جمہوری قدروں کا تقاضہ
ہمارے یہاں لیڈرشپ کے لیے صداقت اورکردارکوئی معنی نہیں رکھتا، بس اسے صرف دولت مند ہونا چاہیے یہی معیار بن کر رہ گیا ہے۔
KARACHI:
تعجب خیز بات یہ ہے کہ 2 فیصد طبقہ اشرافیہ ، 98 فیصد عوام پر حکمرانی کر رہا ہے، یہ سلسلہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک جاری وساری ہے جب کہ جمہوری اقدارکا تقاضہ تو یہ ہے کہ اکثریتی طبقہ دو فیصد اشرافیہ پر حکومت کرتا، لیکن افسوس ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے۔
وطن عزیز پاکستان کا سیاسی نظام اس امر کی اجازت نہیں دیتا۔ آج تک یہ نظام نہیں ٹوٹ سکا اور اس کی قوت اس قدر زیادہ ہے کہ کوئی بھی چیلنجنگ قوت اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکی اور جلد ہی پس منظر میں چلی گئی۔ ہمارے یہاں شخصی اجارہ داری کے تسلط کی جڑیں گہری ہیں۔ قانون اور سیاست سب کچھ انھیں شخصیات کے گرد گھومتا ہے۔نام نہاد قانون کی بالا دستی ان طاقتور شخصیت کے سامنے پانی بھرتی ہے۔
اسی طرز عمل نے مشرقی پاکستان کھو دیا ، پھر بھی سبق حاصل نہ کرسکے۔ صوبائی عصبیت نے نفرتوں کو جنم دیا اور پاکستانیت کے تشخص کو زک پہنچائی گئی۔ پھر بھی اس سے کسی نے سبق حاصل نہیں کیا بلکہ آج بھی اسی ناسور کو ہوا دی جا رہی ہے اور اس کی حامل قوتوں کے سامنے ریاست کمزور دکھائی دیتی ہے۔ سیاست میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا عمل آج بھی عروج پر ہے اور اس کو برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔جو جتنا دوسرے کی تضحیک کرتا ہے وہ قوم کا اتنا ہی بڑا لیڈر بن جاتا ہے۔
قوم کے مزاج کو اس معیار سے دورکردیا گیا جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح چاہتے تھے۔ ہم نہ سیاسی استحکام حاصل کرسکے ، نہ معاشی استحکام پاسکے اور نہ ہی قوم کو اقتصادی فلسفہ دیا جس سے ان کی معاشی اور معاشرتی حالت میں بہتری آسکتی تھی۔ جاگیردار اور سرمایہ دار طبقات نے مل کر سیاست میں خاندانی وراثت کو جلا بخشی جس سے ایک طرف سیاسی افراتفری پھیلی تو دوسری جانب جمہوری عمل و اقدارکو نقصان پہنچا۔
یہ طبقہ جمہوریت کا نام لے کر سادہ لوح عوام کو سیاسی میدان میں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اکساتے رہے ہیں ، لیکن اپنی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کے قیام کے روادار نہیں ہوتے ، جس ملک میں خاندانی سیاسی وراثت قائم ہوجائے وہاں حقیقی جمہوریت کا قیام ناممکن ہوجاتا ہے جوکل کی طرح آج بھی ایک استحصالی نعرے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
سیاستدان جمہوری استحکام اور ملکی خوشحالی کے نام پر عوام کو دھوکا دیتے آ رہے ہیں اور وہ اس پر ذرا بھی ندامت محسوس نہیں کرتے، بلک وہ بڑی ڈھٹائی سے اپنے غلط اعمال اور کرپشن پر پردہ ڈھالتے اور دوسروں کے خلاف مہم چلاتے ہیں۔عوام میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان سا قابل ،ایماندار اور پارسا سیاستدان پورے ملک میں موجود نہیں۔یہی سیاست کاچلن ہم دیکھتے آ رہے ہیں جو روز بروز توقیت پکڑتا جا رہا ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں با اثر سیاسی شخصیات حکومت میں رہ کر یا حکومت سے باہر ہوکر حکومت سے ایسی مراعات بھی حاصل کرلیتی ہیں جن کی وہ حق دار نہیں ہوتیں۔ اپنی اولادوں اور عزیز و اقارب کو اپنی سفارش سے سرکاری ملازمتیں بھی دلاتی رہی ہیں ، ان کے دوست و احباب بھی ان کے سیاسی اثر و رسوخ سے مستفیض ہوتے رہتے ہیں۔ جرائم میں ملوث افراد کو اپنے رہنما ہونے کے طفیل لاک اپ سے رہائی بھی دلواتی ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد ملک کی باگ ڈور ان ہاتھوں میں آئی جو بیرونی قوتوں کی سرپرستی کے سبب لیڈر بنے۔ آج بھی بہت سے ایسے لیڈر ہیں جو دہری شہریت کے حامل ہیں جن کی وفاداریاں انھی ممالک سے وابستہ ہیں ، ان کی دولت اور کاروبار بیرون ممالک میں ہیں۔ ان کو چھینک بھی آجائے تو وہ علاج کے لیے بیرون ممالک دوڑ پڑتے ہیں۔ ملک کو لوٹنے کھسوٹنے کے لیے بار، بار برسر اقتدار آتے رہے ہیں۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جنھیں عدالتیں سزا دے چکی ہے وہ انتہائی چالاکی اور عیاری سے انصاف کی آنکھوں میں دھول جھونک کر آزادانہ زندگی بسرکررہے ہیں۔ ملک کا سیاسی نظام ، سیاسی شخصیات کو دولت کے ترازو میں تولنے کا عادی ہے، جس کے پاس جتنی زیادہ دولت یا جاگیر ہوتی ہے وہ اتنا ہی بڑا لیڈر ہوتا ہے۔ اس معیار نے ہمارے ملک و قوم کو جتنا نقصان پہنچایا ہے، اس کی تلافی کو ایک مدت لگ سکتی ہے ۔ ہمارے یہاں لیڈر شپ کے لیے صداقت اورکردارکوئی معنی نہیں رکھتا، بس اسے صرف دولت مند ہونا چاہیے یہی معیار بن کر رہ گیا ہے۔
انھی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے تسلط کی وجہ سے ملک مالی خسارے میں جارہا ہے ،جب کہ وہ پہلے سے زیادہ مالدار بنتے جارہے ہیں۔آج بھی یہی طبقہ ڈنکے کی چوٹ پر عوام کا استحصال کررہا ہے۔ یہی فرسودہ جاگیردارانہ سیاسی نظام ملک کے مخلص، خیرخواہ اور متوسط یا غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو اسمبلیوں میں پہنچنے نہیں دیتا اس لیے کہ اگر مڈل کلاس قیادت اسمبلی میں موجود ہوگی تو جاگیرداری نظام کا وجود خطرے میں رہے گا۔
انگریزوں کوکیا حق حاصل تھا کہ وہ ہماری زمینیں اپنے کچھ وفادار غلاموں کے حوالے کرگئے؟ پڑوسی ملک نے انگریزوں کی اس بندر بانٹ کو ختم کر دیا ، ایران میں خمینی کے قوانین جاگیرداروں کے خاتمے کا سبب بنے ، افغانستان ، چین اور تبت میں بھی یہ نظام موجود نہیں رہا ، پھر وطن عزیز میں سرداری اور جاگیرداری نظام برقرار رکھنے کا کیا جواز ہے؟ یہ وہ باتیں اور سوالات ہیں جو اکثریتی پاکستانی شہری عرصہ دراز سے کرتے چلے آرہے ہیں۔
ان اکثریتی عوام کا جرم یہی ہے کہ وہ پاکستان کی تکمیل چاہتے ہیں یہ وہ پاکستان چاہتے ہیں جس کے حصول کے لیے قائد اعظم اور اس کے رفقاء نے جدوجہد کی اور اسلاف نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیں۔ جی ہاں ! عوام پاکستان سے جاگیرداری ، سرداری ، وڈیرہ شاہی اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے خواہش مند ہے ۔
خاموش اکثریتی عوام کی ترقی کے تمام راستے نہ صرف مسدود کیے گئے ہیں بلکہ ان پر دباؤ ڈالنے اور پریشان کرنے کے لیے انھیں مہنگائی ، بے روزگاری ، پانی و بجلی اور گیس کی کمیابی ، ٹیکسز کی بھرمار، بلدیاتی مسائل ، عوامی مسائل اور دیگر معاشرتی مسائل میں جکڑ رکھا ہے تا آنکہ یہ سر نہ اٹھا سکیں۔ عوام یہ تمام مصائب کب تک برداشت کرتے رہیں گے ، آخرکار اس آتش فشاں کو پھٹنا ہے۔
قوم عرصہ دراز سے ایک ایسی مخلص سیاسی قیادت کی ضرورت کو محسوس کر رہی ہے جو دل و جان سے ملک و قوم کی خدمت کرے اور پاکستان کے مظلوم عوام کی ترجمانی بھی کرسکے لیکن سیاسی بازیگر ہر بار عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچاتے رہے ہیں۔ تبدیلی سرکار بھی جاگیرداروں ، سرداروں و سرمایہ داروں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ یہ بیساکھیاں کل کسی اور کا سہارا بن جائیں گی، لیکن غور طلب پہلو یہ ہے کہ ہر انتخاب میں ووٹ کاسٹ کرنے کا رحجان کم ہوتا جا رہا ہے ، خاموش اکثریتی عوام کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، کیا کسی نے اس جانب سوچا بھی ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟
خدارا ! غورو فکرکریں اور سوچیں ! کہ عوام کی اکثریت ووٹ کاسٹ کرنے سے کیوں بیزار ہو رہی ہے؟ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ووٹ مشین کے ذریعے دیا جائے یا بیلٹ پیپر پر ٹھپہ لگا کردیا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ ووٹرز پولنگ اسٹیشنوں سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں، کیونکہ عوام سب بہروپیوں کو جان چکے ہیں ، لیڈران قوم اپنے دوغلے پن کی وجہ سے عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ اب ایسی تدبیرکی جائے کہ جس سے عوام کا اعتماد بحال ہوجائے، جس کے لیے چہرے نہیں، نظام بدلنا ہوگا۔
تعجب خیز بات یہ ہے کہ 2 فیصد طبقہ اشرافیہ ، 98 فیصد عوام پر حکمرانی کر رہا ہے، یہ سلسلہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک جاری وساری ہے جب کہ جمہوری اقدارکا تقاضہ تو یہ ہے کہ اکثریتی طبقہ دو فیصد اشرافیہ پر حکومت کرتا، لیکن افسوس ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے۔
وطن عزیز پاکستان کا سیاسی نظام اس امر کی اجازت نہیں دیتا۔ آج تک یہ نظام نہیں ٹوٹ سکا اور اس کی قوت اس قدر زیادہ ہے کہ کوئی بھی چیلنجنگ قوت اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکی اور جلد ہی پس منظر میں چلی گئی۔ ہمارے یہاں شخصی اجارہ داری کے تسلط کی جڑیں گہری ہیں۔ قانون اور سیاست سب کچھ انھیں شخصیات کے گرد گھومتا ہے۔نام نہاد قانون کی بالا دستی ان طاقتور شخصیت کے سامنے پانی بھرتی ہے۔
اسی طرز عمل نے مشرقی پاکستان کھو دیا ، پھر بھی سبق حاصل نہ کرسکے۔ صوبائی عصبیت نے نفرتوں کو جنم دیا اور پاکستانیت کے تشخص کو زک پہنچائی گئی۔ پھر بھی اس سے کسی نے سبق حاصل نہیں کیا بلکہ آج بھی اسی ناسور کو ہوا دی جا رہی ہے اور اس کی حامل قوتوں کے سامنے ریاست کمزور دکھائی دیتی ہے۔ سیاست میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا عمل آج بھی عروج پر ہے اور اس کو برا بھی نہیں سمجھا جاتا۔جو جتنا دوسرے کی تضحیک کرتا ہے وہ قوم کا اتنا ہی بڑا لیڈر بن جاتا ہے۔
قوم کے مزاج کو اس معیار سے دورکردیا گیا جو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح چاہتے تھے۔ ہم نہ سیاسی استحکام حاصل کرسکے ، نہ معاشی استحکام پاسکے اور نہ ہی قوم کو اقتصادی فلسفہ دیا جس سے ان کی معاشی اور معاشرتی حالت میں بہتری آسکتی تھی۔ جاگیردار اور سرمایہ دار طبقات نے مل کر سیاست میں خاندانی وراثت کو جلا بخشی جس سے ایک طرف سیاسی افراتفری پھیلی تو دوسری جانب جمہوری عمل و اقدارکو نقصان پہنچا۔
یہ طبقہ جمہوریت کا نام لے کر سادہ لوح عوام کو سیاسی میدان میں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اکساتے رہے ہیں ، لیکن اپنی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کے قیام کے روادار نہیں ہوتے ، جس ملک میں خاندانی سیاسی وراثت قائم ہوجائے وہاں حقیقی جمہوریت کا قیام ناممکن ہوجاتا ہے جوکل کی طرح آج بھی ایک استحصالی نعرے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
سیاستدان جمہوری استحکام اور ملکی خوشحالی کے نام پر عوام کو دھوکا دیتے آ رہے ہیں اور وہ اس پر ذرا بھی ندامت محسوس نہیں کرتے، بلک وہ بڑی ڈھٹائی سے اپنے غلط اعمال اور کرپشن پر پردہ ڈھالتے اور دوسروں کے خلاف مہم چلاتے ہیں۔عوام میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان سا قابل ،ایماندار اور پارسا سیاستدان پورے ملک میں موجود نہیں۔یہی سیاست کاچلن ہم دیکھتے آ رہے ہیں جو روز بروز توقیت پکڑتا جا رہا ہے۔
وطن عزیز پاکستان میں با اثر سیاسی شخصیات حکومت میں رہ کر یا حکومت سے باہر ہوکر حکومت سے ایسی مراعات بھی حاصل کرلیتی ہیں جن کی وہ حق دار نہیں ہوتیں۔ اپنی اولادوں اور عزیز و اقارب کو اپنی سفارش سے سرکاری ملازمتیں بھی دلاتی رہی ہیں ، ان کے دوست و احباب بھی ان کے سیاسی اثر و رسوخ سے مستفیض ہوتے رہتے ہیں۔ جرائم میں ملوث افراد کو اپنے رہنما ہونے کے طفیل لاک اپ سے رہائی بھی دلواتی ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد ملک کی باگ ڈور ان ہاتھوں میں آئی جو بیرونی قوتوں کی سرپرستی کے سبب لیڈر بنے۔ آج بھی بہت سے ایسے لیڈر ہیں جو دہری شہریت کے حامل ہیں جن کی وفاداریاں انھی ممالک سے وابستہ ہیں ، ان کی دولت اور کاروبار بیرون ممالک میں ہیں۔ ان کو چھینک بھی آجائے تو وہ علاج کے لیے بیرون ممالک دوڑ پڑتے ہیں۔ ملک کو لوٹنے کھسوٹنے کے لیے بار، بار برسر اقتدار آتے رہے ہیں۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جنھیں عدالتیں سزا دے چکی ہے وہ انتہائی چالاکی اور عیاری سے انصاف کی آنکھوں میں دھول جھونک کر آزادانہ زندگی بسرکررہے ہیں۔ ملک کا سیاسی نظام ، سیاسی شخصیات کو دولت کے ترازو میں تولنے کا عادی ہے، جس کے پاس جتنی زیادہ دولت یا جاگیر ہوتی ہے وہ اتنا ہی بڑا لیڈر ہوتا ہے۔ اس معیار نے ہمارے ملک و قوم کو جتنا نقصان پہنچایا ہے، اس کی تلافی کو ایک مدت لگ سکتی ہے ۔ ہمارے یہاں لیڈر شپ کے لیے صداقت اورکردارکوئی معنی نہیں رکھتا، بس اسے صرف دولت مند ہونا چاہیے یہی معیار بن کر رہ گیا ہے۔
انھی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے تسلط کی وجہ سے ملک مالی خسارے میں جارہا ہے ،جب کہ وہ پہلے سے زیادہ مالدار بنتے جارہے ہیں۔آج بھی یہی طبقہ ڈنکے کی چوٹ پر عوام کا استحصال کررہا ہے۔ یہی فرسودہ جاگیردارانہ سیاسی نظام ملک کے مخلص، خیرخواہ اور متوسط یا غریب طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو اسمبلیوں میں پہنچنے نہیں دیتا اس لیے کہ اگر مڈل کلاس قیادت اسمبلی میں موجود ہوگی تو جاگیرداری نظام کا وجود خطرے میں رہے گا۔
انگریزوں کوکیا حق حاصل تھا کہ وہ ہماری زمینیں اپنے کچھ وفادار غلاموں کے حوالے کرگئے؟ پڑوسی ملک نے انگریزوں کی اس بندر بانٹ کو ختم کر دیا ، ایران میں خمینی کے قوانین جاگیرداروں کے خاتمے کا سبب بنے ، افغانستان ، چین اور تبت میں بھی یہ نظام موجود نہیں رہا ، پھر وطن عزیز میں سرداری اور جاگیرداری نظام برقرار رکھنے کا کیا جواز ہے؟ یہ وہ باتیں اور سوالات ہیں جو اکثریتی پاکستانی شہری عرصہ دراز سے کرتے چلے آرہے ہیں۔
ان اکثریتی عوام کا جرم یہی ہے کہ وہ پاکستان کی تکمیل چاہتے ہیں یہ وہ پاکستان چاہتے ہیں جس کے حصول کے لیے قائد اعظم اور اس کے رفقاء نے جدوجہد کی اور اسلاف نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیں۔ جی ہاں ! عوام پاکستان سے جاگیرداری ، سرداری ، وڈیرہ شاہی اور سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے خواہش مند ہے ۔
خاموش اکثریتی عوام کی ترقی کے تمام راستے نہ صرف مسدود کیے گئے ہیں بلکہ ان پر دباؤ ڈالنے اور پریشان کرنے کے لیے انھیں مہنگائی ، بے روزگاری ، پانی و بجلی اور گیس کی کمیابی ، ٹیکسز کی بھرمار، بلدیاتی مسائل ، عوامی مسائل اور دیگر معاشرتی مسائل میں جکڑ رکھا ہے تا آنکہ یہ سر نہ اٹھا سکیں۔ عوام یہ تمام مصائب کب تک برداشت کرتے رہیں گے ، آخرکار اس آتش فشاں کو پھٹنا ہے۔
قوم عرصہ دراز سے ایک ایسی مخلص سیاسی قیادت کی ضرورت کو محسوس کر رہی ہے جو دل و جان سے ملک و قوم کی خدمت کرے اور پاکستان کے مظلوم عوام کی ترجمانی بھی کرسکے لیکن سیاسی بازیگر ہر بار عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچاتے رہے ہیں۔ تبدیلی سرکار بھی جاگیرداروں ، سرداروں و سرمایہ داروں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ یہ بیساکھیاں کل کسی اور کا سہارا بن جائیں گی، لیکن غور طلب پہلو یہ ہے کہ ہر انتخاب میں ووٹ کاسٹ کرنے کا رحجان کم ہوتا جا رہا ہے ، خاموش اکثریتی عوام کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، کیا کسی نے اس جانب سوچا بھی ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟
خدارا ! غورو فکرکریں اور سوچیں ! کہ عوام کی اکثریت ووٹ کاسٹ کرنے سے کیوں بیزار ہو رہی ہے؟ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ووٹ مشین کے ذریعے دیا جائے یا بیلٹ پیپر پر ٹھپہ لگا کردیا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ ووٹرز پولنگ اسٹیشنوں سے بہت دور ہوتے جارہے ہیں، کیونکہ عوام سب بہروپیوں کو جان چکے ہیں ، لیڈران قوم اپنے دوغلے پن کی وجہ سے عوام کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ اب ایسی تدبیرکی جائے کہ جس سے عوام کا اعتماد بحال ہوجائے، جس کے لیے چہرے نہیں، نظام بدلنا ہوگا۔