مزید تحقیق کی ضرورت
یہ بات تعجب خیز ہے۔ اگر سفید کاغذ پر نظر آنے والی تصویریں محض معمول کے لاشعور کا خیالی عکس ہیں تو یہ...
گزشتہ کالم میں محمد شریف کے خط کا اقتباس پیش کیا گیا جس میں عامل کے شعبدے کا ذکر تھا یعنی سفید کاغذ پر جادو کرانے والے یا والی کی شبیہہ ابھرنا، یہ بھی اسی سلسلہ عمل کی ایک کڑی ہے۔
دنیا کا کوئی فرد بشر ایسا نہیں جو ترغیب و تلقین سے اثر پذیر نہ ہوتا ہو۔ جب کسی شخص کو شبہ ہوتا ہے کہ اس پر جادو کرایا گیا ہے تو وہ اس لاشعوری ترغیب و تلقین کے پیش نظر یا اعتقاد و یقین کے زیر اثر کہ وہ بھی ترغیب و تلقین سے ہی پیدا ہوتا ہے، گاؤں کے پیر صاحب یا کسی عامل کو جو عوام کا مرجع اعتقاد ہوتا ہے، طلب کرتا ہے۔ مریض کو ان کی بزرگی اور ساحرانہ قوتوں پر پورا بھروسہ ہوتا ہے۔ پیر یا عامل صاحب مریض کو سفید کاغذ کے سامنے بٹھا دیتے ہیں اور سفید کاغذ کے پیچھے چراغ روشن کردیتے ہیں، مریض یا معمول کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اس کاغذ پر نظریں گاڑ دے۔
یہ بھی یاد رکھیے کہ ہر چمک دار چیز ذہن کے لیے، (اگر توجہ مبذول کردی جائے تو) ایکسرے فوٹو پلیٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب مریض کی نظر اور توجہ سفید کاغذ پر مرکوز ہوجاتی ہے تو اس ارتکاز توجہ کے نتیجے میں ہلکی سی تنویمی نیند، عملی شعور پر طاری ہوجاتی ہے اور معمول کا تحت الشعور اور لاشعور متحرک ہوجاتا ہے۔ اب حافظے کے تہہ خانے سے طرح طرح کی تصویریں، درخت، مکان اور شناسا افراد کے چہرے ابھرتے ہیں اور کاغذ پر ان کا عکس نمودار ہونے لگتا ہے۔ یہ سب کچھ معمول کی ذاتی ترغیب اور توقع کا نتیجہ ہے، یعنی معمول کو پوری توقع ہوتی ہے کہ کاغذ پر سب کچھ نظر آجائیگا۔ یہ ذاتی ترغیب و تلقین (سیلف سجیشنز) کا ہی نتیجہ ہے کہ آپ کو اندھیری راتوں میں درختوں پر بھوتوں کا گمان ہوتا ہے، آپ خوف کے مارے زرد پڑ جاتے ہیں، بعض آدمیوں کا تو اس بے جا خوف کے مارے دم ہی نکل جاتا ہے۔
میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ اگر بلور (یا پانی سے بھرے ہوئے گلاس) کے کسی نقطے کو مرکز توجہ بنا کر مشق نظر کی جائے تو عامل کو اس نقطے کے اندر پہلے بادل اٹھتے نظر آتے ہیں، اس کے بعد مختلف شکلیں دکھائی دیتی ہیں، اگر شمع پر ارتکاز توجہ کی مشق کی جائے تو استغراق شروع ہوتے ہی شمع کی لو کے اندر دو بھنگے سے لڑتے نظر آتے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ''تذکرۂ غوثیہ'' میں حضرت غوث علی شاہ قلندر کے اس تجربے کا ذکر کیا گیا ہے۔ انھیں کسی عامل نے چراغ کے سامنے بیٹھ کر کچھ پڑھنے کی ہدایت کی تھی۔ تذکرۂ غوثیہ کے راوی کا بیان ہے کہ پہلے روز حضرت کو عمل پڑھتے ہوئے شمع کی لو میں دو بھنگے نظر آئے، پھر وہ بڑھتے بڑھتے شیر بن گئے۔ میں نے بھی نقطہ بینی (التسخیر) کا عمل کرتے ہوئے سیاہ نقطے میں دو ننھے ننھے شیروں کو جنگ کرتے ہوئے بارہا دیکھا ہے۔
حل طلب معمہ یہ ہے کہ بلور بینی اور شمع بینی کے مشاہدات میں اتنا فرق کیوں ہے؟ وہ بادل کہاں سے آتا ہے جو بلوری گیند پر چھا جاتا ہے اور وہ ننھے منے شیر کون سے ہیں جو شمع کی لو میں ناچتے، کودتے اور اودھم مچاتے ہیں؟ اگر یہ ساری تصویریں لاشعور کی ہیں تو آخر یہ کیا بات ہے کہ بلور بین کو اکثر (اگر ہمیشہ نہیں) بلور کی سطح پر گرد و غبار اور ابرپارے نظر آتے ہیں اور عامل شمع کو شمع کی لو میں بھنگے یا شیر (پھر ان کی شکلیں بدل جاتی ہیں)۔ محمد شریف کا یہ بیان کہ معمول کو سفید کاغذ پر جو تصویریں نظر آتی ہیں وہ نہ صرف اسے بلکہ دوسروں کو بھی نظر آتی ہیں۔
یہ بات تعجب خیز ہے۔ اگر سفید کاغذ پر نظر آنے والی تصویریں محض معمول کے لاشعور کا خیالی عکس ہیں تو یہ خیالی عکس استغراق کی حالت میں مریض کے لیے تو حقیقی ہوسکتے ہیں، دوسروں کے لیے حقیقی اور واقعی کس طرح بن گئے؟ مریض یا معمول خود ترغیبی اور خود تنویمی کے زیر اثر فریب نظر میں مبتلا ہوسکتے ہیں، دوسرے لوگ کیوں مبتلا ہوجاتے ہیں؟ یقیناً ما بعد نفسیات کے اس پیرائے میں مزید جدوجہد کی ضرورت ہے۔ مستقبل میں مابعد النفسیات کے طلبا جب خارق العادات مظاہر (مثلاً یہی کہ سفید کاغذ پر تصویریں نمایاں ہوجاتی ہیں اور لوگ انھیں دیکھتے ہیں) پر تحقیق کریں اور ضرور تحقیق کریں گے تو انھیں نفس کے اندر قوانین کو دریافت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو اس قسم کے مظاہر کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یقیناً یہ قوانین نفس کے اندر موجود ہیں، موجود ہی نہیں بلکہ کارفرما بھی ہیں، ہاں یہ صحیح ہے کہ ان قوانین کی درجہ بندی نہیں ہوئی۔
اور اب اپنی بات... استاد کی تلاش والے کالم کے حوالے سے کئی قارئین نے رابطہ کیا اور مختلف کتابیں بھی تجویز کیں، یقیناً ہم سب کا مطالعہ کریں گے اور چند زیر مطالعہ بھی ہیں، لیکن اب تک جو کتابیں نگاہوں سے گزریں (نام لینا مناسب نہ ہوگا) محض لفاظی کا مرقع ثابت ہوئی ہیں، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑہ، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ محض واقعات اور سنی سنائی کہانیوں کا بیان اور اس پر اظہار خیال، داستان گوئی میں تو کام لایا جاسکتا ہے لیکن اس سے حقیقی علم کے متلاشیوں کی تشنہ لبی تر نہیں کی جاسکتی۔ فیس بک پر کچھ علم کے قدر دان بھی ملے ہیں جو ان علوم پر مشتمل کتابیں مفت میں ڈاؤن لوڈ کرنے کی سہولت دے رہے ہیں، آپ ہمارے فیس بک اکاؤنٹ پر جوائن کرکے وہ لنک دیکھ سکتے ہیں۔
کراچی میں نفسیات کے تناظر میں مختلف علاقوں میں ورکشاپس اور کلاسز متعارف کروائی جارہی ہیں، ہم ان میں شرکت کے بعد قارئین کو نتائج سے آگاہ کریں گے لیکن ان ورکشاپس کے منتظمین سے ہمیں یہی کہنا ہے کہ خلق خدا کی بھلائی اور علم کے پھیلاؤ کے لیے یہ تربیت مفت فراہم کریں یا پھر واجبی سے فیس لیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ کرسکیں، دو تین روزہ ورکشاپ کے ہزاروں روپے رجسٹریشن میں خرچ کرنے کے متحمل بالائی طبقے کے لوگ تو ہوسکتے ہیں لیکن متوسط اور غریب طبقے کے وہ لوگ جو علم کے قدردان ہیں ان کلاسز میں شامل ہونے سے محروم رہیں گے، ایسے میں ان ورکشاپس کے انعقاد کا مقصد فوت ہوجائے گا جو فلاح عامہ کے تحت ترتیب دی جارہی ہیں۔ آپ لوگوں کے مزید کمنٹس کا منتظر رہوں گا۔
دنیا کا کوئی فرد بشر ایسا نہیں جو ترغیب و تلقین سے اثر پذیر نہ ہوتا ہو۔ جب کسی شخص کو شبہ ہوتا ہے کہ اس پر جادو کرایا گیا ہے تو وہ اس لاشعوری ترغیب و تلقین کے پیش نظر یا اعتقاد و یقین کے زیر اثر کہ وہ بھی ترغیب و تلقین سے ہی پیدا ہوتا ہے، گاؤں کے پیر صاحب یا کسی عامل کو جو عوام کا مرجع اعتقاد ہوتا ہے، طلب کرتا ہے۔ مریض کو ان کی بزرگی اور ساحرانہ قوتوں پر پورا بھروسہ ہوتا ہے۔ پیر یا عامل صاحب مریض کو سفید کاغذ کے سامنے بٹھا دیتے ہیں اور سفید کاغذ کے پیچھے چراغ روشن کردیتے ہیں، مریض یا معمول کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اس کاغذ پر نظریں گاڑ دے۔
یہ بھی یاد رکھیے کہ ہر چمک دار چیز ذہن کے لیے، (اگر توجہ مبذول کردی جائے تو) ایکسرے فوٹو پلیٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب مریض کی نظر اور توجہ سفید کاغذ پر مرکوز ہوجاتی ہے تو اس ارتکاز توجہ کے نتیجے میں ہلکی سی تنویمی نیند، عملی شعور پر طاری ہوجاتی ہے اور معمول کا تحت الشعور اور لاشعور متحرک ہوجاتا ہے۔ اب حافظے کے تہہ خانے سے طرح طرح کی تصویریں، درخت، مکان اور شناسا افراد کے چہرے ابھرتے ہیں اور کاغذ پر ان کا عکس نمودار ہونے لگتا ہے۔ یہ سب کچھ معمول کی ذاتی ترغیب اور توقع کا نتیجہ ہے، یعنی معمول کو پوری توقع ہوتی ہے کہ کاغذ پر سب کچھ نظر آجائیگا۔ یہ ذاتی ترغیب و تلقین (سیلف سجیشنز) کا ہی نتیجہ ہے کہ آپ کو اندھیری راتوں میں درختوں پر بھوتوں کا گمان ہوتا ہے، آپ خوف کے مارے زرد پڑ جاتے ہیں، بعض آدمیوں کا تو اس بے جا خوف کے مارے دم ہی نکل جاتا ہے۔
میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ اگر بلور (یا پانی سے بھرے ہوئے گلاس) کے کسی نقطے کو مرکز توجہ بنا کر مشق نظر کی جائے تو عامل کو اس نقطے کے اندر پہلے بادل اٹھتے نظر آتے ہیں، اس کے بعد مختلف شکلیں دکھائی دیتی ہیں، اگر شمع پر ارتکاز توجہ کی مشق کی جائے تو استغراق شروع ہوتے ہی شمع کی لو کے اندر دو بھنگے سے لڑتے نظر آتے ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ''تذکرۂ غوثیہ'' میں حضرت غوث علی شاہ قلندر کے اس تجربے کا ذکر کیا گیا ہے۔ انھیں کسی عامل نے چراغ کے سامنے بیٹھ کر کچھ پڑھنے کی ہدایت کی تھی۔ تذکرۂ غوثیہ کے راوی کا بیان ہے کہ پہلے روز حضرت کو عمل پڑھتے ہوئے شمع کی لو میں دو بھنگے نظر آئے، پھر وہ بڑھتے بڑھتے شیر بن گئے۔ میں نے بھی نقطہ بینی (التسخیر) کا عمل کرتے ہوئے سیاہ نقطے میں دو ننھے ننھے شیروں کو جنگ کرتے ہوئے بارہا دیکھا ہے۔
حل طلب معمہ یہ ہے کہ بلور بینی اور شمع بینی کے مشاہدات میں اتنا فرق کیوں ہے؟ وہ بادل کہاں سے آتا ہے جو بلوری گیند پر چھا جاتا ہے اور وہ ننھے منے شیر کون سے ہیں جو شمع کی لو میں ناچتے، کودتے اور اودھم مچاتے ہیں؟ اگر یہ ساری تصویریں لاشعور کی ہیں تو آخر یہ کیا بات ہے کہ بلور بین کو اکثر (اگر ہمیشہ نہیں) بلور کی سطح پر گرد و غبار اور ابرپارے نظر آتے ہیں اور عامل شمع کو شمع کی لو میں بھنگے یا شیر (پھر ان کی شکلیں بدل جاتی ہیں)۔ محمد شریف کا یہ بیان کہ معمول کو سفید کاغذ پر جو تصویریں نظر آتی ہیں وہ نہ صرف اسے بلکہ دوسروں کو بھی نظر آتی ہیں۔
یہ بات تعجب خیز ہے۔ اگر سفید کاغذ پر نظر آنے والی تصویریں محض معمول کے لاشعور کا خیالی عکس ہیں تو یہ خیالی عکس استغراق کی حالت میں مریض کے لیے تو حقیقی ہوسکتے ہیں، دوسروں کے لیے حقیقی اور واقعی کس طرح بن گئے؟ مریض یا معمول خود ترغیبی اور خود تنویمی کے زیر اثر فریب نظر میں مبتلا ہوسکتے ہیں، دوسرے لوگ کیوں مبتلا ہوجاتے ہیں؟ یقیناً ما بعد نفسیات کے اس پیرائے میں مزید جدوجہد کی ضرورت ہے۔ مستقبل میں مابعد النفسیات کے طلبا جب خارق العادات مظاہر (مثلاً یہی کہ سفید کاغذ پر تصویریں نمایاں ہوجاتی ہیں اور لوگ انھیں دیکھتے ہیں) پر تحقیق کریں اور ضرور تحقیق کریں گے تو انھیں نفس کے اندر قوانین کو دریافت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو اس قسم کے مظاہر کو کنٹرول کرتے ہیں۔ یقیناً یہ قوانین نفس کے اندر موجود ہیں، موجود ہی نہیں بلکہ کارفرما بھی ہیں، ہاں یہ صحیح ہے کہ ان قوانین کی درجہ بندی نہیں ہوئی۔
اور اب اپنی بات... استاد کی تلاش والے کالم کے حوالے سے کئی قارئین نے رابطہ کیا اور مختلف کتابیں بھی تجویز کیں، یقیناً ہم سب کا مطالعہ کریں گے اور چند زیر مطالعہ بھی ہیں، لیکن اب تک جو کتابیں نگاہوں سے گزریں (نام لینا مناسب نہ ہوگا) محض لفاظی کا مرقع ثابت ہوئی ہیں، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑہ، بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ محض واقعات اور سنی سنائی کہانیوں کا بیان اور اس پر اظہار خیال، داستان گوئی میں تو کام لایا جاسکتا ہے لیکن اس سے حقیقی علم کے متلاشیوں کی تشنہ لبی تر نہیں کی جاسکتی۔ فیس بک پر کچھ علم کے قدر دان بھی ملے ہیں جو ان علوم پر مشتمل کتابیں مفت میں ڈاؤن لوڈ کرنے کی سہولت دے رہے ہیں، آپ ہمارے فیس بک اکاؤنٹ پر جوائن کرکے وہ لنک دیکھ سکتے ہیں۔
کراچی میں نفسیات کے تناظر میں مختلف علاقوں میں ورکشاپس اور کلاسز متعارف کروائی جارہی ہیں، ہم ان میں شرکت کے بعد قارئین کو نتائج سے آگاہ کریں گے لیکن ان ورکشاپس کے منتظمین سے ہمیں یہی کہنا ہے کہ خلق خدا کی بھلائی اور علم کے پھیلاؤ کے لیے یہ تربیت مفت فراہم کریں یا پھر واجبی سے فیس لیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ استفادہ کرسکیں، دو تین روزہ ورکشاپ کے ہزاروں روپے رجسٹریشن میں خرچ کرنے کے متحمل بالائی طبقے کے لوگ تو ہوسکتے ہیں لیکن متوسط اور غریب طبقے کے وہ لوگ جو علم کے قدردان ہیں ان کلاسز میں شامل ہونے سے محروم رہیں گے، ایسے میں ان ورکشاپس کے انعقاد کا مقصد فوت ہوجائے گا جو فلاح عامہ کے تحت ترتیب دی جارہی ہیں۔ آپ لوگوں کے مزید کمنٹس کا منتظر رہوں گا۔