انتہا پسندی کا بیانیہ
آج بھی کئی وزراء مذہبی انتہاپسندی کے حامی ہیں اور یہ وزراء کھل کر اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔
لاہور:
'' ریاست پیچھے ہٹ گئی، حکومت ناکام ہوگئی، جو ریاست قانون پر عملدرآمد نہ کراسکے اس کی بقاء پر بہت جلد سوالات اٹھتے ہیں۔'' فواد چوہدری نے اپنا بیانیہ یوں ترتیب دیا کہ انتہاپسندی کے خلاف ریاست اتنی ہی تیار ہے ، جتنا ہونا چاہیے۔
ان کا مدعا ہے کہ انتہاپسندی کی بڑی وجہ مدارس نہیں اسکول اورکالجز ہیں جہاں 80ء اور 90ء کی دہائی میں ایسے اساتذہ بھرتی کیے گئے جنھوں نے شدت پسندی کو فروغ دیا۔ وہ اپنے تجزیہ کے بنیادی نکات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نقطہ نظر بیان کرنا ہر شخص کا حق ہے تاہم اس کو زبردستی مسلط کرنا غلط ہے۔ شدت پسندی اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
انھوں نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز اسلام آباد میں اپنی کلیدی تقریر میں انتہا پسندی کے نقصانات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھارت ، امریکا اور یورپ سے نہیں ، اپنے آپ سے خطرہ ہے۔ فواد چوہدری نے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں انتہاپسند اساتذہ کی بھرمار 80ء کی دہائی سے شروع ہوئی۔ انھوں نے اپنی سیاسی مجبوریوں کی بناء پر تیسرے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کا نام نہیں لیا۔
تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ جب 5جولائی 1977 کو پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو جنرل ضیاء الحق چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ اس وقت بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی اس حکومت کی پذیرائی نہیں ہوئی تو جنرل ضیاء الحق کے دور میں منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی۔
اس وقت 80کے قریب ممالک کے سربراہوں نے رحم کی اپیلیں کی تھیں مگر جنرل ضیاء الحق نے کسی کی نہ سنی اور 4 اپریل 1979 کی رات گئے راولپنڈی جیل میں بھٹو صاحب نے تختہ دارکو چوم لیا۔ سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ اگلے تین مہینے پاکستان بین الاقوامی سطح پر مکمل تنہائی کا شکار رہا۔ امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے افغانستان کی انقلابی حکومت جس کی قیادت ایک دانش ور نور محمد ترہ کئی کررہے تھے اور سوویت یونین کے خلاف پروجیکٹ شروع کیا۔
جنرل ضیاء الحق اس پروجیکٹ کے بنیادی اسٹیک ہولڈر ہوگئے۔ یوں امریکا، یورپی ممالک اور دوست مسلم ممالک نے اس پروجیکٹ کے لیے کھربوں ڈال دیے۔ اس وقت کے امریکا کے صدر ریگن نے افغان پروجیکٹ کے لیے ''جہاد '' کو بنیادی بیانیہ قرار دیا۔ اس دور میں ایک مخصوص مکتبہ فکر کی امریکا اور پاکستان نے سرپرستی کی، یوں پورے ملک میں مدرسوں کا جال بچھ گیا۔اس پروجیکٹ میں بیوروکریٹس اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کے وارے نیارے ہوگئے۔
بعض مذہبی و سیاسی جماعتیں 1973کے آئین کی بحالی کی جدوجہد کو بھول کر حکومت کی غیر سرکاری پارٹنر بن گئیں۔ تعلیمی اداروں کے نصاب میں سائنسی نقطہ نظرکو محدود کیا گیا۔ طلبہ یونین کے ادارہ پر پابندی لگائی گئی۔ طلبہ تنظیموں نے اس غیر جمہوری پابندی کے خلاف تحریک شروع کی۔ کراچی، پنجاب اور صوبہ سرحد کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کے تقررکا طریقہ کار تبدیل ہوا۔ ایک تنظیم کے کارکن استاد بن گئے ، پھرکلاشنکوف کلچر آیا ، ہیروئن عام ہوئی۔
90ء کی دہائی میں افغانستان کی انقلابی حکومت جس کے آخری قائد ڈاکٹر نجیب تھے ختم ہوئی۔ امریکا افغانستان سے چلا گیا اور جہاد کو برآمد کرنے کی پالیسی اختیارکی گئی۔ اس عرصہ میں فرقہ وارانہ تضادات شدت اختیارکرگئے۔ ایران اور عراق کے درمیان لڑائی کے اثرات کراچی کی سڑکوں پر نظر آنے لگے۔
نوے کی دہائی میں دوران بے نظیر بھٹو اور نواز شریف اقتدار میں رہے۔ یہ بات تو اب کوئی عجب نہیں کہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو اس کے لیے غیر ملکی قوتوں نے سرمایہ فراہم کیا تھا۔ جہاد برآمد کرنے والوں نے منتخب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دیا۔ بے نظیر بھٹو کے تیسرے دور اقتدار میں ان کے وزیر داخلہ میجر جنرل ریٹائرڈ نصیر اﷲ بابر نے طالبان کو منظم کیا۔ یہ بات اب تک ریکارڈ پر نہیں ہے کہ انھوں نے یہ فیصلہ کس کے اشارہ پر کیا تھا اور انھوں نے اس فیصلہ پر اپنی وزیر اعظم کو اعتماد میں لیا تھا ؟
مذہبی انتہاپسندوں سے ہمدردی رکھنے والے حکومتوں میں موجود رہے اور آج بھی وہ موجود ہیں۔ وہ جنھوں نے جہاد کو برآمد کرنے کی پالیسی اختیار کی، مذہبی انتہاپسند گروہ کے خلاف کارروائی کے مخالف تھے۔انھوں نے واضح کہا کہ یہ انتہاپسند اثاثہ ہیں۔ چاروں صوبوں کے پولیس افسروں نے اس صورتحال کے تدارک کے لیے رپورٹیں تیار کیں، مگر یہ رپورٹیں فائلوں میں چھپ کر رہ گئیں۔
نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف کی پالیسی تبدیل ہوئی۔ مدرسوں میں اصلاحات اور تعلیمی اداروں کے نصاب کی تبدیلی کا فیصلہ ہوا مگر بااثر افسروں اور ان کے قریبی سیاست دانوں نے جو پرویز مشرف حکومت کا اثاثہ تھے ان پالیسیوں پر عملدرآمد نہ ہونے دیا۔ وزیر اعظم نواز شریف کے دور اقتدار میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ کے بعد قومی ایکشن پلان منظور ہوا۔ حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس پلان کی حمایت کی مگر نامعلوم قوتوں نے اس پلان پر عملدرآمد نہ ہونے دیا۔ وزیر اعظم نواز شریف کی دوسری حکومت کو ناکام بنانے کے لیے کن قوتوں نے کردار کیا ان کے بارے میں واضح ہو چکا ہے۔
آج بھی کئی وزراء مذہبی انتہاپسندی کے حامی ہیں اور یہ وزراء کھل کر اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ پاکستان کی اقتصادی بدحالی کی ایک وجہ موجودہ حکومت کا یہ بیانیہ بھی ہے مگر تمام تر معروضی صورتحال کے باوجود فواد چوہدری نے جرات سے حقیقت آشکار کی ہے کہ ہمیں بھارت، چین ، امریکا اور یورپی ممالک سے خطرہ نہیں، خطرہ ہمارے اندر ہے، جہاں انتہاپسندی بڑھتی ہے وہاں ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
'' ریاست پیچھے ہٹ گئی، حکومت ناکام ہوگئی، جو ریاست قانون پر عملدرآمد نہ کراسکے اس کی بقاء پر بہت جلد سوالات اٹھتے ہیں۔'' فواد چوہدری نے اپنا بیانیہ یوں ترتیب دیا کہ انتہاپسندی کے خلاف ریاست اتنی ہی تیار ہے ، جتنا ہونا چاہیے۔
ان کا مدعا ہے کہ انتہاپسندی کی بڑی وجہ مدارس نہیں اسکول اورکالجز ہیں جہاں 80ء اور 90ء کی دہائی میں ایسے اساتذہ بھرتی کیے گئے جنھوں نے شدت پسندی کو فروغ دیا۔ وہ اپنے تجزیہ کے بنیادی نکات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نقطہ نظر بیان کرنا ہر شخص کا حق ہے تاہم اس کو زبردستی مسلط کرنا غلط ہے۔ شدت پسندی اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
انھوں نے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز اسلام آباد میں اپنی کلیدی تقریر میں انتہا پسندی کے نقصانات بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں بھارت ، امریکا اور یورپ سے نہیں ، اپنے آپ سے خطرہ ہے۔ فواد چوہدری نے یہ حقیقت بیان کی ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں انتہاپسند اساتذہ کی بھرمار 80ء کی دہائی سے شروع ہوئی۔ انھوں نے اپنی سیاسی مجبوریوں کی بناء پر تیسرے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کا نام نہیں لیا۔
تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ جب 5جولائی 1977 کو پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت کا تختہ الٹا گیا تو جنرل ضیاء الحق چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے۔ اس وقت بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی اس حکومت کی پذیرائی نہیں ہوئی تو جنرل ضیاء الحق کے دور میں منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی۔
اس وقت 80کے قریب ممالک کے سربراہوں نے رحم کی اپیلیں کی تھیں مگر جنرل ضیاء الحق نے کسی کی نہ سنی اور 4 اپریل 1979 کی رات گئے راولپنڈی جیل میں بھٹو صاحب نے تختہ دارکو چوم لیا۔ سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ اگلے تین مہینے پاکستان بین الاقوامی سطح پر مکمل تنہائی کا شکار رہا۔ امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے افغانستان کی انقلابی حکومت جس کی قیادت ایک دانش ور نور محمد ترہ کئی کررہے تھے اور سوویت یونین کے خلاف پروجیکٹ شروع کیا۔
جنرل ضیاء الحق اس پروجیکٹ کے بنیادی اسٹیک ہولڈر ہوگئے۔ یوں امریکا، یورپی ممالک اور دوست مسلم ممالک نے اس پروجیکٹ کے لیے کھربوں ڈال دیے۔ اس وقت کے امریکا کے صدر ریگن نے افغان پروجیکٹ کے لیے ''جہاد '' کو بنیادی بیانیہ قرار دیا۔ اس دور میں ایک مخصوص مکتبہ فکر کی امریکا اور پاکستان نے سرپرستی کی، یوں پورے ملک میں مدرسوں کا جال بچھ گیا۔اس پروجیکٹ میں بیوروکریٹس اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کے وارے نیارے ہوگئے۔
بعض مذہبی و سیاسی جماعتیں 1973کے آئین کی بحالی کی جدوجہد کو بھول کر حکومت کی غیر سرکاری پارٹنر بن گئیں۔ تعلیمی اداروں کے نصاب میں سائنسی نقطہ نظرکو محدود کیا گیا۔ طلبہ یونین کے ادارہ پر پابندی لگائی گئی۔ طلبہ تنظیموں نے اس غیر جمہوری پابندی کے خلاف تحریک شروع کی۔ کراچی، پنجاب اور صوبہ سرحد کی یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کے تقررکا طریقہ کار تبدیل ہوا۔ ایک تنظیم کے کارکن استاد بن گئے ، پھرکلاشنکوف کلچر آیا ، ہیروئن عام ہوئی۔
90ء کی دہائی میں افغانستان کی انقلابی حکومت جس کے آخری قائد ڈاکٹر نجیب تھے ختم ہوئی۔ امریکا افغانستان سے چلا گیا اور جہاد کو برآمد کرنے کی پالیسی اختیارکی گئی۔ اس عرصہ میں فرقہ وارانہ تضادات شدت اختیارکرگئے۔ ایران اور عراق کے درمیان لڑائی کے اثرات کراچی کی سڑکوں پر نظر آنے لگے۔
نوے کی دہائی میں دوران بے نظیر بھٹو اور نواز شریف اقتدار میں رہے۔ یہ بات تو اب کوئی عجب نہیں کہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو اس کے لیے غیر ملکی قوتوں نے سرمایہ فراہم کیا تھا۔ جہاد برآمد کرنے والوں نے منتخب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو سکیورٹی رسک قرار دیا۔ بے نظیر بھٹو کے تیسرے دور اقتدار میں ان کے وزیر داخلہ میجر جنرل ریٹائرڈ نصیر اﷲ بابر نے طالبان کو منظم کیا۔ یہ بات اب تک ریکارڈ پر نہیں ہے کہ انھوں نے یہ فیصلہ کس کے اشارہ پر کیا تھا اور انھوں نے اس فیصلہ پر اپنی وزیر اعظم کو اعتماد میں لیا تھا ؟
مذہبی انتہاپسندوں سے ہمدردی رکھنے والے حکومتوں میں موجود رہے اور آج بھی وہ موجود ہیں۔ وہ جنھوں نے جہاد کو برآمد کرنے کی پالیسی اختیار کی، مذہبی انتہاپسند گروہ کے خلاف کارروائی کے مخالف تھے۔انھوں نے واضح کہا کہ یہ انتہاپسند اثاثہ ہیں۔ چاروں صوبوں کے پولیس افسروں نے اس صورتحال کے تدارک کے لیے رپورٹیں تیار کیں، مگر یہ رپورٹیں فائلوں میں چھپ کر رہ گئیں۔
نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف کی پالیسی تبدیل ہوئی۔ مدرسوں میں اصلاحات اور تعلیمی اداروں کے نصاب کی تبدیلی کا فیصلہ ہوا مگر بااثر افسروں اور ان کے قریبی سیاست دانوں نے جو پرویز مشرف حکومت کا اثاثہ تھے ان پالیسیوں پر عملدرآمد نہ ہونے دیا۔ وزیر اعظم نواز شریف کے دور اقتدار میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ کے بعد قومی ایکشن پلان منظور ہوا۔ حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس پلان کی حمایت کی مگر نامعلوم قوتوں نے اس پلان پر عملدرآمد نہ ہونے دیا۔ وزیر اعظم نواز شریف کی دوسری حکومت کو ناکام بنانے کے لیے کن قوتوں نے کردار کیا ان کے بارے میں واضح ہو چکا ہے۔
آج بھی کئی وزراء مذہبی انتہاپسندی کے حامی ہیں اور یہ وزراء کھل کر اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ پاکستان کی اقتصادی بدحالی کی ایک وجہ موجودہ حکومت کا یہ بیانیہ بھی ہے مگر تمام تر معروضی صورتحال کے باوجود فواد چوہدری نے جرات سے حقیقت آشکار کی ہے کہ ہمیں بھارت، چین ، امریکا اور یورپی ممالک سے خطرہ نہیں، خطرہ ہمارے اندر ہے، جہاں انتہاپسندی بڑھتی ہے وہاں ملک کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔