خود پسندی کا علاج کیا ہے

نارسیٹک پرسنیلٹی ڈس آرڈر سے پھوٹنے والا رویہ کیوں پیدا ہوتا ہے اور اس کے انسانی شخصیت پر کیا برے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟


نارسیٹک پرسنیلٹی ڈس آرڈر ( این پی ڈی) سے پھوٹنے والا رویہ کیوں پیدا ہوتا ہے اور اس کے انسانی شخصیت پر کیا برے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ ۔ فوٹو : فائل

کولنز انگلش ڈکشنری کے مطابق خود پسندی کا مطلب اپنے آپ میں، خاص طور پر اپنے روپ میں غیر معمولی دلچسپی لینا اور خود سے متاثر ہونا ہے۔

یہ اپنی اہمیت اور صلاحیتوں کے حد سے بڑھے ہوئے احساس اور اپنے آپ میں دلچسپی کا دوسرا نام ہے۔ خود پسندی کے کچھ پہلو ایسے ہیں جو کسی نہ کسی حد تک ہر انسان میں پائے جاتے ہیں، لیکن زیادہ تر معاملوں میں یہ ایک بیماری کی صورت میں سامنے آئی ہے جسے نارسیٹک پرسنیلٹی ڈس آرڈر ( این پی ڈی) کا نام دیا جاتا ہے۔

میڈیکل سائنس کے مطابق اس سے مراد یہ خیال ہونا ہے کہ ' آپ سب سے اچھے ہیں '۔ مذہبی نقطہ نظر سے ' خود پسندی' نام ہے اپنے آپ کو بڑھانے چڑھانے کا، اپنے اعمال کو بڑا سمجھنے اور ان پر اعتماد کرنے کا اور ان اعمال کی نسبت اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کی طرف نہ کر کے اپنے آپ کی طرف ان کی نسبت کرنے کا۔

خود پسندی کے نقصانات
اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی کے نیک اعمال برباد ہو جاتے ہیں اور اس کے ہاتھ صرف مذمت ہی آتی ہے۔ امام ماوردی کا قول ہے کہ' خود پسندی سے اخلاق حسنہ غائب ہو جاتے ہیں، خرابیاں اور برے اخلاق عام ہو جاتے ہیں اور تمام برائیاں خود پسند انسان کے اندر مجتمع ہونے لگتی ہیں جو اسے شرافت سے محروم کر دیتی ہیں'۔

خود پسندی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کا باعث بنتی ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے اور اسکے ذریعے جو جہالت اور نادانی آتی ہے، اس کی بھی کوئی انتہا نہیں ہے۔ یہ ایک برائی ساری شرافتوں کو چت کر جاتی ہے اور یہ ایک برائی ساری اچھائیوں کو برباد کر دیتی ہے اور اسکے نتیجے میں انسان حسد اور کینہ جیسی آفتوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ خود پسندی کی قرآن و حدیث دونوں میں مذمت کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ترجمہ :' اور جنگ حنین کے دن جب تم کو اپنی جماعت کی کثرت پر غرہ تھا تو وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی۔' ( التوبہ 9: 25)

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مذمت اور نکیر کے سیاق میں بیان فرمایا ہے۔ ایک اور مقام پر فرمایا : ترجمہ : ' اور وہ لوگ یہ سمجھے ہوتے تھے کہ ان کے قلعے ان کو خدا کے عذاب سے بچا لیں گے، مگر خدا نے ان کو وہاں سے آ لیا جہاں سے ان کو گمان بھی نہ تھا۔'( الحشر 28: 2)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی شان و شوکت اور ان کے قلعوں کا رد فرمایا۔ نیز ارشاد فرمایا : ترجمہ :' اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اچھے کام کر رہے ہیں۔' ( الکہف 104)

یہ عمل بھی انسانوں کی خود پسندی اور خود نمائی کی طرف اشارہ کرتا ہے، یقیناً بعض اوقات انسان کوئی کام کرتا ہے حالانکہ وہ غلطی اور خطا پر مبنی ہوتا ہے، اسی طرح بعض کام کرتا ہے اور اس میں نقصان سے دوچار ہوتا ہے۔ امام قرطبی کہتے ہیں' خود پسندی یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو باکمال خیال کرے اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کو بھول جائے اور اگر اس کے ساتھ وہ دوسروں کو حقیر سمجھے تو یہ قابلِ مذمت ہے۔'

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ' ہلاکت اور بربادی دو چیزوں میں ہے : ناامیدی و مایوسی اور خود پسندی میں۔'

تابعی مطرف کہتے ہیں کہ' مجھے رات بھر عبادت کرنے اور صبح خود پسندی کا اظہار کرنے سے زیادہ پسند یہ ہے میں سو کر رات گزاروں اور سو کر صبح کروں۔'

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا گیا کہ آدمی کب برا ہوتا ہے؟ فرمایا : ' جب اسے گمان ہونے لگے کہ وہ اچھا ہے۔'

عربی مقولہ ہے :' ایک نعمت ہے جس کو حاصل ہونے والے پر حسد نہیں کیا جاتا، وہ نعمت تواضع و انکساری ہے۔ اور ایک آزمائش ہے جو اس میں مبتلا ہو اس پر رحم نہیں کیا جاتا اور وہ آزمائش خود پسندی ہے۔'

خود پسندی وہ آفت ہے جو انسان کو بسا اوقات کفر تک پہنچا دیتی ہے جیسا کہ ابلیس کے ساتھ ہوا، اس نے اپنی اصلیت اور عبادت پر فخر کیا اور خود پسندی نے اسے کبر اور آدم کو سجدہ کرنے سے متعلق اللہ تعالیٰ کے حکم کی روگردانی پر آمادہ کیا اور نتیجتاً راندہ درگاہ ہوا۔

خود پسندی کا علاج
علامہ ابن قدامہ کہتے ہیں :' جان لو کہ خود پسندی کبر و تکبر کو دعوت دیتی ہے، اس لیے کہ خود پسندی سے کبر پیدا ہوتا ہے اور کبر کے نتیجے میں بے شمار آفتیں پیدا ہوتی ہیں، اگر یہ کبر مخلوق کے ساتھ ہو۔ اگر کبر خالق کے ساتھ ہو تو اطاعت پر خود نمائی اور خود پسندی کے نتیجے میں انسان اپنی عبادات کو بہت کچھ سمجھنے لگتا ہے، گویا وہ اپنی عبادتوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ پر احسان کر رہا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس عمل کی توفیق کی نعمت کو بھلا دیتا ہے اور اپنی خود نمائی کی آفات میں بھٹکنے لگتا ہے۔'

ابو حامد الغزالی کا قول ہے :' خوشی، غرور اور زعم کا درجہ خود پسندی کے بعد کا ہے۔ تجربہ سے ثابت ہے کہ ہر وہ شخص جو اپنے تئیں عبادت کی خوشی اور زعم میں مبتلا ہو تو وہ لازمی طور پر خود پسند بھی ہوتا ہے، جبکہ بہتیرے ایسے خود پسند افراد ہیں جو خوشی اور زعم کے شکار نہیں ہیں۔ خود پسندی پیدا ہی اس وقت ہوتی ہے جب آدمی اپنے آپ کو بڑا تصور کرنے لگے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو بھول بیٹھے اور اسے کسی اجر و ثواب اور بدلے کی امید نہ ہو۔'

خود پسندی کے مظاہر
علماء نے خود پسندی کی جو علامتیں بیان کی ہیں، وہ حق کو ٹھکرانا اور لوگوں کو حقیر و ذلیل سمجھنا، لوگوں کی طرف سے تکبر سے منہ پھیر لینا ، دانشمندوں اور فضلاء سے مشاورت کی ضرورت محسوس نہ کرنا ، اپنی اطاعت کا بہت زیادہ خیال کرنا اور اپنے علم پر فخر کرنا، اپنے حسب و نسب اور خوبصورتی پر اترانا اور دوسروں پر طعن و تنقید کرنا، متقی پرہیزگار علماء کی شان میں کمی خیال کرنا اور خود کی تعریف کرنا، گناہوں کو بھلا دینا اور غلطی کو بار بار دہرانا وغیرہ۔

ایک برطانوی کنسلٹنٹ ڈاکٹر ٹینیسن لی کے مطابق خود پسندی کے مرض میں مبتلا لوگوں کی پہچان کے لیے پوری دنیا میں پانچ نکتے رائج ہیں، جو شخص ان نو نکات میں سے پانچ کا حامل ہو گا۔ وہ اس مرض میں مبتلا سمجھا جائے گا۔

1 : اپنی اہمیت کا انتہائی احساس ہونا۔ 2 : خود کو کامیاب اور طاقتور سمجھنا۔ 3 : اپنے آپ کو انوکھا اور منفرد خیال کرنا۔ 4 : سراہے جانے کی بہت زیادہ طلب رکھنا۔ 5: ہر چیز پر اپنا حق سمجھنا۔ 6: باہمی رشتوں میں صرف اپنے آپ کے بارے میں سوچنا۔ 7: ہمدردی کے احساس میں کمی ہونا۔ 8 : ہر ایک پر شک کرنا۔ 9 : مغرور اور گھمنڈی رویہ رکھنا۔

ہم سب کے ملنے جلنے والوں میں ایسے بہت سے لوگ ہوں گے جن میں ان میں سے کچھ خصوصیات موجود ہوں گی، لیکن یہ بیماری کب بن جاتی ہے؟ ڈاکٹر لی کا کہنا ہے کہ جب ان خصوصیات کے بھی حامل لوگ اپنے لیے یا دوسروں کے لیے مشکلات پیدا کرنا شروع کر دیں تو سمجھ لیں کہ اب وہ بیماری والی سمت کی طرف جا رہے ہیں اور انہیں علاج کی ضرورت ہے۔

خود پسندی کے اسباب
علمائے کرام کے مطابق :' خود پسندی کہ وجہ جہل محض ہے اور اس کا علاج اس جہالت کے مخالف کا علم حاصل کرنا ہے۔ اس کے علاوہ تقویٰ یعنی خدا خوفی میں کمی اس کا سبب ہے۔ خیر خواہی کی کمی ہونا اور نیت درست نہ رکھنا بھی خود پسندی میں مبتلا کرنے کا باعث ہے۔ کسی کی حد سے زیادہ تعریف کرنا ، جس کی وجہ سے وہ شخص شیطان کے فریب کا شکار ہو جائے۔ دنیا کے فتنے میں پڑ کر خواہشات کی پیروی کرنا ، کم سوچنا کیونکہ اگر انسان سوچے اور غوروفکر کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ اس کو عطا کردہ ہر نعمت اللہ کی جانب سے ہے۔ نا شکری کی عادت کا شکار ہونا اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں غفلت کرنا۔'

خود پسندی و خود نمائی کا علاج
ابو حامد الغزالی نے خود پسندی کا علاج سات چیزوں میں بتایا ہے:
1 : انسان اپنے جسم کی خوبصورتی، بناوٹ اور حسن صورت کے تناسب پر خود پسندی کا مظاہرہ کرتا ہے. اسے چاہیے کہ وہ اپنے نفس کی خوبصورتی اور جمال پر توجہ مرکوز کرے۔ انسان یہ بھول جاتا ہے کہ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور نعمت اسے عطا کی گئی ہیں اور انہیں ہر حال میں ختم ہونا ہے۔

اس کا علاج یہ ہے کہ انسان اپنے پیٹ میں موجود گندگیوں کے بارے میں غور کرے، اور یہ غور کرے کہ خوبصورت چہرے اور نرم جسم مٹی میں برباد ہو جاتے ہیں اور ان کی وجہ سے قبروں میں کیسی سڑاند اور تعفن پیدا ہو جاتا ہے۔

2 : اپنی طاقت اور توانائی پر خود نمائی کا مظاہرہ کرنا : جیسا کہ قوم عاد کے بارے میں قرآن مجید میں ذکر ہے کہ وہ کہا کرتے تھے: من اشد مناقوۃ
اور کہنے لگے کہ ہم سے بڑھ کر قوت میں کون ہے۔ ( سورۃ فصلت : 15)

اس کا علاج یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل پر اس کا شکر بجا لائے اور یہ خیال کرے کہ اگر اس کے دماغ میںادنیٰ ترین مرض پیدا ہو جائے اور وہ وسوسوں کا شکار ہو جائے تو وہ اپنی عقل کے سلب ہونے کو روکنے پر قادر نہیں ہے لہٰذا انسان کو یہ جاننا چاہئے کہ اسے جو بھی علم دیا گیا، وہ بہت تھوڑا ہے اور اس کی جہالت معرفت سے بڑھ کر ہے۔

3: نسب پر خودپسندی کا مظاہرہ کرنا
بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ شریف النسب ہونے کی وجہ سے نجات پا لیں گے اور انہیں معاف کر دیا جائے گا اور بعض تو یہ بھی خیال کرتے ہیں کہ پوری مخلوق ان کی غلام ہے۔

اس کا علاج یہ ہے کہ وہ جان لے اس کے تمام اعمال و اخلاق جو اس کے آباء کے مخالف ہیں اور وہ یہ گمان کیے ہوئے ہو کہ اسے ان سے ملنا ہی ہے، تو یہ اس کی جہالت ہے، اور اگر وہ اپنے آباء و اجداد کی اقتداء کرے تو ان کے اخلاق میں کوئی خود پسندی نہیں تھی، بلکہ انہوں نے اپنے نفوس کو خوف باری تعالیٰ سے جوڑ رکھا تھا اور ان کی عزت و بزرگی اور شرف کی وجہ اطاعت، علم اور اچھی خصلتیں ہیں نہ کہ حسب نسب۔

4: تعداد کی کثرت پر خود پسندی کا مظاہرہ کرنا
اولاد، خدام، اقارب، انصار اور متبعین کی کثرت پر خود پسندی کا مظاہرہ کرنا جیسا کہ کافروں کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا:' اور یہ بھی کہنے لگے کہ ہم بہت سا مال اور اولاد رکھتے ہیں اور ہم کو عذاب نہ ہو گا۔' ( سبا : 35)

اس کا علاج یہ ہے کہ انسان اپنی کمزوری اور ان کی کمزوری پر غور کرے، کیوں کہ وہ تمام عاجز غلام ہیں جو اپنی جان کے نفع کے مالک ہیں اور نہ نقصان کے، پھر انسان ان پر کیسے خود پسندی کا مظاہرہ کرتا ہے، حالانکہ یہ سب موت کے وقت اس سے جدا ہو جانے والے ہیں۔

5: حکمران طبقے تک رسائی کا فخر
جس تعلق میں دین و علم کی نسبت نہ ہو تو ایسے تعلق پر فخر کرنا غایت درجہ جہالت نما خود پسندی ہے۔ اور اس کا علاج یہ ہے کہ انسان اس کی ذلت و رسوائی پر غور کرے ، نیز اللہ تعالیٰ کے بندوں پر ان کے ظلم و ستم اور دین الہی میں ان کے فساد پر غور کریں اور ان سے اپنے تعلق پر فکر مند ہوں۔

مال کے ذریعے خود پسندی
اللہ تعالیٰ نے سورہ الکہف میں دو باغ والوں کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے ان کی بات کو نقل فرمایا، جب ان میں سے ایک دوسرے سے کہتا ہے : ' میں تم سے مال و دولت میں بھی زیادہ ہوں اور مجھے جماعت کے لحاظ سے بھی کثرت دی گئی ہے۔' (الکہف :34)
اس کا علاج یہ ہے کہ انسان مال کی آفتوں، اس کے حقوق کی کثرت اور اس کی خطرناک مکاریوں پر غور کرے اور فقراء و مساکین کی فضیلت اور قیامت کے روز جنت کی جانب ان کی سبقت پر غور کرے اور اس بات پر بھی غور کرے کہ مال آنے جانے والی چیز ہے جس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہے۔

7: غلط رائے پر خود پسندی
خود پسند لوگ اکثر اپنی رائے ہی کو درست سمجھتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ دوسرے بھی ان سے متفق ہوں۔ یہی درحقیقت گمراہی ہے کہ انسان محض اپنی سمجھ بوجھ اور رائے کے درست ہونے پر ہی اصرار کرے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ انسان اپنی رائے کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرے، اس کے بارے میں دھوکہ کا شکار نہ ہو اور کسی دوسرے کی رائے اس سے بہتر اور مفید ہو تو اسے اختیار کر لے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں