چاند ہرجائی ہے ہر گھرمیں اُتر آتا ہے
ہم سب کے لیے لڑتے ہیں گھر سے باہر نکلتے ہیں کشمیر سے فلسطین تک ہماری ذمے داری ہیں لیکن کبھی نہیں نکلے تو بس اپنے لیے۔
چاند بظاہر ایک استعارہ ہے ایک تشبیہ ہے خوبصورتی کی مثال جب کبھی کسی نے دی تو چاند سے دی لیکن ان دنوں یہ ایک پر اسرار معنوں میں مستعمل ہے علومِ باطنیہ میں بھی چاند کی اہمیت سے وہ حضرات واقف ہوں گے جو اس سے شغف رکھتے ہیں، گویا شاعرانہ اصطلاح میں چاند کہیں محبوب باوفا ہے کہیں محبوب بے وفا ، لیکن کیا کریں کہ ان دنوں اس کا ایک تعلق ہماری موجودہ حکومت سے بھی نکل آیا۔
آج کے بعض حکمران بھی حکومت سازی میں ان مخفی علوم کو مانتے ہیں اور ملک کے اہم ترین فیصلے کرتے ہوئے ان کی نظریں چاند پر ٹکی ہوتی ہیں۔ چاند کی گھٹتی بڑھتی ہوئی منزلیں دیکھنے کے بعد ہی حتمی فیصلے کیے جاتے ہیں ، لیکن سچ تو یہ ہے کہ چاند کسی کا نہیں وہ تو ہر گھر سے نظر آتا ہے، ہر گھر میں اتر آتا ہے، اور مان لیا جائے تو کیا حرج ہے کہ وہ سبھی کا ہے یعنی جتنا حکومت کا ہے اتنا ہی اپوزیشن کا لہٰذا میری ناقص رائے میں اس پر بھروسہ ممکن نہیں، ملک مہنگائی کی بد ترین دلدل میں دھنسا ہوا ہے عوام کا بس نہیں چل رہا کہ وہ تاریخ کے اس صفحے کو اپنی زندگی سے کیسے نوچ ڈالیں جس دن انھوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا۔
یقین کیجیے میں نے جب جس وقت ،جس دن سوشل میڈیا کھولا عوام کی چیخیں سننے کو ملیں ،غرباء کا آج جو حال ہے وہ میں نے 74سالوں میں نہیں دیکھا ، لگتا ہے سارا ملک ہی IMFکا ہے، ہمارے آباؤ اجداد نے کبھی یہ ملک آزاد ہی نہیں کروایا تھا ! لگتا ہے ہم بس ایک غلامی سے نکل کر دوسری غلامی میں چلے گئے تو پھر چاند کو الزام دیں یا اپنے آپ کو یا تاریخ کو ، قسمت کو، کس کو کوسیں؟ خود سے سوال کرنا پڑتا ہے کہ کیا 1000سال میں بھی ہم اس غلامی سے باہر آسکیں گے؟
ایک سادہ سی تعریف یہ ہے کہ ہر امیر آقا ہے ہر غریب غلام ۔ اور اس پر مستزاد یہ آپ کو اس ملک سے محبت بھی کرنی ہے خواہ اس کے لیے بھوک سے مر جائو ، میں نے دہشت گردی کی جنگ میں بہت سے سپاہی ، کیپٹن ، میجر شہید ہوتے دیکھے لیکن ان میں سے کسی کا خاندان یا باپ دادا فوج میں کسی بڑے عہدے پر نہیں تھے۔ کہاں کہاں چاند ہرجائی نہیں نکلا ؟ چاندنی بادشاہوں کی بارہ دری پر ہی حسین لگتی ہے کچی دیواروں پر تو وہ بھی بھوک ، افلاس کا سایہ بن کر ناچتی ہے ۔
اپوزیشن کا نقطۂ نظر ہے کہ ہم ابھی سڑکوں پر نہیں احتجاج نہیں کریں گے پہلے اس nonsenseعوام کو ذرا ptiکو ووٹ دینے کا سبق تو مل جائے انھیںتبدیلی کا ٹیکا تو لگ جائے پھر ہم آئیں گے اور ایک نئے زاویئے سے انھیں کچھ سبز ، ہرے ، پیلے خواب دکھائیں گے۔ یعنی کون اپنا ہے کسے مسیحا مان لیں ؟ دور تک اندھیرا ہے گھٹا ٹوپ اندھیرا ۔
کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے
جادو سے یاد آیا کہ کم از کم ایک جادو ایسا ہے جس کا خود اللہ پاک نے بھی ذکر فرمایا کہ '' فرعون نے جو ملک کے ماہر جادو گر موسیٰ ؑ سے مقابلے کے لیے منگوائے تھے وہ خوب جادو بنا لائے لیکن ان کا جادو بس نظر کا فریب ہی تھا '' سمجھ سے بالاتر ہے کہ غیر انسانی چیزیں خواہ وہ چاند سورج ہی کیوں نہ ہوں انسانوں کے فیصلے کیسے کر سکتی ہیں ؟
علم الاعداد ایک موضوع ضرور ہے اور صدیوں سے 1سے9تک کے اعداد کی کھوج میں اہلِ دانش سر کھپا رہے ہیں کہ یہ نمبرز کس کی ایجاد ہیں لیکن کوئی سراغ نا ملنے پر یہ مان لیا گیا کہ یہ قدرت کے خلق کردہ ہیں اب اگر مجھے بھی ذرا سی شرارت سوجھ رہی ہے تو برا نہ مانیے گا میں محترم کو ایکtipدیتا چلوں کہ ان نمبرز میں سے9 پر غور فرمائیے جو نمبرز میں سے آخری عدد ہے لیکن فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے کیونکہ صرف یہی عدد ہے جس سے کسی بھی عدد کو multiplyکریں گے تو answerوہی آئے گا یعنی9ََ مثال کے طور پر 9کو5سے multiplyکریں تو جواب45آئے گا اور اس کا single word بنائیں تو 9 بنتا ہے اسی طرح سے آپ کچھ بھی کرلیں آخر 9ہی بنے گا تو آپ نے کیوں غور نہیں کیا کہ ایک پر اسرار عدد آپ کے تعاقب میں ہے۔
ایک قوت آپ سے انصاف کی متقاضی ہے ایک ملک کی 22کروڑ عوام آپ سے اچھی طرزِ حکومت کی متمنی ہے عرصہ ہوا انھیںچاند بس ایک گول روٹی جیسا ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ بھوکے ہیں ان کے بچے بھوکے ہیں آپنے تو ان سے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھر دینے کا وعدہ کیا تھا ، توکیا وہ بھی جنات و موکلات کو دینے تھے ؟ اور ملک کی قسمت طوطے کی فال کو طے کرنی تھی ؟ یقین نہیں ہوتا کہ21صدی میں ہم غاروں کی زندگی جی سکتے ہیں۔
اللہ کے کرم اور فضل سے ہماری افواج دنیا کی 6بہترین لڑاکا اور پیشہ ور افواج میں شمار ہوتی ہیں اور اسکاimageزبردست اسی طرحintelligenceagencieمیںISIکا ایک اعلیٰ مقام ہے، کم از کم اپنے دفاع کو تو ان فروعیات سے باز ہی رکھیے، ورنہ آپکے پڑوس میں بھارت جیسا دشمن ملک بیٹھا ہے جو تاک میں ہے کہ اسے بس کوئی ایک موقع مل جائے۔
امید ہے کہ میری اس تحریر کی اشاعت سے قبل ہی یہ معاملہ طے ہوجائے گا انشاء اللہ ۔ویسے اپوزیشن سے اگران طریقوں سےDEALکریں تو ہمیں کوئی اعتراض بھی نہیں کیونکہ وہاں بھی ایک دوفریق آپ ہی کے ہمنوا ہیں اور ان کی قسمت کا حال بھی طوطا ہی بتا رہا ہے۔
افغانستان سے امریکا اور نیٹو افواج کی رخصتی کے بعد اندازہ تھا کہ وہاں انارکی کی سی صورتحال کا سامنا ہوگا بہت سی پسِ پردہ قوتیں حرکت میں آجائیں گی اور ایسا ہی ہوا شمالی اتحاد سمیت جو اب چھاپہ مار جنگ لڑ رہا ہے ایک بڑا اور بے سمت خطرہ داعش کا بھی سامنے ہے جو طالبان سے برسرِ پیکار ہیں اور آنے والے وقت میں اس خانہ جنگی میں خطرناک حد تک اضافہ ممکن ہے جس کا براہِ راست اثر ہم پر پڑے گا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ پچھلے دو ماہ سے شمالی علاقہ جات میں فورسز پر حملوں میں جن میں سیکیورٹی کے بہت سے اہلکار شہید ہوگئے داعش کی جانب سے ہیں اور اگر یہ مان لیا جائے کہ داعش اب پاکستان کے عین سر پر موجود ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔اب ایسے حالات میں اگر ہمارے اداروں کے سربراہان کی تقرری و تبادلے بھی چاند کے گھٹنے بڑھنے پر منحصر ہیں یا اعداد کے متقاضی تو بھائی اللہ ہی اس ملک کا حامی و ناصر ہے ۔
وزیرِ خزانہ کا امریکا میں طویل قیام بھی خوفزدہ کر رہا ہے کہ کہیں وہ IMFکی ایسی شرائط مان کرنہ آجائیں جس کے بعد جینے کی ،زندہ رہنے کی ہر امید ہی ختم ہوجائے ۔لیکن سلام ہے اس قوم کو جو ہر مہنگائی کو ایسی خندہ پیشانی سے قبول کرلیتی ہے جیسے وہ کوئی خوش خبری ہو یعنی دنیا کی بے حس اقوام کا اگر مقابلہ کیاجائے تو ہم نہ صرف موجودہ اقوام سے مقابلہ جیت لیں گے بلکہ آنے والی صدیوں میں جو اقوام پیدا ہونگی ان سے بھی کہیں آگے رہیں گے، حد ہی ہوگئی کہ ہم سب کے لیے لڑتے ہیں گھر سے باہر نکلتے ہیں کشمیر سے فلسطین تک ہماری ذمے داری ہیں لیکن کبھی نہیں نکلے تو بس اپنے لیے ۔
آج کے بعض حکمران بھی حکومت سازی میں ان مخفی علوم کو مانتے ہیں اور ملک کے اہم ترین فیصلے کرتے ہوئے ان کی نظریں چاند پر ٹکی ہوتی ہیں۔ چاند کی گھٹتی بڑھتی ہوئی منزلیں دیکھنے کے بعد ہی حتمی فیصلے کیے جاتے ہیں ، لیکن سچ تو یہ ہے کہ چاند کسی کا نہیں وہ تو ہر گھر سے نظر آتا ہے، ہر گھر میں اتر آتا ہے، اور مان لیا جائے تو کیا حرج ہے کہ وہ سبھی کا ہے یعنی جتنا حکومت کا ہے اتنا ہی اپوزیشن کا لہٰذا میری ناقص رائے میں اس پر بھروسہ ممکن نہیں، ملک مہنگائی کی بد ترین دلدل میں دھنسا ہوا ہے عوام کا بس نہیں چل رہا کہ وہ تاریخ کے اس صفحے کو اپنی زندگی سے کیسے نوچ ڈالیں جس دن انھوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا۔
یقین کیجیے میں نے جب جس وقت ،جس دن سوشل میڈیا کھولا عوام کی چیخیں سننے کو ملیں ،غرباء کا آج جو حال ہے وہ میں نے 74سالوں میں نہیں دیکھا ، لگتا ہے سارا ملک ہی IMFکا ہے، ہمارے آباؤ اجداد نے کبھی یہ ملک آزاد ہی نہیں کروایا تھا ! لگتا ہے ہم بس ایک غلامی سے نکل کر دوسری غلامی میں چلے گئے تو پھر چاند کو الزام دیں یا اپنے آپ کو یا تاریخ کو ، قسمت کو، کس کو کوسیں؟ خود سے سوال کرنا پڑتا ہے کہ کیا 1000سال میں بھی ہم اس غلامی سے باہر آسکیں گے؟
ایک سادہ سی تعریف یہ ہے کہ ہر امیر آقا ہے ہر غریب غلام ۔ اور اس پر مستزاد یہ آپ کو اس ملک سے محبت بھی کرنی ہے خواہ اس کے لیے بھوک سے مر جائو ، میں نے دہشت گردی کی جنگ میں بہت سے سپاہی ، کیپٹن ، میجر شہید ہوتے دیکھے لیکن ان میں سے کسی کا خاندان یا باپ دادا فوج میں کسی بڑے عہدے پر نہیں تھے۔ کہاں کہاں چاند ہرجائی نہیں نکلا ؟ چاندنی بادشاہوں کی بارہ دری پر ہی حسین لگتی ہے کچی دیواروں پر تو وہ بھی بھوک ، افلاس کا سایہ بن کر ناچتی ہے ۔
اپوزیشن کا نقطۂ نظر ہے کہ ہم ابھی سڑکوں پر نہیں احتجاج نہیں کریں گے پہلے اس nonsenseعوام کو ذرا ptiکو ووٹ دینے کا سبق تو مل جائے انھیںتبدیلی کا ٹیکا تو لگ جائے پھر ہم آئیں گے اور ایک نئے زاویئے سے انھیں کچھ سبز ، ہرے ، پیلے خواب دکھائیں گے۔ یعنی کون اپنا ہے کسے مسیحا مان لیں ؟ دور تک اندھیرا ہے گھٹا ٹوپ اندھیرا ۔
کیا اس لیے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے
جادو سے یاد آیا کہ کم از کم ایک جادو ایسا ہے جس کا خود اللہ پاک نے بھی ذکر فرمایا کہ '' فرعون نے جو ملک کے ماہر جادو گر موسیٰ ؑ سے مقابلے کے لیے منگوائے تھے وہ خوب جادو بنا لائے لیکن ان کا جادو بس نظر کا فریب ہی تھا '' سمجھ سے بالاتر ہے کہ غیر انسانی چیزیں خواہ وہ چاند سورج ہی کیوں نہ ہوں انسانوں کے فیصلے کیسے کر سکتی ہیں ؟
علم الاعداد ایک موضوع ضرور ہے اور صدیوں سے 1سے9تک کے اعداد کی کھوج میں اہلِ دانش سر کھپا رہے ہیں کہ یہ نمبرز کس کی ایجاد ہیں لیکن کوئی سراغ نا ملنے پر یہ مان لیا گیا کہ یہ قدرت کے خلق کردہ ہیں اب اگر مجھے بھی ذرا سی شرارت سوجھ رہی ہے تو برا نہ مانیے گا میں محترم کو ایکtipدیتا چلوں کہ ان نمبرز میں سے9 پر غور فرمائیے جو نمبرز میں سے آخری عدد ہے لیکن فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے کیونکہ صرف یہی عدد ہے جس سے کسی بھی عدد کو multiplyکریں گے تو answerوہی آئے گا یعنی9ََ مثال کے طور پر 9کو5سے multiplyکریں تو جواب45آئے گا اور اس کا single word بنائیں تو 9 بنتا ہے اسی طرح سے آپ کچھ بھی کرلیں آخر 9ہی بنے گا تو آپ نے کیوں غور نہیں کیا کہ ایک پر اسرار عدد آپ کے تعاقب میں ہے۔
ایک قوت آپ سے انصاف کی متقاضی ہے ایک ملک کی 22کروڑ عوام آپ سے اچھی طرزِ حکومت کی متمنی ہے عرصہ ہوا انھیںچاند بس ایک گول روٹی جیسا ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ بھوکے ہیں ان کے بچے بھوکے ہیں آپنے تو ان سے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھر دینے کا وعدہ کیا تھا ، توکیا وہ بھی جنات و موکلات کو دینے تھے ؟ اور ملک کی قسمت طوطے کی فال کو طے کرنی تھی ؟ یقین نہیں ہوتا کہ21صدی میں ہم غاروں کی زندگی جی سکتے ہیں۔
اللہ کے کرم اور فضل سے ہماری افواج دنیا کی 6بہترین لڑاکا اور پیشہ ور افواج میں شمار ہوتی ہیں اور اسکاimageزبردست اسی طرحintelligenceagencieمیںISIکا ایک اعلیٰ مقام ہے، کم از کم اپنے دفاع کو تو ان فروعیات سے باز ہی رکھیے، ورنہ آپکے پڑوس میں بھارت جیسا دشمن ملک بیٹھا ہے جو تاک میں ہے کہ اسے بس کوئی ایک موقع مل جائے۔
امید ہے کہ میری اس تحریر کی اشاعت سے قبل ہی یہ معاملہ طے ہوجائے گا انشاء اللہ ۔ویسے اپوزیشن سے اگران طریقوں سےDEALکریں تو ہمیں کوئی اعتراض بھی نہیں کیونکہ وہاں بھی ایک دوفریق آپ ہی کے ہمنوا ہیں اور ان کی قسمت کا حال بھی طوطا ہی بتا رہا ہے۔
افغانستان سے امریکا اور نیٹو افواج کی رخصتی کے بعد اندازہ تھا کہ وہاں انارکی کی سی صورتحال کا سامنا ہوگا بہت سی پسِ پردہ قوتیں حرکت میں آجائیں گی اور ایسا ہی ہوا شمالی اتحاد سمیت جو اب چھاپہ مار جنگ لڑ رہا ہے ایک بڑا اور بے سمت خطرہ داعش کا بھی سامنے ہے جو طالبان سے برسرِ پیکار ہیں اور آنے والے وقت میں اس خانہ جنگی میں خطرناک حد تک اضافہ ممکن ہے جس کا براہِ راست اثر ہم پر پڑے گا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ پچھلے دو ماہ سے شمالی علاقہ جات میں فورسز پر حملوں میں جن میں سیکیورٹی کے بہت سے اہلکار شہید ہوگئے داعش کی جانب سے ہیں اور اگر یہ مان لیا جائے کہ داعش اب پاکستان کے عین سر پر موجود ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔اب ایسے حالات میں اگر ہمارے اداروں کے سربراہان کی تقرری و تبادلے بھی چاند کے گھٹنے بڑھنے پر منحصر ہیں یا اعداد کے متقاضی تو بھائی اللہ ہی اس ملک کا حامی و ناصر ہے ۔
وزیرِ خزانہ کا امریکا میں طویل قیام بھی خوفزدہ کر رہا ہے کہ کہیں وہ IMFکی ایسی شرائط مان کرنہ آجائیں جس کے بعد جینے کی ،زندہ رہنے کی ہر امید ہی ختم ہوجائے ۔لیکن سلام ہے اس قوم کو جو ہر مہنگائی کو ایسی خندہ پیشانی سے قبول کرلیتی ہے جیسے وہ کوئی خوش خبری ہو یعنی دنیا کی بے حس اقوام کا اگر مقابلہ کیاجائے تو ہم نہ صرف موجودہ اقوام سے مقابلہ جیت لیں گے بلکہ آنے والی صدیوں میں جو اقوام پیدا ہونگی ان سے بھی کہیں آگے رہیں گے، حد ہی ہوگئی کہ ہم سب کے لیے لڑتے ہیں گھر سے باہر نکلتے ہیں کشمیر سے فلسطین تک ہماری ذمے داری ہیں لیکن کبھی نہیں نکلے تو بس اپنے لیے ۔