سفاکی۔۔۔۔ معاشرے کا کریہ روپ

ننھے منے بچوں کو جھوٹی انا اور ہوسِ زر کی بھینٹ چڑھانے والوں کی لرزہ خیز کہانی


Kashif Fareed February 09, 2014
ننھے منے بچوں کو جھوٹی انا اور ہوسِ زر کی بھینٹ چڑھانے والوں کی لرزہ خیز کہانی۔ فوٹو: فائل

جہاں جھوٹی اناؤں کی قربان گاہوں پر بچوں کی بَلی چڑھانے کی رِیت پڑجائے توایسے معاشرے کو درندوں کا جنگل کہنے میں کیا مضائقہ ہے؟

جڑانوالہ کے علاقے چک نمبر 59 گ ب میں مقیم حساس ادارے کے ملازم رمضان کے بچے ایک دن اسکول سے واپس نہ آئے اور بہت تلاش کے بعدبھی نہ ملے تو انہوں نے پولیس کو رپورٹ درج کروا دی۔ دو روز بعد تھانہ ٹھیکری والا کے علاقے کے سیم نالے سے ایک پانچ سالہ بچے کی نعش ملی، اطلاع پر ورثاء نے شناخت کرلی، وہ رمضان کے بچے سمیر کی تھی جسے اپنی سات سالہ بہن الیشبع کے ساتھ اغوا کیا گیا تھا۔ بچہ تو درندوں نے مار ڈالا، اب خاندان کو بچی کی فکر پڑگئی۔ نعش ملنے پر ورثا نے روڈ بلاک کر کے احتجاج بھی کیا جو پولیس نے دم دلاسے دے کر ختم کروادیا۔

معاملہ بہت پیچیدہ تھا، پولیس بھی اندھیرے میں کہ ناگاہ معمے نے اپنے اسرار خود کھول ڈالے۔ ہوا یوں کہ وقوعے کے چار روز بعد مقامی پولیس کوملتان پولیس سے اطلاع ملی کہ انہوں نے ایک نوجوان اور ایک سات سالہ بچی کو پکڑا ہے، بچی بتاتی ہے کہ نوجوان اسے اغوا کر کے لایا ہے۔ اس اطلاع پر تھانہ صدر جڑانوالہ پولیس ملتان گئی اور دونوں کو تحویل میں لے لیا۔ ملزم عبدالشکور سے تفتیش کی گئی تو یہ کھلا کہ حساس ادارے کے ملازم حوال دار رمضان کی بیوی کی چند روز قبل اپنی پڑوسن سے تلخی ہو گئی تھی، جو عبدالشکورکی ماں تھی، ملزم نے اس واقعہ کا بغض دل میں رکھا۔

چند دن بعد وہ گاؤں کے اسکول گیا اور اساتذہ سے کہا کہ رمضان کے رشتہ داروں میں کوئی فوت ہو گیا ہے لہٰذا ان بچوں کو اس کے ساتھ گھر بھیجا جائے۔ پڑوسی جان کر اسکول انتظامیہ نے بچوں کواس کے ساتھ بھیج دیا۔ عبدالشکور بچوں کو اپنے رکشے پر بٹھا کر باہر لے گیا اور انہیں ساتھ لیے پھرتارہا لیکن ٹھیکری والا کے قریب چھوٹے سمیر کو گلا دبا کر قتل کرکے نعش سیم نالے میں پھینک دی اور الیشبع کو ملتان لے گیا جہاں وہ بچی کو لیے تین دن ریلوے اسٹیشن پررہا، پھر اس کے پاس پیسے ختم ہو گئے۔

اب جب بھوک نے آن گھیرا تو بچی تو برداشت کرتی رہی، اس بے غیرت سے نہ رہا گیا اور اس نے بچی کو بھیک مانگنے کے لیے ریلوے اسٹیشن کے سامنے ہوٹل پر بھیجا۔ بہادر الیشبع نے ہوٹل کے مالک کو جاتے ہی سارا واقعہ بتادیا۔ خدا ترس ہوٹل مالک نے فوری طورپرذہن میں پلان ترتیب دیا اور دونوں کو بلاکر کھانا کھانے میں مصروف کردیا اور چپکے سے پولیس طلب کرلی، پولیس نے فوراً پہنچ کر دونوں کو حراست میں لے لیا اور تھانہ صدر جڑانوالہ کو آگاہ کردیا۔ معلوم ہوا کہ اغوا ہونے کے بعد ننھا سمیر مسلسل رو رہا تھا جس پر سفاک شکور نے ننھی سی جان کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ یوں اس نے اپنی ماں کی بے عزتی کا بدلہ لیا۔

اس وقعے کے ٹھیک دو دن بعد ایسی ہی سفاکی کا ایک اور سانحہ سمن آباد کے علاقے مقصودآباد کی گلی نمبر دومیں رونما ہوا۔ کپڑے کے تاجر شکیل صدیقی کا بیٹا شاہ زیب گلی میں کھیلتے کھیلتے لاپتا ہوگیا۔ تلاش جاری تھی کہ شام کو انہیں پانچ لاکھ روپے تاوان کا فون آ گیا۔ اگلے روز جھنگ بازار سے ایک پی ٹی سی ایل فون سے دوبارہ کال آئی کہ اگر بچہ چاہیے تو گٹ والا کے قریب پانچ لاکھ روپے پہنچادو اور خصوصی تاکید کی کہ زرِتاوان شکیل کا کزن نعمان ہی پہنچائے، نہیں تو بچہ مار دیا جائے گا۔

شکیل پولیس کو آگاہ کرچکا تھا۔ نعمان کے ہاتھ رقم بھجوانے کی شرط پر پولیس کوشک گزرا اور یوں نعمان سے تفتیش شروع ہوئی۔ پولیس کے ''روایتی سواگت'' پر نعمان پھوٹ پڑا اور بتایا کہ اس نے گلی میں شاہ زیب کوچیزدلانے کے بہانے اغوا کیا لیکن وہ مسلسل رو رہاتھا اور ماں کے پاس جانے کی ضد کررہا تھا جس پر اس نے شاہ زیب کو لنڈے کے گودام میں لے گیا جہاں اس نے بچے کے منہ پر ٹیپ لگائی، ہاتھ پاؤں باندھے اور کپڑوں کی گانٹھوں تلے ڈال دیا پھر خود شکیل کے ساتھ بچے کو تلاش کرنے کی ادارکاری کرتارہا۔

نعمان نے گودام سے بچہ برآمد بھی کروایا تو معلوم ہوا کہ وہ ابھی سانس لے رہا ہے جس پراسے فوری طور پر الائیڈ اسپتال لے جایا گیا مگر افسوس ڈاکٹر ہزار کوشش کے باوجود اسے بچا نہ سکے۔ نعمان کو جیل تو بھیج دیا گیا ہے ممکن ہے اسے بھی موت کی سزا ہوجائے لیکن کیا شاہ زیب کی ماں کا چِرا ہوا دل مندمل ہوپائے گا، کیا اس کے باپ کی روح پر لگنے والی اس گہری چوٹ کا کوئی درماں اس معاشرے کے پاس ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں