الیکٹرانک ووٹنگ مشین تبدیلیٔ نظام کی کوشش

ایسی قانون سازی کی جائے کہ آنے والی حکومت ای وی ایم کے بل کو غیر موثر نہ کرسکے


حکومت ای وی ایم کے ذریعے الیکشن کی شفافیت کو یقینی بنائے۔ (فوٹو: فائل)

''بیٹا دیکھنا کہ ناعمہ حسرت اپنا ووٹ ڈال کر جا چکی یا نہیں؟'' حسرت چچا جیسے ہی اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد باہر نکلے تو انہوں نے پرچی ایجنٹ سے پوچھا۔

''جی چچا جان! وہ ابھی کچھ دیر قبل ہی گئی ہیں۔'' لڑکے نے لسٹ پر نظر ڈالتے ہوئے جواب دیا۔

''اس کا مطلب ہے کہ میں اس مرتبہ پھر ملاقات سے محروم رہ گیا۔'' چچا کفِ افسوس ملتے ہوئے وہیں بیٹھ گئے۔ ''کیا ہوا چچا جان؟'' پرچی والے لڑکے نے انہیں اس طرح پریشان دیکھ کر سوال کیا۔

''ارے بیٹا اسے فوت ہوئے 15 برس ہوچکے ہیں۔ ملاقات کی کوئی صورت نہیں سوائے الیکشن کے۔ کیوں کہ وہ ہر مرتبہ ووٹ ڈالنے ضرور آتی ہے، مگر ہر مرتبہ میں دیر کردیتا ہوں۔'' انہوں نے اپنا درد سناتے ہوئے تفصیلی جواب دیا۔

الیکٹرانک ووٹنگ مشین جسے مختصر طور پر ای وی ایم کہا جاتا ہے، اسی طرز کے ووٹ کے خاتمے کی ایک عمدہ کوشش ہے۔ ای وی ایم کی ضرورت ہمیں ہرگز محسوس نہ ہوتی اگر ہمارے ہاں مردے ووٹ کاسٹ نہ کرتے، اگر ہمارے بیلٹ بکس پہلے سے بھرے نہ ہوتے۔ اگر الیکشن عملے پر دباؤ ڈال کر رزلٹ میں ردوبدل کروانے والوں کو نشانِ عبرت بنادیا جاتا۔ اگر ہمارے ادارے درست سمت میں کام کررہے ہوتے یا انہیں کام کرنے دیا جاتا وغیرہ۔

درحقیقت ہمارا نظام مکمل طور پر بدبودار ہوچکا ہے۔ یہ اس قدر تعفن زدہ ہوچکا ہے کہ اس پورے نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ''چہرے نہیں نظام کو بدلو''۔ مگر تبدیلی کے ذمے داروں کے منہ کو خون لگ چکا ہے۔ انہیں اپنی بقا اسی نظام میں محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے وہ درستی کی ہر کوشش کو ناکام بنادیتے ہیں۔

ماضی میں اس نظام کو درست کرنے کی ایک کوشش پرویز مشرف بھی کرچکے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ پرویز مشرف سے قبل ملک کا اعلیٰ ترین ادارہ پارلیمنٹ مڈل اور میٹرک پاس لوگوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ ہماری یونیورسٹیز کے چانسلر مڈل پاس یعنی ہمارے گورنر انڈر میٹرک ہوا کرتے تھے۔ آپ اندازہ کیجئے کہ جس ادارے میں کلرک ڈگری ہولڈر کو رکھا جاتا ہو، اس کا سربراہ انڈر میٹرک ہوتا تھا۔ پرویز مشرف اراکین پارلیمنٹ کےلیے بی اے کی شرط لے آئے اور پھر ڈگری کا جو حشر ہوا وہ آپ سب کے سامنے ہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ ڈگری، ڈگری ہوتی ہے، اصلی ہو یا نقلی۔ بعد ازاں اس قانون کو آنے والی حکومت نے ختم کردیا۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنے اقتدار کےلیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ ان لوگوں کےلیے انسان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی تو ای وی ایم کیا چیز ہے۔ یہ لوگ اس قدر بے رحم ہوتے ہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن میں شکست سے بچنے کےلیے تمام حدیں کراس کرجاتے ہیں تو قومی الیکشن میں اگر ای وی ایم ان کی راہ میں رکاوٹ ہوئی تو یہ کیا کچھ نہیں کریں گے۔ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کی مثال آپ کے سامنے ہے جب بیلٹ باکس تک اٹھا لیے گئے تھے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ٹی آئی سرکار ای وی ایم کے ذریعے الیکشن کی شفافیت کو یقینی بنانے کے ساتھ تمام فریقین کو بھی قائل کرنے کی کوشش کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو قوم کے خون پسینے سے حاصل کیے گئے اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی دھاندلی کا شور سننے کو ملے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ مشق لاحاصل ہوگی۔ مزید برآں پارلیمنٹ کے ذریعے ایسی قانون سازی کی جائے کہ آنے والی حکومت ای وی ایم کے بل کو غیر موثر نہ کرسکے۔

اور آخری بات، پی ٹی آئی سرکار ای وی ایم کو کامیاب کرنے کے ساتھ آصف علی زرداری کی یہ پیش گوئی بھی ذہن میں رکھے کہ ای وی ایم کے بیج کا پھل پی ٹی آئی کو نہیں ملے گا۔ زرداری ان لوگوں میں سے ہیں جو بہت سوچ سمجھ کر بولتے ہیں۔ اگر ان کی پیش گوئی سچ ثابت ہوگئی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ کل کو پی ٹی آئی خود ہی اس مشین کی مخالف ہوجائے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ان دنوں وہ اپنے ہی لگائے چیف الیکشن کمشنر سے ناراض نظر آتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں