی وی چینل کی رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اپنے وطن سے بے حد پیار کرتی ہوں، ''اگر ملک کی خاطر جان بھی قربان کرنا پڑی تو کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گی۔''

شہید مریم کے والد کہتے ہیں کہ مریم کی شہادت کے بعد ''اب میں کرنل (ر) نہیں بلکہ اب ہماری پہچان مریم بن چکی ہے۔''

میں یہاں ضرور بتانا چاہوں گا کہ مریم کی دوسری کلاس میٹ کا مریم کی شہادت کے بعد جذبہ بلند ہوا ہے۔

24 نومبر 2015 کی صبح مریم اپنے انسٹرکٹر ثاقب عباسی کے ساتھ معمول کی مشق پر روانہ ہوئیں۔

جب وہ ضلع گجرات کی فضاؤں میں پرواز کررہے تھے تو اچانک انجن میں آگ لگ گئی اور وہ دھڑا دھڑ جلنے لگا۔

اس سنگین صورت حال میں ضروری ہوتا ہے کہ پائلٹ جہاز سے فوراً باہر چھلانگ لگادے، تبھی اس کی جان بچ سکتی ہے۔ مگر مریم شہید اور ثاقب عباسی کے ضمیر نے فوراً چھلانگ لگانا گوارا نہ کیا۔

دراصل اس وقت ان کا طیارہ آبادی کے عین اوپر اڑ رہا تھا۔ اس کے پرے کھیت واقع تھے۔

دونوں بہادر پائلٹوں نے فیصلہ کیا کہ چھلانگ لگانے کا فیصلہ چند لمحوں کےلیے ملتوی کردیا جائے تاکہ طیارہ آبادی کے بجائے کھیتوں کے اوپر پہنچ جائے۔

وہ اپنے ہم وطنوں کو ہر قسم کے جانی و مالی نقصان سے بچانا چاہتے تھے۔ مگر یہی چند قیمتی لمحے مریم کی شہادت کا سبب بن گئے۔

پاک وطن کی اس دلیر بیٹی نے جان کی قربانی دے کر دفاع پاکستان پر مامور ہر مرد و عورت کا سر فخر سے بلند کردیا۔

انورمقصد کہتے ہیں، ''میں اب بھی ہم آسمانوں کی طرف نظرکرتا ہوں اور پاک فضائیہ کا طیارہ دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اس میں مریم ہے۔''

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں