عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے بعد 

ہمارا موقف آج بھی انتہا پرستی پر واضح نہیں۔ یہ یقینا خان صاحب کے زمانوں میں اور بگڑا ہے۔


جاوید قاضی November 28, 2021
[email protected]

لاہور: ہم جس راستے تک پہنچنا تھا بالآخر پہنچ ہی گئے۔ جو فرق ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اب بھی کچھ خبر نہیں ہے کہ ہم وہی ہیں۔ اس سے بھی برا ہے وہ یہ ہے کہ سب رواں ہے۔

وہی پروٹوکول ، وہی ظل الٰہی، دربار اور اس کے درباری اور دلی ہے کہ راکاس گھوم گیا ہے مگر بہادر شاہ کی محفل میں مشاعرہ ہے جو مستقل مزاجی سے رواں ہے۔ ان تین برسوں میں کیا کیا نہ ہوا ، نہ ہوا جو یہ تھا کہ نہ جنگ ہوئی ، نہ جنگ کے طبل بجے ، نہ خون بہا ، نہ بین ہوئے، بس یونہی ہم بیٹھ گئے۔ اب کی بارکچھ ایسے بیٹھے ہیں کہ اٹھ کے کھڑے ہونے کی سکت بھی نہیں۔

جب ڈان لیکس آئی تھی تو نواز شریف کی حکومت رخصت ہوئی تھی۔ پھر پاناما لیکس تھی، جس کو بھی ہم نے جمہوریت کو گول کرنے کے لیے مہرہ بنایا ، لیکن اب کے بار تو لیکس ہی لیکس ہیں۔

مجال ہے جو ہم اس کا نوٹس لیں۔ چاہے کتنی بھی اشد ضرورت ہو اداروں کے وقارکو بحال رکھنے کے لیے، یہ سب بھی چلتا رہتا، مگر مہنگائی نے ایسے کمر توڑی ہے کہ گھر گھر فاقہ کشی ہے، بے روزگاری ہے اور کہنے والے کہتے ہیں '' ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے'' ابھی تو مہنگائی اور ہونی ہے کیوں کہ ریونیو جو بڑھانا ہے۔ اس کے لیے ٹیکس بڑھانے ہوں گے۔ ابھی ہر ماہ پٹرول چار روپیہ فی لیٹر بھی بڑھانا ہے۔ ہمارے اخراجات اشیاء خورونوش کی امپورٹ پر اور بڑھ گئے ہیں۔ ڈالر ہے کہ ہمارے زرمبا دلہ کے ذخائر سے نکلتا ہی جا رہا ہے۔

اٹھائیس ہزار ارب کے ہم مقروض تھے ،آج ہوئے ہم پچاس ہزار ارب کے مقروض۔ صرف تین سالوں میں۔ افراط زر ہے کہ سولہ فیصد پر دوڑ رہی ہے۔ ڈالر 118 سے 180 پے چلا گیا۔ سب کچھ دوڑ رہا ہے مگر ایک ہمارا روپیہ ہے جو گر گر کے اورگر رہا ہے۔

ایک طرف ہے ایف اے ٹی ایف اور دوسری طرف ہے ہماری افغان پالیسی ، جس نے پوری دنیا کو ہمارا دشمن کر دیا ہے۔ ہمارا موقف آج بھی انتہا پرستی پر واضح نہیں۔ یہ یقینا خان صاحب کے زمانوں میں اور بگڑا ہے۔ کہاں گیا نیا پاکستان کا نعرہ اورکہاں طالبان سے قربت۔ یہ کام تو صرف خان صاحب ہی کرسکتے ہیں۔

یہاں تک کہ ای وی ایم مشینوں والا بل بھی پاس ہوگیا ، مگر پھر بھی مشینیں ہیں کہ لگتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہیں،کسی نے خان صاحب کو دھوکا نہیں دیا۔ خان صاحب نے در اصل خان صاحب کو دھوکا دیا ہے۔ یہ کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہاتھ نکال دیا غلط ہے، خان نے در اصل خود کو چھوڑ دیا۔

وہ بے باک بلند آواز میں وعدہ کرنے والا خان صاحب اور یہ خان صاحب! یقینا خان صاحب نے تو خود خان صاحب سے یو ٹرن لے لیا۔ کبھی این آر او نہیں دیتے ، مگر ٹی ایل پی کو این آر او دے دیا اور ٹی ٹی پی کو ابھی دینا باقی ہے۔ پہلے کہتے تھے مہنگائی ماضی کی حکومتوں کی وجہ سے ہے۔ اب ان کے وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ سندھ کی وجہ سے ہے۔کرپشن کا اتنا رونا رویا کہ اب کرپشن لوگوں کو بھی یاد نہیں۔ بس صرف یہ یاد ہے کہ گیس کب آئی گی،کب چولہا جلے گا،کب رات بسر ہوگی۔

کتنی کمزور ہے یہ حکومت مگر اسے کوئی بھی گرا نہ پایا، نہ ہی پی ڈی ایم گرا پائی۔ نہ اسٹبلشمنٹ سے کوئی خطرہ ہے نہ عدلیہ سے۔ اسے ایک عاصمہ جہانگیر کانفرنس اتنی بھاری پڑی ہے کہ اس حکومت کی کوئی اخلاقی حیثیت اب باقی نہیں رہی ہے۔ صرف اکیلے علی احمد کرد کی ایک تقریر ہی ان کے لیے کافی تھی۔

علی احمد سے زیادہ شعلہ بیان خان صاحب ہیں جو ڈی چوک پر وہ خطابات فرماتے تھے یا وہ ان کے ہمنوا تھے طاہر القادری پھرکیا ہوا کہ علی احمد کرد لوگوں کو بہا لے گیا؟ اس لیے کہ علی احمد کرد کے پاس سچ تھا اور ان کے پاس جھوٹ؟ اخلاقی حیثیت یا حکومت کی رٹ جھوٹ سے نہیں بنتی۔ ایک ذوالفقار علی بھٹو بھی تھے شعلہ بیان مقرر۔ آخری آرام جا کے دارکی خشک ٹہنی پر کیا، ایک بے نظیر بھٹو بھی تھیں شعلہ بیان مقرر مگر ماری وہ تاریک راہوں پر گئی۔

قرضوں سے نکلنے کا ایک طریقہ ہوسکتا ہے کہ اچانک ایک رات ہمارے زمینوں سے پٹرول دریافت ہو ، اتنا سارا کہ ہم اس پرگیارہ ارب ڈالر خرچ کرکے باہر سے نہ منگوائیں، پانچ ارب ڈالر خرچ کرکے گیس قطر وغیرہ سے نہ منگوائیں۔ خدا کا شکر ہو کہ اس سال کپاس کی فصل بمپر ہوئی ، ورنہ اب تو گندم ، چینی پر بھی اربوں ڈالر چلے جاتے ہیں۔ اب اتنا سارا بگاڑ ہے اس بیانیہ میں ایک دن یا ایک رات میں تو یہ ٹھیک ہونے سے رہا اور وقت بہت ناکافی ہے۔ دکھ وقت کے ناکافی ہونے کا بھی نہیں۔

دکھ اس بات کا ہے کہ ہم کو اب بھی خبر نہیں کہ یہ وہ زماں و مکاں نہیں جو 2018 سے پہلے تھا۔ اور اب کے بار جب سے افغانستان میں حالات اور بگڑے ہیں یہاں پر بھی اور خطرات بڑھ گئے ہیں تو ساتھ ہمارے بیرونی ذخائر تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم روپیہ ہر ماہ فی لیٹر لیوی بڑھائیں تو اس سے تو صرف روپوں میں آمدنی بڑھے گی ، مگر ڈالر ہم کہاں سے لائیں روپے تو ہم چھاپ بھی سکتے ہیں، یہ اعتراف تو اسٹیٹ بینک نے بھی کیا ہے کہ افراط زرکے بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہMoney Supply زیادہ تھی۔

اب خیال آیا ہے ہمارے اسٹیٹ بینک کو افراط زر روکنے کے لیے سود کی شرح میں ڈیرہ سو بیس پوائنٹس اضافہ کیا ہے۔ اب سب کو کھلی چھوٹ ہے۔ ذخیرہ اندوزوں کی تو چاندی لگ گئی، ایک دن ایک مال خریدو اور غائب کردو۔ اس مال کو ایسا غائب کردیتے ہیں کہ لوگوں کی طلب ان کی اشیا کی قیمت بڑھا دیتی ہے۔ کل جب پٹرول پمپ ہڑتال پر گئے تو لوگوں نے بلیک میں پٹرول خرید ا کہ پہیہ چلتا رہے۔

ان زمانوں میں بھرپور قیادت ہوتی ہے جو لوگوں کی رہنمائی کرتی ہے۔ ہم نے اپوزیشن کا وہ حشر کیا ہے کہ خستہ تنوں کی طرح یہ کھڑے ہیں اور ٹی ایل پی والے ایک جھٹکے میں اپنی باتیں منوا کے لے جاتے ہیں۔ ہاں مگر عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے بعد،نیا پاکستان بنا نہ بنا وہ الگ بحث ہے مگر کانفرنس کے بعد گرتی ہوئی دیوار ہے یہ حکومت کے اب بھی اپوزیشن میں اتنی سکت نہیں کہ اس کو گرا سکے۔

نڈر سچ تھی عاصمہ جہانگیر، سچ کے سوا وہ کچھ بھی نہ تھی، اس کانفرنس میں جو کچھ بھی تھا، اس کا نام ہی کافی تھا اور یوں چلے آئے سب کے سب اس کانفرنس میں فیض کی ان سطروں کی طرح ۔

جب گھلی تیری راہوں میں شام ستم

ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم

لب پہ حرف غزل دل میں قندیل غم

اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی

دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم

ہم جو تاریک راہوں پہ مارے گئے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔