مشاہیر عالم اور موت کی بصیرت
اگر موت نہ آتی تو نپولین کے لیے جزیرہ سینٹ ہلینا کی بھی کوئی اہمیت نہ ہوتی اور پھر نہ جانے یورپ کا کیا حال ہوتا۔
ملکہ الزبتھ کی خوابگاہ کے سامنے بیسیوں افراد خدا کی بارگاہ میں ملکہ کی صحت کے لیے دعا گو تھے ملکہ نزع کے عالم میں تھی ملک کے ماہر ترین طبیب اس کے علاج میں مصروف تھے آخر کار ملکہ نے اپنی بے بسی پر مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا '' میری دولت کس کام کی۔''
سکندر جب دنیا کو فتح کرکے واپس آرہا تھا تو شہر دامغان میں اس کا انتقال ہوگیا اس نے مرنے سے پہلے یہ وصیت کی کہ میری لاش کو ایک تابوت میں رکھ کر اس میں ایک سوراخ کردیا جائے اور میرے دونوں ہاتھ اس سوراخ سے باہر نکال دیے جائیں تاکہ لوگ دیکھیں کہ میں دنیا کو فتح کرنے کے باوجود خالی ہاتھ اس دنیا سے جا رہا ہوں ۔ ٹالسٹائی اس قدر ہر دل عزیز تھا کہ اس کی وفات سے بیس برس پہلے اس کے دروازے پر عقیدت مندوں کا ہجوم لگا رہتا تھا ہزاروں لوگ دور دراز سے یہ خواہش دل میں لیے وہاں آتے تھے کہ اس کی ایک جھلک دیکھ سکیں اس کی باتیں سن سکیں یا اس کے ہاتھ کو بوسہ دے سکیں۔ اس کے دوست اس کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ شارٹ ہینڈ میں قلمبند کرلیتے یہاں تک کہ وہ عام بات چیت میں اپنی زندگی کا کوئی معمولی سے معمولی واقعہ بھی سناتا تو وہ کاغذ پر رقم ہو جاتا۔
اس کی اپنی نگارشات کی ایک سو دس جلدیں ہیں اس شخص کی زندگی اور نظریات کے بارے میں کم و بیش 23000 کتابیں اور 56000 مضامین لکھے جاچکے ہیں۔ وہ بیالیس کمروں کی ایک شاندار حویلی میں پیدا ہوا۔ اس کے پاس دولت کے انبار لگے ہوئے تھے اس نے قدیم روسیوں کی طرح شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے پرورش پائی، لیکن وہ زندگی کے آخری دور میں اپنی تمام دولت وجائیداد سے دستبردار ہوگیا اس نے تمام سازو سامان غریبوں میں بانٹ دیا اور روس کے ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر وفات پائی۔ زندگی کے آخری حصے میں وہ روسی کسانوں کی طرح انتہائی سستا لباس پہنتا اپنے جوتے خود اپنے ہاتھوں سے بناتا اپنا بستر خود لگاتا کمرہ خود صاف کرتا لکڑی کی بوسیدہ سی میز کرسی پر بیٹھ کر چمچے سے انتہائی سادہ اور سستی غذا کھاتا تھا ۔
انسان چاہے بادشاہ ہو یا فقیر بس پانچ چھ فٹ کے ایک پتلے کا نام ہے جسے اس دنیا میں کوئی ساٹھ ستر بر س زندہ رہنا ہے۔ اس چینی مقولے میں اصل دانش کی روح ہے کہ '' ہو سکتا ہے آپ ایک ہزارایکڑ رقبے کے واحد مالک ہوں پھر بھی آپ پانچ فٹ لمبے بستر پر ہی سوئیں گے '' ایک بادشاہ کو بھی زیادہ سے زیادہ سات فٹ لمبے بستر کی ضرورت ہوگی ۔ جہاں وہ رات کو لمبا لیٹ کر سو سکے۔ اس زندگی سے ہر ایک کو کچھ حصہ ملتا ہے مگر کسی کے پاس زندگی کا رہن نامہ نہیں ہوتا۔ ہم اس روئے زمین پر موروثی اور دائمی مزارعین نہیں ہیں ہم تو یہاں عارضی مہمان ہیں۔ گویا اصل میں زمیندار یامالک کا لفظ وہ مفہوم نہیں رکھتا جو ہم سمجھتے ہیں یہاں کوئی شخص حقیقت میں نہ کسی مکان کا مالک ہے نہ زمین کے کسی ٹکڑے کا ۔افسوس کہ زندگی اور موت کی جمہوریت کو کم کم ہی پہچانا گیا ہے۔
اگر موت نہ آتی تو نپولین کے لیے جزیرہ سینٹ ہلینا کی بھی کوئی اہمیت نہ ہوتی اور پھر نہ جانے یورپ کا کیا حال ہوتا۔ اگر موت نہ آئے تو دنیا میں کسی نامور شخص کسی فاتح کی سوانح حیات نہ لکھی جاتی۔ ہم اس دنیا کے بڑے آدمیوں کواسی لیے معاف کر دیتے ہیں کہ وہ مرچکے ہوتے ہیں اور ان کی موت کی وجہ سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا اور ان کا معاملہ طے ہو چکا ہے سو اب انہیں معاف ہی کر دینا چاہیے۔ یوں سمجھئے کہ ہر جنازے کے ساتھ یہ جھنڈا ہوتا ہے کہ '' سب انسان برابر ہیں'' موت کی اس جمہوریت سے انسان زندگی کے ایک تماشا ہونے اور اس کی گہری شعریت کا احساس پیدا ہوتا ہے جو شخص موت کی بصیرت حاصل کر لے اسے انسانی زندگی کے ایک تماشا ہونے کی بصیرت بھی مل جاتی ہے۔
شیکسپئر نے اپنے لافانی کردار ہملٹ کے منہ سے سکندر کی خاک کے بارے میں جو باتیں کہلوائیں ان سے اس صداقت پر مہر لگ جاتی ہے ''سکندر مرا اور اسے زمین میں دفن کر دیا گیا اس کاجسم خاک میں مل کر خاک ہوگیا اس مٹی سے ہم ایک ڈھیلا بنا لیتے ہیں اور سکندر کی خاک کا یہ ڈھیلا ایک ڈاٹ کے طور پر شراب کے مٹکے کے منہ پر لگا دیا جاتا ہے ''۔ ذرا شیکسپئر کے ڈرامے رچرڈ دوم کو دیکھیے ، شا رچرڈ قبروں اور کپڑوں اور کتبوں اور اس تاج کے نگینے کا ذکر کرتا ہے جو بادشاہ کی فانی کنپٹیوں پر دھرا رہتا ہے یا پھر جب وہ ایک بہت بڑے جاگیردار کا ذکر کرتا ہے جو اب اپنے قوانین ، اپنے اختیارات ، مراعات ، جاگیروں سمیت محض خاک کا ایک ڈھیر ہے۔
فارسی حکیم و شاعر عمر خیام اور اس کے چینی ساتھی چیانوشی کا بھی یہ ہی حال تھا اور وہ یہ ہی کہتے رہے کہ دیکھو یہ شاہوں کی قبریں ہیں جن میں اب گیدڑوں نے اپنے بھٹ بنا رکھے ہیں۔ چینی فلسفے میں گہرائی چوانگ زے کی بدولت پیدا ہوئی جس نے اپنے سارے فلسفے کی بنیاد انسانی کھوپڑی کے ذکر پر رکھی ہے۔ ملاحظہ ہو'' چوانگ زے شہر چاؤ گیا وہاںاس نے ایک کھوکھلی اور پرانی کھوپڑی دیکھی چوانگ زے نے اس کھوپڑی سے پوچھا۔ تمہارا یہ حال اس لیے ہواکہ تم عیش و نشاط کے بندے تھے اور تم نے زندگی بے اعتدالی سے گذاری کیا تم کوئی فراری تھے جو قانون کی زد سے بچنا چاہتا تھا۔ یہ نہیں تو کیا تم نے کوئی ایساکام کیا تھا جس سے تمہارے والدین اور تمہارے خاندان کی نیک نامی کو بٹا لگا شاید تم فاقوں کی موت مرے، ہو سکتا ہے کہ تم پوری عمر کو پہنچ کر مرے اور تمہاری موت طبعی موت تھی آخر بات کیا ہے۔''
دنیا کے تمام فلسفیوں تمام صوفیوں نے یہ ہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہم سب فانی ہیں اور دنیا میں مہمان ہیں اورکسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں گویا یہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہم محض اداکار ہیں جو اپنا اپنا پارٹ ادا کر رہے ہیں لیکن انسان بیچارا کیا کرے ہمارے جسم میں ایک اتھاہ گڑھا ہے جسے پیٹ کہتے ہیں ۔اس پیٹ نے ساری انسانی تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا ہے یہ ہی پیٹ تمام ظلم زیادتی اور نا انصافی کی ماں ہے۔ دنیا کی ساری برائیوں اور خرابیوں نے اسی سے جنم لیا۔ ہمارے ساتھ بھی یہی المیہ رہا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں اشرافیہ اور بیوروکریسی کو اس پیٹ نے کچھ زیادہ ہی تنگ کر رکھا ہے۔
یہ سب اسی پیٹ کی ہوس کے مارے ہوئے ہیں ان کی بھوک ہے کہ ختم ہونے نہیں پا رہی ہے انہیں زندگی کا یہ فلسفہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بھی دوسروں کی طرح دنیا میں مہمان ہیں اور کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں اور جب وہ دنیا سے رخصت ہونگے تو سکندر کی طرح خالی ہاتھ ہی جائیں گے ان کے ساتھ صرف ان کے اعمال ہی جائیں گے یہ بات طے ہے کہ دعائیں اور بدعائیں مرنے کے بعد بھی اس کا پیچھا کرتی ہیں اس لیے انہیں لوگوں سے دعائیں لینے کی ضرورت ہے نہ کہ بد دعائیں۔
سکندر جب دنیا کو فتح کرکے واپس آرہا تھا تو شہر دامغان میں اس کا انتقال ہوگیا اس نے مرنے سے پہلے یہ وصیت کی کہ میری لاش کو ایک تابوت میں رکھ کر اس میں ایک سوراخ کردیا جائے اور میرے دونوں ہاتھ اس سوراخ سے باہر نکال دیے جائیں تاکہ لوگ دیکھیں کہ میں دنیا کو فتح کرنے کے باوجود خالی ہاتھ اس دنیا سے جا رہا ہوں ۔ ٹالسٹائی اس قدر ہر دل عزیز تھا کہ اس کی وفات سے بیس برس پہلے اس کے دروازے پر عقیدت مندوں کا ہجوم لگا رہتا تھا ہزاروں لوگ دور دراز سے یہ خواہش دل میں لیے وہاں آتے تھے کہ اس کی ایک جھلک دیکھ سکیں اس کی باتیں سن سکیں یا اس کے ہاتھ کو بوسہ دے سکیں۔ اس کے دوست اس کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ شارٹ ہینڈ میں قلمبند کرلیتے یہاں تک کہ وہ عام بات چیت میں اپنی زندگی کا کوئی معمولی سے معمولی واقعہ بھی سناتا تو وہ کاغذ پر رقم ہو جاتا۔
اس کی اپنی نگارشات کی ایک سو دس جلدیں ہیں اس شخص کی زندگی اور نظریات کے بارے میں کم و بیش 23000 کتابیں اور 56000 مضامین لکھے جاچکے ہیں۔ وہ بیالیس کمروں کی ایک شاندار حویلی میں پیدا ہوا۔ اس کے پاس دولت کے انبار لگے ہوئے تھے اس نے قدیم روسیوں کی طرح شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے پرورش پائی، لیکن وہ زندگی کے آخری دور میں اپنی تمام دولت وجائیداد سے دستبردار ہوگیا اس نے تمام سازو سامان غریبوں میں بانٹ دیا اور روس کے ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر وفات پائی۔ زندگی کے آخری حصے میں وہ روسی کسانوں کی طرح انتہائی سستا لباس پہنتا اپنے جوتے خود اپنے ہاتھوں سے بناتا اپنا بستر خود لگاتا کمرہ خود صاف کرتا لکڑی کی بوسیدہ سی میز کرسی پر بیٹھ کر چمچے سے انتہائی سادہ اور سستی غذا کھاتا تھا ۔
انسان چاہے بادشاہ ہو یا فقیر بس پانچ چھ فٹ کے ایک پتلے کا نام ہے جسے اس دنیا میں کوئی ساٹھ ستر بر س زندہ رہنا ہے۔ اس چینی مقولے میں اصل دانش کی روح ہے کہ '' ہو سکتا ہے آپ ایک ہزارایکڑ رقبے کے واحد مالک ہوں پھر بھی آپ پانچ فٹ لمبے بستر پر ہی سوئیں گے '' ایک بادشاہ کو بھی زیادہ سے زیادہ سات فٹ لمبے بستر کی ضرورت ہوگی ۔ جہاں وہ رات کو لمبا لیٹ کر سو سکے۔ اس زندگی سے ہر ایک کو کچھ حصہ ملتا ہے مگر کسی کے پاس زندگی کا رہن نامہ نہیں ہوتا۔ ہم اس روئے زمین پر موروثی اور دائمی مزارعین نہیں ہیں ہم تو یہاں عارضی مہمان ہیں۔ گویا اصل میں زمیندار یامالک کا لفظ وہ مفہوم نہیں رکھتا جو ہم سمجھتے ہیں یہاں کوئی شخص حقیقت میں نہ کسی مکان کا مالک ہے نہ زمین کے کسی ٹکڑے کا ۔افسوس کہ زندگی اور موت کی جمہوریت کو کم کم ہی پہچانا گیا ہے۔
اگر موت نہ آتی تو نپولین کے لیے جزیرہ سینٹ ہلینا کی بھی کوئی اہمیت نہ ہوتی اور پھر نہ جانے یورپ کا کیا حال ہوتا۔ اگر موت نہ آئے تو دنیا میں کسی نامور شخص کسی فاتح کی سوانح حیات نہ لکھی جاتی۔ ہم اس دنیا کے بڑے آدمیوں کواسی لیے معاف کر دیتے ہیں کہ وہ مرچکے ہوتے ہیں اور ان کی موت کی وجہ سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا اور ان کا معاملہ طے ہو چکا ہے سو اب انہیں معاف ہی کر دینا چاہیے۔ یوں سمجھئے کہ ہر جنازے کے ساتھ یہ جھنڈا ہوتا ہے کہ '' سب انسان برابر ہیں'' موت کی اس جمہوریت سے انسان زندگی کے ایک تماشا ہونے اور اس کی گہری شعریت کا احساس پیدا ہوتا ہے جو شخص موت کی بصیرت حاصل کر لے اسے انسانی زندگی کے ایک تماشا ہونے کی بصیرت بھی مل جاتی ہے۔
شیکسپئر نے اپنے لافانی کردار ہملٹ کے منہ سے سکندر کی خاک کے بارے میں جو باتیں کہلوائیں ان سے اس صداقت پر مہر لگ جاتی ہے ''سکندر مرا اور اسے زمین میں دفن کر دیا گیا اس کاجسم خاک میں مل کر خاک ہوگیا اس مٹی سے ہم ایک ڈھیلا بنا لیتے ہیں اور سکندر کی خاک کا یہ ڈھیلا ایک ڈاٹ کے طور پر شراب کے مٹکے کے منہ پر لگا دیا جاتا ہے ''۔ ذرا شیکسپئر کے ڈرامے رچرڈ دوم کو دیکھیے ، شا رچرڈ قبروں اور کپڑوں اور کتبوں اور اس تاج کے نگینے کا ذکر کرتا ہے جو بادشاہ کی فانی کنپٹیوں پر دھرا رہتا ہے یا پھر جب وہ ایک بہت بڑے جاگیردار کا ذکر کرتا ہے جو اب اپنے قوانین ، اپنے اختیارات ، مراعات ، جاگیروں سمیت محض خاک کا ایک ڈھیر ہے۔
فارسی حکیم و شاعر عمر خیام اور اس کے چینی ساتھی چیانوشی کا بھی یہ ہی حال تھا اور وہ یہ ہی کہتے رہے کہ دیکھو یہ شاہوں کی قبریں ہیں جن میں اب گیدڑوں نے اپنے بھٹ بنا رکھے ہیں۔ چینی فلسفے میں گہرائی چوانگ زے کی بدولت پیدا ہوئی جس نے اپنے سارے فلسفے کی بنیاد انسانی کھوپڑی کے ذکر پر رکھی ہے۔ ملاحظہ ہو'' چوانگ زے شہر چاؤ گیا وہاںاس نے ایک کھوکھلی اور پرانی کھوپڑی دیکھی چوانگ زے نے اس کھوپڑی سے پوچھا۔ تمہارا یہ حال اس لیے ہواکہ تم عیش و نشاط کے بندے تھے اور تم نے زندگی بے اعتدالی سے گذاری کیا تم کوئی فراری تھے جو قانون کی زد سے بچنا چاہتا تھا۔ یہ نہیں تو کیا تم نے کوئی ایساکام کیا تھا جس سے تمہارے والدین اور تمہارے خاندان کی نیک نامی کو بٹا لگا شاید تم فاقوں کی موت مرے، ہو سکتا ہے کہ تم پوری عمر کو پہنچ کر مرے اور تمہاری موت طبعی موت تھی آخر بات کیا ہے۔''
دنیا کے تمام فلسفیوں تمام صوفیوں نے یہ ہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہم سب فانی ہیں اور دنیا میں مہمان ہیں اورکسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں گویا یہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور ہم محض اداکار ہیں جو اپنا اپنا پارٹ ادا کر رہے ہیں لیکن انسان بیچارا کیا کرے ہمارے جسم میں ایک اتھاہ گڑھا ہے جسے پیٹ کہتے ہیں ۔اس پیٹ نے ساری انسانی تاریخ کا رخ بدل کر رکھ دیا ہے یہ ہی پیٹ تمام ظلم زیادتی اور نا انصافی کی ماں ہے۔ دنیا کی ساری برائیوں اور خرابیوں نے اسی سے جنم لیا۔ ہمارے ساتھ بھی یہی المیہ رہا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں اشرافیہ اور بیوروکریسی کو اس پیٹ نے کچھ زیادہ ہی تنگ کر رکھا ہے۔
یہ سب اسی پیٹ کی ہوس کے مارے ہوئے ہیں ان کی بھوک ہے کہ ختم ہونے نہیں پا رہی ہے انہیں زندگی کا یہ فلسفہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بھی دوسروں کی طرح دنیا میں مہمان ہیں اور کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں اور جب وہ دنیا سے رخصت ہونگے تو سکندر کی طرح خالی ہاتھ ہی جائیں گے ان کے ساتھ صرف ان کے اعمال ہی جائیں گے یہ بات طے ہے کہ دعائیں اور بدعائیں مرنے کے بعد بھی اس کا پیچھا کرتی ہیں اس لیے انہیں لوگوں سے دعائیں لینے کی ضرورت ہے نہ کہ بد دعائیں۔