وزیراعظم کورونا امدادی پیکیج میں 40 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف
بینظیرانکم پروگرام میں 25ارب،یوٹیلٹی اسٹورز میں5.2 ارب، این ڈی ایم اے میں 4.8 ارب روپے کی بے قاعدگی،اسپیشل آڈٹ رپورٹ
وزیراعظم کی جانب سے دیے جانے والے کورونا امدادی پیکیج کے استعمال میں 40 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
آڈیٹر جنرل نے 354.3 بلین روپے کے اخراجات کی جانچ پڑتال کرنا تھی تاہم متعلقہ ریکارڈ نہ ملا،کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے وزیر اعظم نے 24 مارچ 2020 کو 1.24 ٹریلین روپے کے کورونا پیکج کی منظوری دی، ریلیف پیکج کے بنیادی مقاصد میں کورونا پر قابو پانا، شہریوں کو طبی اور غذائی امداد کی فراہمی اور ان کی کاروباری اور معاشی مدد شامل تھی، اعلان کردہ پیکج میں سے 30 جون 2020 تک 354.2 بلین روپے جاری کیے گئے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے اس رپورٹ کا اجرا آئی ایم ایف کی ان پانچ پیشگی شرائط میں سے ایک ہے جو جنوری تک ایک بلین ڈالر قرض کی قسط حاصل کرنے کیلئے پاکستان پر لاگو کی گئیں،رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزارت دفاع کے 3.2 ارب روپے کے مشتبہ اور بے قاعدہ اخراجات تھے جبکہ دیگر سرکاری محکموں کے 1.5 ارب روپے کے مشکوک اخراجات تھے۔
یہ رپورٹ 30 جون 2020 تک مالی سال کے اختتام پر کورونا امدادی سرگرمیوں میں شامل وفاقی محکموں کے اکاؤنٹس کے آڈٹ پر مبنی ہے،پی آئی اے کو ضروری رسمی کارروائی کے بغیر اس کھیپ کیلئے 235 ملین روپے کی بے ضابطہ ادائیگی کی گئی جو مسلح افواج کے سروس ایئر کرافٹ کے ذریعے منتقل ہونا تھی۔
آڈیٹر جنرل نے منصوبہ بندی کے بغیر چینی کی خریداری کی وجہ سے 1.4 ارب روپے،گھی اور کوکنگ آئل کی خریداری میں بے ضابطگی سے 1.6 ارب روپے کے نقصان کی نشاندہی کی، گھی اور آئل کے فٹنس سرٹیفکیٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے 1.4 بلین روپے کا نقصان اس کے علاوہ ہے،یوٹیلیٹی اسٹورز کو ہول سیل نرخوں سے زائد نرخوں پر چینی خریدنے کی وجہ سے 100 ملین روپے کا نقصان ہوا۔ فلور ملوں سے آٹے کی خریداری میں 95.3 ملین روپے کی بے قاعدگی سامنے آئی ہے۔
آئندہ ہفتے پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اجلاس میں بھی کورونا اخراجات میں ہونیوالی بے ضابطگیوں کی تفصیلات پیش کئے جانے کا امکان ہے،ذرائع کے مطابق اشیا کی خریداری میں قوانین کی خلاف ورزی، مالی بدانتظامی پائی گئی۔
آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وبا کے دوران خریدی گئی اشیا کی ترسیل میں اداروں نے تاخیر کی اور حکومتی ضمانتوں کے بغیر سپلائرز کو پیشگی ادائیگیاں کی گئی ہیں،کیش کی فراہمی کے دوران نادرا سسٹم میں بھی خرابیاں پائی گئی ہیں۔
اس کے علاوہ سرکاری ملازمین،بیمہ شدہ افراد اور ای او بی آئی پنشنروں میں رقوم کی تقسیم میں خامیوں کا انکشاف سامنے آیا، چین سے سامان کی خریداری میں پیپرا رولز کی خلاف ورزی کی گئی، ریسورس مینجمنٹ سسٹم کی خریداری میں 4 کروڑ 25 لاکھ روپے کی بے ضابطگی ہوئی، ان تمام معاہدوں کی تفصیلات نیب کو فراہم نہیں کی گئیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے مطابق احساس کیش پروگرام میں 13 لاکھ 20 ہزار لوگوں کو فنڈز سے محروم رکھا گیا،یوٹیلٹی اسٹورز کے لیے فراہم کی گئی 50 ارب روپے کی سبسڈی میں سے 80 فیصد فنڈز جاری نہیں ہوئے،بجلی کے 100 ارب روپے کے ریلیف پیکج میں سے صرف 15 ارب روپے جاری کیے گئے۔
حکومت کی جانب سے اعلان کی جانے والی 50 ارب کی سبسڈی تاحال جاری نہیں ہوئی، چین سے 40 لاکھ ڈالر کی امداد کی فراہمی میں تاخیر کی گئی، کورونا وبا کے پیش نظر مہنگے وینٹیلیٹروں کی خریداری کرنے پر 9 لاکھ 94 ہزار ڈالر کا نقصان ہوا، اسی طرح وینٹیلیٹروں کی خریداری میں چینی کمپنی کو 7 لاکھ ڈالر اضافی دیئے گئے،کمپنی سے 80 وینٹیلیٹروں کی خریداری 12 لاکھ 77 ہزار ڈالر میں کی گئی جبکہ ادائیگی 19 لاکھ 77 ہزار ڈالر کی گئی۔
دریں اثنا آڈیٹر جنرل آف پاکستان محمد اجمل گوندل نے اے جی پی آر میں خود احتسابی اور عوامی خدمت پر تقریب کے بعد میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہ کورونا فنڈز میں بے قاعدگیوں میں ملوث حکام کا پیچھا نہیں چھوڑا جائیگا،آئندہ ہفتے پبلک اکاو'نٹس کمیٹی میں مزید تفصیلات سامنے آئیں گی، احساس پروگرام کے تحت قانون کا خیال نہیں رکھا گیا،صدر مملکت کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں شفافیت پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے۔
آڈیٹر جنرل نے 354.3 بلین روپے کے اخراجات کی جانچ پڑتال کرنا تھی تاہم متعلقہ ریکارڈ نہ ملا،کورونا وبا سے نمٹنے کے لیے وزیر اعظم نے 24 مارچ 2020 کو 1.24 ٹریلین روپے کے کورونا پیکج کی منظوری دی، ریلیف پیکج کے بنیادی مقاصد میں کورونا پر قابو پانا، شہریوں کو طبی اور غذائی امداد کی فراہمی اور ان کی کاروباری اور معاشی مدد شامل تھی، اعلان کردہ پیکج میں سے 30 جون 2020 تک 354.2 بلین روپے جاری کیے گئے۔
وزارت خزانہ کی جانب سے اس رپورٹ کا اجرا آئی ایم ایف کی ان پانچ پیشگی شرائط میں سے ایک ہے جو جنوری تک ایک بلین ڈالر قرض کی قسط حاصل کرنے کیلئے پاکستان پر لاگو کی گئیں،رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزارت دفاع کے 3.2 ارب روپے کے مشتبہ اور بے قاعدہ اخراجات تھے جبکہ دیگر سرکاری محکموں کے 1.5 ارب روپے کے مشکوک اخراجات تھے۔
یہ رپورٹ 30 جون 2020 تک مالی سال کے اختتام پر کورونا امدادی سرگرمیوں میں شامل وفاقی محکموں کے اکاؤنٹس کے آڈٹ پر مبنی ہے،پی آئی اے کو ضروری رسمی کارروائی کے بغیر اس کھیپ کیلئے 235 ملین روپے کی بے ضابطہ ادائیگی کی گئی جو مسلح افواج کے سروس ایئر کرافٹ کے ذریعے منتقل ہونا تھی۔
آڈیٹر جنرل نے منصوبہ بندی کے بغیر چینی کی خریداری کی وجہ سے 1.4 ارب روپے،گھی اور کوکنگ آئل کی خریداری میں بے ضابطگی سے 1.6 ارب روپے کے نقصان کی نشاندہی کی، گھی اور آئل کے فٹنس سرٹیفکیٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے 1.4 بلین روپے کا نقصان اس کے علاوہ ہے،یوٹیلیٹی اسٹورز کو ہول سیل نرخوں سے زائد نرخوں پر چینی خریدنے کی وجہ سے 100 ملین روپے کا نقصان ہوا۔ فلور ملوں سے آٹے کی خریداری میں 95.3 ملین روپے کی بے قاعدگی سامنے آئی ہے۔
آئندہ ہفتے پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اجلاس میں بھی کورونا اخراجات میں ہونیوالی بے ضابطگیوں کی تفصیلات پیش کئے جانے کا امکان ہے،ذرائع کے مطابق اشیا کی خریداری میں قوانین کی خلاف ورزی، مالی بدانتظامی پائی گئی۔
آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وبا کے دوران خریدی گئی اشیا کی ترسیل میں اداروں نے تاخیر کی اور حکومتی ضمانتوں کے بغیر سپلائرز کو پیشگی ادائیگیاں کی گئی ہیں،کیش کی فراہمی کے دوران نادرا سسٹم میں بھی خرابیاں پائی گئی ہیں۔
اس کے علاوہ سرکاری ملازمین،بیمہ شدہ افراد اور ای او بی آئی پنشنروں میں رقوم کی تقسیم میں خامیوں کا انکشاف سامنے آیا، چین سے سامان کی خریداری میں پیپرا رولز کی خلاف ورزی کی گئی، ریسورس مینجمنٹ سسٹم کی خریداری میں 4 کروڑ 25 لاکھ روپے کی بے ضابطگی ہوئی، ان تمام معاہدوں کی تفصیلات نیب کو فراہم نہیں کی گئیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے مطابق احساس کیش پروگرام میں 13 لاکھ 20 ہزار لوگوں کو فنڈز سے محروم رکھا گیا،یوٹیلٹی اسٹورز کے لیے فراہم کی گئی 50 ارب روپے کی سبسڈی میں سے 80 فیصد فنڈز جاری نہیں ہوئے،بجلی کے 100 ارب روپے کے ریلیف پیکج میں سے صرف 15 ارب روپے جاری کیے گئے۔
حکومت کی جانب سے اعلان کی جانے والی 50 ارب کی سبسڈی تاحال جاری نہیں ہوئی، چین سے 40 لاکھ ڈالر کی امداد کی فراہمی میں تاخیر کی گئی، کورونا وبا کے پیش نظر مہنگے وینٹیلیٹروں کی خریداری کرنے پر 9 لاکھ 94 ہزار ڈالر کا نقصان ہوا، اسی طرح وینٹیلیٹروں کی خریداری میں چینی کمپنی کو 7 لاکھ ڈالر اضافی دیئے گئے،کمپنی سے 80 وینٹیلیٹروں کی خریداری 12 لاکھ 77 ہزار ڈالر میں کی گئی جبکہ ادائیگی 19 لاکھ 77 ہزار ڈالر کی گئی۔
دریں اثنا آڈیٹر جنرل آف پاکستان محمد اجمل گوندل نے اے جی پی آر میں خود احتسابی اور عوامی خدمت پر تقریب کے بعد میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہ کورونا فنڈز میں بے قاعدگیوں میں ملوث حکام کا پیچھا نہیں چھوڑا جائیگا،آئندہ ہفتے پبلک اکاو'نٹس کمیٹی میں مزید تفصیلات سامنے آئیں گی، احساس پروگرام کے تحت قانون کا خیال نہیں رکھا گیا،صدر مملکت کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں شفافیت پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے۔