سپریم اور سپلائی
ayazkhan@express.com.pk
بریکنگ نیوز کے حوالے سے اگر کوئی عالمی سروے کرایا جائے تو میرا خیال ہے اس میں پاکستان بلامقابلہ جیت جائے گا۔ یہاں ایشوز کی بھی کمی نہیں ہوتی۔ ایک ایشو ختم ہوتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ کئی دفعہ ایک سے زیادہ ایشو بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ قومی منظرنامے میں جس تیزی سے تبدیلیاں آتی ہیں کہیں اور ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ان دنوں دو ایشوز بہت اہم ہیں' حکومت اور عدلیہ کے درمیان آئین اور پارلیمنٹ کی سپرمیسی کی بحث اور نیٹو سپلائی کی بحالی۔
عدلیہ اور حکومت کے ایشو پر پہلے بات کرتے ہیں۔ گیلانی صاحب کی توہین عدالت میں سزا اور رخصتی کے بعد یہ بحث عروج پر ہے کہ اس ملک میں پارلیمنٹ سپریم ہے یا آئین؟ اس پر ایک اعتراض تو یہ ہے کہ کسی ادارے یا دستاویز کو سپریم قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ سپریم صرف اﷲ کی ذات ہے۔ یہ اعتراض درست ہے لیکن میرے خیال میں دونوں فریق جب سپریم کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ کسی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ان کا مفہوم وہی ہے جو امریکا کو دنیا کی واحد سپر پاور کہنے والوں کا ہوتا ہے۔ ایک طرف حکومتی اور اتحادی ارکان اپنی پارلیمنٹ کو سپریم قرار دینے پر بضد ہیں تو دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ آئین سپریم ہے۔ مجھے یہ بحث زیادہ دیر چلتی نظر نہیں آتی کیونکہ یہ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وطن عزیز میں ہمیشہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا مقولہ ہی سچ ثابت ہوا ہے۔
لیکن یہ تب تب ہوا جب جب پارلیمنٹ کا مقابلہ خاکی کے ساتھ تھا' اب معاملہ کچھ اور ہے۔ پارلیمنٹ کی سپرمیسی عدلیہ کے مقابل ہے۔ اس عدلیہ کے مقابل جسے آئین کی تشریح کا اختیار ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری صاحب نے کراچی رجسٹری میں خطاب کے دوران یہ واضح کر دیا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی بالادستی کا تصور پاکستان کے دستور سے مطابقت نہیں رکھتا۔ چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی کہا' چاہے وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو' نظام کی بقا کے لیے ناگزیر نہیں۔ چیف جسٹس صاحب کے ان خیالات کے بعد مستقبل کی تصویر کے خدوخال ابھی سے نمایاں ہونے لگے ہیں۔ پارلیمنٹ جتنی چاہے ترامیم کر لے' کسی ترمیم کو منظور یا مسترد کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ ہی کرے گی۔ عدلیہ ایک چیف ایگزیکٹو کو گھر بھجوا چکی ہے' دوسرا چیف ایگزیکٹو نوٹس پر ہے۔ حکومت نے کسی اعتراض کے بغیر اپنے ایک وزیر اعظم کی قربانی دے دی۔
اب دیکھنا ہے دوسرے کے خلاف کوئی فیصلہ آیا تو وہ کیا کرتی ہے۔ گیلانی صاحب فراغت کے بعد سے ایوان صدر کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ وہ گزشتہ سے پیوستہ ہفتے لاہور میں سیفما کی تقریب میں شرکت کے بعد واپس اسلام آباد چلے گئے تھے۔ دو دن پہلے اتوار کو وہ ٹرین کے ذریعے اپنے آبائی حلقے ملتان پہنچے۔ یہاں سے انھیں اپنے بیٹے عبدالقادر گیلانی کو منتخب کرا کے قومی اسمبلی میں اپنی سیٹ پر بٹھانا ہے۔ موجودہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ابھی اپنے عہدے پر قائم ہیں۔ وہ کب تک اسے بچا پاتے ہیں اس کا پتہ پرسوں کے بعد اس وقت چلے گا جب سوئس حکام کو خط لکھنے کے حوالے سے ان کا جواب سپریم کورٹ میں آئے گا۔ وہ اپنے باس کے خلاف خط لکھنے پر راضی ہوں گے؟ لگتا تو نہیں۔ کیا ان کا بھی انجام وہی ہو گا جو ان کے پیشرو کا ہوا؟ عین ممکن ہے۔ آئین سپریم ہے تو پھر اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی۔ صدارتی پارڈن کا اختیار بھی موجود ہے۔
سوال یہ ہے کہ خدا نہ کرے تصادم پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گیا تو کیا ہو گا؟ اس صورت میں کون بالادست ہے' اس کا فیصلہ یقیناً ریفری کرے گا۔ ہم کہیں غیر معینہ مدت کی عبوری حکومت کے قیام کی طرف تو نہیں بڑھ رہے؟ صاف' شفاف اور بے داغ لوگوں پر مشتمل عبوری حکومت' اس کا امکان بھی ہے۔
شروع میں جس دوسرے بڑے ایشو کا ذکر کیا تھا وہ نیٹو سپلائی کی بحالی ہے۔ میں نے ٹی وی اسکرینوں پر جب یہ خبر چلتے دیکھی کہ کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس میں نیٹو سپلائی کی بحالی پر غور کیا جائے گا تو مجھے یقین ہو گیا کہ فیصلہ سپلائی کے حق میں ہو گا۔ اس کی وجہ بڑی سادہ سی ہے۔ جس دن یہ فیصلہ ہوا نواز شریف صاحب بیرون ملک روانہ ہو چکے تھے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ کوئی اہم ایشو تھا اور میاں صاحب ملک میں نہیں تھے۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور امریکا روانگی سمیت کچھ اور اہم مواقع پر میاں صاحب بیرون ملک دورے پر ہی پائے گئے۔ یہ محض اتفاق بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن ایسا ہوتا آ رہا ہے۔ میں جب بھی میاں صاحب کی بیرون ملک روانگی کی خبر سنتا ہوں مجھے لگتا ہے کوئی بڑا کام ہونے لگا ہے۔ آپ اسے محض میرا وہم بھی سمجھ سکتے ہیں۔ خیر اسے چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔ نیٹو سپلائی بحال ہو چکی ہے اور یہ صرف حکومت نے نہیں کی' کابینہ میں صرف چیف ایگزیکٹو اور وزیر بیٹھتے ہیں
البتہ دفاعی کمیٹی میں فوج کے سربراہان بھی موجود ہوتے ہیں۔ یوں یہ فیصلہ سول اور ملٹری لیڈرشپ کا مشترکہ فیصلہ ہے۔ کچھ لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ جب ملٹری لیڈرشپ بھی نیٹو کو سپلائی کھولنے کی اجازت دینے کے فیصلے میں شریک تھی تو پھر دفاع پاکستان کونسل والے لانگ مارچ کیوں کر رہے ہیں۔ لانگ مارچ کرنے والوں سے بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں ہم اﷲ اور قوم سے کیا گیا وعدہ نبھا رہے ہیں۔ شاہ جی کہتے ہیں ڈی پی سی کسی کی غلام نہیں البتہ ڈیوٹی کی پکی ہے۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ اب ان کی ڈیوٹی کس نے لگائی ہے البتہ ان کی ٹائمنگ نے مجھے تھوڑا حیران ضرور کیا ہے۔
ہمارے ہاں عموماً مذہبی رہنمائوں نے جب بھی کوئی احتجاج یا کسی تحریک کا آغاز کرنا ہوتا ہے تو وہ اس کے لیے جمعے کے مبارک دن کا انتخاب کرتے ہیں۔ نیٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف لانگ مارچ شروع کرنے کے لیے اتوار کا دن کیوں رکھا گیا؟ اس کا جواب میرے پاس نہیں۔ شاید دفاع پاکستان کونسل والے احتجاج میں زیادہ دیر نہ کرنا چاہتے ہوں۔ سچ ہے ڈیوٹی کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔
عدلیہ اور حکومت کے ایشو پر پہلے بات کرتے ہیں۔ گیلانی صاحب کی توہین عدالت میں سزا اور رخصتی کے بعد یہ بحث عروج پر ہے کہ اس ملک میں پارلیمنٹ سپریم ہے یا آئین؟ اس پر ایک اعتراض تو یہ ہے کہ کسی ادارے یا دستاویز کو سپریم قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ سپریم صرف اﷲ کی ذات ہے۔ یہ اعتراض درست ہے لیکن میرے خیال میں دونوں فریق جب سپریم کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ کسی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ ان کا مفہوم وہی ہے جو امریکا کو دنیا کی واحد سپر پاور کہنے والوں کا ہوتا ہے۔ ایک طرف حکومتی اور اتحادی ارکان اپنی پارلیمنٹ کو سپریم قرار دینے پر بضد ہیں تو دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ آئین سپریم ہے۔ مجھے یہ بحث زیادہ دیر چلتی نظر نہیں آتی کیونکہ یہ اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وطن عزیز میں ہمیشہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا مقولہ ہی سچ ثابت ہوا ہے۔
لیکن یہ تب تب ہوا جب جب پارلیمنٹ کا مقابلہ خاکی کے ساتھ تھا' اب معاملہ کچھ اور ہے۔ پارلیمنٹ کی سپرمیسی عدلیہ کے مقابل ہے۔ اس عدلیہ کے مقابل جسے آئین کی تشریح کا اختیار ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری صاحب نے کراچی رجسٹری میں خطاب کے دوران یہ واضح کر دیا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی بالادستی کا تصور پاکستان کے دستور سے مطابقت نہیں رکھتا۔ چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی کہا' چاہے وزیر اعظم ہی کیوں نہ ہو' نظام کی بقا کے لیے ناگزیر نہیں۔ چیف جسٹس صاحب کے ان خیالات کے بعد مستقبل کی تصویر کے خدوخال ابھی سے نمایاں ہونے لگے ہیں۔ پارلیمنٹ جتنی چاہے ترامیم کر لے' کسی ترمیم کو منظور یا مسترد کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ ہی کرے گی۔ عدلیہ ایک چیف ایگزیکٹو کو گھر بھجوا چکی ہے' دوسرا چیف ایگزیکٹو نوٹس پر ہے۔ حکومت نے کسی اعتراض کے بغیر اپنے ایک وزیر اعظم کی قربانی دے دی۔
اب دیکھنا ہے دوسرے کے خلاف کوئی فیصلہ آیا تو وہ کیا کرتی ہے۔ گیلانی صاحب فراغت کے بعد سے ایوان صدر کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ وہ گزشتہ سے پیوستہ ہفتے لاہور میں سیفما کی تقریب میں شرکت کے بعد واپس اسلام آباد چلے گئے تھے۔ دو دن پہلے اتوار کو وہ ٹرین کے ذریعے اپنے آبائی حلقے ملتان پہنچے۔ یہاں سے انھیں اپنے بیٹے عبدالقادر گیلانی کو منتخب کرا کے قومی اسمبلی میں اپنی سیٹ پر بٹھانا ہے۔ موجودہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ابھی اپنے عہدے پر قائم ہیں۔ وہ کب تک اسے بچا پاتے ہیں اس کا پتہ پرسوں کے بعد اس وقت چلے گا جب سوئس حکام کو خط لکھنے کے حوالے سے ان کا جواب سپریم کورٹ میں آئے گا۔ وہ اپنے باس کے خلاف خط لکھنے پر راضی ہوں گے؟ لگتا تو نہیں۔ کیا ان کا بھی انجام وہی ہو گا جو ان کے پیشرو کا ہوا؟ عین ممکن ہے۔ آئین سپریم ہے تو پھر اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی۔ صدارتی پارڈن کا اختیار بھی موجود ہے۔
سوال یہ ہے کہ خدا نہ کرے تصادم پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ گیا تو کیا ہو گا؟ اس صورت میں کون بالادست ہے' اس کا فیصلہ یقیناً ریفری کرے گا۔ ہم کہیں غیر معینہ مدت کی عبوری حکومت کے قیام کی طرف تو نہیں بڑھ رہے؟ صاف' شفاف اور بے داغ لوگوں پر مشتمل عبوری حکومت' اس کا امکان بھی ہے۔
شروع میں جس دوسرے بڑے ایشو کا ذکر کیا تھا وہ نیٹو سپلائی کی بحالی ہے۔ میں نے ٹی وی اسکرینوں پر جب یہ خبر چلتے دیکھی کہ کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس میں نیٹو سپلائی کی بحالی پر غور کیا جائے گا تو مجھے یقین ہو گیا کہ فیصلہ سپلائی کے حق میں ہو گا۔ اس کی وجہ بڑی سادہ سی ہے۔ جس دن یہ فیصلہ ہوا نواز شریف صاحب بیرون ملک روانہ ہو چکے تھے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ کوئی اہم ایشو تھا اور میاں صاحب ملک میں نہیں تھے۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی اور امریکا روانگی سمیت کچھ اور اہم مواقع پر میاں صاحب بیرون ملک دورے پر ہی پائے گئے۔ یہ محض اتفاق بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن ایسا ہوتا آ رہا ہے۔ میں جب بھی میاں صاحب کی بیرون ملک روانگی کی خبر سنتا ہوں مجھے لگتا ہے کوئی بڑا کام ہونے لگا ہے۔ آپ اسے محض میرا وہم بھی سمجھ سکتے ہیں۔ خیر اسے چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں۔ نیٹو سپلائی بحال ہو چکی ہے اور یہ صرف حکومت نے نہیں کی' کابینہ میں صرف چیف ایگزیکٹو اور وزیر بیٹھتے ہیں
البتہ دفاعی کمیٹی میں فوج کے سربراہان بھی موجود ہوتے ہیں۔ یوں یہ فیصلہ سول اور ملٹری لیڈرشپ کا مشترکہ فیصلہ ہے۔ کچھ لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ جب ملٹری لیڈرشپ بھی نیٹو کو سپلائی کھولنے کی اجازت دینے کے فیصلے میں شریک تھی تو پھر دفاع پاکستان کونسل والے لانگ مارچ کیوں کر رہے ہیں۔ لانگ مارچ کرنے والوں سے بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں ہم اﷲ اور قوم سے کیا گیا وعدہ نبھا رہے ہیں۔ شاہ جی کہتے ہیں ڈی پی سی کسی کی غلام نہیں البتہ ڈیوٹی کی پکی ہے۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ اب ان کی ڈیوٹی کس نے لگائی ہے البتہ ان کی ٹائمنگ نے مجھے تھوڑا حیران ضرور کیا ہے۔
ہمارے ہاں عموماً مذہبی رہنمائوں نے جب بھی کوئی احتجاج یا کسی تحریک کا آغاز کرنا ہوتا ہے تو وہ اس کے لیے جمعے کے مبارک دن کا انتخاب کرتے ہیں۔ نیٹو سپلائی کی بحالی کے خلاف لانگ مارچ شروع کرنے کے لیے اتوار کا دن کیوں رکھا گیا؟ اس کا جواب میرے پاس نہیں۔ شاید دفاع پاکستان کونسل والے احتجاج میں زیادہ دیر نہ کرنا چاہتے ہوں۔ سچ ہے ڈیوٹی کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔