پنج گور کنداواہ چھتیل شاہ اور سبی بلوچستانآخری حصہ

پورا راستہ انتہائی خوبصورت نظاروں سے بھرا ہوا ہے، کنداواہ سے چشمہ تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگا۔


ایم قادر خان November 28, 2021

یہاں ایک پرانا بازار بھی ہے، جہاں ہندو کمیونٹی رہتی تھی، ان دکانوں میں ہندو بڑی تجارت کرتے تھے۔ اس چھوٹی جگہ پر نہایت تنگ گلیاں، تنگ راستے ہیں۔ اس بازارکی خاص بات اس کی چھت ہے۔ یہاں کے لوگوں نے بتایا شدید دھوپ گرمی کے باعث یہ چھت تعمیر کی گئی تھی، جو آج تک موجود ہے۔ آٹھ یا دس فٹ چوڑی گلی کے دونوں اطراف دکانیں ہیں۔

یہاں اکثریت ہندو ہے آگے ایسا بھی راستہ ہے جس پر چلنا مشکل دکانیں آگے بڑھتی گئیں اور راستہ تنگ ہوتا گیا۔ سیدھی اور الٹی دونوں طرف دکانیں ہیں زیادہ پرچون کی ہیں اور اس کے علاوہ کھانے کی اشیا بنانے والی دکانیں، کپڑا، برتن الغرض ضرورت کی ہر شے کی دکانیں موجود ہیں۔ آگے ساری پرانی تعمیر ہے چھت بھی پرانی ہے۔

پیر جھل شاہ : جھل مگسی کوئٹہ کے شمال میں واقع بلوچستان کی مشہور اور تاریخی علاقوں میں سے ایک ہے یہاں کی وجہ شہرت کی برسوں سے منعقد رہنے والی ریگستان ریلی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پر کھجورکا ایک خوبصورت نخلستان بھی ہے۔ پہاڑوں میں گھری ہوئی جگہ ، پیر جھل شاہ نورانی کے نام سے مشہور ہے۔

کیرتھر، پہاڑی سلسلہ کے دہانے اور درہ مولا کے منہ پر واقع نخلستان۔ چشمہ صدیوں سے جوکہ اپنی خوبصورت حسین دو فٹ لمبی مچھلیوں کی وجہ سے جانا جاتا ہے یہ جگہ کوئٹہ سے 271 کلومیٹر اور کنداواہ سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

جہاں کوئٹہ سے پانچ گھنٹے میں پہنچا جاسکتا ہے ، بلکہ پختہ سڑک ہونے کی وجہ سے گرمیوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ سندھ اور بلوچستان پیر جھل پکنک منانے بھی آتے ہیں۔ چشمہ کے ٹھنڈے پانی میں نہاتے ہیں اور کھجور کے درختوں کے سائے میں وقت گزارتے ہیں۔ جاتے ہوئے کوتلا میں رکا تو مجھے بتایا کہ یہاں قدیمی، تاریخی بلکہ پورے علاقے کا سب سے قدیمی بازار ہوتا تھا۔

یہاں دکانوں کے دروازے پرانے لکڑی کے بنے ہوئے ہیں جو اپنی تاریخ کا پتا دیتے ہیں۔ پہلے سب سے بڑا بازار یہی تھا ، چونکہ کنداواہ میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر بنا ہے تو اس کی وجہ سے کاروبار اورکاروباری لوگ وہاں چلے گئے۔ چونکہ اکثریت جا چکی ہے اس لیے زیادہ دکانیں بند ہیں۔ چھت کی دیکھ بھال نہ ہوئی جس کی وجہ سے خراب ہوگئی۔ کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی۔

بازار کے باہر آگے '' کوٹلہ '' پرانی آبادی کے ٹوٹے ہوئے مکانات موجود ہیں۔ اکثر مکانات منہدم ہوچکے ہیں ان کے آثار موجود ہیں۔ مٹی کے بنے ہوئے رہائشی مکانات موٹی دیواروں اور دو منزلہ مکانات بھی تھے وہاں کے رہائشی ان مکانات کی چھتوں پر سوتے تھے۔ یہاں پہلے ہندوؤں کی دکانیں کاروبار تھا۔ یہ تمام مکانات انھی کے بنے ہوئے ہیں۔ یہاں سے کنداواہ اور خضدار اور کراچی شفٹ ہوگئے۔

ابھی تک ان کے گھروں کے کھنڈرات موجود ہیں۔ یہ نہایت خوبصورت مکانات بنائے گئے تھے تیز موسلا دھار بارشوں کی وجہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے۔ میں نے ایک خستہ مکان کے اندر جا کر دیکھا اس کے کئی خانے بنے ہوئے ہیں اس کے علاوہ ایک حصہ ٹوٹنے کے باوجود بہت خوبصورت ہے یہاں چبوترے بھی بنے ہوئے ہیں۔ ایک ٹوٹی ہوئی چھت دیکھی جو لکڑی کی خوبصورت ہے ، روشن دان بنے ہوئے ہیں۔ کوٹلہ کا قدیم بازار اور پرانے ہندوؤں کے مکانات دیکھنے کے بعد روانہ ہوا۔

پورا راستہ انتہائی خوبصورت نظاروں سے بھرا ہوا ہے، کنداواہ سے چشمہ تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگا، سیاحوں کی سہولت کے لیے رواکنگ ٹریک اور ایک ریسٹ ہاؤس تعمیر کروایا گیا۔ اس چشمہ کا پانی کوٹلہ تک جاتا ہے یہاں سے ایک راستہ اوپر پیر چھتیل شاہ بخاری کے مزار پر جاتا ہے۔

یہاں مشہور ہے کہ پیر چھتیل شاہ بخاری کے مزارکے اوپر جب لوگوں نے چھت بنائی وہ گر جاتی ہے لہٰذا مذکورہ مزار بغیر چھت کے ہے اس کے چاروں اطراف قبریں ہیں اورکھجور کے درخت ہیں۔ دوسری جانب مزار کے قریب چند گھنٹیاں بھی لگی ہیں پختہ سڑک ہونے کی وجہ سے خاصے لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ یہاں جگہ جگہ شیڈ بنے ہوئے ہیں تاکہ دھوپ سے بچا جاسکے۔

سبی: بلوچستان کا ایک تاریخی شہر ہے اس کی وجہ شہرت یہاں پر صدیوں سے منعقد ہونے والا سبی میلا ہے۔ سبی درہ بولان کے دہانے پر واقع ہے زمانہ قدیم میں یہ شہر برصغیر میں داخلے کے لیے افغانوں ، ایرانی گزرگاہ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔

1903 میں سبی کو ضلع کا درجہ دیا گیا یہ بلوچستان کا قدیم ترین ضلع ہے۔ یہاں زیادہ طور پر بلوچ ، جاموٹ اور پشتون اقوام آباد ہیں، یہاں کے لوگ بلوچی، سندھی اور پشتو زبان بولتے ہیں۔ سبی کا پرانا نام سیمی تھا جو بعد میں سبی پڑگیا۔

سبی کوئٹہ کے جنوب مشرق میں 160 کلو میٹر فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں تک پہنچنے میں تین گھنٹے لگے۔ درہ بولان اور دریائے بولان کے کنارے سفر زیادہ خوبصورت بنا دیتا ہے۔ درہ بولان اور کچی اور سبی کے وسیع و عریض رقبہ پر میدانوں پر پہنچ جاتے ہیں۔

وکٹوریہ میموریل ہال: 1903 میں تعمیر ہوا جس پر اس دور میں 38 ہزار 8 سو روپے خرچ ہوئے یہاں پر سالانہ شاہی جرگوں کا انعقاد ہوتا تھا جن میں پورے بلوچستان سے قبائلی سرداروں، نوابوں اور معززین کو دعوت پر خصوصی بلایا جاتا تھا۔ ہال کے اندر مختلف زمانے کی مختلف اشیا رکھی ہیں۔ روشنی اور ہوا کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ 14 فروری1948 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے وکٹوریہ میموریل ہال میں شاہی جرگہ سے خطاب کیا تھا۔

صحبت رائے: اس خوبصورت ووسیع مسافر خانے کو خان بہادر صحبت خان نے 1960 میں 80 ہزار روپے میں تعمیر کروایا۔ سردار سخی صحبت خان گولا اپنی سخاوت، سماجی خدمات کے حوالے سے بہت مشہور ہیں انھوں نے کئی سرائے تعمیر کرائیں جیکب آباد، جھٹ پٹ اور سبی کی سرائیں شامل ہیں۔ برطانوی افغان جنگ کے بعد انگریزوں نے سبی کو بذریعہ ریلوے لائن 1890 میں جیکب آباد سے ملایا۔

سبی ریلوے اسٹیشن کی عمارت اپنی خوبصورت کی وجہ سے صوبہ بھر میں مشہور ہے۔ سبی ریلوے اسٹیشن کو جنکشن کی حیثیت حاصل ہے یہاں سے کوئٹہ ہرنائی ریلوے لائن ملتی ہیں۔ موجودہ دور میں سبی ریلوے اسٹیشن کو نمایاں اہمیت حاصل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں