چولستان میں ایک سرد رات
اپنے مویشیوں کے ساتھ پانی کی تلاش میں بھٹکنے والے انسانوں کو جب پانی کا نشان مل جاتا ہے تو ان کی اس وقت کی خوشی پر۔۔۔
ہمارے وزیر اعظم چونکہ اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں ہی نہیں مہینوں تک عوام اور صحافیوں سے دور رہے، اس لیے ان کے اقتدار کے دن گنے جاتے رہے کہ کتنے وقت سے وہ دور دور ہیں۔ اب چند دنوں سے ان کی یہ روپوشی ختم ہوئی ہے، وہ پہلے تو صحافیوں سے ملے ان کے پاس چونکہ کوئی خبر نہ تھی اس لیے یہ محفل سرکاری لنچ سے شروع ہوئی اور اسی پر ختم بھی ہو گئی، اس دوران گپ شپ ہوتی رہی۔
میزبان بھی سرکاری تھے البتہ مہمانوں میں سرکاری اور غیر سرکاری دونوں قسم کے تھے۔ میں چونکہ رپورٹنگ چھوڑ چکا ہوں اس لیے مجھے خبروں کے سب سے بڑے ذریعے یعنی بڑے حکمرانوں کی اب ضرورت نہیں رہتی ورنہ پوری کوشش ہوتی تھی کہ وزیر اعظم اور صدر سے ذاتی رابطے ہوں اور خبریں ملتی رہیں، وہ بھی خصوصی خبریں اور میں اس میں بڑی حد تک کامیاب رہا۔ یہ رابطے جو باہمی مفاد پر مبنی تھے ظاہر ہے کہ ذاتی نہیں تھے۔ فریقین کو ایک دوسرے سے غرض تھی اور بس۔ ادھر اقتدار ختم ہوا اور ادھر یہ رابطے بھی۔ میاں صاحب نے شروع دنوں میں جو دوری اختیار کی وہ اخبار والوں کو بہت کھلتی رہی بہر کیف اسے دور بھی ایک سابقہ اخبار نویس نے کیا جو اب تک بذریعہ کالم صحافت سے بھی متعلق ہیں اور ان کے ہنسانے والے کالموں کا مجھے خاص طور پر انتظار رہتا ہے۔ رونے دھونے والی خبروں کے بعد اسے کھانے کے بعد کی سویٹ ڈش سمجھئے۔
بات محترم میاں صاحب کی ہو رہی تھی جو ان کے متوسلین کی طرف نکل گئی۔ میاں صاحب اب باہر نکلے ہیں تو وہ بہت دور چولستان جا پہنچے ہیں جہاں خواجہ کی شاعری اور فقیری کا راج ہے اور حسن و دلداری کا بھی۔ مجھے معلوم نہیں سیاستدان اور صنعتکار میاں صاحب کو شاعری سے کتنا لگاؤ ہے ورنہ چولستان میں ان کے قیام کی پہلی ساعتیں تو خواجہ فرید کی شاعری پر وجد کرتے گزرتیں عام لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے خواجہ کو چولستان کے ویرانوں اور وسعتوں سے عشق تھا۔ انھوں نے فرمایا کہ
وچہ روہی دے رہندیاں نازک نازو جٹیاں
راتاں کرن شکار دلاں دے دنے ولوون مٹیاں
کہ روہی میں بڑی ہی نازک لڑکیاں رہتی ہیں جو راتوں
کو تو دلوں کے شکار کرتی ہیں اور دن کے وقت دودھ بلوتی ہیں
میاں صاحب کی چولستان اور روہی کے قیام کی جو خبر ملی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ ان کے اعزاز میں موسیقی کی محفل بھی آراستہ کی گئی جو رات گئے تک جاری رہی۔ زمین کی ان کنواری وسعتوں میں جو انسانی قدموں سے زیادہ تر محفوظ ہیں رات بھر موسیقی گونجتی رہی۔ وزیر اعظم کے لیے کھلے آسمان کے نیچے سردیوں کے اس موسم میں الاؤ کے گرد ضیافت برپا ہوئی جس میں مقامی فنکاروں نے اپنی موسیقی کے جادو دکھائے۔
یہ بدھ کی رات تھی صبح جمعرات کے دن وزیر اعظم لوگوں سے بھی ملے اور ان سے اس بے تکلف ملاقات میں لطیفے سنے اور انھیں سنائے بھی۔ دوپہر کا کھانا بھی یہیں کھایا اور وزیر اعظم کے پرانے خدمت گار چولستانی باورچی چاچا جیلا نے ان کے لیے خاص کھانے تیار کیے۔ رات دن کی یہ محفل جو موسیقی سے شروع ہوئی اور جس سے چولستان کے صحرا گونجتے رہے اور روہی کی دنیا مست الست رہی دوپہر کو لطیفوں پر ختم ہوئی۔ جناب وزیر اعظم کی اس ریگستانی اور صحرائی محفل میں جس انداز میں وقت گزارا گیا اس پر مجھے ایک فارسی شعر یاد آ رہا ہے صرف ترجمہ کروں گا کہ میرا مہربان سیر و شکار کے لیے جس وادی میں بھی جاتا ہے وہاں خیمہ زن ہوتا ہے اور محفل برپا کر لیتا ہے کیونکہ میرے مہربان کے لیے کوہ و بیاباں دونوں اجنبی نہیں ہیں۔
مجھے ظاہر ہے کہ معلوم نہیں کہ اس رومان پرور اور رومان انگیز محفل میں میاں صاحب کس کیفیت میں ہوں گے لیکن غیر معمولی وسعتوں میں پھیلے ہوئے اس صحرا میں رات کے وقت اور وہ بھی سردیوں کی رات کے وقت الاؤ کے سامنے نشست اور چولستانی موسیقی خواجہ فرید کی کافیاں اور سوائے موسیقی کے ہر آواز خاموش میں اندازہ نہیں کر سکتا کہ اس دنیا میں اس وقت کون ہوش میں ہو گا اور کون مدہوشی کے عالم میں زیادہ نہیں تو دل ہی دل میں رقصاں ہو گا۔ قدرت نے بے آب وگیاہ ریگستانوں میں بھی تو انسانوں کو زندہ رکھنا ہوتا ہے اور شاید ان کی زندگی شہروں کے ہنگاموں اور سامان عیش و عشرت سے لطف اندوز ہونے والے انسانوں سے زیادہ پر لطف ہو۔ اپنے مویشیوں کے ساتھ پانی کی تلاش میں بھٹکنے والے انسانوں کو جب پانی کا نشان مل جاتا ہے تو ان کی اس وقت کی خوشی پر شہروں کے ہزار جشن اور ہنگامے نثار۔
میں ایک دیہاتی ہوں مگر افسوس کہ میرے دیہات انسانوں سے بھرتے جا رہے ہیں اور ان تمام خرابیوں سے بھی جو انسان اپنے ساتھ لاتے ہیں لیکن مدتیں گزریں کہ میں نے اپنے ماموں زاد بھائیوں کے ساتھ جو سابقہ ریاست میں وسیع زمینیں لے کر انھیں کاشت کرنے لگے چولستان کا ایک رات کو سفر کیا تھا ہم جیپ میں سوار تھے اور جیپ کی آواز سے بھٹکتے ہوئے ہرن اور جانور اندھیروں میں دوڑ رہے تھے ان کی آنکھیں صاف دکھائی دیتی تھیں اور میری درخواست پر ان ہرنوں کا شکار نہ کیا گیا جو گویا میرے عزیزوں کی پوری رات برباد کرنے کے برابر تھا لیکن میں ان سے چھوٹا بھی تھا اور ننہال میں آیا ہوا تھا اس لیے میری اس حرکت کو برداشت کر لیا گیا۔
میرا ایک بھائی جو ایم پی اے بھی تھا شور مچا رہا تھا کہ اس کے خلاف میں اسمبلی میں احتجاج کروں گا کہ اس نے ہمیں تازہ شکار سے محروم رکھ کر میری حق تلفی کی۔ چولستان روہی اور خواجہ صاحب کا ذکر شروع ہو تو ختم کیسے ہو، یہ کوئی چولستانی بزرگ ہی بتا سکتا ہے جس پر ایسے لمحے گزر چکے ہوں۔ شہروں کے ہنگاموں میں زندگی کرنے والے کیا جانیں زمین کی خاموش وسعتوں کا جادو کیا ہوتا ہے۔
اب آخر میں اپنے ایک سابقہ کالم نگار بھائی جو اب وزیر بن چکے ہیں جناب عرفان صدیقی کو مبارک کہ انھیں وزیر اعظم کے دفتر میں وہ خاص کمرہ مل گیا ہے جس میں کبھی چوہدری پرویز الٰہی جب وہ ڈپٹی وزیر اعظم ہوتے تھے تو بیٹھتے تھے۔ اب ہمارے دوست یہاں بیٹھ رہے ہیں مگر وہ چوہدری پرویز الٰہی کی روح سے بچ کر رہیں جو اپنے اس پرانے ٹھکانے میں بھٹکتی رہے گی کیونکہ چوہدری صاحب ان دنوں اقتدار سے باہر ہیں لیکن کب تک اس لیے ہمارے دوست ان سے ہوشیار رہیں۔