جادوکے سات الفاظ…

اپنا قصور نہ ماننا ایک غلطی ہوتی ہے… اسے کسی دوسرے کے سر لگانا دوسری بے وقوفی

Shireenhaider65@hotmail.com

نماز پڑھ کر ہم دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہیں... یااللہ... تو ہمارا مالک ہے، تو ہی ہمیں دینے والا ہے، ہمیں دنیا میں کسی کی بھی محتاجی سے بچا، یااللہ رحم فرما، ہمیں دنیا میں آسانیاں ، کامیابیاں اور آخرت میں بھی آسانیاں عطا فرما... ہمیں صحت دے... دولت دے... عزت دے... اولاد دے، ملازمت دے، امتحان میں کامیابی دے، انٹرویو اچھا ہو جائے، بچوں کے اچھے رشتے طے ہو جائیں، ہمارے ملک کو ترقی عطا فرما... دنیا سے لاعلاج بیماریوں، قحط اور بد امنی کا خاتمہ فرما دے... ہمیں برے کے شر سے بچا... یااللہ حادثاتی موت سے بچانا... ظالموں کے ظلم سے بچا... ڈاکوؤں، دھوکہ بازوں اور لوٹنے والوں سے بچا... ہمیں اپنی حفظ و امان میں رکھنا... اے محافظ عظیم، ہمارے بچوں کو اپنی حفاظت میں رکھنا... یا اللہ یہ دینا، اے مالک وہ دینا، میرے رب یہ نہ چھیننا... وہ نہ واپس لینا...

صرف میں ہی نہیں...آپ سب بھی یہی کرتے ہیں، کیونکہ ہمیں یہی سکھایا گیا ہے ... میں ، میں اور میں... مجھے یہ چاہیے، میرا یہ اور میرا وہ ! چھوٹے بچوں کی تربیت کرتے وقت ہم چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور جوں جوں وہ بڑے ہوتے ہیں، ان کے بچپن کی چھوٹی چھوٹی خراب عادتیں پختہ ہوتی جاتی ہیں ، اس حد تک کہ ان کو تبدیل کرنا نا ممکن تو نہیں بلکہ وہ second nature بن جاتی ہیں۔ میرا واسطہ اپنے کام پر سیکڑوں بچوں سے پڑتا ہے، انھیں ان کے والدین ہمارے پاس تعلیم کے لیے بھجواتے ہیں مگر ہم تعلیم کو تربیت سے منسلک سمجھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ جہاں والدین بچوں کی تربیت میں کچھ پہلوؤں کو نظر انداز کررہے ہیں، اس لیے کہ انھیں آنے والے ''خطرے'' کا علم نہیں، وہاں یہ ہماری ذمے داری ہے کہ ہم ان کی شخصیت کو ہیرے کی طرح تراشیں۔

اپنے بچوں کو ہم سب سے پہلے جادو کے الفاظ سکھاتے اور انھیں انتہائی زیادہ ان الفاظ کا استعمال کرنا سکھاتے ہیں۔ چونکہ تعلیم کے لیے انگریزی زبان مستعمل ہے اس لیے جادو کے الفاظ بھی انگریزی میں ہی سکھائے جاتے ہیں، آپ میں سے بہت سے لوگوں کو جادو کے ان الفاظ کا علم تو ہو گا مگر ان کے استعمال میں اب جھجک محسوس کرتے ہوں گے، کیونکہ ہم وہ نسل ہیں کہ جن بچوں کو بچپن میں زمین پر گر کر روتے ہوئے یہ نہیں کہا جاتا تھا کہ بیٹا آپ سامنے دیکھ کر نہیں چل رہے تھے یا بیٹا آپ بھاگ رہے تھے اور پھسلن تھی ... وغیرہ، بلکہ کہا جاتا تھا کہ زمین گندی ہے اس نے مارا ہے، چلو ابھی زمین کی پٹائی کرتے ہیں، کرسی گندی ہے... میرے بچے کے راستے میں آ گئی، چلو کرسی کو مارتے ہیں... نتیجہ کیا ہوا، ہم نے سمجھنا شروع کر دیا کہ جب بھی ہمارے ساتھ کچھ غلط ہوتا ہے تو اس میں قصور کسی دوسرے انسان یا factor کا ہوتا ہے۔

اسی سوچ کے ساتھ ہم پروان چڑھے... نہ صرف ہم بلکہ ہمارے ساتھ اور لاکھوں ہزاروں ۔ ہمیں اس بات کا تو کریڈٹ مل جاتا ہے جو اچھی ہوتی ہے ( ہم خود ہی کریڈٹ لے لیتے ہیں) مگر جو کچھ ہم سے بھی غلط ہوتا ہے اس کا الزام ہم جانتے بوجھتے ہوئے دوسروں کے سر پر دھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارا یہ رویہ چھوٹی سے چھوٹی ذاتی غلطی سے لے کر بڑے سے بڑے معاشرتی مسائل اور غلطیوں پر ہوتا ہے۔ جھوٹ، وعدہ پورا نہ کرنا، وقت کی پابندی کا اہتمام نہ کرنا، دوسرے کا حق مارنا، رشوت، سفارش، دھوکہ، بددیانتی، ملاوٹ، اقرباء پروری، کام چوری، چغلی، چوری، قتل، تعصب، کام چوری، بے حیائی اور دیگر کئی طرح کے جرائم... ہم اپنی غلطی کا مدعا دوسرے کے سر ڈالنے میں عمر کے اس حصے تک پہنچتے پہنچتے مہارت حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔

اپنا قصور نہ ماننا ایک غلطی ہوتی ہے... اسے کسی دوسرے کے سر لگانا دوسری بے وقوفی، اس بے وقوفی کو چھپانے کی کوشش میں ہم کئی اور بے وقوفیاں سر زرد کرتے ہیں، ہمارے بچے، ہمارے ماتحت، ہمارے طالب علم، ہمارے ماتحت کام کرنے والا عملہ، ہمارے گھریلو ملازمین اور وہ لوگ جن سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے وہ اپنی رائے ہمارے بارے میں منفی قائم کر لیتے ہیں اور اسی پر قائم رہتے ہیں۔ہم اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کرتے،کرنا ہی نہیں چاہتے، کر لیں تو اس کا اظہار نہیں کر پاتے، اسی سوچ میں رہتے ہیں کہ دوسرے کیا سوچیں گے... کیا کہیں گے کہ یہ شخص جھوٹا ہے، پہلے کچھ اور کہہ رہا تھا اب کچھ اور... کیسا آدمی ہے، اتنا بڑا ہو کر ایسا کیا اس نے، اسی شرما شرمی میں ہم ہر اس اچھے عمل کا ارتکاب کرنے سے رہ جاتے ہیں جس سے اللہ بھی خوش ہوتا ہے۔


کالم کے آغاز میں ہی میں نے لکھا ہے کہ ہم دوسرے ہر کسی سے توقع کرتے ہیں، اللہ باری و تعالی سے بھی، اس سے بھی مانگتے ہیں تو لہجے میں عاجزی سے کہیں زیادہ دھونس ہوتی ہے... اس سے یہ بھی کہیں کہ ہم تیرے بندے ہیں اور تو ہی ہمارے دلوں کی جانتا اور سنتا ہے، تو ہی ہمارا آسرا اور والی و وارث ہے تو بھی ہمارا انداز ایسا ہوتا ہے کہ... '' اگر تو نے ایسا نہ کیا تو... '' اپنی تربیت کے بنیادی سالوں کی کجیاں عمر بھر ہمارے ساتھ نبھ جاتی ہیں۔کچھ برا ہمارے ساتھ ہوتا ہے تو ہم اللہ کے سامنے عاجزی سے گڑگڑا کر یہ نہیں کہتے کہ اے رب اگر یہ ہمارے کسی گناہ کی سزا ہے کسی غلطی کا نتیجہ ہے تو ہمیں معاف فرما، ہم کہتے ہیں... why me???

برے سے برا بھی کچھ ہو جائے تو ہمارے ضمیر نہیں جاگتے، ہم اسے خود پر ظلم سمجھتے ہیں کبھی رشتہ داروں کی طرف سے، کبھی باس کی طرف سے، ماں باپ کے ہاتھوں، استادوں کی طرف سے، ساتھیوں کی وجہ سے ، قانون کے ہاتھوں ، رشتہ داروں کی طرف سے، حکومت کی وجہ سے اور نظام کی وجہ سے ۔ کبھی یہ سوچتے ہیں کہ ہر ہونی اور انہونی کا اختیار فقط اس ذات باری تعالی کو ہے جو ہم سب کا پیدا کرنے والا، ہمیں نفع و نقصان پہنچانے والا اور ہمیں مارنے یا زندہ رکھنے والا ہے؟

کبھی یہ بھی سوچ کر دیکھیں کہ یہ مکافات عمل ہے... جو سزا ہمیں مل رہی ہے وہ اس لیے تو نہیں کہ ہم نے کچھ غلط کیا ہو گا، اللہ نے ہمیں ہمارے ہر عمل کی سزا آخرت میں دینے کا کہا ہے مگر کچھ '' اجر'' ہمیں اس دنیا میں بھی مل جاتے ہیں تا کہ ہم ایک غلطی کو بار بار نہ دہرائیں، اپنے اختیارات کو استعمال کر کے، طاقت کے زعم میں اللہ کی مخلوق کو مزید نقصان نہ پہنچائیں، مگر ہم تو سمجھ ہی نہیں پاتے کہ یہ ہمارے اپنے بد اعمال کی سزا مل رہی ہے۔

ایک گھر، خاندان ، محلے ، شہر یا علاقے کا نہیں ... بلکہ ایک معاشرے کے بگاڑ کا علاج ممکن ہے اگر ہم سب جادو کے الفاظ اور ان کا استعمال کرنا سیکھ لیں۔ اگر آپ نے جادو کے وہ الفا ظ نہیں سیکھے... اور اپنے بچوں کو نہیں سکھائے تو ابھی سیکھ لیں۔ جادو کے وہ الفاظ یہ ہیں۔ Excuse me ( معذرت چاہتا ہوں) sorry ( مجھے افسوس ہے) thank you ( شکریہ) please (براہ مہربانی) kindly ( ازراہ کرم) wouldn't happen again ( دوبارہ ایسا نہیں ہوگا) I appreciate( میں اس کا معترف ہوں) ۔

چلیں ہم سب جادو کے ان الفاظ کو سمجھیں ، ان کا استعمال کرنا سیکھیں، انھیں پوری سچائی اور ان کے مطالب کے ساتھ استعمال کریں، اپنے بچوں کو سکھائیں، اپنے ساتھ اور ماتحت کام کرنے والوں کو، اپنے طالب علموں کو، اپنے ملازمو ں کو، اپنے دوستوں کو، اپنے بہن بھائیوں کو اور دیگر احباب کو بھی سکھائیں ... جب کوئی شکریہ ادا کرے تو اسے خوشی سے قبول کریں، معافی مانگنے والے کو معاف کر کے اپنا دل اس کی طرف سے صاف کر لیں، جسے اپنی غلطی پر افسوس ہو اسے مزید شرمندہ نہ کریں، جو آپ کے کسی کام کا معترف ہو اس کا تہہ دل سے شکریہ ادا کریں، جو وعدہ کرے کہ دوبارہ ایسا نہیں ہو گا، اس کا وعدہ نبھانے میں اس کی مدد کریں اور اسے اس کی ماضی کی غلطی پر بار بار شرمندہ نہ کریں... یہ محبت کا ایک ایسا آفاقی پیغام بن جائے جو کہ معاشرے کے بگڑے ہوئے چہرے کو سنوار سکتا ہے، انشاء اللہ!!!
Load Next Story