ناقابل فراموش تتلی بہنیں

اگرعصر حاضرمیں بھی اصلاح کاعمل شروع کیا جائے تو دوسو برس میں شایدیہ سماج خواتین پرتشدد کے معاملے میں کوئی بہتری لاسکے۔

1931 ہی کا سال تھا جب جمہوریہ ڈومینکن کی مسند اقتدار پر آمر رافیل ٹجیلو براجمان ہوا۔ آمر رافیل ٹرجیلو کے دور حکومت میں وہ تمام خرابیاں فروغ پا چکی تھیں جوکہ ایک آمر کے دور کا خاصا ہوا کرتی ہیں۔

ذرایع ابلاغ ، تحریر و تقریر پر پابندی ، اقربا پروری ، سماجی عدم مساوات بالخصوص خواتین کے ساتھ غیر مساوی سلوک ان کو ہراساں کرنا ، گویا کوئی جرم ہی نہ تھا۔ یہ جرم تسلیم بھی کیسے کیا جاتا کیونکہ آمر رافیل ٹرجیلو خود بھی خواتین کو ہراساں کرنے میں کافی بد نام تھا۔ اب ان حالات میں اس آمر حکمران سے یہ امید رکھنا کہ وہ خواتین کے ساتھ اس نارواسلوک کو روکنے کے اقدامات کرے عبث ہی تھا۔

ایک جانب یہ حالات تو دوسری جانب تین خواتین جوکہ تین سگی بہنیں تھیں ، اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آمر رافیل ٹرجیلو کے ظالمانہ اقدام کے خلاف میدان عمل میں کود پڑیں۔ یہ تینوں بہنیں تھیں پیٹریا(Patria)، منروا (Minerva) اور ماریا ٹریسا (Maria Teresa)۔

یہ تینوں بہنیں اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں اور کالج تک کی تعلیم کی ڈگری رکھتی تھیں جب کہ اس دور میں کالج تو کیا ابتدائی تعلیم کا حصول بھی ایک ناممکن عمل تھا مگر ان تینوں نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود تعلیم حاصل کی جب کہ ان تینوں بہنوں کا تعلق ایک عام سے کسان گھرانے سے تھا۔ جب انھوں نے آمر رافیل ٹرجیلو کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو ان کی قیادت منروا کے ہاتھ میں تھی۔

ان خواتین نے ایک مزاحمتی سیاسی و سماجی گروپ تشکیل دیا اس گروپ کا نام انھوں نے 14J تجویزکیا۔ اس گروپ نے مختلف سمتوں سے آمر رافیل ٹرجیلوکے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس گروپ نے ایک جانب تو آمر رافیل ٹرجیلو کے جرائم سے پردہ اٹھایا اور تمام تر ان لوگوں کے اعداد و شمار اکٹھے کیے جوکہ آمر رافیل ٹرجیلو کے دور میں قتل کیے گئے یا جو لوگ اس آمر کے دور حکومت میں جبر کا شکار ہوئے۔

عوام جب ان جبرکی داستانوں کو پڑھتے یا سنتے تو عوام کا غم و غصہ مزید دوچند ہو جاتا، دوسری جانب ان باہمت خواتین نے آمر رافیل ٹرجیلو کے خلاف ہتھیار بند ہوکر جدوجہد کا آغاز بھی کردیا اور ان کی جدوجہد میں فقط خواتین ہی شریک نہ تھیں بلکہ جمہوریت پسند مرد بھی اس تحریک میں شریک ہوگئے۔ ان حالات میں آمر رافیل ٹرجیلو نے ان سماجی حریت پسندوں کے خلاف ظلم و جبر کا سلسلہ مزید سخت کردیا۔


اس نے تحریک میں شریک ہونے والوں کے قریبی عزیز و اقربا کو ہر طرح سے جبر کا نشانہ بنانا شروع کردیا اور عام لوگوں کے ساتھ ساتھ ان تینوں بہنوں کے شوہروں کو بھی جیل میں ڈال دیا۔ ان اقدامات سے ان جابر حکمرانوں کا خیال تھا کہ ان خواتین کے حوصلے پست ہوجائیں گے اور یہ خواتین اپنی جمہوری تحریک سے علیحدہ ہوجائیں گی مگر ایسا نہ ہو سکا۔

یہ خواتین اس آزمائش سے گزر گئیں البتہ 25 نومبر 1960 کو جب یہ تینوں خواتین جیل میں اپنے اپنے شوہروں سے ملاقات کرکے واپس جا رہی تھیں تو حکومتی اہلکاروں نے انھیں گرفتار کرکے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ تشدد اس قدر شدید تھا کہ یہ تینوں بہنیں زندگی کی بازی ہارگئیں۔

ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ ان اہلکاروں نے ان تینوں خواتین کو ایک گاڑی میں ڈالا اور ایک بلند پہاڑی سے نیچے دھکیل دیا تاکہ ان خواتین کی موت کو حادثہ قرار دیا جاسکے مگر ریاستی ہتھکنڈا ناکام ہوا اور عوام تک اصل حقائق پہنچ گئے ، اب آمر رافیل ٹرجیلو کے خلاف عوام کا غم و غصہ دوچند ہو گیا۔ نتیجہ یہ کہ اس واقعے کے اگلے برس آمر رافیل ٹرجیلو کے بدترین آمرانہ دور کا بھی خاتمہ ہو گیا۔

1961 میں البتہ ان تینوں بہنوں کی جدوجہد کو عالم گیر سطح پر تسلیم کیا گیا اور ان تینوں بہنوں کی جدوجہد کو تاریخ میں ناقابل فراموش '' تتلی بہنیں'' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے البتہ جمہوریت پسند خواتین کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں جوکہ 38 برس تک جاری رہی 1999 میں اقوام متحدہ میں تسلیم کیا گیا اور عالمی سطح پر 25 نومبر خواتین کے تشدد کے خلاف اس دن کو منایا جاتا ہے گوکہ یہ دن پوری دنیا میں ایک دن کے لیے نہیں بلکہ 25 نومبر سے 10 دسمبر تک منایا جاتا ہے مگر پاکستان میں یہ دن رسمی طور پر فقط ایک دن 25 نومبر ہی کو منایا جاتا ہے۔

یہ ضرور ہے کہ خواتین پر تشدد و ہراسگی کا سلسلہ عصر حاضر میں بھی جاری ہے ہر سماج میں اس کی اشکال مختلف ہیں۔ ہمارا ملک بھی حقوق نسواں کے حوالے سے کوئی مثالی ملک نہیں ہے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ خواتین کو ہراسگی کے شدید مسائل کا سامنا ہر قدم پر کرنا پڑتا ہے۔ ستم تو یہ ہے کہ ایسے مسائل میں خواتین کو انصاف تو کیا حاصل ہو بلکہ یہاں اکثریت میں ایسے کیس رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور اگر ایسے کیس رپورٹ ہو بھی جائیں تو انصاف کے راستے میں قدم قدم پر رکاوٹیں ہیں۔ اس کے علاوہ کم عمری کی شادیاں بھی سنگین مسئلہ ہیں۔

عام خیال یہ پایا جاتا ہے اگر عصر حاضر میں بھی اصلاح کا عمل شروع کیا جائے تو دو سو برس میں شاید یہ سماج خواتین پر تشدد کے معاملے میں کوئی بہتری لاسکے یوں بھی خواتین پر تشدد کی شکار کے سلسلے میں پوری دنیا میں 2 نمبر پر ہے۔ ان حالات میں لازم ہے کہ لوگوں کی اخلاقی اصلاح کی جائے اگر ایسا کرنے میں ہم کامیاب ہو جائیں تو پھر ہی ہمارا سماج ایک فلاحی سماج بن پائے گا۔
Load Next Story