ٹی ٹی پی فاٹا کا انضمام واپس لینے کے مطالبے سے دستبردار
حکومت کاسخت مؤقف، مذاکرات کے آغاز میں ہی دونوں مطالبے مستردکیے گئے۔
ISLAMABAD:
تحریک طالبان پاکستان سابقہ قبائلی علاقے (فاٹا) کے خیبرپختونخوا میں انضمام واپس لینے کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کاروں کے ذریعے جاری مذاکرات میں شامل ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار نے ایکسپریس کو بتایا ہے کہ حکومت نے مذاکرات کے آغاز میں ہی طالبان کے دو مطالبے مسترد کر دیے اور وہ بھی انتہائی سختی کے ساتھ۔
اس عہدیدار نے ایکسپریس کو بتایا کہ تحریک طالبان نے پاکستان نے فاٹا انضمام کو واپس لینے اور قبائلی علاقوں کو ماضی کی طرح آزاد رکھنے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ طالبان نے خیبرپختونخوا میں جاری بلدیاتی انتخابات جو سابقہ فاٹا اور موجودہ ضم شدہ اضلاع میں ایک ساتھ ہو رہے ہیں پر بھی اعتراض کیا تھا۔
مذاکرات سے باخبر رہنے والے سینئت پاکستان حکام کے مطابق پاکستان نے تحریک طالبان کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ فاٹا کا پختونخوا میں انضمام کسی ایک فرد کا فیصلہ نہیں بلکہ یہ علاقے کے عوام اور پوری پارلیمان کا فیصلہ ہے جسے کوئی بھی واپس نہیں لے سکتا، سابقہ فاٹا کی پختونخوا میں شمولیت ایک آئینی ترمیم کے ذریعے کی گئی اور اس کو واپس لینے کے لئے بھی پارلیمنٹ کی منظوری چاہئے۔
یہ بھی واضح کیا گیا کہ اب تک حکومت نے انضمام کو یقینی بنانے کے لئے اربوں روپے خرچ کر چکی ہے جن کو واپس لینا مشکل ہے۔ ان حکام کے مطابق پاکستان کے سخت مؤقف کے بعد طالبان نے اپنا مطالبہ واپس لے لیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں مذاکرات سے باخبر اعلیٰ عہدیدار نے ایکسپرس کو بتایا کہ ٹی ٹی پی نے کبھی بھی کسی غیر ملک میں دفتر کے قیام کا مطالبہ نہیں کیا کیونکہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش اسی لئے کی گئی تھی تاکہ افغانستان میں رہائش پذیر پاکستانی طالبان ہتھیار پھینکنے کے بعد پرامن رہنے کی ضمانت پر اگر آئے تو انہیں معافی دی جا سکتی ہے، اسی لئے کسی بھی غیر ملک میں طالبان کے دفتر کے قیام کا مطالبہ درست نہیں ہو سکتا۔
حکام نے آئندہ چند دنوں کے اندر مذاکرات کے حوالے سے مزید پیشرفت کا بھی امکان ظاہر کیا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان سابقہ قبائلی علاقے (فاٹا) کے خیبرپختونخوا میں انضمام واپس لینے کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کاروں کے ذریعے جاری مذاکرات میں شامل ایک سینئر سیکیورٹی اہلکار نے ایکسپریس کو بتایا ہے کہ حکومت نے مذاکرات کے آغاز میں ہی طالبان کے دو مطالبے مسترد کر دیے اور وہ بھی انتہائی سختی کے ساتھ۔
اس عہدیدار نے ایکسپریس کو بتایا کہ تحریک طالبان نے پاکستان نے فاٹا انضمام کو واپس لینے اور قبائلی علاقوں کو ماضی کی طرح آزاد رکھنے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ طالبان نے خیبرپختونخوا میں جاری بلدیاتی انتخابات جو سابقہ فاٹا اور موجودہ ضم شدہ اضلاع میں ایک ساتھ ہو رہے ہیں پر بھی اعتراض کیا تھا۔
مذاکرات سے باخبر رہنے والے سینئت پاکستان حکام کے مطابق پاکستان نے تحریک طالبان کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ فاٹا کا پختونخوا میں انضمام کسی ایک فرد کا فیصلہ نہیں بلکہ یہ علاقے کے عوام اور پوری پارلیمان کا فیصلہ ہے جسے کوئی بھی واپس نہیں لے سکتا، سابقہ فاٹا کی پختونخوا میں شمولیت ایک آئینی ترمیم کے ذریعے کی گئی اور اس کو واپس لینے کے لئے بھی پارلیمنٹ کی منظوری چاہئے۔
یہ بھی واضح کیا گیا کہ اب تک حکومت نے انضمام کو یقینی بنانے کے لئے اربوں روپے خرچ کر چکی ہے جن کو واپس لینا مشکل ہے۔ ان حکام کے مطابق پاکستان کے سخت مؤقف کے بعد طالبان نے اپنا مطالبہ واپس لے لیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں مذاکرات سے باخبر اعلیٰ عہدیدار نے ایکسپرس کو بتایا کہ ٹی ٹی پی نے کبھی بھی کسی غیر ملک میں دفتر کے قیام کا مطالبہ نہیں کیا کیونکہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے طالبان کو مذاکرات کی پیش کش اسی لئے کی گئی تھی تاکہ افغانستان میں رہائش پذیر پاکستانی طالبان ہتھیار پھینکنے کے بعد پرامن رہنے کی ضمانت پر اگر آئے تو انہیں معافی دی جا سکتی ہے، اسی لئے کسی بھی غیر ملک میں طالبان کے دفتر کے قیام کا مطالبہ درست نہیں ہو سکتا۔
حکام نے آئندہ چند دنوں کے اندر مذاکرات کے حوالے سے مزید پیشرفت کا بھی امکان ظاہر کیا ہے۔