بنگلہ دیش حسینہ واجد کی انتقامی پالیسی کیا رنگ لائے گی
٭شامیوں کے غم غلط نہ ہوسکے٭جان کیری کا مشرق وسطیٰ امن فارمولہ٭مصر میںفوجی آمریت کے پاؤں مضبوط ہونے لگے
بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی اپنی انتقامی خو پرقابو پانے میں مسلسل ناکام دکھائی دے رہی ہیں۔
مسزحسینہ نے نہ صرف تمام اپوزیشن جماعتوں کو ڈرا دھمکا کر، انھیں قیدوبند میں رکھ کر، انہیں الیکشن کے عمل سے باہر رکھ کر مرضی کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ وہ اسلام پسندوں بالخصوص جماعت اسلامی کودیوار سے لگانے کی پالیسی پربھی عمل پیرا ہیں۔ مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا حسینہ واجد سیاسی مدبر سیاستدان ہونے کے باوجود سیاسی مخالفین سے اس قدرخائف کیوں ہے؟ لیکن انہیں اس کا جواب نہیں مل رہا ہے۔
دسمبر2013ء میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما عبدالقادرملا کو پھانسی دیے جانے کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ حسینہ اور ان کے ساتھیوں کاغصہ قدرے ٹھنڈا ہوچکا ہوگا لیکن اب لگ رہاہے کہ جماعت اسلامی کے پچھتّر سالہ امیرمولانا مطیع الرحمان نظامی سمیت ایک درجن سے زائد اہم سیاسی کارکنوں کو پھانسی کی سزا سنا کر بنگلہ دیش کو دانستہ طورپر تباہی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ عبدالقادر ملا کی پھانسی پربنگلہ دیش کے سیاسی اور سماجی حلقوں حتی کہ ذرائع ابلاغ نے بھی مصلحتاً خاموشی اختیار کر رکھی تھی لیکن تازہ سزاؤں کے فیصلے کے بعدذرائع ابلاغ نے بھی زبان کھول دی ہے ۔
بنگالی ذرائع ابلاغ نے اب کی بار حسینہ واجد کی پالیسی پرکڑی تنقید کرتے ہوئے جماعت کے سربراہ مولانامطیع الرحمان نظامی اور ان کے دیگرساتھیوں کو سزائے موت سنائے جانے کی کھلے الفاظ میں مذمت کی ہے۔ سیاسی، سماجی اور ابلاغی حلقوں کی جانب سے مسزحسینہ کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنا ذہنی معائنہ کرائیں کیونکہ جس قسم کی سیاسی انتقامی پالیسی انہوں نے اپنا رکھی ہے وہ کسی بھی صورت میں ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے۔
اپوزیشن کے مسلسل احتجاج ، سیاسی انارکی اور حسینہ واجد کی انتقامی سیاست کے نتیجے میں معیشت بدترین تباہی سے دوچار ہوئی ہے۔ ملک بھرمیں کاروبار زندگی متاثر ہوا ہے۔حسینہ واجد کے اقدامات کے باعث غیرجمہوری قوتوں کو سیاست میں مداخلت کا موقع مل سکتا ہے۔ بنگالی سیاست سے باخبرحلقوں کا خیال ہے کہ حسینہ واجددانستہ طورپر ملک کو فوج کے حوالے کرنے کی سازش کررہی ہیں۔اگرانہیں حالات کی نزاکت کا معمولی سا بھی ادارک ہوتو یہ اندازہ کرلینا چاہیے کہ اگراب کی بار فوج نے اقتدار سنبھالا توحسینہ واجد اپنی زندگی کے بقیہ ایام میں سیاست کے قابل بھی نہیں رہیں گی۔
دوسراجنیوا اجلاس، شامیوں کے غم غلط نہ ہوسکے
سوئٹرزلینڈ کے عالمی شہرت یافتہ شہرجنیوا میں عالمی طاقتیں اور دوستان شام سرجوڑ کربیٹھے ہیں تاکہ شام میں جاری فسادات اور کشت وخون کے خاتمے کی کوئی سبیل نکالی جاسکے۔ اقوام متحدہ کے امن مندوب الاخضر الابراہیمی کی جانب سے شامی اپوزیشن اور بشارالاسد کے ترلے اور منتوں کے بعد بہ مشکل انہیں اجلاس میں شرکت پرآمادہ کیا گیا۔ جب فریقین اجلاس میں شرکت کو پہلے ہی کوئی اہمیت نہیں دے رہے تھے تو ایسے میں اجلاس ''آمدن، نشستند، خوردن اور برخواستند'' کے سوا کوئی پیش رفت ممکن نہیں ہوپائی ۔تادم تحریر فریقین اپنی تقریروں میں تنقید برائے تنقید سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں جبکہ اجلاس میں تنقید کی نہیں بلکہ معاملے کو سلجھانے اور اصلاح کی ضرورت تھی۔شامی اپوزیشن کے مندوبین کا کہنا ہے کہ وہ ملک کے سیاسی مستقبل میں صدر بشارالاسد اور ان کے نورتنوں کو کسی قیمت پرقبول نہیں کریں گے جبکہ بشارالاسد اپنی انا اور ہٹ دھرمی پرقائم ہیں۔ دونوں فریقوں کے غیرلچک دار رویے کا نقصان عام لوگوں کو ہو رہا ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ جب تک بشارالاسد اپنی انا کا بت توڑتے ہوئے اپوزیشن کی شرائط کی طرف نہیں آتے تب تک کشت وخون کا سلسلہ جاری رہے گا۔ فریقین نے جنیوا اجلاسوں کے دوران دو دن تک سیز فائرکا عندیہ دیا تھا مگر ان دو دنوں کے دوران سرکاری فوج کی گولہ باری سے کم ازکم تین سو افراد جاں بحق اور ایک ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔ ایسے میں جنیوا اجلاس کیا گل کھلائے گا؟
جان کیری کا مشرق وسطیٰ امن فارمولہ
امریکی وزیرخارجہ جان کیری مسئلہ فلسطین کے حل اور مشرق وسطیٰ میں دیرپا قیام امن کے لیے پچھلے چھ ماہ سے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ برس اگست میں فلسطین اسرائیل براہ راست مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ جان کیری کی مساعی اپنی جگہ لیکن شائد انہیں اندازہ نہیں کہ ان کے پیشرو بالخصوص ہیلری کلنٹن، کنڈو لیزارائس، سابق صدر جارج بش اور بل کلنٹن بھی مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا سنہری خواب دیکھتے دیکھتے تاریخ کا حصہ بن گئے۔ ہٹ دھرم اسرائیلیوں نے جو طرز عمل سابق امریکی ثالثوں کی کوششوں کے ساتھ کیا، وہی انہوں نے جان کیری کے ساتھ بھی کیا ہے۔
جان کیری کی جانب سے فلسطین اسرائیل مفاہمت کے لیے اس ماہ اپریل تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ اپریل میں کیا ڈیل ہونے والی ہے اور کیا یہ ڈیل ہوسکے گی یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم اب تک کے حالات اور فریقین کے رویوں سے کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہورہاہے کہ مستقبل میں کیاہونے والا ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ فریقین نے اب تک کے جان کیری کے امن فارمولے کوتسلیم نہیں کیا ہے۔ جان کیری نے اپنی امن تجاویز میں کہا ہے کہ بیت المقدس کو فلسطین اور اسرائیل دونوں کے مشترکہ کنٹرول میں دے دیا جائے۔ اسرائیل مقبوضہ غرب اردن سے یہودی بستیاں ختم کردے۔ اگرا یسا نہیں تو فلسطینی شہروں اور آبادی کا تبادلہ کرلیا جائے لیکن اردن سے متصل وادی اردن پراسرائیل کا قبضہ برقرار رہے۔ لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کا معاملہ اس فارمولے کا حصہ نہیں ہے۔ ان تجاویز کو فریقین میں سے کسی نے بھی تسلیم نہیں کیا ہے لیکن اسرائیل کا طرز عمل زیادہ سخت اور ہٹ دھرمی پرمبنی ہے۔ اس لیے اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھتادکھائی نہیں دیتا ہے۔
مصر:فوجی آمریت کے پاؤں مضبوط ہونے لگے
مصرمیں پچھلے سال اخوان المسلمون کی منتخب حکومت کی برطرفی کے بعد حالات اب بھی فوجی حکومت کے قابو سے باہر ہیں مگرجنرل عبدالفتاح السیسی کی صدارتی انتخابات میں دوڑ میں باضابطہ شمولیت کا اعلان اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ صدارتی انتخابات کی تاریخ کا تعین تو نہیں ہوا ہے مگریہ طے ہے کہ اگرجنرل عبدالفتاح سیسی میدان میں اترے تو ''بندوق کی نوک پر''ان کی کامیابی یقینی قرار دی جاسکتی ہے۔ جنرل عبدالفتاح السیسی کی جانب سے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان سے یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ ملک میں فوجی آمریت کے پاؤں مضبوط ہونے لگے ہیں اور مستقبل قریب میں کسی حقیقی جمہوری اور عوام کے نمائندہ نظام حکومت کا امکان کم سے کم ہوتا جا رہا ہے ۔
فوج کی نگرانی میں قائم عبوری حکومت سیاسی مخالفین بالخصوص زیرعتاب اخوان المسلمون کومستقبل کے سیاسی نقشہ راہ میں کسی قسم کا کردار سونپنے پرآمادہ نہیں ہوگی۔ العربیہ ٹی وی کی ایک تجزیاتی رپورٹ اور دیگر مبصرین کے خیال میں موجودہ فوجی آمریت خود کو عوام میں مقبول عام بنانے اور عوام کی اشک شوئی کے لیے کچھ ایسے اقدامات ضرور کرے گی، جس سے عوام کو قدرے ریلیف ملے گا لیکن مخالفین کو دبانے کے لیے طاقت کے استعمال کی پالیسی ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے زہرقاتل ثابت ہوسکتی ہے۔
بندوق کی نوق پرصحافت پرقدغنیں
مصرمیں ایک بڑا مسئلہ آزادی صحافت کا ہے۔ جب سے فوج نے اقتدارپرقبضہ کیا ہے اہل صحافت کا گلہ گھونٹنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی گئی۔ خاص طورپر فوجی حکومت کی مخالفت کرنے والے عرب اور مغربی ابلاغی اداروں کے نمائندگان کو گرفتاریوں اور حراستی مراکز میں تشدد کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی قاہرہ حکومت کی اس پالیسی سے سخت ناراض ہیں۔ مصرمیں روشن خیالوں کے کھلے حامی سمجھے جانے والے مغربی بالخصوص یورپی ممالک اور امریکا نے بھی مصرکے حوالے سے سرد مہری کا طرز عمل اپنا رکھا ہے۔ الجزیرہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق حال ہی میں یورپی یونین کی جانب سے عبوری حکومت کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ صحافتی آزادیوں پرقدغنیں لگانے سے باز رہے توقاہرہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جاسکتے ہیں،لیکن فوجی سرکار کی جانب سے یورپی مطالبے کو قاہرہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا گیا ہے۔مصرمیں صحافتی آزادیوں بالخصوص آزادی اظہار رائے پرناروا پابندیاں صرف مصرہی کا نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے، کیونکہ ان پابندیوں کا نشانہ عالمی ابلاغی اداروں کے صحافی بن رہے ہیں۔
ڈرون پالیسی میں تبدیلی حقیقی یا فریب دشمناں
امریکی صدربارک اوباما کی جانب سے ڈرون طیاروں کے ذریعے القاعدہ کی کمرتوڑنے کی پالیسی میں تبدیلی کے اعلان کے بعد نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا میں ایک نئی بحث شروع ہوچکی ہے۔ یہ موضوع چند سطورمیں مکمل نہیں ہوسکتا۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ باراک اوباما کا بیان اپنی جگہ اہم سہی لیکن جب تک کانگریس اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ ''سی آئی اے'' ڈرون پالیسی میں تبدیلی کا فیصلہ نہیں کریں گے، کوئی نمایاں تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل سکے گی ۔ ڈرون طیاروں کے ذریعے القاعدہ اور ان کے حامی گروپوں کے خلاف تازہ کارروائی پاکستان اور یمن میں جاری ہے۔ پاکستان ان ڈرون حملوں پر کئی بار احتجاج کرچکا ہے جسے ملک کے بیشترحلقے رسمی سمجھتے ہیں مگریمن کی جانب سے ڈرون حملوں پر کوئی جاندار رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ ''سی آئی اے ''اب بھی پاکستان اور یمن کے قبائلی علاقوں کو القاعدہ کے بڑھتے خطرات کے حوالے سے ''فلیش پوائنٹ'' قرار دے رہا ہے۔امریکی صدر کے بیان کے بعد سی آئی اے چیف کا بھی ایک بیان سامنے آیا ہے۔ ان کے بیان کو ''ڈی کوڈ'' کرلیاجائے تو یہی مطلب نکلتاہے کہ اوباما اپنا پالیسی بیان اپنے پاس رکھیں کیونکہ ابھی امریکا کو ڈرون کی پیدوار اور اس کے استعمال کا دائرہ کار بڑھانا ہے۔
عراق:2014ء کو ایک ہزارجانوں کی قربانی سے سلامی
سابق مصلوب عراقی صدر صدام حسین کی آمریت کے خاتمے کے لیے فوجی طاقت کے استعمال کے ذریعے خوشحالی اور امن وجمہوریت کا خواب دکھانے والے عالمی ٹھیکداروں نے جو گل کھلائے ہیں اس کا نتیجہ پوری دنیا نے دیکھ لیا ہے۔جس انارکی اور بدامنی کا شکار عراق اب ہوا ہے ماضی میں کبھی نہیں تھا۔ امریکی کٹھ پتلی جہاں افغانستان میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہے وہاںنوری المالکی سے کس خیر کی توقع کی جاسکتی ہے۔ سو وہی کچھ ہوا جس کا اندازہ تھا۔ جنوری 2014ء رواں سال کا پہلا مہینہ عراقی عوام کے لیے خونی ثابت ہوا اور سال نو کو ایک ہزار جانوں کی قربانی سے سلامی دی گئی۔ قتل عام کی یہ وحشت ناک صورتحال نوری المالکی کی آمرانہ او ر منافقانہ پالیسی کا نتیجہ ہے۔ مالکی تمام مسائل کا حل صرف فوجی طاقت کے ذریعے دیکھنا چاہتے ہیں۔ سنی اکثریتی صوبہ الانبار دو ماہ سے میدان جنگ بنا ہوا ہے، پانچ لاکھ افراد شہرچھوڑنے پرمجبور ہوئے ہیں۔ سرکاری فوج کے حملوں میں پارلیمنٹ کے ارکان بھی محفوظ نہیں رہے ہیں، جبکہ وزیراعظم مسلسل یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ انہوں نے ملک کوامن کا گہوارا بنا لیا ہے۔ایک ماہ میں ایک ہزار افراد کی ہلاکت اور پھربھی امن،'' حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی''۔
روشن خیال عالمی جمہوریہ کا تاریک چہرہ
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ قرار دیا جانے والا بھارت حقوق نسواں اور ان کی آزادیوں کے حوالے سے ایک خونخوار ریاست کے طورپر متعارف ہونے لگا ہے۔ بھارت میں خواتین کو کتنے حقوق حاصل ہیں؟ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، لیکن نئی دہلی کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ سمجھنے والوں کے دماغ کے معائنے کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ فی الوقت ہندو دھرم کی ذات پات اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی پرمبنی تعلیمات ہمارا موضوع نہیں۔ ہم بھارت کے اس جدید تاریک چہرے کو دیکھ رہے ہیں دنیا میں جسے سب سے زیادہ روشن خیال سمجھا جاتا رہا ہے۔ البتہ اب عالمی برادری کو یہ اندازہ ہوچلا ہے کہ تنگ ذہن بھارتی سماج میں خواتین کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس دعوے کے ثبوت کے لیے کوئی ایک مثال نہیں بلکہ ایک عشرے میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایسے ہزاروں واقعات سامنے آئے ہیںجن میں خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتیوں کا انکشاف کیا گیا۔ بھارت کے ذرائع ابلاغ بھی مان رہے ہیں کہ بھارت غیرملکی خاتون سیاحوں کے حوالے سے جنت کبھی نہیں رہا ہے لیکن اب یہ جہنم ضرور بن چکا ہے۔ پچھلے دو برسوں کے دوران میں غیرملکی سیاح خواتین کے ساتھ زیاتی کے پانچ سو واقعات رجسٹرڈ ہوئے ہیں جبکہ اندرون ملک خواتین کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی نے پورے بھارت کو دنیا کے سامنے بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ اس حوالے سے سامنے آنے والے اعداو شمار نہایت خوفناک ہیں، جو ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت میں خواتین کو ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد کا سامنا ہے۔
مسزحسینہ نے نہ صرف تمام اپوزیشن جماعتوں کو ڈرا دھمکا کر، انھیں قیدوبند میں رکھ کر، انہیں الیکشن کے عمل سے باہر رکھ کر مرضی کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ وہ اسلام پسندوں بالخصوص جماعت اسلامی کودیوار سے لگانے کی پالیسی پربھی عمل پیرا ہیں۔ مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آیا حسینہ واجد سیاسی مدبر سیاستدان ہونے کے باوجود سیاسی مخالفین سے اس قدرخائف کیوں ہے؟ لیکن انہیں اس کا جواب نہیں مل رہا ہے۔
دسمبر2013ء میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما عبدالقادرملا کو پھانسی دیے جانے کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ حسینہ اور ان کے ساتھیوں کاغصہ قدرے ٹھنڈا ہوچکا ہوگا لیکن اب لگ رہاہے کہ جماعت اسلامی کے پچھتّر سالہ امیرمولانا مطیع الرحمان نظامی سمیت ایک درجن سے زائد اہم سیاسی کارکنوں کو پھانسی کی سزا سنا کر بنگلہ دیش کو دانستہ طورپر تباہی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ عبدالقادر ملا کی پھانسی پربنگلہ دیش کے سیاسی اور سماجی حلقوں حتی کہ ذرائع ابلاغ نے بھی مصلحتاً خاموشی اختیار کر رکھی تھی لیکن تازہ سزاؤں کے فیصلے کے بعدذرائع ابلاغ نے بھی زبان کھول دی ہے ۔
بنگالی ذرائع ابلاغ نے اب کی بار حسینہ واجد کی پالیسی پرکڑی تنقید کرتے ہوئے جماعت کے سربراہ مولانامطیع الرحمان نظامی اور ان کے دیگرساتھیوں کو سزائے موت سنائے جانے کی کھلے الفاظ میں مذمت کی ہے۔ سیاسی، سماجی اور ابلاغی حلقوں کی جانب سے مسزحسینہ کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ اپنا ذہنی معائنہ کرائیں کیونکہ جس قسم کی سیاسی انتقامی پالیسی انہوں نے اپنا رکھی ہے وہ کسی بھی صورت میں ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے۔
اپوزیشن کے مسلسل احتجاج ، سیاسی انارکی اور حسینہ واجد کی انتقامی سیاست کے نتیجے میں معیشت بدترین تباہی سے دوچار ہوئی ہے۔ ملک بھرمیں کاروبار زندگی متاثر ہوا ہے۔حسینہ واجد کے اقدامات کے باعث غیرجمہوری قوتوں کو سیاست میں مداخلت کا موقع مل سکتا ہے۔ بنگالی سیاست سے باخبرحلقوں کا خیال ہے کہ حسینہ واجددانستہ طورپر ملک کو فوج کے حوالے کرنے کی سازش کررہی ہیں۔اگرانہیں حالات کی نزاکت کا معمولی سا بھی ادارک ہوتو یہ اندازہ کرلینا چاہیے کہ اگراب کی بار فوج نے اقتدار سنبھالا توحسینہ واجد اپنی زندگی کے بقیہ ایام میں سیاست کے قابل بھی نہیں رہیں گی۔
دوسراجنیوا اجلاس، شامیوں کے غم غلط نہ ہوسکے
سوئٹرزلینڈ کے عالمی شہرت یافتہ شہرجنیوا میں عالمی طاقتیں اور دوستان شام سرجوڑ کربیٹھے ہیں تاکہ شام میں جاری فسادات اور کشت وخون کے خاتمے کی کوئی سبیل نکالی جاسکے۔ اقوام متحدہ کے امن مندوب الاخضر الابراہیمی کی جانب سے شامی اپوزیشن اور بشارالاسد کے ترلے اور منتوں کے بعد بہ مشکل انہیں اجلاس میں شرکت پرآمادہ کیا گیا۔ جب فریقین اجلاس میں شرکت کو پہلے ہی کوئی اہمیت نہیں دے رہے تھے تو ایسے میں اجلاس ''آمدن، نشستند، خوردن اور برخواستند'' کے سوا کوئی پیش رفت ممکن نہیں ہوپائی ۔تادم تحریر فریقین اپنی تقریروں میں تنقید برائے تنقید سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں جبکہ اجلاس میں تنقید کی نہیں بلکہ معاملے کو سلجھانے اور اصلاح کی ضرورت تھی۔شامی اپوزیشن کے مندوبین کا کہنا ہے کہ وہ ملک کے سیاسی مستقبل میں صدر بشارالاسد اور ان کے نورتنوں کو کسی قیمت پرقبول نہیں کریں گے جبکہ بشارالاسد اپنی انا اور ہٹ دھرمی پرقائم ہیں۔ دونوں فریقوں کے غیرلچک دار رویے کا نقصان عام لوگوں کو ہو رہا ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ جب تک بشارالاسد اپنی انا کا بت توڑتے ہوئے اپوزیشن کی شرائط کی طرف نہیں آتے تب تک کشت وخون کا سلسلہ جاری رہے گا۔ فریقین نے جنیوا اجلاسوں کے دوران دو دن تک سیز فائرکا عندیہ دیا تھا مگر ان دو دنوں کے دوران سرکاری فوج کی گولہ باری سے کم ازکم تین سو افراد جاں بحق اور ایک ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔ ایسے میں جنیوا اجلاس کیا گل کھلائے گا؟
جان کیری کا مشرق وسطیٰ امن فارمولہ
امریکی وزیرخارجہ جان کیری مسئلہ فلسطین کے حل اور مشرق وسطیٰ میں دیرپا قیام امن کے لیے پچھلے چھ ماہ سے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ برس اگست میں فلسطین اسرائیل براہ راست مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ جان کیری کی مساعی اپنی جگہ لیکن شائد انہیں اندازہ نہیں کہ ان کے پیشرو بالخصوص ہیلری کلنٹن، کنڈو لیزارائس، سابق صدر جارج بش اور بل کلنٹن بھی مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا سنہری خواب دیکھتے دیکھتے تاریخ کا حصہ بن گئے۔ ہٹ دھرم اسرائیلیوں نے جو طرز عمل سابق امریکی ثالثوں کی کوششوں کے ساتھ کیا، وہی انہوں نے جان کیری کے ساتھ بھی کیا ہے۔
جان کیری کی جانب سے فلسطین اسرائیل مفاہمت کے لیے اس ماہ اپریل تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے۔ اپریل میں کیا ڈیل ہونے والی ہے اور کیا یہ ڈیل ہوسکے گی یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا تاہم اب تک کے حالات اور فریقین کے رویوں سے کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہورہاہے کہ مستقبل میں کیاہونے والا ہے۔ یہ بھی طے ہے کہ فریقین نے اب تک کے جان کیری کے امن فارمولے کوتسلیم نہیں کیا ہے۔ جان کیری نے اپنی امن تجاویز میں کہا ہے کہ بیت المقدس کو فلسطین اور اسرائیل دونوں کے مشترکہ کنٹرول میں دے دیا جائے۔ اسرائیل مقبوضہ غرب اردن سے یہودی بستیاں ختم کردے۔ اگرا یسا نہیں تو فلسطینی شہروں اور آبادی کا تبادلہ کرلیا جائے لیکن اردن سے متصل وادی اردن پراسرائیل کا قبضہ برقرار رہے۔ لاکھوں فلسطینی پناہ گزینوں کا معاملہ اس فارمولے کا حصہ نہیں ہے۔ ان تجاویز کو فریقین میں سے کسی نے بھی تسلیم نہیں کیا ہے لیکن اسرائیل کا طرز عمل زیادہ سخت اور ہٹ دھرمی پرمبنی ہے۔ اس لیے اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھتادکھائی نہیں دیتا ہے۔
مصر:فوجی آمریت کے پاؤں مضبوط ہونے لگے
مصرمیں پچھلے سال اخوان المسلمون کی منتخب حکومت کی برطرفی کے بعد حالات اب بھی فوجی حکومت کے قابو سے باہر ہیں مگرجنرل عبدالفتاح السیسی کی صدارتی انتخابات میں دوڑ میں باضابطہ شمولیت کا اعلان اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ صدارتی انتخابات کی تاریخ کا تعین تو نہیں ہوا ہے مگریہ طے ہے کہ اگرجنرل عبدالفتاح سیسی میدان میں اترے تو ''بندوق کی نوک پر''ان کی کامیابی یقینی قرار دی جاسکتی ہے۔ جنرل عبدالفتاح السیسی کی جانب سے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے اعلان سے یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ ملک میں فوجی آمریت کے پاؤں مضبوط ہونے لگے ہیں اور مستقبل قریب میں کسی حقیقی جمہوری اور عوام کے نمائندہ نظام حکومت کا امکان کم سے کم ہوتا جا رہا ہے ۔
فوج کی نگرانی میں قائم عبوری حکومت سیاسی مخالفین بالخصوص زیرعتاب اخوان المسلمون کومستقبل کے سیاسی نقشہ راہ میں کسی قسم کا کردار سونپنے پرآمادہ نہیں ہوگی۔ العربیہ ٹی وی کی ایک تجزیاتی رپورٹ اور دیگر مبصرین کے خیال میں موجودہ فوجی آمریت خود کو عوام میں مقبول عام بنانے اور عوام کی اشک شوئی کے لیے کچھ ایسے اقدامات ضرور کرے گی، جس سے عوام کو قدرے ریلیف ملے گا لیکن مخالفین کو دبانے کے لیے طاقت کے استعمال کی پالیسی ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے زہرقاتل ثابت ہوسکتی ہے۔
بندوق کی نوق پرصحافت پرقدغنیں
مصرمیں ایک بڑا مسئلہ آزادی صحافت کا ہے۔ جب سے فوج نے اقتدارپرقبضہ کیا ہے اہل صحافت کا گلہ گھونٹنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی گئی۔ خاص طورپر فوجی حکومت کی مخالفت کرنے والے عرب اور مغربی ابلاغی اداروں کے نمائندگان کو گرفتاریوں اور حراستی مراکز میں تشدد کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں بھی قاہرہ حکومت کی اس پالیسی سے سخت ناراض ہیں۔ مصرمیں روشن خیالوں کے کھلے حامی سمجھے جانے والے مغربی بالخصوص یورپی ممالک اور امریکا نے بھی مصرکے حوالے سے سرد مہری کا طرز عمل اپنا رکھا ہے۔ الجزیرہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق حال ہی میں یورپی یونین کی جانب سے عبوری حکومت کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ وہ صحافتی آزادیوں پرقدغنیں لگانے سے باز رہے توقاہرہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جاسکتے ہیں،لیکن فوجی سرکار کی جانب سے یورپی مطالبے کو قاہرہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا گیا ہے۔مصرمیں صحافتی آزادیوں بالخصوص آزادی اظہار رائے پرناروا پابندیاں صرف مصرہی کا نہیں بلکہ ایک عالمی مسئلہ ہے، کیونکہ ان پابندیوں کا نشانہ عالمی ابلاغی اداروں کے صحافی بن رہے ہیں۔
ڈرون پالیسی میں تبدیلی حقیقی یا فریب دشمناں
امریکی صدربارک اوباما کی جانب سے ڈرون طیاروں کے ذریعے القاعدہ کی کمرتوڑنے کی پالیسی میں تبدیلی کے اعلان کے بعد نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا میں ایک نئی بحث شروع ہوچکی ہے۔ یہ موضوع چند سطورمیں مکمل نہیں ہوسکتا۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ باراک اوباما کا بیان اپنی جگہ اہم سہی لیکن جب تک کانگریس اور وفاقی تحقیقاتی ادارہ ''سی آئی اے'' ڈرون پالیسی میں تبدیلی کا فیصلہ نہیں کریں گے، کوئی نمایاں تبدیلی دیکھنے کو نہیں مل سکے گی ۔ ڈرون طیاروں کے ذریعے القاعدہ اور ان کے حامی گروپوں کے خلاف تازہ کارروائی پاکستان اور یمن میں جاری ہے۔ پاکستان ان ڈرون حملوں پر کئی بار احتجاج کرچکا ہے جسے ملک کے بیشترحلقے رسمی سمجھتے ہیں مگریمن کی جانب سے ڈرون حملوں پر کوئی جاندار رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔ ''سی آئی اے ''اب بھی پاکستان اور یمن کے قبائلی علاقوں کو القاعدہ کے بڑھتے خطرات کے حوالے سے ''فلیش پوائنٹ'' قرار دے رہا ہے۔امریکی صدر کے بیان کے بعد سی آئی اے چیف کا بھی ایک بیان سامنے آیا ہے۔ ان کے بیان کو ''ڈی کوڈ'' کرلیاجائے تو یہی مطلب نکلتاہے کہ اوباما اپنا پالیسی بیان اپنے پاس رکھیں کیونکہ ابھی امریکا کو ڈرون کی پیدوار اور اس کے استعمال کا دائرہ کار بڑھانا ہے۔
عراق:2014ء کو ایک ہزارجانوں کی قربانی سے سلامی
سابق مصلوب عراقی صدر صدام حسین کی آمریت کے خاتمے کے لیے فوجی طاقت کے استعمال کے ذریعے خوشحالی اور امن وجمہوریت کا خواب دکھانے والے عالمی ٹھیکداروں نے جو گل کھلائے ہیں اس کا نتیجہ پوری دنیا نے دیکھ لیا ہے۔جس انارکی اور بدامنی کا شکار عراق اب ہوا ہے ماضی میں کبھی نہیں تھا۔ امریکی کٹھ پتلی جہاں افغانستان میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہے وہاںنوری المالکی سے کس خیر کی توقع کی جاسکتی ہے۔ سو وہی کچھ ہوا جس کا اندازہ تھا۔ جنوری 2014ء رواں سال کا پہلا مہینہ عراقی عوام کے لیے خونی ثابت ہوا اور سال نو کو ایک ہزار جانوں کی قربانی سے سلامی دی گئی۔ قتل عام کی یہ وحشت ناک صورتحال نوری المالکی کی آمرانہ او ر منافقانہ پالیسی کا نتیجہ ہے۔ مالکی تمام مسائل کا حل صرف فوجی طاقت کے ذریعے دیکھنا چاہتے ہیں۔ سنی اکثریتی صوبہ الانبار دو ماہ سے میدان جنگ بنا ہوا ہے، پانچ لاکھ افراد شہرچھوڑنے پرمجبور ہوئے ہیں۔ سرکاری فوج کے حملوں میں پارلیمنٹ کے ارکان بھی محفوظ نہیں رہے ہیں، جبکہ وزیراعظم مسلسل یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ انہوں نے ملک کوامن کا گہوارا بنا لیا ہے۔ایک ماہ میں ایک ہزار افراد کی ہلاکت اور پھربھی امن،'' حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی''۔
روشن خیال عالمی جمہوریہ کا تاریک چہرہ
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ قرار دیا جانے والا بھارت حقوق نسواں اور ان کی آزادیوں کے حوالے سے ایک خونخوار ریاست کے طورپر متعارف ہونے لگا ہے۔ بھارت میں خواتین کو کتنے حقوق حاصل ہیں؟ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، لیکن نئی دہلی کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ سمجھنے والوں کے دماغ کے معائنے کی اشد ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ فی الوقت ہندو دھرم کی ذات پات اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی پرمبنی تعلیمات ہمارا موضوع نہیں۔ ہم بھارت کے اس جدید تاریک چہرے کو دیکھ رہے ہیں دنیا میں جسے سب سے زیادہ روشن خیال سمجھا جاتا رہا ہے۔ البتہ اب عالمی برادری کو یہ اندازہ ہوچلا ہے کہ تنگ ذہن بھارتی سماج میں خواتین کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس دعوے کے ثبوت کے لیے کوئی ایک مثال نہیں بلکہ ایک عشرے میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایسے ہزاروں واقعات سامنے آئے ہیںجن میں خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتیوں کا انکشاف کیا گیا۔ بھارت کے ذرائع ابلاغ بھی مان رہے ہیں کہ بھارت غیرملکی خاتون سیاحوں کے حوالے سے جنت کبھی نہیں رہا ہے لیکن اب یہ جہنم ضرور بن چکا ہے۔ پچھلے دو برسوں کے دوران میں غیرملکی سیاح خواتین کے ساتھ زیاتی کے پانچ سو واقعات رجسٹرڈ ہوئے ہیں جبکہ اندرون ملک خواتین کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی نے پورے بھارت کو دنیا کے سامنے بدنام کرکے رکھ دیا ہے۔ اس حوالے سے سامنے آنے والے اعداو شمار نہایت خوفناک ہیں، جو ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت میں خواتین کو ایک منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد کا سامنا ہے۔