ایک درد انگیز فریاد
کسی کو آسرا دے کر پیچھے ہٹ جانا پریشان حال اشخاص کو مزید دکھ دینے کے مترادف ہے۔
29 جنوری 2014 کا کالم ''امداد کے منتظر'' کی اشاعت کے بعد جہاں ای میل کے ذریعے کئی مخیر حضرات نے رابطہ کیا اور ہادیہ کے والدین کی امداد کرنے کے لیے ان کا کانٹیکٹ مانگا وہاں پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف نے کالم کا نوٹس لیا اور مفت علاج کی ہدایت کی۔
واضح رہے کہ ہادیہ کی عمر سوا سال ہے اور وہ موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اس سے قبل جناب رسول بخش کی دو بچیاں گردن توڑ بخار کے سبب دم توڑ چکی ہیں اور ان دنوں یہ گھرانہ بے حد دکھی اور پریشان ہے، مالی حالات بہت خراب ہوچکے ہیں۔ ان حالات میں بچی کے علاج کے لیے باہر جانا بھی ناممکن ہے۔ ہادیہ Phenylketonuria نامی مہلک بیماری کا شکار ہے۔
اس کے علاج کے لیے کراچی کے سرکاری اسپتال سے بھی فون آیا تھا، لیکن مخیر حضرات ہی کی طرح اسپتال والوں نے ہادیہ کے والدین سے کسی قسم کی بات نہیں کی، انھوں نے صرف یہ کہا تھا کہ ڈاکٹرز کا ایک بورڈ بیٹھے گا جو بچی کا علاج کرے گا، لیکن مجھے اس وقت بڑا ہی اطمینان ہوا جب DGPR پنجاب سے فون آیا اور انھوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ہادیہ کے علاج کے لیے احکامات جاری کردیے ہیں اور ہینڈ آؤٹ 158 آپ کو ای میل کے ذریعے بھیج دیا جائے گا، ہم نے ای میل چیک کی حقیقتاً DGPR کی طرف سے ای میل آئی ہوئی تھی جس میں درج تھا کہ C.M شہباز شریف کی ہدایت پر سانگلہ ہل ضلع ننکانہ صاحب کی ایک سالہ بچی ہادیہ کے طبی معائنے کے لیے اسپیشل میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا ہے اور جس نے چلڈرن اسپتال لاہور میں بچی کے علاج کی سفارش کی تھی اور DGPR سے جناب اشفاق اور ناظم صاحب نے یہ بھی اطلاع دی تھی کہ ایکسپریس پر اس خبر کی پٹی بھی چل چکی ہے اور آپ ان کے PA اطہر علی خان/اسلم سے بات کرسکتی ہیں۔
ہادیہ کی والدہ نے بتایا کہ ہم لوگ چلڈرن اسپتال گئے تھے لیکن ہادیہ کے دو ٹیسٹ ہونے ہیں جوکہ بیرون ملک کے اسپتال میں ہی ممکن ہیں اور اب ہادیہ کا علاج شروع کردیا گیا ہے۔ ہم نے انھیں تسلی دی اور ان کی بات بذریعہ فون وزیر اعلیٰ کے سیکریٹری صاحب تک پہنچانے کی کوشش کی۔ اللہ کرے یہ اور اس جیسے دوسرے پریشان حال خاندان مصائب و بیماریوں سے جلد سے جلد نجات پائیں۔ بے شک ہر کام اللہ کے ہی حکم سے ہوتا ہے اور وہی ذرائع پیدا کرتا ہے۔
29 جنوری کے کالم کے حوالے سے کافی ای میلز موصول ہوئیں۔ ان سب میں 5 حضرات ایسے تھے جنھوں نے مدد کرنے کی پیشکش کی تھی اور پتہ مانگا تھا۔ لیکن بقول ہادیہ کی والدہ کے کہ اب تک کسی مخیر شخص کا فون نہیں آیا۔ اس موقع پر ایک خاص بات ان لوگوں سے عرض کرنی ہے جو فوراً کسی کی تکلیف کا سن کر ان کے کام، دامے، درمے، سخنے کے تحت آنے کی بات کرتے ہیں تو وہ اپنے قول پر قائم رہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ لوگوں کے ارادے اور وعدے عملی صورت میں سامنے کم ہی آتے ہیں جوکہ یقینا غیر اخلاقی و غیر اسلامی بات ہے۔ کسی کو آسرا دے کر پیچھے ہٹ جانا پریشان حال اشخاص کو مزید دکھ دینے کے مترادف ہے۔
اگر ہادیہ کی والدہ گفتگو اور ان کے SMS پڑھیں تو دل کٹ کر رہ جاتا ہے کہ بعض اوقات لوگوں کو کس قدر برا وقت دیکھنا پڑتا ہے کہ کھانے کے لالے پڑجاتے ہیں، رزق قسمت سے اٹھ جاتا ہے، سر سے چھت بھی ہٹا دی جاتی ہے ساتھ میں اولاد کا دکھ اور اس بات کا دھڑکہ کہ نہ جانے کب کیا ہوجائے؟ زندگی بے وفائی کرجائے، سچی بات تو یہ ہے کہ زندگی تو ہوتی ہی بے وفا ہے۔ اس نے کسی سے وفا نہیں کی لیکن بات ماں کی آغوش کے اجڑنے کی ہو تو یقینا صاحب اولاد تڑپ اٹھتا ہے، بے شک اولاد بڑی ہی پیاری اور جان سے زیادہ عزیز ہوتی ہے، والدین اپنے بچوں کو اپنا سکھ اور چین دے کر پروان چڑھاتے ہیں، اپنی قیمتی سے قیمتی ہر شے کو قربان کردیتے ہیں۔ پوری زندگی اپنی اولاد کی پرورش، تعلیم اور ان کی خواہشات کی تکمیل کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ایثار و قربانی کا سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے لیکن اولاد اپنی ذمے داریاں، فرائض کے سلسلے میں غفلت برتتی ہے، کچھ بچے بے حد فرمانبردار اور نیک ہوتے ہیں وہ اپنے والدین کے حقوق کو احسن طریقے سے انجام دیتے ہیں جیسا کہ اللہ کا حکم ہے، خونی رشتوں میں منسلک ہونے کی بنا پر بے پناہ محبت کرتے ہیں، بے شک والدین ہی اولاد کے لیے جنت بھی ہیں اور دوزخ بھی۔ یہ اولاد پر منحصر ہے کہ کس کا انتخاب کرتے ہیں۔ دین و دنیا میں عزت و مرتبہ پانے کے لیے اپنے والدین کی خدمت و عزت کرنا ضروری ہے۔
ہمارے ملک میں بے شمار لوگ غربت و افلاس کی چکی میں پس رہے ہیں، کوئی ہمدرد اور مددگار نہیں، بے شمار تو ایسے لوگ ہیں جو اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی قسم کی کوشش نہیں کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسمپرسی میں مبتلا ہوکر مزید غمزدہ و بیمار ہوجاتے ہیں۔ اور مایوسی انھیں خودکشی کرنے کی راہ دکھاتی ہے۔ اگر حکومت اپنی عوام کی خدمت کرنا چاہتی ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ ایسے ادارے بنائے جن کے ذریعے ہر ضرورت مند استفادہ کرسکے آج ہمارے ملک میں ایدھی، چھیپا، سیلانی ویلفیئر جیسے بہت سے ادارے ہیں جو انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔
جوں ہی برے حالات کی خبر سنتے ہیں ان کی ایمبولینسیں سڑکوں پر دوڑنے لگتی ہیں، سیلانی ویلفیئر والے بے روزگاروں کے لیے ملازمت کا بھی بندوبست کرتے، محتاج و غربا کے لیے کھانے کے انتظامات کرتے ہیں اور بھی بے شمار کام ہیں جو یہ ادارے انجام دے رہے ہیں، کچھ ٹی وی چینلز نے اپنا کردار ادا کیا ہے وہ بھی کسی نہ کسی شکل میں لوگوں کی مدد کر رہے ہیں، اس طرح کے کام صرف سماجی و فلاحی تنظیموں کے ہی نہیں ہیں، بلکہ اس میں حکومت کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہوگا اور پورے ملک میں فلاحی مراکز کے قیام کو ناگزیر بنانا وقت و حالات کا تقاضا ہے تاکہ بوقت ضرورت بیرون ملک بیماروں کے علاج اور سفری اخراجات کے لیے شدید قسم کی اذیت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ عوام ظلم و زیادتی، دکھ بیماری و ناانصافی میں مبتلا ہونے کے بعد اپنے ملک کے حکمرانوں کی ہی طرف دیکھے گی اور ان سے ہی مدد کی طالب ہوگی۔
اکثر مثبت اقدام اور تسلی بخش خبریں سننے کو مل جاتی ہیں کہ حکومت یا کسی ادارے اور مخیر حضرات کی مدد سے فلاں فلاں کو علاج کے لیے دیار غیر روانہ کردیا گیا۔ یقیناً یہ ایسی بات ہے کہ کوئی آئے اور اندھیرے میں چراغ جلادے اور مصیبت زدہ مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچانے کی سعی کرے۔
کالم اختتام پر تھا کہ ہادیہ کی والدہ کا پھر MSG آگیا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ باجی آپ کے کالم کے ذریعے C.M تک بات پہنچ گئی ہے اور ان کے احکامات کے مطابق ہادیہ کا علاج تین روز سے ہو رہا ہے۔ لیکن اب تک کسی نے ہماری مالی امداد نہیں کی۔ اس کی یہ درد انگیز صدا میرے دل کو پارہ پارہ کیے جارہی تھی کہ اللہ اوپر دیکھ رہا ہے۔ اسی کی قسم ہمارے پاس تو صبح کے کھانے کا بھی انتظام نہیں ہے۔ بیٹی کے علاج کے علاوہ بھی ہماری ضرورتیں ہیں اور ہم ان دنوں بالکل خالی ہاتھ ہیں۔ ہمیں کوئی کھانا ہی دے دے۔ آپ کسی کو لاہور فون کرکے کہیں کہ کوئی ہمارے لیے دو وقت کے کھانے کا انتظام کردے۔
اس طرح کے ان کے کم ازکم 20-15 فون اور MSG آچکے ہیں اگر لاہور کے فلاحی ادارے ہادیہ کے والدین کی امداد کرسکیں تو یہ مزید نیکی اور ثواب کمانے کی بات ہوگی۔
واضح رہے کہ ہادیہ کی عمر سوا سال ہے اور وہ موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اس سے قبل جناب رسول بخش کی دو بچیاں گردن توڑ بخار کے سبب دم توڑ چکی ہیں اور ان دنوں یہ گھرانہ بے حد دکھی اور پریشان ہے، مالی حالات بہت خراب ہوچکے ہیں۔ ان حالات میں بچی کے علاج کے لیے باہر جانا بھی ناممکن ہے۔ ہادیہ Phenylketonuria نامی مہلک بیماری کا شکار ہے۔
اس کے علاج کے لیے کراچی کے سرکاری اسپتال سے بھی فون آیا تھا، لیکن مخیر حضرات ہی کی طرح اسپتال والوں نے ہادیہ کے والدین سے کسی قسم کی بات نہیں کی، انھوں نے صرف یہ کہا تھا کہ ڈاکٹرز کا ایک بورڈ بیٹھے گا جو بچی کا علاج کرے گا، لیکن مجھے اس وقت بڑا ہی اطمینان ہوا جب DGPR پنجاب سے فون آیا اور انھوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے ہادیہ کے علاج کے لیے احکامات جاری کردیے ہیں اور ہینڈ آؤٹ 158 آپ کو ای میل کے ذریعے بھیج دیا جائے گا، ہم نے ای میل چیک کی حقیقتاً DGPR کی طرف سے ای میل آئی ہوئی تھی جس میں درج تھا کہ C.M شہباز شریف کی ہدایت پر سانگلہ ہل ضلع ننکانہ صاحب کی ایک سالہ بچی ہادیہ کے طبی معائنے کے لیے اسپیشل میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا ہے اور جس نے چلڈرن اسپتال لاہور میں بچی کے علاج کی سفارش کی تھی اور DGPR سے جناب اشفاق اور ناظم صاحب نے یہ بھی اطلاع دی تھی کہ ایکسپریس پر اس خبر کی پٹی بھی چل چکی ہے اور آپ ان کے PA اطہر علی خان/اسلم سے بات کرسکتی ہیں۔
ہادیہ کی والدہ نے بتایا کہ ہم لوگ چلڈرن اسپتال گئے تھے لیکن ہادیہ کے دو ٹیسٹ ہونے ہیں جوکہ بیرون ملک کے اسپتال میں ہی ممکن ہیں اور اب ہادیہ کا علاج شروع کردیا گیا ہے۔ ہم نے انھیں تسلی دی اور ان کی بات بذریعہ فون وزیر اعلیٰ کے سیکریٹری صاحب تک پہنچانے کی کوشش کی۔ اللہ کرے یہ اور اس جیسے دوسرے پریشان حال خاندان مصائب و بیماریوں سے جلد سے جلد نجات پائیں۔ بے شک ہر کام اللہ کے ہی حکم سے ہوتا ہے اور وہی ذرائع پیدا کرتا ہے۔
29 جنوری کے کالم کے حوالے سے کافی ای میلز موصول ہوئیں۔ ان سب میں 5 حضرات ایسے تھے جنھوں نے مدد کرنے کی پیشکش کی تھی اور پتہ مانگا تھا۔ لیکن بقول ہادیہ کی والدہ کے کہ اب تک کسی مخیر شخص کا فون نہیں آیا۔ اس موقع پر ایک خاص بات ان لوگوں سے عرض کرنی ہے جو فوراً کسی کی تکلیف کا سن کر ان کے کام، دامے، درمے، سخنے کے تحت آنے کی بات کرتے ہیں تو وہ اپنے قول پر قائم رہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ لوگوں کے ارادے اور وعدے عملی صورت میں سامنے کم ہی آتے ہیں جوکہ یقینا غیر اخلاقی و غیر اسلامی بات ہے۔ کسی کو آسرا دے کر پیچھے ہٹ جانا پریشان حال اشخاص کو مزید دکھ دینے کے مترادف ہے۔
اگر ہادیہ کی والدہ گفتگو اور ان کے SMS پڑھیں تو دل کٹ کر رہ جاتا ہے کہ بعض اوقات لوگوں کو کس قدر برا وقت دیکھنا پڑتا ہے کہ کھانے کے لالے پڑجاتے ہیں، رزق قسمت سے اٹھ جاتا ہے، سر سے چھت بھی ہٹا دی جاتی ہے ساتھ میں اولاد کا دکھ اور اس بات کا دھڑکہ کہ نہ جانے کب کیا ہوجائے؟ زندگی بے وفائی کرجائے، سچی بات تو یہ ہے کہ زندگی تو ہوتی ہی بے وفا ہے۔ اس نے کسی سے وفا نہیں کی لیکن بات ماں کی آغوش کے اجڑنے کی ہو تو یقینا صاحب اولاد تڑپ اٹھتا ہے، بے شک اولاد بڑی ہی پیاری اور جان سے زیادہ عزیز ہوتی ہے، والدین اپنے بچوں کو اپنا سکھ اور چین دے کر پروان چڑھاتے ہیں، اپنی قیمتی سے قیمتی ہر شے کو قربان کردیتے ہیں۔ پوری زندگی اپنی اولاد کی پرورش، تعلیم اور ان کی خواہشات کی تکمیل کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ بات ادھر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ایثار و قربانی کا سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے لیکن اولاد اپنی ذمے داریاں، فرائض کے سلسلے میں غفلت برتتی ہے، کچھ بچے بے حد فرمانبردار اور نیک ہوتے ہیں وہ اپنے والدین کے حقوق کو احسن طریقے سے انجام دیتے ہیں جیسا کہ اللہ کا حکم ہے، خونی رشتوں میں منسلک ہونے کی بنا پر بے پناہ محبت کرتے ہیں، بے شک والدین ہی اولاد کے لیے جنت بھی ہیں اور دوزخ بھی۔ یہ اولاد پر منحصر ہے کہ کس کا انتخاب کرتے ہیں۔ دین و دنیا میں عزت و مرتبہ پانے کے لیے اپنے والدین کی خدمت و عزت کرنا ضروری ہے۔
ہمارے ملک میں بے شمار لوگ غربت و افلاس کی چکی میں پس رہے ہیں، کوئی ہمدرد اور مددگار نہیں، بے شمار تو ایسے لوگ ہیں جو اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی قسم کی کوشش نہیں کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کسمپرسی میں مبتلا ہوکر مزید غمزدہ و بیمار ہوجاتے ہیں۔ اور مایوسی انھیں خودکشی کرنے کی راہ دکھاتی ہے۔ اگر حکومت اپنی عوام کی خدمت کرنا چاہتی ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ ایسے ادارے بنائے جن کے ذریعے ہر ضرورت مند استفادہ کرسکے آج ہمارے ملک میں ایدھی، چھیپا، سیلانی ویلفیئر جیسے بہت سے ادارے ہیں جو انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔
جوں ہی برے حالات کی خبر سنتے ہیں ان کی ایمبولینسیں سڑکوں پر دوڑنے لگتی ہیں، سیلانی ویلفیئر والے بے روزگاروں کے لیے ملازمت کا بھی بندوبست کرتے، محتاج و غربا کے لیے کھانے کے انتظامات کرتے ہیں اور بھی بے شمار کام ہیں جو یہ ادارے انجام دے رہے ہیں، کچھ ٹی وی چینلز نے اپنا کردار ادا کیا ہے وہ بھی کسی نہ کسی شکل میں لوگوں کی مدد کر رہے ہیں، اس طرح کے کام صرف سماجی و فلاحی تنظیموں کے ہی نہیں ہیں، بلکہ اس میں حکومت کو بھی اپنا حصہ ڈالنا ہوگا اور پورے ملک میں فلاحی مراکز کے قیام کو ناگزیر بنانا وقت و حالات کا تقاضا ہے تاکہ بوقت ضرورت بیرون ملک بیماروں کے علاج اور سفری اخراجات کے لیے شدید قسم کی اذیت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ عوام ظلم و زیادتی، دکھ بیماری و ناانصافی میں مبتلا ہونے کے بعد اپنے ملک کے حکمرانوں کی ہی طرف دیکھے گی اور ان سے ہی مدد کی طالب ہوگی۔
اکثر مثبت اقدام اور تسلی بخش خبریں سننے کو مل جاتی ہیں کہ حکومت یا کسی ادارے اور مخیر حضرات کی مدد سے فلاں فلاں کو علاج کے لیے دیار غیر روانہ کردیا گیا۔ یقیناً یہ ایسی بات ہے کہ کوئی آئے اور اندھیرے میں چراغ جلادے اور مصیبت زدہ مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچانے کی سعی کرے۔
کالم اختتام پر تھا کہ ہادیہ کی والدہ کا پھر MSG آگیا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ باجی آپ کے کالم کے ذریعے C.M تک بات پہنچ گئی ہے اور ان کے احکامات کے مطابق ہادیہ کا علاج تین روز سے ہو رہا ہے۔ لیکن اب تک کسی نے ہماری مالی امداد نہیں کی۔ اس کی یہ درد انگیز صدا میرے دل کو پارہ پارہ کیے جارہی تھی کہ اللہ اوپر دیکھ رہا ہے۔ اسی کی قسم ہمارے پاس تو صبح کے کھانے کا بھی انتظام نہیں ہے۔ بیٹی کے علاج کے علاوہ بھی ہماری ضرورتیں ہیں اور ہم ان دنوں بالکل خالی ہاتھ ہیں۔ ہمیں کوئی کھانا ہی دے دے۔ آپ کسی کو لاہور فون کرکے کہیں کہ کوئی ہمارے لیے دو وقت کے کھانے کا انتظام کردے۔
اس طرح کے ان کے کم ازکم 20-15 فون اور MSG آچکے ہیں اگر لاہور کے فلاحی ادارے ہادیہ کے والدین کی امداد کرسکیں تو یہ مزید نیکی اور ثواب کمانے کی بات ہوگی۔