پاکستان میں اعلیٰ تعلیم

ہمارا ملک پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں آبادی کا بڑا حصہ دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے جہاں ابھی تک ناخواندگی ختم...


ڈاکٹر شہلا کاظمی February 09, 2014

لاہور: ایک زمانہ تھا جب سیاہ گاؤن میں ملبوس جامعہ کراچی کے طلبا و طالبات کو لوگ رشک کی نظروں سے دیکھتے تھے اور طلبا و طالبات سے بھری شہر میں دوڑتی ہوئی جامعہ کراچی کی بسیں ایک باوقار علمی سماں باندھتی تھیں مگر آج وہ مناظر خواب محسوس ہوتے ہیں۔ اب نہ وہ سیاہ گاؤن نظر آتے ہیں اور نہ وہ رشک بھری نگاہیں البتہ شہر میں کہیں کڈز (Kids) یونیورسٹی کا بورڈ ہمیں پریشان کرتا ہے تو کہیں چھوٹے چھوٹے اسکولوں پر آویزاں کیمپس ون (Campus I) اور کیمپس ٹو (Campus II) کے بورڈ ہمیں حیران کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس شہر کراچی میں نئی قائم ہونے والی یونیورسٹیوں کی بھرمار نے لوگوں کے ذہنوں سے یونیورسٹی کا مفہوم ہی بدل ڈالا

ملک میں اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے اداروں کا فروغ یقینا قابل تعریف اور خوش آیند ہے مگر تعلیم کی کوئی بھی سطح ہو اس میں اگر معیار اور ملکی ضروریات کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے تو نتائج زیادہ موثر اور مثبت نہیں ہوتے۔

1947 میں پاکستان جن علاقوں پر قائم ہوا اس وقت یہاں پر صرف دو یونیورسٹیاں تھیں۔ بعدازاں سندھ یونیورسٹی، کراچی یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی یکے بعد دیگرے قائم ہوئیں۔ بلوچستان یونیورسٹی 1970 کے بعد قائم ہوئی (بلوچستان کو 1969 میں صوبے کا درجہ ملا)۔ 70 کی دہائی میں ملتان اور بھاولپور میں بھی یونیورسٹی قائم کردی گئی اور کراچی کے این ای ڈی انجینئرنگ کالج کو بھی یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا یہ تمام یونیورسٹیاں سرکاری ہیں ان کی عمارتیں اور محل وقوع یونیورسٹی کے شایان شان ہے جب یہ قائم ہوئیں تو ان کا اپنا یونیورسٹی کا معیار بھی رکھا گیا۔

قیام پاکستان کے بعد نجی شعبے نے بھی ملک میں تعلیم کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا اور پرائمری سطح سے لے کر ڈگری کالج تک تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ان میں بعض لوگوں کی خدمات بڑی بے لوث تھیں جو اپنے اداروں کو یونیورسٹی کی سطح تک لے جانا چاہتے تھے۔ ان میں ڈاکٹر محمود حسین کا نام اس ضمن میں قابل ذکر ہے جنھوں نے کراچی میں آبادی سے دور ملیر کے ایک پرفضا مقام پر ایک بہت وسیع و عریض رقبے پر جامعہ ملیہ کالج بالکل یونیورسٹی کی طرز پر قائم کیا۔ ڈاکٹر محمود حسین اسے یونیورسٹی بنانا چاہتے تھے اور اس کی بنیاد انھوں نے جامعہ ملیہ یونیورسٹی دہلی اور علی گڑھ یونیورسٹی کی طرز پر رکھی۔

جامعہ ملیہ دہلی ان کے بھائی ڈاکٹر ذاکر حسین نے قائم کی تھی جو بعدازاں بھارت کے صدر بھی ہوئے۔ ڈاکٹر محمود حسین کا جامعہ ملیہ کالج نہ صرف سائنس آرٹس اور کامرس کا ڈگری کالج ہے بلکہ اس میں بہت سارے تعلیمی اداروں کی علیحدہ علیحدہ عمارتیں قائم کی گئیں جو ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر ہیں۔ ان میں پرائمری اسکول، سیکنڈری اسکول، پی ٹی، سی ٹی اور بی ایڈ کالج (اساتذہ کی تربیت کے ادارے) ٹیکنیکل تعلیم کا اسکول، وسیع دو منزلہ لائبریری، کالج آڈیٹوریم، طلبا کے لیے ہاسٹل اور اساتذہ کے رہائشی مکانات شامل ہیں۔ جامعہ ملیہ کالج نے تعلیم کا اعلیٰ معیار پیش کیا۔ 1970 کی دہائی میں نجی شعبے کے تعلیمی، مالیاتی اور صنعتی ادارے جب قومی یا سرکاری ملکیت میں لے لیے گئے تو تعلیم کے میدان میں نجی شعبے کی حوصلہ شکنی ہوئی اور ان کے مالکان کو صدمہ پہنچا۔

1970 کی دہائی کے بعد ہم نے یہ دیکھا کہ پاکستان میں تعلیم کا معیار بہتر ہونے کی بجائے گرتا جا رہا ہے۔ خصوصاً اعلیٰ تعلیم میں اس سلسلے میں کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آتی اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں بلاشبہ اضافہ ہوا ہے مگر اس میدان میں ہمیں تعداد سے زیادہ معیار کی ضرورت ہے۔ 1990 کی دہائی میں نجی شعبے میں یونیورسٹیاں قائم کرنے کا سلسلہ چل نکلا اور اب تک مختلف علمی میدانوں میں نجی شعبے کی کافی یونیورسٹیاں قائم ہوچکی ہیں جب کہ کچھ سرکاری کالجوں کو بھی یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ ان نئی قائم ہونے والی یونیورسٹیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو ان میں سے اکثر یونیورسٹی کی تعریف اور معیار پر پوری نہیں اترتیں۔اعلیٰ تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے اور معاشرے کا سماجی ماحول بھی اس سے بہتر ہوتا ہے۔ مگر ملک میں محض یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھا کر اعلیٰ تعلیم کا فروغ نہیں ہوسکتا کیونکہ اعلیٰ تعلیم اگر معیاری نہ ہو تو معاشرے کے لیے مثبت اور موثر نہیں ہوتی۔

یہاں ہم مختصراً ان اقدامات پر روشنی ڈالیں گے جو ہمارے ملک میں یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم کو زیادہ سے زیادہ موثر اور دوررس بنانے میں مدد دیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ ہمارے ملک میں کن کن شعبہ علمی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹیوں کی ضرورت ہے یا ان کی کمی ہے تاکہ صرف ان ہی شعبہ علمی میں نئی یونیورسٹی بنانے کی اجازت دی جائے۔ پھر یہ کہ کیا نئی یونیورسٹی قائم کرنے کا درخواست دہندہ متعلقہ یونیورسٹی کی تمام مطلوبہ ضروریات پوری کر رہا ہے یا نہیں ۔ نئی قائم ہونے والی یونیورسٹی کا محل وقوع اعلیٰ تعلیم کے لیے مطلوبہ علمی ماحول مہیا کرنے کے قابل ہے یا نہیں اس ضمن میں ہائر ایجوکیشن کمیشن اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔

اعلیٰ تعلیم صرف ان طالبعلموں کو دی جانی چاہیے جو حقیقی معنوں میں اعلیٰ تعلیم کے طلبگار ہیں اس ضمن میں طلبا کو یونیورسٹی کے کسی بھی شعبے میں داخلہ دینے سے قبل ان کے رجحان کا امتحان (Aptitude Test) ضرور لیا جائے۔ یونیورسٹیوں میں اساتذہ کی بھرتی خالصتاً قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر کی جائے اور روابط اور تعلقات کی بنیاد پر بھرتیوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

آج کل تجارتی بنیادوں پر تعلیم نہ صرف نجی یونیورسٹیوں میں دی جا رہی ہے بلکہ سرکاری یونیورسٹیاں بھی اس سمت میں کچھ کام کر رہی ہیں۔ نجی شعبے کی مدد سے سرکاری یونیورسٹیوں میں نئے شعبے یا عمارتیں بنائی جا رہی ہیں اس ضمن میں بیرونی ممالک کو بھی اپنے شعبے یہاں کی یونیورسٹیوں میں کھولنے کی اجازت مل گئی ہے۔ یہاں اس بات پر نظر رکھنے کی سخت ضرورت ہے کہ اگر پاکستان کے باہر سے کوئی بیرون ملک پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں اپنا کوئی بھی شعبہ قائم کرتا ہے تو ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس متعلقہ شعبے کی ہمارے ملک میں تعلیم اور تدریس پاکستان کی نظریاتی اساس اور مذہب سے متصادم نہ ہو۔ پھر ہمارے ملک میں نجی شعبے کی کچھ یونیورسٹیوں نے اپنا الحاق بیرون ملک کی یونیورسٹیوں سے بھی کر رکھا ہے ان کے ہاں جو سلیبس اور کتب پڑھائی جا رہی ہیں ان کی جانچ پڑتال بھی اس ضمن میں ضروری ہے۔

ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں بشمول یونیورسٹیوں میں سیاسی جماعتوں کی ذیلی تنظیموں نے نہ صرف تعلیم کے ماحول کو خراب کیا ہے بلکہ تعلیمی معیار کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہمارے ارباب حل و عقد کو اور خصوصاً یونیورسٹی کی انتظامیہ کو اس ضمن میں اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو بھی اس ضمن میں سوچنا چاہیے وہ بھی اس ملک کا حصہ ہیں اور وہ خود بھی تعلیمی اداروں سے اپنی ذیلی تنظیموں کو ختم کر سکتی ہیں جو 1960 کی دہائی میں ہمارے تعلیمی اداروں میں متعارف کروائی گئیں اور آج تک برقرار ہیں۔ طلبا کو صحیح معنوں میں اور حقیقی تعلیمی ماحول فراہم کرنا آج وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ ان کا عمل ہی مجموعی طور پر معاشرے میں مثبت یا منفی اثرات کو جنم دیتا ہے۔

ہمارا ملک پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں آبادی کا بڑا حصہ دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے جہاں ابھی تک ناخواندگی ختم نہیں ہوئی ہے اور بہت سارے علاقے پرائمری تعلیم کی سہولیات سے محروم ہیں۔ ہمارے بڑے شہروں میں بھی ناخواندہ افراد کی اچھی خاصی تعداد رہتی ہے اور بے شمار غریب بچے ابھی تک ابتدائی تعلیم سے بھی محروم ہیں چنانچہ ملک میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے ساتھ ہماری ترجیحات میں اولین کوشش یہ ہونی چاہیے کہ پاکستان سو (100) فیصد ناخواندگی کی شرح حاصل کرلے اور پاکستان کا ہر شہری کم ازکم بنیادی اور پرائمری تعلیم سے بہرہ مند ہوسکے اس ضمن میں ہمارے سرکاری اور نجی دونوں شعبے مل کر کام کرسکتے ہیں۔ ملک میں اعلیٰ تعلیم کو زیادہ سے زیادہ بہتر اور موثر کرنے کے لیے یہ امر بھی ازبس ضروری ہے کہ پاکستان کی پوری آبادی تعلیم سے بہر مند ہو۔

اعلیٰ تعلیم کے ضمن میں مختلف شعبہ علمی میں ہمارے پاس ابھی تک ایسے تحقیقی مواد کی سخت قلت ہے جسے ہمارے اپنے ملک کے محققین اور پروفیسرز یا اساتذہ نے متعلقہ علم پر موجود ابتدائی اور بنیادی حقائق کی بنیاد پر تحریر کیا ہو اور جس میں پاکستانیت جھلکتی ہو۔ ہمارے طالبعلم دوسرے ممالک کے طلبا سے ذہنی اور عقلی صلاحیتوں میں کسی طرح بھی کم تر نہیں ہیں۔ ہمارے اعلیٰ تعلیم کے ادارے طلبا میں پھیلی ہوئی مایوسی اور کم مائیگی کو ختم کرکے ان میں زیادہ سے زیادہ خود اعتمادی اور حب الوطنی کے جذبات بہتر طور پر پیدا کرسکتے ہیں چنانچہ اس سلسلے میں ہمیں امید ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے سرکاری اور نجی شعبوں کی یونیورسٹیاں اپنی تدریسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنے متعلقہ عملی شعبوں میں تحقیقی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیں گی تاکہ غیر ملکی تحقیقات اور کتابوں پر ہمارا زیادہ انحصار ختم ہوسکے اور ہمارے ملک میں بھی ہر شعبے میں نئی ایجادات کے دروازے کھلیں۔

آخر میں ہم دعا گو ہیں کہ ہماری یونیورسٹیاں خواہ سرکاری شعبے میں ہوں یا نجی شعبے میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ میں زیادہ سے زیادہ موثر کردار ادا کریں اور یہاں سے فارغ التحصیل طلبا و طالبات کی اکثریت محض ڈگری یافتہ نہ ہو بلکہ حقیقی معنوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں