امیکرون کورونا ایک نئی آزمائش

پاکستان میں نئے کورونا ویرینٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔


Editorial December 01, 2021
پاکستان میں نئے کورونا ویرینٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

RAWALPINDI: ملک چیلنجزکے خوفناک گرداب میں پھنس گیا ہے، ایک طرف سیاسی مسائل کی شدت بڑھنے لگی ہے، سیاسی تنازعات اور بیان بازی ہولناک انداز میں عوام کے اعصاب کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ دوسری جانب شدید ذہنی دباؤ کے باعث عوام کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ کدھر جائیں۔

حکومت کے کس فیصلے پر توجہ دیں ،کن اقدامات کے مطابق اپنے روزمرہ کے مسائل کا حل تلاش کریں، وہ زبردست بحران کا شکار ہیں، کیونکہ کورونا کی زندگی سے چھٹکارا پانے کے لیے انھیں بے شمار الجھنوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور بڑی مشکل سے کاروبار زندگی کو سنبھالنے کے امکانات پیدا ہوئے تھے، مگر اب حکومت نے خبردارکیا ہے کہ کورونا وائرس کی نئی قسم '' اومیکرون'' بہت زیادہ خطرناک ہے جو جنوبی افریقہ سے شروع ہوئی اور تیزی کے ساتھ پھیلتے ہوئے ہانگ کانگ اورکئی یورپی ممالک تک پہنچ چکی ہے۔ یہ کورونا ویرینٹ پاکستان کو بھی متاثر کرے گا۔

پاکستان میں نئے کورونا ویرینٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔ اسی ضمن میں گزشہ روز این سی او سی میں اجلاس کے بعد سربراہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے وزیراعظم کے معاون خصوصی صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کا نیا ویرینٹ دنیا بھر میں تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے ، جو بہت زیادہ خطرناک ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح نئے کورونا ویرینٹ کا پاکستان آنا بھی ناگزیر ہے۔ پاکستان میں نئے کورونا ویرینٹ کوکنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں۔

اقدامات سے وائرس کی آمد کوکچھ وقت کے لیے ٹالا جاسکتا ہے لیکن وہ پھیلے گا۔ حکام کے مطابق کچھ ممالک کے حوالے سے سفری پابندیاں بھی لگائی ہیں۔ دو سے تین ہفتے انتہائی اہم ہیں ، لہٰذا ہمیں زیادہ سے زیادہ ویکسینیشن کر کے اس کا خطرہ کم کرنا ہے۔ وائرس کے پھیلاؤ کی رفتارکا اندازہ اس سے لگائیں کہ 12 روز قبل جنوبی افریقہ میں کیسز مثبت آنے کی شرح 0.9 فیصد تھی اور اب وہ 9.77 فیصد ہوگئی ہے ، جب وائرس ملک میں آجائے گا تو ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہوگا۔

اس لیے کل کے بجائے آج جائیں اور ویکسین لگوائیں ، لیکن حکومت کو اندازہ ہے کہ عوام کو ایک بار پھر کورونا نے للکارا ہے، اس بار بھی کورونا امیکرون کی زد میں متوسط طبقہ ہی آئے گا ، امیر، کروڑ پتی اور مسائل سے بے نیاز اشرافیہ اور سیاست دان نئے چیلنج سے براہ راست متاثر نہیں ہوںگے، انھیں زندگی کی ڈھیر ساری مراعات حاصل ہیں، مصیبت ان پر ٹوٹے گی جو دیہاڑی دار مزدور ہیں، وہ متوسط طبقہ جو ہر سماج کی مشینی زندگی کے دباؤکا سامنا کرتا ہے، ملکی معیشت اور تہذیبی زندگی کی بقا کے لیے ہر اول دستے کے طور پر ہمیشہ فرنٹ لائن پر رہتا ہے، اس پر امیکرون کا پہلا وار پڑے گا، زندگی اس کی مصائب اور پریشانیوں کا شکار ہوگی۔

یہ ایک ناقابل تردید سچ ہے کہ ہماری سیاست انسان بیزاری کے ریکارڈ توڑ چکی ہے، حکومتی وزرا، مشیر اور معاونین خصوصی سوائے نان ایشوز پر میڈیا ٹاکس کے کوئی کام نہیں کرتے، پورا کورونا '' ایپی سوڈ '' ختم ہوا، کوئی ٹائیگر فورس میدان میں نہیں آئی اور نہ حکمرانوں نے پوچھا کہ ٹائیگرکیوں کورونا سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہوئے، یہی کچھ اس بار ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔

ٹائیگر فورس تو اک بہانہ ہے، اگر جوابدہی کا عمل ہوتا اور سیاسی کیڈرکو قیادت کی طرف سے سرزنش اور احتساب کا خوف ہوتا تو سماجی کاموں میں سیاسی کارکن یقیناً پیش پیش ہوتے، وزیر اعظم عمران خان اگر سیاسی کارکنوں پر اپنا پریشر سماجی کاموں کے حوالے سے مسلسل ڈالتے تو صورتحال ایسی کبھی نہ ہوتی جو اس وقت ہے، سب یہی کہتے ہیں کہ وزیر اعظم صاحب بہت خواب دیکھتے ہیں۔

ان خوابوں کا حوالہ وہ اسلامی دانشور شیخ حمزہ سے اپنے حالیہ انٹرویو میں بھی کرچکے ہیں مگر خواب تو نیلسن منڈیلا نے بھی دیکھے تھے، اس منڈیلا نے ایک انداز سے سیاسی جنگ لڑی، اپنے سیاہ فاموں کو سفید فام اقلیت کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھا لیکن انتقام کے بجائے انھوں نے اپنی قوم نہیں بلکہ پوری انسانیت کو صلح جوئی، مفاہمتی اور مصالحتی فارمولا دیا۔ ایک ایسا نظام متعارف کرایا کہ آج جنوبی افریقہ منڈیلا کے رخصت ہونے کے بعد بھی انھیں یاد کرتا ہے، ہم آخر کب بے فائدہ سیاسی حوالوں سے جان چھڑائیں گے۔

پاکستان کو خواب نہیں اس کی تعبیروں کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ابھی امیکرون قسم کی شدت ، ہلاکت یا مصیبت کے تجربات سے ہمارے عوام آگاہ نہیں ہیں، تاہم دنیا میں امیکرون کورونا کی آزمائش شروع ہوچکی ہے، پاکستان کے عوام کی زندگی آسودہ نہیں، مہنگائی نے ادھ موا کردیا ہے۔

انھیں بڑی مشکل کا سامنا ہے، کورونا وائرس نے ملکی معیشت، کاروبار حیات ، تعلیمی اداروں اور غریبوں کے شب و روز الٹ پلٹ کردیے تھے، لیکن یہ خوش آیند اطلاع ہے کہ حکومت امیکرون کو کنٹرول کرنے کے اقدامات کے لیے سنجیدگی سے سوچ رہی ہے، لیکن جو ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال ہے اس میں امیکرون کی آمد ایک بڑی آفت سے کم نہیں، سارے سماجی سسٹم کو امیکرون متاثر کرے گا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ حکومت کے لیے معاملات کتنے ہولناک ہوسکتے ہیں۔

اسپتالوں پر کتنا بوجھ پڑے گا، تعلیمی نظام کو ایک بار پھر ترتیب دینے کی ضرورت پیش آئے گی، کوئی اس حقیقت کو تسلیم کرے یا نہ کرے، ملک تعلیمی نظام کو کورونا نے ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار کیا ہے، لاکھوں محنت کش اپنے روزگار سے محروم ہوئے، روزگار اورکاروبار کے سمٹ جانے سے غربت اور بیروزگاری بے انتہا بڑھی، لہٰذا ارباب اختیار کو امیکرون سے نمٹنے میں غلطیوں کا اعادہ کرنے سے گریز کرنا ہوگا، بلکہ پورے صحت نظام کی از سر نو تنظیم و تعمیر کرنے کے لیے موجودہ ٹیم کو خدمت اور سہولتوں کی فراہمی کے لیے تیارکرنا پڑے گا۔

عوام پر امیکرون کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے حکومت کو اپنے تجربات کو کام میں لانی کے لیے غیر روایتی طریقہ کار سے کام لینا ہوگا، عوام کو گیس اور مہنگائی نے نڈھال کردیا ہے، شہری زندگی، دیہی کلچر میں اب سکت جواب دے گئی ہے، غربت اور افراط زر نے ملک میں اقتصادی صورتحال کو ابتر کردیا ہے۔

مہنگائی نے متوسط طبقہ کو زمین بوس کردیا ہے، غربت گھروں میں داخل ہوگئی ہے، لوگ معاشی مسائل کے سامنے سرنگوں ہوچکے، انھیں سیاسی صورتحال بھی کوئی امید بندھاتی نظر نہیں آتی، چونکہ سیاسی حالات میں بہتری کی امید سیاست دانوں کے طرز عمل اور سیاسی مفاہمت سے پیدا ہوتی ہے، مگر سیاسی افہام وتفہیم اور اتفاق رائے کے بجائے سیاسی شوریدہ سری اور محاذ آرائی میں کمی نہیں آرہی، سیاست دان نان ایشوز میں الجھتے جارہے ہیں، سیاسی طور پر ملک میں ایک بے لگام لاقانونیت فروغ پا رہی ہے۔

فہمیدہ عناصر سیاسی مستقبل سے مایوس ہورہے ہیں، سرکردہ سیاسی شخصیات ملکی نظام میں بریک تھرو کا کوئی اشارہ دینے کی پوزیشن میں نہیں، سماجی زندگی، گیس، بجلی، روزگار اور مہنگائی کے اندھیروں میں گم ہوگئی ہے، سیاست خدمت کے مشن سے پیچھے ہٹ چکی ہے، حکام کا کہنا ہے کہ امیکرون سے بچاؤ کا واحد راستہ ویکسینیشن ہے۔

ملک میں ٹیسٹنگ کے عمل کو تیز کیا جائے گا اور جہاں پر اس وائرس کے پھیلاؤ کا زیادہ خطرہ ہے وہاں پرکورونا ویکسین کی بوسٹر ڈوزکا آغاز کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ 5 کروڑ کو دو خوراکیں جب کہ3 کروڑ کو ایک ویکسین لگ چکی ہے۔

اگلے2 سے3 دن میں تمام صوبوں میں بڑی کورونا ویکسی نیشن مہم شروع ہو رہی ہے۔ تمام پاکستانی جنھوں نے ابھی تک ویکسی نیشن نہیں کروائی یا دوسری خوراک نہیں لگوائی یا12 سال سے زائد عمر کے بچوں کو ویکسی نیشن نہیں کروائی گئی وہ فوری طور پر ویکسی نیشن کروائیں۔ ملک میں ویکسی نیشن کے تیز ترین عمل کی وجہ سے کورونا وائرس کے کیسز میں واضح کمی دیکھی گئی۔ معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ اومیکرون کا پھیلاؤ گزشتہ اقسام کی نسبت بہت زیادہ تیز ہے اور اس میں کچھ میوٹیشنز ہیں جو ممکنہ طور پر اس ویرینٹ کو زیادہ خطرناک بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

ہم مسافروں کی آمد کے وقت ٹیسٹنگ کا دوبارہ جائزہ لے کر اسے موجودہ سائنسی شواہد کے مطابق مزید مضبوط کررہے ہیں ، لیکن دنیا اس طرح باہمی منسلک ہے کہ وائرس کے ملک میں داخلے کو روکنا تقریباً ناممکن ہے۔

اس صورتحال میں ویکسینیشن تیزکرنے کی ضرورت ہے ، ویکسین میں تاخیرکرنیوالے دنیا بھر میں متاثر ہو رہے ہیں۔ یورپی ممالک میں زیادہ اموات ان افراد میں دیکھنے میں آرہی ہیں جنھوں نے ویکسین نہیں لگوائی یا تاخیر کی۔ ہمارے فیصلوں کے مثبت نتائج سامنے آ رہے۔ کروڑوں ویکسین لگا چکے مگر کروڑوں ویکسین لگوانا باقی ہے۔ عوام سماجی فاصلے اور ماسک کی پابندی لازمی کریں۔ عوام کو امیکرون سے نمٹنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رکھیں۔ منیر نیازی نے کہا تھا:

پھر ایک دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو

میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں