سی پیک کا سب سے بڑا کردار گوادر بنیادی سہولیات سے محروم
گوادر کے ترقی کے دعوے صرف دعوؤں تک محدود ہیں،سینیٹ قائمہ کمیٹی منصوبہ بندی کا دورہ
SARGODHA:
سی پیک کو حکومت پاکستان کی جانب سے گیم چینجر تو قرار دیا جاتا ہے اور اس گیم چینجر منصوبے میں سب سے بڑا کردار گوادر کا ہے تاہم گوادر میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کے حالیہ دورے سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ گوادر کے ترقی کے دعوے صرف دعوؤں تک محدود ہیں اور جی او سی ایس ایس ڈی 44 میجر جنرل عنایت حسین نے بھی انتباہ کیا ہے کہ سرخ فیتے کاٹنے سے کام آگے بڑھایا جائے۔
گوادر کی ترقی کیلئے گوادر کے گورننس ماڈل کو تبدیل کیے جانے کی ضرورت ہے،آئندہ گرمیوں سے پہلے ہمیں گوادر کے مکینوں کیلئے بجلی، پانی چاہیے۔گوادر کے دورے میں معلوم ہوا کہ گوادر کے لوگ بجلی ، گیس ، پانی جیسی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں ،چائنہ بزنس سینٹر اور چین کی گرانٹ سے ایک ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ٹریننگ سینٹر قائم جبکہ ایک تین سوبیڈ کے ہسپتال پر کام جا ری ہے۔
گوادر میں ہمارادورہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کے ہمراہ تھا، اس دورے کے دوران گوادر کو بہت قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا تو ایسا محسوس ہوا کہ گوادر ترقی سے بہت دور ہے،گوادر میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیرصدارت منعقد ہوا ،اجلاس میں معاون خصوصی سی پیک خالد منصور، سینیٹر پلوشہ خان، سینیٹر دوست محمد اور سینیٹر شفیق ترین بھی شریک تھے۔
گوادر پورٹ اتھارٹی پرائیویٹ کمپنی کو گوادر کیلئے ایل این جی امپورٹ کا این او سی دینے سے انکاری ہے، سات ماہ میں مکمل ہونے والاگیس فراہمی کا منصوبہ تاخیر کا شکار ہورہا ہے۔ گوادرمیں موجود جی او سی، ایس ایس ڈی 44 نے بھی مکینوں کو بجلی، گیس اور پانی جیسی سہولیات کی جلد ازجلد فراہمی کا مطالبہ کر دیا ہے۔
معاون خصوصی سی پیک خالد منصور نے کہاکہ 300 میگا واٹ کول پاور پلانٹ ترجیحی لسٹ میں ہے۔چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی شاہزیب کاکڑنے بھی گوادر میں سرمایہ کا ری لانے کا بہت مشکل قرار دیا ، سرمایہ کاروں کو 25 اداروں سے این او سی لینے پڑتے ہیں۔
سینٹ کی پلاننگ کمیٹی کی جانب سے بھی مایوسی کا اظہار کر تے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کو گوادر میں کم سے کم گیس بجلی اور پانی جیسی سہولیات فوری پہنچانے کے اقدامات کرنے کیلئے لیٹر لکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
سی پیک کو حکومت پاکستان کی جانب سے گیم چینجر تو قرار دیا جاتا ہے اور اس گیم چینجر منصوبے میں سب سے بڑا کردار گوادر کا ہے تاہم گوادر میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کے حالیہ دورے سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ گوادر کے ترقی کے دعوے صرف دعوؤں تک محدود ہیں اور جی او سی ایس ایس ڈی 44 میجر جنرل عنایت حسین نے بھی انتباہ کیا ہے کہ سرخ فیتے کاٹنے سے کام آگے بڑھایا جائے۔
گوادر کی ترقی کیلئے گوادر کے گورننس ماڈل کو تبدیل کیے جانے کی ضرورت ہے،آئندہ گرمیوں سے پہلے ہمیں گوادر کے مکینوں کیلئے بجلی، پانی چاہیے۔گوادر کے دورے میں معلوم ہوا کہ گوادر کے لوگ بجلی ، گیس ، پانی جیسی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں ،چائنہ بزنس سینٹر اور چین کی گرانٹ سے ایک ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ٹریننگ سینٹر قائم جبکہ ایک تین سوبیڈ کے ہسپتال پر کام جا ری ہے۔
گوادر میں ہمارادورہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کے ہمراہ تھا، اس دورے کے دوران گوادر کو بہت قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا تو ایسا محسوس ہوا کہ گوادر ترقی سے بہت دور ہے،گوادر میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیرصدارت منعقد ہوا ،اجلاس میں معاون خصوصی سی پیک خالد منصور، سینیٹر پلوشہ خان، سینیٹر دوست محمد اور سینیٹر شفیق ترین بھی شریک تھے۔
گوادر پورٹ اتھارٹی پرائیویٹ کمپنی کو گوادر کیلئے ایل این جی امپورٹ کا این او سی دینے سے انکاری ہے، سات ماہ میں مکمل ہونے والاگیس فراہمی کا منصوبہ تاخیر کا شکار ہورہا ہے۔ گوادرمیں موجود جی او سی، ایس ایس ڈی 44 نے بھی مکینوں کو بجلی، گیس اور پانی جیسی سہولیات کی جلد ازجلد فراہمی کا مطالبہ کر دیا ہے۔
معاون خصوصی سی پیک خالد منصور نے کہاکہ 300 میگا واٹ کول پاور پلانٹ ترجیحی لسٹ میں ہے۔چیئرمین گوادر پورٹ اتھارٹی شاہزیب کاکڑنے بھی گوادر میں سرمایہ کا ری لانے کا بہت مشکل قرار دیا ، سرمایہ کاروں کو 25 اداروں سے این او سی لینے پڑتے ہیں۔
سینٹ کی پلاننگ کمیٹی کی جانب سے بھی مایوسی کا اظہار کر تے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کو گوادر میں کم سے کم گیس بجلی اور پانی جیسی سہولیات فوری پہنچانے کے اقدامات کرنے کیلئے لیٹر لکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔