سکھ کمیونٹی کا کرتارپور میں ماڈلنگ پر خاتون کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ

جہاں ننگے سر جانا منع ہے وہاں خاتون نے ماڈلنگ کی جس سے دنیا بھر کے سکھوں کی دل آزاری ہوئی ہے، سکھ رہنما

جہاں ننگے سر جانا منع ہے وہاں خاتون نے ماڈلنگ کی جس سے دنیا بھر کے سکھوں کی دل آزاری ہوئی ہے، سکھ رہنما۔ فوٹو:سوشل میڈیا

RAWALPINDI:
پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی نے گوردوارہ دربارصاحب کرتارپور میں ماڈلنگ کرنے والی خاتون اور برانڈ کمپنی کیخلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سوشل میڈیا پر ایک خاتون ماڈل گوردوارہ صاحب کے احاطے میں کھڑے ہوکر ماڈلنگ کر رہی ہیں، تصاویر وائرل ہونے پر پاکستان سمیت دنیا بھرمیں موجود سکھ برادری کی طرف سے مذمت کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے ایکسپریس سے خصوصی بات کرتے ہوئے پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے پردھان سردار امیر سنگھ کا کہنا تھا کہ گوردوارہ صاحب کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں اور یہاں کسی بھی مذہب کے ماننے والے آسکتے ہیں، گوردوارہ صاحب سکھوں کا مقدس مقام ہے جہاں ننگے سر داخل نہیں ہوسکتے، لیکن وہاں ایک خاتون ماڈل کی طرف سے احاطے میں کھڑے ہو کر ماڈلنگ کرنے سے دنیا بھر کے سکھوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔

سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے پردھان کا کہنا تھا کہ جس کمپنی یہ اپنی پراڈکٹ کی تشہیر کے لئے ماڈلنگ کروائی گئی اس کے سربراہ نے ویڈیو پیغام کے ذریعے معافی مانگی ہے، تاہم ہم ان لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کروارہے ہیں۔


سردار امیر سنگھ نے کہا کہ ہم گوردوارہ دربارصاحب کرتارپور سمیت تمام گوردواروں کے داخلی راستوں پر بورڈ نصب کرنے جارہے ہیں، جس پر گوردوارہ صاحب میں داخل ہونے بارے ہدایات درج ہوں گی اور یہاں گارڈز بھی تعینات ہوں گے، اس کے باوجود اگر ایسے واقعات سامنے آتے ہیں تو گوردرواہ صاحب میں موبائل فون لے کر جانے پر پابندی بھی لگا سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل لاہور کی تاریخی مسجد وزیرخان میں بھی ماڈلنگ کرنے پر معروف ماڈلز کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا، جب کہ بادشاہی مسجد لاہور اور فیصل مسجد اسلام آباد میں بھی ایسے واقعات سامنے آچکے ہیں جس کے بعد مذہبی مقامات کے اندرکسی بھی قسم کی ماڈلنگ پر پابندی عائد ہے۔

دریں اثنا وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ بے وقوف اور نادان ڈیزائنر کو سکھ برادری کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر معافی مانگنی چاہیے، پنجاب پولیس کو ایسے غیر اخلاقی رویے کے لیے قانونی آپشنز پر غور کرنا چاہیے۔
Load Next Story