انصاف کے تقاضے
مقدمہ میں پیشی ہونے پر ریلوے کے حکّام نے یہ صفائی پیش کی کہ حادثہ مسافر کی اپنی غلطی کی وجہ سے پیش آیا۔
کراچی:
یہ واقعہ انگلینڈ کے کسی ریلوے اسٹیشن کا ہے، ہوا یوں کہ ایک مسافر اپنی ٹرین پکڑنے کے لیے تیز تیز قدم بڑھاتا ہوا پلیٹ فارم سے گزر رہا تھا کہ اچانک اُس کا پیر پھسل گیا اور اُس کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ مسافر نے ریلوے کے خلاف مقدمہ دائر کردیا اور ریلوے حکام کو نا صرف اِس واقعہ کا ذمے دار قرار دیا بلکہ لا آف ٹورٹس کے تحت بھاری ہرجانے کا مطالبہ بھی کردیا۔
مقدمہ میں پیشی ہونے پر ریلوے کے حکّام نے یہ صفائی پیش کی کہ حادثہ مسافر کی اپنی غلطی کی وجہ سے پیش آیا۔ مسافر کی دلیل یہ تھی کہ پلیٹ فارم کا فرش پالش کیا ہوا تھا جس کے باعث ایسا ہوا لہٰذا ریلوے حکام کو ذمے دار قرار دیا جائے اور اُن کے خلاف بھاری ہرجانہ عائد کیا جائے۔
متعلقہ حکام نے عدالت کے سامنے یہ دلیل پیش کی کہ نوٹس بورڈ پر یہ واضح ہدایت تحریر کرکے لٹکا دی گئی تھی کہ برائے مہربانی احتیاط سے چلیں کیونکہ پلیٹ فارم پر صفائی ستھرائی کے بعد باقاعدہ پالش کر دی گئی ہے لہٰذا احتیاط سے کام لیں۔ریلوے حکام یہ دلیل پیش کرکے مطمئن ہو گئے کہ اب جان چھوٹ گئی لیکن متاثرہ مسافر کا یہ کہنا تھا کہ اِس حادثے کے ذمے دار قانون کی زد سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جج نے استفسار کیا کہ بھلا وہ کیسے۔ مسافر کے جواب نے نا صرف جج صاحب کو حیران کردیا بلکہ متعلقہ حکام بھی ہکا بکا رہ گئے۔
مسافر کا کہنا تھا کہ نوٹس بورڈ ایسی جگہ آویزاں کیا گیا تھا جہاں عام آدمی کی نظر نہیں پڑ سکتی تھی چنانچہ فیصلہ مسافر کے حق میں صادر ہونے کے سوائے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔یہ ہے انصاف اور قانون کی ایک اچھی مثال۔ اِس حوالے سے برطانیہ کے آنجہانی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کا وہ تاریخی سوال جو انھوں نے جرمنی کے خلاف دوسری عالمگیر جنگ کے موقع پر کیا تھا۔
سوال یہ تھا کہ کیا عدالتوں میں انصاف مل رہا ہے۔ جواب اثبات میں ملنے کے بعد چرچل نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فکر مندی کی کوئی بات نہیں۔ جنگ کا فیصلہ برطانیہ کے حق میں ہی ہوگا۔ اب ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیں جس کا تعلق بھی انصاف سے ہی ہے۔ ہوا یوں کہ فرینکفرٹ ایئر پورٹ کے قریب ایک گاؤں جس کا نام ٹرِبور تھا وہاں کی رہائشی ایک بوڑھی عورت نے فرینکفرٹ انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے خلاف عدالت میں کیس دائر کر دیا۔
جس کی وجہ عورت نے کچھ یوں بیان کی:''رات کے وقت جہازوں کا شور اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ میں رات کو سو نہیں سکتی، جس کی وجہ سے میری اکثر طبیعت خراب رہتی ہے۔'' عدالت میں جج نے اُس بوڑھی عورت کی پوری بات سننے کے بعد عورت سے پوچھا کہ '' آپ اب کیا چاہتی ہیں؟
کیا اس شور کے عوض آپ ایئر پورٹ انتظامیہ سے کچھ معاوضہ حاصل کرنا چاہتی ہیں یا ایئر پورٹ سے دور ایک عدد گھر حاصل کرنا چاہتی ہیں؟''عورت نے جواب میں کچھ یوں کہا ''میں یہاں اپنے ذاتی گھر میں رہتی ہوں اور عرصہ دراز سے یہاں زندگی گزار رہی ہوں، چونکہ اب میری طبیعت اس قدر شور برداشت نہیں کر سکتی، اس لیے اس مسئلے کا کوئی اور معقول حل تلاش کیا جائے اور ساتھ یہ بتایا کہ نہ تو مجھے کوئی پیسوں کی ضرورت ہے اور نہ ہی میں اپنا گاؤں چھوڑ کر کہیں جانا چاہتی ہوں۔''اس بات سے اُس وقت کے موجودہ حکام بھی بہت پریشان ہوئے کہ اب اس مسئلے کا کیا حل ہو سکتا ہے، نہ تو عورت یہاں سے جانا چاہتی ہے اور نہ اتنے بڑے ایئرپورٹ کو کہیں اور منتقل کیا جا سکتا ہے۔
ایئر پورٹ حکام نے عورت کو اپنے کیس سے پیچھے ہٹ جانے کے لیے بیشمار فرمائشیں پیش کی، ایئرپورٹ سے دور اعلیٰ شاندار گھر کی فرمائش کی اور ساتھ بڑی رقم دینے کی فرمائش بھی کی لیکن وہ بوڑھی عورت اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ آخرکار تھک کر جج نے کہا ''اگر ہم آپ کی نیند کے ٹائم کو مینج کر لیں، مطلب رات کا ایک مخصوص ٹائم جب آپ سو رہی ہوں،تب ایئرپورٹ پر کوئی فلائٹ نہیں اترے گی۔
کیا آپ کو یہ فیصلہ منظور ہے؟'' جس سے وہ عورت مطمئن ہوگئی، اور تب سے لے کر آج تک فرینکفرٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر رات 12 سے لے کر صبح 5 بجے تک کوئی فلائٹس نہیں اترتیں۔ یہ ہے وہ عزت، وہ مقام وہ انصاف جو جرمنی اپنے عوام ٹیکس پیئر لوگوں کو دیتا ہے، یہاں ہر فردکے حقوق برابر ہیں اور ہر ایک کے لیے انصاف کا معیار یکساں ہے ،اس کے علاوہ انصاف کی تاریخی مثالیں بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مثلاً نوشیرواں عادل جس کی وجہ سے عادل کا لقب اُس کے نام کا جزوِ لاینفک بن گیا تھا اور عدلِ جہانگیری جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
سب سے زرین مثالیں تاریخ اسلام میں موجود ہیں جس میں عدلِ فاروقی سرِفہرست ہے جسے پوری دنیا تسلیم کرتی ہے اور جس کا کوئی ثانی نہیں۔ اب آئیے وطن عزیز کی عدلیہ کی کارکردگی اور نظام کی جانب جہاں انصاف ملتا نہیں بکتا ہے۔
زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں کیونکہ ہماری عدالتوں کا جو حال ہے وہ اظہر مِن الشمس ہے اگر کسی کو یقین نہ آئے تو وہ خود جا کر دیکھ لے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شریف آدمی کورٹ کچہری کا نام سُنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے اور یہی دعا کرتا ہے کہ اللہ اُسے وہاں جانے سے محفوظ رکھے ،جہاں تک ماتحت عدالتوں کا تعلق ہے، وہاں تو اکثر و بیشتر کالے کوٹوں اور کرارے نوٹوں سے کام بنتا ہے ورنہ تو نسلیں گزر جاتی ہیں جوتیاں گھِس جاتی ہیں اور کچھ حاصل بھی نہیں ہوتا یا پھر اونچی سے اونچی سفارش سے کام چلتا ہے۔ بقولِ امیر قزلباش۔
اُسی کا شہر، وہی مدعی، وہی منصف
ہمیں یقیں تھا قصورہمارا نکلے گا
یا بقول فیض احمد فیض ۔
بنے ہیں اہل ہوس،مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
کچہری کے احاطے میں قدم رکھتے ہی ایک کھیل شروع ہوجاتا ہے۔پیسہ پھینک تماشہ دیکھ۔ بس مُٹھی گرم کرتے جائیں اور کامیابی کی منزلیں طے کرتے چلے جائیے اور اگر جیب میں نہیں دام تو نہیں بنے گا کوئی کام۔ ھذا من فضل ربی۔ کمال دیکھتے جائیے۔ صاحب کے اردلی سے لے کر پیشکار تک آپ کے تابعدار ہو جائیں گے بس آپ انھیں ذرا سا خوش کر دیجیے۔
کورٹ جانے سے اچھا کوئی اور مشغلہ نہیں ہے بشرطیکہ آپ کی ٹانگیں فولاد کی بنی ہوئی ہوں، آپ کے پاس عمرِ خضر ہو اور قارون کا خزانہ ہو۔ یقین نہ آئے تو آزما کر دیکھ لیجیے۔ اب آپ کو وکیلوں کا احوال بتاتے ہیں ایک وہ ہیں کہ جن کے پاس سَر کھجانے کی بھی فرصت نہیں اور جن کی پوشاک زرق برق ہے اور آفس لاجواب چمچماتا ہوا اور اُن کا عملہ بھی اسمارٹ اور چاک و چوبند دوسرے وہ جن کے کالے کورٹ پر میل کی تہہ جمی ہوئی نظر آتی ہیں۔صورت ایسی مسکین کہ انسان اُن کو دیکھتے ہی ترس کھانے لگے
اب آتے ہیں جج صاحبان کے احوال کی جانب جس کا تذکرہ سینیٹ کے ایک معزز رکن نے ابھی چند روز قبل قدرے تفصیل سے کیا تھا اُن کے بیان کے مطابق''بدقسمتی سے افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ججز کو جو مراعات اور سہولیات ملتی ہیں اُن کی فہرست میں وہ دس ممالک میں شامل ہے لیکن انصاف کی فراہمی میں ہماری عدلیہ کا نمبر ایک سو چوبیسواں ہے۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے 2020 کے سروے کے مطابق اُس میں ایک 180ممالک میں ہماری عدلیہ 120 ویں نمبر پر آگئی ہے اور ہمارے ججز کی تنخواہ اتنی زیادہ ہے کہ ایک جج کی پنشن چھ اور سات لاکھ ہے انصاف کہاں ہے؟ مراعات ہیں، سہولیات ہیں، تنخواہیں ہیں، پنشن ہے، پروٹوکول ہے لیکن کوئی انصاف لوگوں کو نہیں مل رہا۔ انصاف خاص طبقے تک محدود ہے۔ غریب عوام پاکستانی عدالتوں کے انصاف سے محروم ہیں۔
معزز رکن سینیٹ نے تجویز کیا کہ ججوں کی خالی اسامیوں کو جلد از جلد پُر کیا جائے اور جج صاحبان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تا کہ زیر التوا مقدمات کا فیصلہ بلا تاخیر کیا جاسکے۔امید ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت میں بلا امتیاز اور بلا تاخیر سستے انصاف کے تقاضے پورے ہونگے۔
یہ واقعہ انگلینڈ کے کسی ریلوے اسٹیشن کا ہے، ہوا یوں کہ ایک مسافر اپنی ٹرین پکڑنے کے لیے تیز تیز قدم بڑھاتا ہوا پلیٹ فارم سے گزر رہا تھا کہ اچانک اُس کا پیر پھسل گیا اور اُس کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ مسافر نے ریلوے کے خلاف مقدمہ دائر کردیا اور ریلوے حکام کو نا صرف اِس واقعہ کا ذمے دار قرار دیا بلکہ لا آف ٹورٹس کے تحت بھاری ہرجانے کا مطالبہ بھی کردیا۔
مقدمہ میں پیشی ہونے پر ریلوے کے حکّام نے یہ صفائی پیش کی کہ حادثہ مسافر کی اپنی غلطی کی وجہ سے پیش آیا۔ مسافر کی دلیل یہ تھی کہ پلیٹ فارم کا فرش پالش کیا ہوا تھا جس کے باعث ایسا ہوا لہٰذا ریلوے حکام کو ذمے دار قرار دیا جائے اور اُن کے خلاف بھاری ہرجانہ عائد کیا جائے۔
متعلقہ حکام نے عدالت کے سامنے یہ دلیل پیش کی کہ نوٹس بورڈ پر یہ واضح ہدایت تحریر کرکے لٹکا دی گئی تھی کہ برائے مہربانی احتیاط سے چلیں کیونکہ پلیٹ فارم پر صفائی ستھرائی کے بعد باقاعدہ پالش کر دی گئی ہے لہٰذا احتیاط سے کام لیں۔ریلوے حکام یہ دلیل پیش کرکے مطمئن ہو گئے کہ اب جان چھوٹ گئی لیکن متاثرہ مسافر کا یہ کہنا تھا کہ اِس حادثے کے ذمے دار قانون کی زد سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جج نے استفسار کیا کہ بھلا وہ کیسے۔ مسافر کے جواب نے نا صرف جج صاحب کو حیران کردیا بلکہ متعلقہ حکام بھی ہکا بکا رہ گئے۔
مسافر کا کہنا تھا کہ نوٹس بورڈ ایسی جگہ آویزاں کیا گیا تھا جہاں عام آدمی کی نظر نہیں پڑ سکتی تھی چنانچہ فیصلہ مسافر کے حق میں صادر ہونے کے سوائے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔یہ ہے انصاف اور قانون کی ایک اچھی مثال۔ اِس حوالے سے برطانیہ کے آنجہانی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کا وہ تاریخی سوال جو انھوں نے جرمنی کے خلاف دوسری عالمگیر جنگ کے موقع پر کیا تھا۔
سوال یہ تھا کہ کیا عدالتوں میں انصاف مل رہا ہے۔ جواب اثبات میں ملنے کے بعد چرچل نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فکر مندی کی کوئی بات نہیں۔ جنگ کا فیصلہ برطانیہ کے حق میں ہی ہوگا۔ اب ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیں جس کا تعلق بھی انصاف سے ہی ہے۔ ہوا یوں کہ فرینکفرٹ ایئر پورٹ کے قریب ایک گاؤں جس کا نام ٹرِبور تھا وہاں کی رہائشی ایک بوڑھی عورت نے فرینکفرٹ انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے خلاف عدالت میں کیس دائر کر دیا۔
جس کی وجہ عورت نے کچھ یوں بیان کی:''رات کے وقت جہازوں کا شور اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ میں رات کو سو نہیں سکتی، جس کی وجہ سے میری اکثر طبیعت خراب رہتی ہے۔'' عدالت میں جج نے اُس بوڑھی عورت کی پوری بات سننے کے بعد عورت سے پوچھا کہ '' آپ اب کیا چاہتی ہیں؟
کیا اس شور کے عوض آپ ایئر پورٹ انتظامیہ سے کچھ معاوضہ حاصل کرنا چاہتی ہیں یا ایئر پورٹ سے دور ایک عدد گھر حاصل کرنا چاہتی ہیں؟''عورت نے جواب میں کچھ یوں کہا ''میں یہاں اپنے ذاتی گھر میں رہتی ہوں اور عرصہ دراز سے یہاں زندگی گزار رہی ہوں، چونکہ اب میری طبیعت اس قدر شور برداشت نہیں کر سکتی، اس لیے اس مسئلے کا کوئی اور معقول حل تلاش کیا جائے اور ساتھ یہ بتایا کہ نہ تو مجھے کوئی پیسوں کی ضرورت ہے اور نہ ہی میں اپنا گاؤں چھوڑ کر کہیں جانا چاہتی ہوں۔''اس بات سے اُس وقت کے موجودہ حکام بھی بہت پریشان ہوئے کہ اب اس مسئلے کا کیا حل ہو سکتا ہے، نہ تو عورت یہاں سے جانا چاہتی ہے اور نہ اتنے بڑے ایئرپورٹ کو کہیں اور منتقل کیا جا سکتا ہے۔
ایئر پورٹ حکام نے عورت کو اپنے کیس سے پیچھے ہٹ جانے کے لیے بیشمار فرمائشیں پیش کی، ایئرپورٹ سے دور اعلیٰ شاندار گھر کی فرمائش کی اور ساتھ بڑی رقم دینے کی فرمائش بھی کی لیکن وہ بوڑھی عورت اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ آخرکار تھک کر جج نے کہا ''اگر ہم آپ کی نیند کے ٹائم کو مینج کر لیں، مطلب رات کا ایک مخصوص ٹائم جب آپ سو رہی ہوں،تب ایئرپورٹ پر کوئی فلائٹ نہیں اترے گی۔
کیا آپ کو یہ فیصلہ منظور ہے؟'' جس سے وہ عورت مطمئن ہوگئی، اور تب سے لے کر آج تک فرینکفرٹ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر رات 12 سے لے کر صبح 5 بجے تک کوئی فلائٹس نہیں اترتیں۔ یہ ہے وہ عزت، وہ مقام وہ انصاف جو جرمنی اپنے عوام ٹیکس پیئر لوگوں کو دیتا ہے، یہاں ہر فردکے حقوق برابر ہیں اور ہر ایک کے لیے انصاف کا معیار یکساں ہے ،اس کے علاوہ انصاف کی تاریخی مثالیں بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔ مثلاً نوشیرواں عادل جس کی وجہ سے عادل کا لقب اُس کے نام کا جزوِ لاینفک بن گیا تھا اور عدلِ جہانگیری جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
سب سے زرین مثالیں تاریخ اسلام میں موجود ہیں جس میں عدلِ فاروقی سرِفہرست ہے جسے پوری دنیا تسلیم کرتی ہے اور جس کا کوئی ثانی نہیں۔ اب آئیے وطن عزیز کی عدلیہ کی کارکردگی اور نظام کی جانب جہاں انصاف ملتا نہیں بکتا ہے۔
زیادہ وضاحت کی ضرورت نہیں کیونکہ ہماری عدالتوں کا جو حال ہے وہ اظہر مِن الشمس ہے اگر کسی کو یقین نہ آئے تو وہ خود جا کر دیکھ لے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شریف آدمی کورٹ کچہری کا نام سُنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے اور یہی دعا کرتا ہے کہ اللہ اُسے وہاں جانے سے محفوظ رکھے ،جہاں تک ماتحت عدالتوں کا تعلق ہے، وہاں تو اکثر و بیشتر کالے کوٹوں اور کرارے نوٹوں سے کام بنتا ہے ورنہ تو نسلیں گزر جاتی ہیں جوتیاں گھِس جاتی ہیں اور کچھ حاصل بھی نہیں ہوتا یا پھر اونچی سے اونچی سفارش سے کام چلتا ہے۔ بقولِ امیر قزلباش۔
اُسی کا شہر، وہی مدعی، وہی منصف
ہمیں یقیں تھا قصورہمارا نکلے گا
یا بقول فیض احمد فیض ۔
بنے ہیں اہل ہوس،مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
کچہری کے احاطے میں قدم رکھتے ہی ایک کھیل شروع ہوجاتا ہے۔پیسہ پھینک تماشہ دیکھ۔ بس مُٹھی گرم کرتے جائیں اور کامیابی کی منزلیں طے کرتے چلے جائیے اور اگر جیب میں نہیں دام تو نہیں بنے گا کوئی کام۔ ھذا من فضل ربی۔ کمال دیکھتے جائیے۔ صاحب کے اردلی سے لے کر پیشکار تک آپ کے تابعدار ہو جائیں گے بس آپ انھیں ذرا سا خوش کر دیجیے۔
کورٹ جانے سے اچھا کوئی اور مشغلہ نہیں ہے بشرطیکہ آپ کی ٹانگیں فولاد کی بنی ہوئی ہوں، آپ کے پاس عمرِ خضر ہو اور قارون کا خزانہ ہو۔ یقین نہ آئے تو آزما کر دیکھ لیجیے۔ اب آپ کو وکیلوں کا احوال بتاتے ہیں ایک وہ ہیں کہ جن کے پاس سَر کھجانے کی بھی فرصت نہیں اور جن کی پوشاک زرق برق ہے اور آفس لاجواب چمچماتا ہوا اور اُن کا عملہ بھی اسمارٹ اور چاک و چوبند دوسرے وہ جن کے کالے کورٹ پر میل کی تہہ جمی ہوئی نظر آتی ہیں۔صورت ایسی مسکین کہ انسان اُن کو دیکھتے ہی ترس کھانے لگے
اب آتے ہیں جج صاحبان کے احوال کی جانب جس کا تذکرہ سینیٹ کے ایک معزز رکن نے ابھی چند روز قبل قدرے تفصیل سے کیا تھا اُن کے بیان کے مطابق''بدقسمتی سے افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ججز کو جو مراعات اور سہولیات ملتی ہیں اُن کی فہرست میں وہ دس ممالک میں شامل ہے لیکن انصاف کی فراہمی میں ہماری عدلیہ کا نمبر ایک سو چوبیسواں ہے۔
ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے 2020 کے سروے کے مطابق اُس میں ایک 180ممالک میں ہماری عدلیہ 120 ویں نمبر پر آگئی ہے اور ہمارے ججز کی تنخواہ اتنی زیادہ ہے کہ ایک جج کی پنشن چھ اور سات لاکھ ہے انصاف کہاں ہے؟ مراعات ہیں، سہولیات ہیں، تنخواہیں ہیں، پنشن ہے، پروٹوکول ہے لیکن کوئی انصاف لوگوں کو نہیں مل رہا۔ انصاف خاص طبقے تک محدود ہے۔ غریب عوام پاکستانی عدالتوں کے انصاف سے محروم ہیں۔
معزز رکن سینیٹ نے تجویز کیا کہ ججوں کی خالی اسامیوں کو جلد از جلد پُر کیا جائے اور جج صاحبان کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تا کہ زیر التوا مقدمات کا فیصلہ بلا تاخیر کیا جاسکے۔امید ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت میں بلا امتیاز اور بلا تاخیر سستے انصاف کے تقاضے پورے ہونگے۔