ایک ملک کی سسکتی موت
یمن توویسے بھی ایک غریب ویسیرملک ہے اوراس کی پٹائی کرنے والے نہ صرف امیرہیں بلکہ علاقے میں ان کی دھاک بھی بنی ہوئی ہے۔
اسلامی کانفرنس اور عرب لیگ کے برادر رکن یمن پر مارچ دو ہزار پندرہ میں آٹھ برادر اسلامی ممالک (سعودی عرب، امارات، بحرین، کویت، اردن، سوڈان، مصر، مراکش) کی چڑھائی اور یمن کی قبائلی خانہ جنگی کا رخ اپنی مرضی کی جانب موڑنے کا ہدف چھ برس میں بھی پورا نہ ہو سکا۔
اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی ادارے ( یو این ڈی پی ) کی تازہ رپورٹ کے مطابق اس عرصے میں اب تک یمن میں بالواسطہ اور بلاواسطہ جنگی مصائب کے سبب تین لاکھ ستتر ہزار شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں ستر فیصد پانچ برس کی عمر تک کے بچے ہیں۔
چالیس فیصد اموات بمباری اور براہِ راست فوجی کارروائیوں میں ہوئی ہیں اور ساٹھ فیصد ہلاکتیں جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اثرات کا شاخسانہ ہیں۔اقوامِ متحدہ نے یمن کی حالت کو دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دیا ہے۔
چالیس لاکھ لوگ گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور تین کروڑ انسانوں کے ملک کی ستر فیصد آبادی ( لگ بھگ اکیس ملین ) کسی نہ کسی تحفظ اور مدد کی مستحق بن چکی ہے۔پچاس ہزار انسان براہِ راست قحط سالی میں مبتلا ہیں اور پانچ لاکھ بھک مری کی کگار پے کھڑے ہیں۔تئیس لاکھ بچے ناکافی غذائیت جھیل رہے ہیں۔ چار لاکھ زخمی یا بیمار بچے علاج معالجے کی عدم دستیابی کے سبب موت کے منہ میں جانے کے لیے تیار ہیں۔
ملک میں قائم ساڑھے تین ہزار طبی مراکز میں سے نصف بند یا تباہ ہو چکے ہیں۔بیس فیصد اضلاع میں ایک بھی ڈاکٹر نہیں۔تین کروڑ میں سے لگ بھگ دو کروڑ افراد تسلی بخش طبی سہولتوں سے محروم ہیں۔
پچاس فیصد آبادی آلودہ پانی استعمال کر رہی ہے۔ دو ہزار سولہ سے اب تک ہیضے کی درجنوں وبائیں کا پچیس لاکھ افراد شکار ہوئے اور پانچ ہزار اموات ہوئیں۔اقوامِ متحدہ کے بقول اکیسویں صدی میں ہیضے کی اب تک کی یہ سب سے خوفناک وبا ہے۔
سرکاری آنکڑوں پر یقین کیا جائے تو گزشتہ ماہ تک یمن میں کوویڈ کے نو ہزار آٹھ سو متاثرین اور اٹھارہ سو اسی اموات کے تصدیق شدہ کیس سامنے آئے۔ مگر یہ اعداد یوں مشکوک ہیں کہ صحت کا انتظامی ڈھانچہ تتر بتر ہے لہٰذا کوویڈ ٹیسٹنگ کا نظام بھی علامتی ہے۔ہوثی قبائل کے زیرِ اثر علاقوں سے کوویڈ کی رپورٹنگ بہت کم ہوتی ہے۔
بیرونی مداخلت اور خانہ جنگی نے جس طرح عام آدمی کی کمر توڑی اس نے یمن کی لگ بھگ آدھی سے زائد آبادی ( ایک کروڑ چھپن لاکھ ) کو انتہائی غربت کی کھائی میں گرا دیا ہے۔
یہ بحران اگلے آٹھ برس ( دو ہزار تیس تک ) بھی جاری رہتا ہے تو اقوامِ متحدہ کے پیشگی اندازوں کے مطابق تیرہ لاکھ مزید جانوں کا اتلاف ہو گا۔ ان میں سے ستر فیصد اموات قلتِ خوراک ، روزگار کی تباہی ، آسمان کو چھوتی قیمتوں، ماحولیاتی ابتری و آلودگی، صحت و صفائی اور تعلیم کے ڈھانچے کی بربادی کے نتیجے میں ہوں گی۔
رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اگلے آٹھ برس کے دوران حالات میں بہتری نہ آئی تو ناکافی غذائیت کے شکار لوگوں کی تعداد بانوے لاکھ تک پہنچ جائے گی اور ملک کی پینسٹھ فیصد آبادی کی خطِ غربت تلے معاشی تدفین ہو چکی ہو گی۔ اگر آج جنگ ختم ہو جائے تب بھی خطِ غربت سے اوپر آنے کے لیے کم از کم ایک نسل کا عرصہ درکار ہوگا۔البتہ امن کی صورت میں اگلے چار برس میں ناکافی غذائیت کے بحران میں پچاس فیصد اور اگلے آٹھ برس میں پانچ برس تک کے بچوں کی اموات میں نصف کے لگ بھگ کمی ہو سکتی ہے۔
یہ جنگ یمن کو ایرانی حمایت یافتہ ہوثی قبائل کے اثر و نفوذ میں جانے سے بچانے کے نام پر امریکا ، برطانیہ اور فرانس کی مادی و انٹیلی جینس مدد سے سعودی و اماراتی قیادت میں اس توقع پر شروع ہوئی تھی کہ آپریشن زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ ماہ میں ختم ہو جائے گا۔
آج چھ برس بعد حالات یہ ہیں کہ جس گروہ کا جن علاقوں پر قبضہ تھا جوں کا توں ہے۔حوثیوں کے سعودی عرب کے اندر حملے پہلے سے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔امارات و سعودی عرب شروع شروع میں تو ایک مقصد کے تحت لڑے۔ پھر دونوں نے اپنے اپنے پسندیدہ متحارب گروہوں کی حمایت شروع کردی۔رفتہ رفتہ امارات عملاً اس جنگ سے لاتعلق ہوتی چلی گئی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے حوثیوں کو دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں ڈال دیا مگر بائیڈن انتظامیہ نے حوثیوں کو اس فہرست سے خارج کر کے دوبارہ سیاسی گروہ تسلیم کر لیا۔
باقی عرب اتحادی بھی اب علامتی طور پر جنگ میں شریک ہیں اور محاذ پر تعطل کی کیفیت ہے۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان امارات کے صدر خلیفہ بن زید النہیان کی سیاسی و عسکری تائید سے جس جوش و جذبے کے ساتھ پرائی خانہ جنگی میں کودے تھے اس کا زیادہ تر مالی بار بھی انھیں ہی اٹھانا پڑا۔اور اب یوں ہے کہ وہ کمبل سے جان چھڑانا چاہ رہے ہیں مگر کمبل جان کو اٹکا ہوا ہے۔
اس خانہ جنگی میں کودنے کے جواز کو یہ نظریاتی جامہ پہنایا گیا کہ جزیرہ نما عرب کے جنوب کو ایرانی اثرات سے محفوظ کرنا ہے جو حوثیوں کو خفیہ طور پر اسلحہ پہنچا رہا ہے۔مگر یمن کی بحری ، بری و فضائی ناکہ بندی کے باوجود اب یہ اسلحہ کہاں سے آ رہا ہے۔اس بابت جتنے منہ اتنی باتیں۔
اس جنگ سے اگر کسی کا الفائدہ ہوا تو وہ ہے القاعدہ۔جس نے لاقانونیت کو غنیمت سمجھتے ہوئے نہ صرف اس پہاڑی ملک میں خود کو مستحکم کیا بلکہ وقتاً فوقتاً خانہ جنگی میں ملوث پسندیدہ گروہوں کا بھی ساتھ دیا۔قرنِ افریقہ کے آمنے سامنے اور بحیرہ قلزم کو بحرِہند سے ملانے والے دہانے پر واقع یمن کی ناک کے نیچے سے تیل سمیت دنیا کا پچاس فیصد سامان گذرتا ہے۔ ایسے کارنر کے پلاٹ پر القاعدہ کی موجودگی گھاٹے کا سودا ہرگز نہیں اور اب تو یہاں داعش نے بھی منظم ہونا شروع کر دیا ہے۔
اس جنگ میں کون حق ہے کون باطل۔کون جیت رہا ہے اور کس کی ہار ہو رہی ہے۔اس کے جواب کا انحصار اس پر ہے کہ سوال کرنے والا کس کا حامی ہے اور کس زاویے سے حالات کو دیکھ رہا ہے۔ مگر ایک جلی سطر یمن کے آسمان پر مسلسل چمک رہی ہے کہ کوئی بھی جیتے، ہار یمن کے تین کروڑ لوگوں کا مقدر ہے۔ یہ ایسا خاموش المیہ ہے جس میں ٹی وی کیمرے کے لیے بھی کوئی کشش باقی نہیں رہی، لہٰذا یہ جنگ باقی دنیا نے بھلا دی ہے۔
اگر یہی جنگ کسی غیر مسلم خطے میں ہو رہی ہوتی تو عالمِ اسلام میں بے چینی کی ایک چھوڑ درجن بھر لہریں اب تک دوڑ چکی ہوتیں اور اسلامی کانفرنس اور عرب لیگ کے ایوانوں میں نشستند گفتن برخواستند کے کئی سیشن ہو چکے ہوتے۔یمن تو ویسے بھی ایک غریب و یسیر ملک ہے اور اس کی پٹائی کرنے والے نہ صرف امیر ہیں بلکہ علاقے میں ان کی دھاک بھی بنی ہوئی ہے۔ چنانچہ ضمیر بہرحال دھاک سے زیادہ دھانکڑ نہیں ہو سکتا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)