خطرے کی گھنٹی
موجودہ پوائنٹ اسکورنگ وچ ہنٹگ والا مائنڈ سیٹ تباہی کو مزید قریب کر دے گا۔
HONG KONG:
ہمارے ہاںموسموں کے بدلنے کی خبر مہاجر پرندوں کی آمد سے ملتی ہے، اسی طرح قومی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات سیاسی موسم میں تبدیلی کی خبر دیتے ہیں۔ جسٹس رانا شمیم کا حلف نامہ ہو یا ثاقب نثار کا آڈیو۔ ان دونوں واقعات سے ذہن فوری طور پر ان مقدمات کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، بعض سیاسی شخصیات جن کا سامنا کررہی ہیں ۔
ایسا ہونا فطری ہے لیکن پاکستان جیسے ملکوں میں اس طرح کے واقعات کے پس منظر میں صرف وہی مقاصد نہیں ہوتے جو بظاہر دکھائی دیتے ہیں۔ دہائیوں سے معاشرے میں سرائیت کر جانے والے بعض عوارض کے منطقی نتائج بھی ہوتے ہیں۔ یہ دو واقعات فوری سیاسی مقاصد کے علاوہ کیا معنی رکھتے ہیں، انھیں سمجھنے کے لیے گزشتہ پون صدی کے ان واقعات پر ایک نگاہ ڈالنی ہوگی جن کی ابتدا اسکندر مرزا اور جسٹس منیر جیسے لوگوں کے طرز عمل سے ہوئی۔
قیام پاکستان کے بعد ہمارے ہاں غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسے مہربانوں کی کرم نوازی سے محلاتی سازشوں کا دور شروع ہوا۔ اس کی پہلی ضرب جمہوری عمل پر پڑی ہی تھی۔ اس حادثے کے بعد عدلیہ بھی اس کی زد میں آ گئی۔ یہ عدلیہ کی سخت جانی تھی کہ اس نے کسی نہ کسی طرح پون صدی گزار دی۔ اس کے باوجود کہ اسے اندر سے گھن لگ چکا تھا۔
انصاف فراہم کرنے کے ذریعے معاشرے میں استحکام قائم رکھنے والے اس ادارے کی ساکھ اور پیشہ ورانہ دیانت کو پہلا نقصان چیف جسٹس محمد منیر نے پہنچایا۔ اس نقصان کی ابتدا مولوی تمیز الدین کیس میں نظریہ ضرورت ایجاد سے ہوئی۔جسٹس منیر کی اس شاطرانہ ذہانت نے ملک میں جمہوریت کی بیخ کنی اور آمریت کا راستہ ہی ہموار نہیں ہوا بلکہ انصاف مہیا کرنے والے اس ادارے سے پاکستانی عوام کا اعتماد ہی متزلزل کیا۔
جسٹس منیر جیسے لوگ جب قانون کو بازیچہ اطفال بناتے ہیں تو اس کے نتیجے میں عوام کے لیے کوئی وجہ نہیں رہتی کہ وہ ایسے لوگوں سے کوئی امید وابستہ کریں۔ پاکستانی عوام اگر اس کے باوجود عدلیہ کا احترام کرتے رہے اور اس سے توقعات وابستہ کرتے رہے تو اس کا سبب یہی ہوسکتا ہے کہ اس ادارے کو جسٹس اے آر کارنیلیئس اور جسٹس ایم آر کیانی جیسے جج میسر آتے رہے۔
ان ججوں نے مشکل ترین حالات میں بھی انصاف کے ایوانوں میں حق و صداقت کی شمع روشن رکھی۔ کسی ادارے کو اگر جسٹس کارنیلئس اور جسٹس کیانی جیسے عظیم لوگ میسر آ جائیں تو یہ صرف اس کی خوش قسمتی نہیں بلکہ اس ادارے کے لیے ایک قیمتی موقع بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے بد نما ماضی کی اصلاح کے لیے اس سے فایدہ اٹھائے لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو نہ سکا۔
اس ادارے کو ایسے 'نابغے' تو میسر آتے رہے جنھوں نے یحیی خان جیسے غاصبوں کا دور گزرنے کے بعد ان کے ماورائے آئینی کردار کو غیر آئینی قرار دیا لیکن آمروں کی موجودگی میں کسی کو اس کی توفیق نہ ہوسکی۔ اس پر مستزاد ذوالفقار علی بھٹو کیس جس نے رہا سہا بھرم بھی ختم کر دیا۔بھٹو کیس نے پاکستانی عدلیہ کی نیک نامی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
اس کے بعد بھی بریک لگ جاتی تو ممکن ہے، ادارہ سنبھل جاتا لیکن اس کے بعد بھی ادارہ جسٹس قیوم جیسے واقعات کی صورت میں آفٹر شاکس کا شکار ہوتا رہا۔سیاسی مخالفین کو انجام تک پہنچانے کے لیے اکثر ناپسندیدہ طرز عمل اختیار کیا گیا۔ یہ عمل ہر پیمانے پر غلط تھا۔ اصلاح ممکن تھی لیکن جنرل مشرف کے اقتدار کو آئینی تحفظ دے کر جسٹس ارشاد حسن خان جیسے لوگوں نے ایک بار پھر خرابی کو انتہا پر پہنچا دیا۔
یوں اس ادارے کو جہاں پہنچا دیا گیا تھا، اس کے بعد سنبھل جانا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ خوش قسمتی سے اسی زمانے میں وکلا تحریک نے اس ادارے کوسنبھلنے کا ایک اور موقع فراہم کر دیا۔ اسے بھی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ یہ تحریک کسی بہتری کا ذریعہ بننے کے بجائے مزید خرابی کا باعث بن گئی۔ اس خرابی پر ثاقب نثار کا طرز عمل سونے پر سہاگہ ثابت ہوا۔ انھوں نے اپنے منصب کا خیال نہ رکھتے ہوئے کچھ ایسا کیا جس سے رہا سہا بھرم بھی داؤ پر لگ گیا۔ نقصان کا یہ سفر بلندی سے گرنے والے اس پتھر کی طرح ہوتا ہے جسے راستے میں روکنا بالعموم ممکن نہیں ہوتا۔
اس پس منظر میں جسٹس رانا شمیم کا انکشاف اور ثاقب نثار کی وہ مبینہ گفتگو جس میں وہ نواز شریف اور مریم نواز کے لیے سزاؤں کی بات کر رہے ہیں، اس ہلاکت خیز مرض کی علامت کے طور پر سامنے آیا ہے جس کے علاج پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ہماری نظر میں یہ واقعات خطرے کی گھنٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔یہ بحث فطری ہے کہ ان انکشافات کے بعد شریف خاندان کو ان کے مقدمات میں کوئی فائدہ ملے گا یا نہیں لیکن اس بحث سے بڑی بحث یہ ہے کہ ان انکشافات کے بعد اس قومی ادارے کو جو نقصانات پہنچائے گئے۔اس کا ازالہ کیسے ہو گا؟ کسی خاص صورت حال میں یہ جب یہ نوبت آ جاتی ہے، اسے خطرے کی گھنٹی سمجھنا چاہیے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب پیمانہ لبالب بھر چکا، اس کے بعد خرابی ہی خرابی ہے۔
یہ خرابی صرف اس ایک ادارے تک محدود نہیں۔ جنرل مشرف کے زمانے میں جنرل ریٹائرڈ تنویر نقوی نے ملک کے سول انتظامی ڈھانچے کو تباہ کیا۔ عدلیہ کے معاملات کا ذکر ہو چکا۔ کچھ دن پہلے ملک کے حساس اداروں میں تقرریوں کے تنازعے نے ادارہ جاتی استحکام پر ضرب لگائی۔
اس وقت حالات پھر ایک انتہا پر پہنچ چکے ہیں۔ ان حالات میں اصلاح کی واحد صورت ماضی کی خطاؤں اور کوتاہیوں کی نشان دہی کر کے خلوص نیت کے ساتھ ان کی اصلاح کے لیے آگے بڑھنے میں ہے۔ موجودہ پوائنٹ اسکورنگ وچ ہنٹگ والا مائنڈ سیٹ تباہی کو مزید قریب کر دے گا۔لہٰذا کسی کا بیان حلفی ہو یا کسی کی آڈیو، وڈیو، یہ سب علامات خطرے کی گھنٹی کا درجہ رکھتی ہیں۔بعض صورتوں میں خطرے کی گھنٹی کا بجنا بھی خوش قسمتی ہی ہوتی ہے کیوں کہ یہ ہمیں بروقت خبردار کر دیتی ہے۔
ہمارے ہاںموسموں کے بدلنے کی خبر مہاجر پرندوں کی آمد سے ملتی ہے، اسی طرح قومی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات سیاسی موسم میں تبدیلی کی خبر دیتے ہیں۔ جسٹس رانا شمیم کا حلف نامہ ہو یا ثاقب نثار کا آڈیو۔ ان دونوں واقعات سے ذہن فوری طور پر ان مقدمات کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، بعض سیاسی شخصیات جن کا سامنا کررہی ہیں ۔
ایسا ہونا فطری ہے لیکن پاکستان جیسے ملکوں میں اس طرح کے واقعات کے پس منظر میں صرف وہی مقاصد نہیں ہوتے جو بظاہر دکھائی دیتے ہیں۔ دہائیوں سے معاشرے میں سرائیت کر جانے والے بعض عوارض کے منطقی نتائج بھی ہوتے ہیں۔ یہ دو واقعات فوری سیاسی مقاصد کے علاوہ کیا معنی رکھتے ہیں، انھیں سمجھنے کے لیے گزشتہ پون صدی کے ان واقعات پر ایک نگاہ ڈالنی ہوگی جن کی ابتدا اسکندر مرزا اور جسٹس منیر جیسے لوگوں کے طرز عمل سے ہوئی۔
قیام پاکستان کے بعد ہمارے ہاں غلام محمد اور اسکندر مرزا جیسے مہربانوں کی کرم نوازی سے محلاتی سازشوں کا دور شروع ہوا۔ اس کی پہلی ضرب جمہوری عمل پر پڑی ہی تھی۔ اس حادثے کے بعد عدلیہ بھی اس کی زد میں آ گئی۔ یہ عدلیہ کی سخت جانی تھی کہ اس نے کسی نہ کسی طرح پون صدی گزار دی۔ اس کے باوجود کہ اسے اندر سے گھن لگ چکا تھا۔
انصاف فراہم کرنے کے ذریعے معاشرے میں استحکام قائم رکھنے والے اس ادارے کی ساکھ اور پیشہ ورانہ دیانت کو پہلا نقصان چیف جسٹس محمد منیر نے پہنچایا۔ اس نقصان کی ابتدا مولوی تمیز الدین کیس میں نظریہ ضرورت ایجاد سے ہوئی۔جسٹس منیر کی اس شاطرانہ ذہانت نے ملک میں جمہوریت کی بیخ کنی اور آمریت کا راستہ ہی ہموار نہیں ہوا بلکہ انصاف مہیا کرنے والے اس ادارے سے پاکستانی عوام کا اعتماد ہی متزلزل کیا۔
جسٹس منیر جیسے لوگ جب قانون کو بازیچہ اطفال بناتے ہیں تو اس کے نتیجے میں عوام کے لیے کوئی وجہ نہیں رہتی کہ وہ ایسے لوگوں سے کوئی امید وابستہ کریں۔ پاکستانی عوام اگر اس کے باوجود عدلیہ کا احترام کرتے رہے اور اس سے توقعات وابستہ کرتے رہے تو اس کا سبب یہی ہوسکتا ہے کہ اس ادارے کو جسٹس اے آر کارنیلیئس اور جسٹس ایم آر کیانی جیسے جج میسر آتے رہے۔
ان ججوں نے مشکل ترین حالات میں بھی انصاف کے ایوانوں میں حق و صداقت کی شمع روشن رکھی۔ کسی ادارے کو اگر جسٹس کارنیلئس اور جسٹس کیانی جیسے عظیم لوگ میسر آ جائیں تو یہ صرف اس کی خوش قسمتی نہیں بلکہ اس ادارے کے لیے ایک قیمتی موقع بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے بد نما ماضی کی اصلاح کے لیے اس سے فایدہ اٹھائے لیکن بدقسمتی سے ایسا ہو نہ سکا۔
اس ادارے کو ایسے 'نابغے' تو میسر آتے رہے جنھوں نے یحیی خان جیسے غاصبوں کا دور گزرنے کے بعد ان کے ماورائے آئینی کردار کو غیر آئینی قرار دیا لیکن آمروں کی موجودگی میں کسی کو اس کی توفیق نہ ہوسکی۔ اس پر مستزاد ذوالفقار علی بھٹو کیس جس نے رہا سہا بھرم بھی ختم کر دیا۔بھٹو کیس نے پاکستانی عدلیہ کی نیک نامی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
اس کے بعد بھی بریک لگ جاتی تو ممکن ہے، ادارہ سنبھل جاتا لیکن اس کے بعد بھی ادارہ جسٹس قیوم جیسے واقعات کی صورت میں آفٹر شاکس کا شکار ہوتا رہا۔سیاسی مخالفین کو انجام تک پہنچانے کے لیے اکثر ناپسندیدہ طرز عمل اختیار کیا گیا۔ یہ عمل ہر پیمانے پر غلط تھا۔ اصلاح ممکن تھی لیکن جنرل مشرف کے اقتدار کو آئینی تحفظ دے کر جسٹس ارشاد حسن خان جیسے لوگوں نے ایک بار پھر خرابی کو انتہا پر پہنچا دیا۔
یوں اس ادارے کو جہاں پہنچا دیا گیا تھا، اس کے بعد سنبھل جانا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ خوش قسمتی سے اسی زمانے میں وکلا تحریک نے اس ادارے کوسنبھلنے کا ایک اور موقع فراہم کر دیا۔ اسے بھی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ یہ تحریک کسی بہتری کا ذریعہ بننے کے بجائے مزید خرابی کا باعث بن گئی۔ اس خرابی پر ثاقب نثار کا طرز عمل سونے پر سہاگہ ثابت ہوا۔ انھوں نے اپنے منصب کا خیال نہ رکھتے ہوئے کچھ ایسا کیا جس سے رہا سہا بھرم بھی داؤ پر لگ گیا۔ نقصان کا یہ سفر بلندی سے گرنے والے اس پتھر کی طرح ہوتا ہے جسے راستے میں روکنا بالعموم ممکن نہیں ہوتا۔
اس پس منظر میں جسٹس رانا شمیم کا انکشاف اور ثاقب نثار کی وہ مبینہ گفتگو جس میں وہ نواز شریف اور مریم نواز کے لیے سزاؤں کی بات کر رہے ہیں، اس ہلاکت خیز مرض کی علامت کے طور پر سامنے آیا ہے جس کے علاج پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، ہماری نظر میں یہ واقعات خطرے کی گھنٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔یہ بحث فطری ہے کہ ان انکشافات کے بعد شریف خاندان کو ان کے مقدمات میں کوئی فائدہ ملے گا یا نہیں لیکن اس بحث سے بڑی بحث یہ ہے کہ ان انکشافات کے بعد اس قومی ادارے کو جو نقصانات پہنچائے گئے۔اس کا ازالہ کیسے ہو گا؟ کسی خاص صورت حال میں یہ جب یہ نوبت آ جاتی ہے، اسے خطرے کی گھنٹی سمجھنا چاہیے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب پیمانہ لبالب بھر چکا، اس کے بعد خرابی ہی خرابی ہے۔
یہ خرابی صرف اس ایک ادارے تک محدود نہیں۔ جنرل مشرف کے زمانے میں جنرل ریٹائرڈ تنویر نقوی نے ملک کے سول انتظامی ڈھانچے کو تباہ کیا۔ عدلیہ کے معاملات کا ذکر ہو چکا۔ کچھ دن پہلے ملک کے حساس اداروں میں تقرریوں کے تنازعے نے ادارہ جاتی استحکام پر ضرب لگائی۔
اس وقت حالات پھر ایک انتہا پر پہنچ چکے ہیں۔ ان حالات میں اصلاح کی واحد صورت ماضی کی خطاؤں اور کوتاہیوں کی نشان دہی کر کے خلوص نیت کے ساتھ ان کی اصلاح کے لیے آگے بڑھنے میں ہے۔ موجودہ پوائنٹ اسکورنگ وچ ہنٹگ والا مائنڈ سیٹ تباہی کو مزید قریب کر دے گا۔لہٰذا کسی کا بیان حلفی ہو یا کسی کی آڈیو، وڈیو، یہ سب علامات خطرے کی گھنٹی کا درجہ رکھتی ہیں۔بعض صورتوں میں خطرے کی گھنٹی کا بجنا بھی خوش قسمتی ہی ہوتی ہے کیوں کہ یہ ہمیں بروقت خبردار کر دیتی ہے۔