ملکہ نور جہاں اور ہم

شادی کے کارڈ کی چھپائی کے لیے بھی کثیر رقم خرچ کرنا عزت اور دکھاوے کا مسئلہ ہے۔


[email protected]

ملکہ نورجہاں کا نام برصغیر پاک وہند کی نامور خواتین ہی میں شمار نہیں ہوتا بلکہ ایک سلیقہ مند، کفایت شعار اور ہمدرد خاتون کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ملکہ نور جہاں نے بادشاہ کے پاس بھیجے جانے والے امرا کے عرضیوں کے خالی تھیلے ایک ایک کرکے جمع کیے اور پھر ان کو مختلف کاموں کے لیے استعمال بھی کیا۔

ایک موقعے پر نور جہاں نے ہاتھیوں کے اوپر سجاوٹ کے لیے بھی ان ہی عرضیوں والے تھیلوں کو کاٹ تراش کر استعمال کیا۔ یہ اس قدر خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے کہ بادشاہ سمجھا کہ اس سجاوٹ پر کثیر قیمتی اور خوبصورت کپڑا استعمال ہوا ہوگا چنانچہ اس نے جب خادموں سے اس سلسلے میں دریافت کیا تو اس پر یہ انکشاف ہوا کہ یہ خوبصورت کارنامہ نور جہاں نے انجام دیا ہے اور بالکل ہی مفت یعنی بغیر کسی خرچ کے۔

مذکورہ واقعے کا ذکر راقم نے یہاں اس لیے کیا ہے کہ ہمارے ہاں فضول خرچی کو بھی ''اسٹیٹس سمبل'' بنالیا گیا ہے اور جو جس قدر فضول خرچی کرے عموماً ہم اسے معاشرے میں اعلیٰ مقام دیتے ہیں۔ نورجہاں جیسی ذہنیت ہمارے ہاں کسی خاتون اول میں تو دور کی بات عام گھرانوں کی خواتین میں بھی مشکل ہی سے ملتی ہے اور جب کسی میں یہ خوبی پائی جائے تو اسے کنجوس ''بیک ورڈ''کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ شادی بیاہ اور دیگر تہواروں پر خواہ ان کا تعلق مذہبی رسومات سے ہی کیوں نہ ہو،جب تک روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہا نہ دیا جائے ہمیں سکون ہی نہیں ملتا بلکہ فضول خرچی جس قدر زیادہ ہو عزت کا معیار بھی اسی قدر زیادہ سمجھا جاتا ہے۔

شادی بیاہ کے موقعے پر اس اہم مسئلے کا بھرپور مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کے بعد گھریلو آرائش کے موقعوں پر اور سرکاری دفاتر میں بھی اس کا مظاہر جا بجا مل جاتا ہے جہاں اس فضول خرچی کو VIP کا خوبصورت نام دے دیا جاتا ہے۔

شادی بیاہ کے موقعے پر (غور کرنے کا مقام ہے) جس دولہے کی ماہانہ تنخواہ ہی 10 ہزار سے زائد نہ ہو اس کے محض شادی اور ولیمے کے دو جوڑے اس کی تنخواہ سے کہیں زیادہ قیمت کے بنائے جاتے ہیں اور اس کی شریک حیات بننے والی دلہن کا میک اپ بھی اس کی ایک ماہ سے زائد کی تنخواہ کے برابر ہوتا ہے۔ ویسے تو مہر کی بات آجائے تو شادی سے قبل معاملات طے کرتے وقت شریعت یاد آجاتی ہے اور مختلف مہربان مشورہ دینے والے اپنے اپنے حساب سے شرعی مہر پاکستانی روپے میں ناپ تول کر بتاتے ہیں مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں اسلامی تاریخ کی عظیم ہستی حضرت عائشہؓ کے نکاح کا جوڑا ان سے جان پہچان کی خواتین اپنے نکاح کے لیے مستعار لے جاتی تھیں (جب کہ ہمارے ہاں دلہن کے نکاح کے لیے جوڑے بھی بازار میں اس قدر قیمتی ہیں کہ مڈل کلاس دولہے میاں کی دو تین ماہ کی تنخواہیں برابر ہوجائیں۔)

کیا ہم میں سے کچھ نامور اور معزز لوگ اپنی یا اپنی اولاد کی شادیوں کے موقعے پر یہ روایت نکال سکتے ہیں کہ شادی اور ولیمے کے جوڑے مہنگے ترین خریدنے کی بجائے کسی سے مستعار لے لیں یا اپنے جوڑے کسی کو دے دیں آخر چند گھنٹوں کے لیے استعمال ہونے والے قیمتی جوڑوں کا کیا بگڑتا ہے؟ ویسے تو ہم سادہ جوڑوں کے ساتھ سادگی کے ساتھ بھی شادی کا کلچر قائم کرسکتے ہیں اسلامی تناظر میں نہ سہی اپنی غربت اور مہنگائی کے طوفان کے باعث ہی سہی۔

یقینا ایسا عمل ہوسکتا ہے لیکن اصل مسئلہ عزت کے ڈھیر ہونے کا ہے کہ لوگ کیا باتیں بنائیں گے؟ اگر ہمارے آئیڈیل، بڑے لوگ، رہنما اور معروف شخصیات اس عمل میں پہل کریں تو ضرور ہوسکتا ہے، کاش کوئی ان بڑے لوگوں، نامور لوگوں کی بھی رہنمائی کرے۔

شادی کے کارڈ کی چھپائی کے لیے بھی کثیر رقم خرچ کرنا عزت اور دکھاوے کا مسئلہ ہے۔ سب سے کم قیمت کا کارڈ بھی چھپوایا جاسکتا ہے اورکمپوز کرکے کاغذ پر پرنٹ کرکے بھی دعوت نامے تقسیم کیے جاسکتے ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ راقم کے ایک جاننے والے جوکہ ایک سرکاری ادارے سے گریڈ 5 میں ریٹائرڈ ہوئے انھوں نے اپنی بیٹی کا اتنا قیمتی شادی کا کارڈ چھپوایا کہ گویا وہ گریڈ 2 نہیں 22 گریڈ میں سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہوئے ہوں۔ میرے استفسار پر ان صاحب نے فرمایا کہ بیٹی کی عزت کا مسئلہ تھا اسی لیے کارڈ بھی اچھے اور قیمتی چھپوانا ضروری تھا۔

یہی حال کچھ گھر میں سجاوٹ کے حوالے سے دیکھنے میں آتا ہے۔ گھر کی سجاوٹ سادگی کے ساتھ اور کم خرچ میں بھی ممکن ہوسکتی ہے لیکن نہ جانے کیوں یہاں بھی اپنے ''اسٹیٹس'' کو بلند ظاہرکرنے کے لیے قیمتی چیزوں سے آرائش کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ قیمتی سے قیمتی شوپیس ڈرائنگ روم میں رکھنا بھی اب عزت بڑھانے کے لیے اہم ہوگیا ہے۔

دوسری طرف ایک اور غلط رجحان سرکاری اداروں میں (بلکہ نجی اداروں میں بھی) کثرت سے ملتا ہے ''مال مفت دل بے رحم'' کے تحت دفتری استعمال کی اشیا کے لیے خریداری کے وقت قیمتی سے قیمتی اشیا خریدنا معمولی بات ہے۔ ایک بزرگ جو سرکاری ریٹائرڈ ملازم ہیں کا کہنا ہے کہ جس وقت، پاکستان بنا تھا ان کے پاس دفاتر میں کام کرنے کے لیے اسٹیشنری کی شدید قلت ہوتی تھی اور وہ پیپر پن کی جگہ کیکر کے درخت سے کانٹے توڑ کر لاتے تھے ان سے اپنا کام چلاتے تھے۔ اسی طرح پیپر ویٹ کے لیے آفس آتے جاتے راستوں میں صاف ستھرے پتھر تلاش کرکے اٹھا لیتے تھے اور دفتر میں ان کو بھی سنبھال سنبھال کر رکھتے تھے۔ اس وقت دفتر میں کام بھی بہت ہوتا تھا آج قیمتی اسٹیشنری ہوتی ہے مگر آرام بھی بہت۔

بلاشبہ میرے بزرگوار کا کہنا بالکل درست ہے۔ شاید پاکستان نیا نیا بنا تھا اور ہمیں اپنی قربانیوں اور مسائل کا احساس تھا مگر اب ہم قربانیاں بھول گئے اور اپنے مسائل کا احساس ہمیں نہیں نہ ہی کوئی احساس دلانے والا ہے۔

ذرا سوچیے ہم میں سے کتنے لوگ ملکہ نور جہاں کی طرح استعمال شدہ تھیلوں کو بھی کارآمد بنا لیتے ہیں اور کتنے ہیں جو اچھے خاصے کپڑے یا آفس کی اسٹیشنری ٹوکری کی نذر کردیتے ہیں یا جہاں چند روپوں میں ضرورت پوری ہوجائے وہاں ہزاروں روپے لٹا دیتے ہیں۔

آئیے ہم سب ملک کر اس فضول خرچی کے کلچر کو بدلنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں، گھر، دفتر اور تقاریب میں سادگی کو کفایت شعاری کو اپنائیں کیونکہ گھر سے لے کر وطن تک ہم سب کا مشترکہ مسئلہ کمزور معیشت اور مہنگائی بھی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں