پنج گور کنداواہ چھتیل شاہ اور سبی بلوچستان پہلاحصہ

کنداواہ شہر کی خوبصورتی کی وجہ اونچے ٹیلے پر آباد ہونا ہے جہاں سے پورا علاقہ دور تک نظر آتا ہے

پنج گور (پنجگور) صوبہ بلوچستان، مکران کا ایک خوبصورت اور تاریخی علاقہ ہے، پنج گور فارسی کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی پانچ قبریں ہیں، یہاں ان قبروں کی وجہ سے اس کا نام پنج گور ہے۔کہا جاتا ہے پنج گور میں پانچ مرقد ہیں تاہم اس بارے میں تاریخ خاموش ہے، تاریخ کے اوراق میں کہیں نہیں ملا کہ ان پانچ مرقد میں کون مدفن ہیں۔ ان میں سے دو قبریں شاہ قلندر اور عمر خان کے نام سے ہیں۔

2017 کی مردم شماری کے مطابق ضلع پنج گور کی آبادی تین لاکھ سولہ ہزار تین سو پچاسی افراد پر مشتمل ہے۔ یہاں کے باسیوں کا بنیادی ذریعہ معاش بکریاں چرانا اور زراعت ہے۔ اس علاقے میں پائی جانے والی کھجور پاکستان کی سب سے لذیذ اور عمدہ کھجور سمجھی جاتی ہے۔ کشاندی اور کھجور کے باغات اس ندی کے اطراف شہر مکران کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔

کافی عرصہ پہلے یہ عظیم تاریخی شہر کے نام سے جانا جاتا تھا۔ پنج گور کی تاریخ اور محل وقوع کا جائزہ لینے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ علاقہ 325 برس قبل از مسیح میں ہندوستان سے میکڈونیا سے سفر میں سکندر اور 712 ہجری میں عرب سے سندھ کی جانب سفر میں محمد بن قاسم کی گزر گاہ بھی رہا ہے۔ آج بھی جدید دور میں پنج گور شہر اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان کی راہ داری سی پیک بھی یہاں سے گزر رہی ہے۔

عرب مورخین اور جغرافیہ دانوں نے اس شہر اور اس کے باسیوں کی خاص تعریف کی ہے۔ ایماندار، سخاوت اور مہمان نوازی کے طور اس کا ذکر خاص کیا ہے۔پنج گور کوئٹہ شہر کے جنوب سے 555 کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ یہاں سے پہنچنے میں آٹھ گھنٹے لگے۔ میں نے دیکھا پنج گور میں تاریخی مرقد اور قلعوں کے آثار ملے جو ابھی تک موجود ہیں۔ تاہم بے توجہی کے باعث اس شہر کے تاریخی مقامات منہدم ہو رہے ہیں۔شاہ قلندر کا مزار شہر سے بیس منٹ کی مسافت پر ہے۔ تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے مزار تک پہنچے۔ پنج گور کے تاریخی و قدیمی قبرستان میں ٹیلے کے اوپر شاہ قلندر کا مزار نمایاں ہے۔

مزار کے گنبد کا اوپری حصہ منہدم ہو چکا ہے، دوسرا مزار بہت زیادہ خستہ ہیں۔ کاریز خشک ہونے کی وجہ سے کھجور کے درختوں کو پانی نہیں مل رہا جس کی وجہ سے زیادہ درخت خشک ہوکر سوکھتے جا رہے ہیں۔ کاریز خشک ہونے کی وجہ سے زراعت پر برا اثر پڑا ہے۔

کنداواہ: عرب مورخین و جغرافیہ دانوں کے مطابق کچی کی تاریخ سبی اور کنداواہ کے اردگرد گھومتی ہے۔ کنداواہ بھی بلوچستان کے قدیم شہروں میں سے ایک ہے۔ تاریخ کے اوراق میں کنداواہ کا ذکر گنج آباد ، کندیر، کے نام سے ملتا ہے۔ اس شہر کو تاریخ بلوچستان میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ شہر کافی عرصہ تک خان آف قلات کی سرمایہ داری حکومت بھی رہا ہے۔


کنداواہ شہر کی خوبصورتی کی وجہ اونچے ٹیلے پر آباد ہونا ہے جہاں سے پورا علاقہ دور تک نظر آتا ہے۔ یہ شہر پرانے ادوار میں ایک بڑا تجارتی مرکز بھی رہا ہے۔ آج کے دور میں یہ ضلع بھل مگسی (ضلع جھل مگسی) کا صدر مقام بھی ہے۔ 51 ہزار نفوس پر مشتمل یہ شہر اپنے تاریخی، مذہبی اور قدیمی مقامات کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔یہاں پر جاموٹ اور بلوچ قبائل آباد ہیں جوکہ سندھی، بلوچی اور سرائیکی زبانیں بولتے ہیں، اس شہر کا شمار بلوچستان کے گرم ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔

جھل مگسی کوئٹہ کے جنوب مغرب میں 241 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مجھے یہاں تک پہنچنے میں پانچ گھنٹے لگے، خاص بات یہ کہ یہاں رہائش کے لیے کوئی ہوٹل نہیں لیکن ایک سرکاری ریسٹ ہاؤس موجود ہے۔ میں سید محمد ایوب شاہ بخاری کے مزار پر گیا یہ کنداواہ شہر سے چند منٹ کے فاصلے پر ہے۔ یہ کنداواہ سٹی کے اندر ہی موجود ہے مزار کی عمارت کے باہر سرخ، گلابی، سبز، گہرا سبز اور پیلا رنگ کیا ہوا ہے جو بے حد خوبصورت لگتا ہے۔ دادن شاہ بخاری اور دیگر قبریں یہاں موجود ہیں ان کے پورے خاندان کا شجرہ نصب تحریر ہے۔

مزار کے ساتھ ہی زائرین کے لیے پختہ کمرے بنے ہوئے ہیں جہاں زائرین پورے پاکستان سے زیارت کے لیے آتے ہیں۔ وہ انھی کمروں میں قیام کرتے ہیں۔ یہاں موجود درختوں کے سائے میں آرام اور کھانا تیار کرتے ہیں۔ یہاں ایک قدیمی قبرستان ہے جس کے سیدھی طرف سید محمد ایوب شاہ کا مزار ہے۔ نمازیوں کے لیے ایک مسجد بھی بنائی گئی ہے۔

شہر کے بیچ میں ایک بڑی مسجد ہے جو شاہی مسجد کے نام سے منسوب ہے۔ مزار سے اس مسجد کا فاصلہ ایک کلو میٹر کے قریب ہے ٹیلے پر یہاں کے مندر اور خان آف قلات کے قلعہ کے آثار بھی موجود ہیں۔ روایت کے مطابق یہ شاہی مسجد خان آف قلات نصیر خان نورانی کے دور میں تعمیر ہوئی۔ مجھے اس کی طرز تعمیر لاہور کی بادشاہی مسجد جیسی لگی۔ یہ مسجد بے حد خوبصورت ہے۔ تقریباً اس کو 300 سال سے زائد عرصہ گزر گیا لیکن یہ آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ اس کی باقاعدہ دیکھ بھال رنگ و روغن کیا جاتا ہے کوئی بھی اس کو دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ اس قدر پرانی ہے۔

اس پر براؤن اور آف وہائٹ بہت اچھے لگ رہے ہیں مسجد کے اندر لکڑی کا کام اسی دور کا ہے البتہ اس کو دوبارہ ری فرنش کیا گیا ہے۔ مسجد کے اندر چاروں طرف گنبد میں روشن دان بنے ہوئے ہیں جن کے ذریعے مسجد اندر سے روشن ہے۔ محراب بہت خوبصورت ہیں، زیادہ اہم اس مسجد کی دیواریں ہیں جو تقریباً چھ فٹ سے زائد موٹی ہیں۔ اس مسجد کے اندر اور باہر صحن ملا کر چار ہزار نمازی، نماز پڑھ سکتے ہیں۔ حال ہی میں مسجد کی مرمت و تزئین و آرائش کروائی گئی ہے۔

شاہی مسجد کے پاس ایک قلعہ ہے جس کی روایت ہے کہ یہاں خان آف قلات کا دارالحکومت تھا، سردیوں میں وہ یہاں آتے تھے۔ یہ قلعہ تقریباً منہدم ہو چکا ہے بقیہ کچھ حصہ و دیوار دیکھی جاسکتی ہے دیگر دیواروں کے نشانات موجود ہیں الٹی طرف اونچی ٹوٹی دیواریں بھی ہیں تھوڑا سا اس کا حصہ بچا ہوا ہے۔

چونکہ یہ مٹی سے بنایا گیا تھا لہٰذا تیز بارشوں کی وجہ سے گرتا گیا۔ اس کی دیواریں دس فٹ سے زائد موٹی تھیں چونکہ اس کی مرمت نہ ہو سکی اس لیے منہدم ہوتا رہا۔ میں نے اس کی الٹی جانب جو دیواریں دیکھیں وہ بہت خوبصورت ہیں۔ ٹوٹ جانے کے باوجود وہ اس قدر دیدہ زیب و خوبصورت ہیں۔ علاقے کے لوگوں نے بتایا یہ بے حد موٹی بڑی دیواروں والا قلعہ تھا۔ کھنڈرات بتاتے ہیں عمارت عظیم الشان تھی۔ (جاری ہے۔)
Load Next Story