پنجاب میں جانوروں پرتشدد کی روک تھام کے لئے سزائیں اور جرمانے بڑھانے کا فیصلہ
ایکٹ میں ترمیم کے لئے جو تجاویز دی گئی ہیں ان میں جانوروں پرتشدد اور انہیں مارنے کے خلاف سزائیں بڑھانے کی تجاویز ہیں
کراچی:
جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنیوالی این جی اوزکے مسلسل مطالبے کے بعد پنجاب حکومت نے جانوروں پرتشدد کی روک تھام کے ایک صدی پرانے قانون میں ترمیم کرکے سزائیں اور جرمانے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اینیمل رائٹس ایکٹیوسٹ عنیزہ خان عمرزئی نے ایکسپریس ٹربیون کوبتایا کہ جانوروں سے پرتشدد کی بجائے ان سے پیاراوران کی ویلفیئر سے متعلق ہمیں بچوں کو پرائمری سطح پرہی پڑھانے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے سلیبس میں یہ چیزیں شامل ہونی چاہیں ، بچوں کو مذہبی ،سماجی اور اخلاقی پہلوؤں سے سمجھایا جائے کہ جانوروں کو مارنا نہیں بلکہ ان سے پیار کرنا چاہئے۔ ہماری یہاں ابھی تک جانوروں پرتشدد کی روک تھام بارے 1890 کاایکٹ ہی چل رہا ہے۔ ایک صدی پرانے اس قانون میں ترامیم وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پاکستان میں اینمل ویلفیئرخاص طورپرگدھوں اور گھوڑوں کی ویلفیئرکے لئے سرگرم بین الاقوامی ادارے بروک کے ایڈوکیسی مینجر سید نعیم عباس نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا '' اب ہمیں پرانے قوانین کوبدلنے کی ضرورت ہے،پرانے قانون میں وفاقی سطح پر 1998 میں چند ترامیم کی گئی تھیں جن کے تحت جانوروں پرتشدد اورانہیں مارنے کی سزا جوایکٹ میں 50 روپے سے 200 روپے تک تھی اسے بڑھاکر25 ہزارسے 3 لاکھ روپے تک کیا گیا تھا لیکن بدقسمتی اس قانون کو صوبوں نے آج تک نافذ نہیں کیاہے۔ سیدنعیم عباس کہتے ہیں اب جانوروں پرتشددکی روک تھام سے بڑھ کران کی ویلفیئرکے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے.
پنجاب لائیو اسٹاک کے ڈائریکٹر کمیونیکشن و ترجمان ڈاکٹرآصف رفیق نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے جانوروں پرتشدد کی روک تھام کے ایکٹ میں ترامیم کا فیصلہ کیا ہے، اس حوالے سے یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز کے ماہرین، جانوروں کے حقوق کے لئے کام کرنیوالی ملکی اورغیرملکی این جی اوز سے مشاورت کی گئی ہے۔ ان تجاویزکی روشنی میں جوڈرافٹ تیارکیاگیا ہے وہ حتمی معائنے کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو بھیجا چکا ہے۔ اب دوسرے مرحلے میں ہم اسے محکمہ قانون کو بھیجیں گے اور پھر سمری کی شکل صوبائی کابینہ کو بھیج دیا جائیگا تاکہ اسے منظوری کے بعد قانون کی شکل دی جاسکے اوراس کے بائی لاز بن سکیں۔
سید نعیم عباس نے بتایا کہ موجودہ ایکٹ میں صرف مال برداری میں استعمال ہونیوالے جانوروں کو شامل کیا گیا تھا تاہم اب ہم نے جو تجاویز دی ہیں اس میں مال بردار جانوروں کے ساتھ گھریلو پالتو جانور، کتے، بلیاں اور آوارہ جانور بھی شامل کئے گئے ہیں۔ کسی بھی جانورپرتشدد،ضرورت سے زائد وزن لادنے، پالتو جانور کو مناسب خوراک نہ دینے، اس کی رہائش مناسب نہ ہونے پر بھی پنجاب لائیو اسٹاک کو چیکنگ اور خلاف ورزی پر جانور کے مالک کو جرمانے اور سزا کا اختیار ہوگا جبکہ جانور کو ریسکیو کرکے حفاظتی تحویل میں بھی لیا جاسکے گا۔
عنیزہ خان عمرزئی کا کہنا ہے کہ ایکٹ میں ترمیم کے لئے جو تجاویز دی گئی ہیں ان میں تمام قسم کے جانوروں پرتشدد اور انہیں مارنے کے خلاف سزائیں بڑھانے کی تجاویز ہیں۔ 5 ہزار سے 5 لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جاسکے گا جبکہ قید کی سزائیں بھی بڑھائی جائیں گی۔ اس میں یہ تجاویز بھی ہیں کہ اگر کوئی فرد انفرادی طور پر کسی جانور کو مارتا ہے تو اس کے لئے الگ سزا ہوگی تاہم اگر کسی ادارے میں جانوروں پرتشدد ہوتا ہے، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا تو انہیں زیادہ جرمانہ کیا جائے گا۔
بیدیاں روڈ لاہور کے رہائشی محمد نعیم نے اپنے فارم میں شیروں سمیت کئی جنگلی جانور پال رکھے ہیں، جبکہ ان کا گھر بھی فارم سے متصل ہے۔ محمد نعیم کہتے ہیں انہیں بچپن سے ہی جنگلی جانوروں خاص طورپر شیروں سے بہت لگاؤ ہے ،ان کو پالنا ایک مہنگا شوق ہے مگروہ پورا کررہے ہیں۔ جنگلی جانوروں کو کھلے ماحول میں رکھنا چاہئے ، پنجروں میں رکھنا مجبوری ہے ،جانوروں کی ویلفیئر کے جو بھی قانون بنتا ہے وہ اس کا خیرمقدم کریں گے۔
ماہرین کے مطابق جانوروں کو کھیل تماشوں میں استعمال کرنا، کاروباری مقاصد، یا ذاتی شہرت کے لئے جانوروں کی تشہیربھی ان پرظلم تصورکیاجائیگااوراس پربھی جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔ اینٹوں کے بھٹوں، کان کنی اورزرعی شعبے میں آج بھی گدھوں اور گھوڑوں کا استعمال ہورہا ہے اور اس شعبے میں استعمال ہونے والے جانوروں کاکوئی خاص خیال بھی نہیں رکھا جاتا ہے۔
جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے لئے کام کرنیوالی این جی اوزکے مسلسل مطالبے کے بعد پنجاب حکومت نے جانوروں پرتشدد کی روک تھام کے ایک صدی پرانے قانون میں ترمیم کرکے سزائیں اور جرمانے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اینیمل رائٹس ایکٹیوسٹ عنیزہ خان عمرزئی نے ایکسپریس ٹربیون کوبتایا کہ جانوروں سے پرتشدد کی بجائے ان سے پیاراوران کی ویلفیئر سے متعلق ہمیں بچوں کو پرائمری سطح پرہی پڑھانے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے سلیبس میں یہ چیزیں شامل ہونی چاہیں ، بچوں کو مذہبی ،سماجی اور اخلاقی پہلوؤں سے سمجھایا جائے کہ جانوروں کو مارنا نہیں بلکہ ان سے پیار کرنا چاہئے۔ ہماری یہاں ابھی تک جانوروں پرتشدد کی روک تھام بارے 1890 کاایکٹ ہی چل رہا ہے۔ ایک صدی پرانے اس قانون میں ترامیم وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پاکستان میں اینمل ویلفیئرخاص طورپرگدھوں اور گھوڑوں کی ویلفیئرکے لئے سرگرم بین الاقوامی ادارے بروک کے ایڈوکیسی مینجر سید نعیم عباس نے ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا '' اب ہمیں پرانے قوانین کوبدلنے کی ضرورت ہے،پرانے قانون میں وفاقی سطح پر 1998 میں چند ترامیم کی گئی تھیں جن کے تحت جانوروں پرتشدد اورانہیں مارنے کی سزا جوایکٹ میں 50 روپے سے 200 روپے تک تھی اسے بڑھاکر25 ہزارسے 3 لاکھ روپے تک کیا گیا تھا لیکن بدقسمتی اس قانون کو صوبوں نے آج تک نافذ نہیں کیاہے۔ سیدنعیم عباس کہتے ہیں اب جانوروں پرتشددکی روک تھام سے بڑھ کران کی ویلفیئرکے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے.
پنجاب لائیو اسٹاک کے ڈائریکٹر کمیونیکشن و ترجمان ڈاکٹرآصف رفیق نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے جانوروں پرتشدد کی روک تھام کے ایکٹ میں ترامیم کا فیصلہ کیا ہے، اس حوالے سے یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز کے ماہرین، جانوروں کے حقوق کے لئے کام کرنیوالی ملکی اورغیرملکی این جی اوز سے مشاورت کی گئی ہے۔ ان تجاویزکی روشنی میں جوڈرافٹ تیارکیاگیا ہے وہ حتمی معائنے کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو بھیجا چکا ہے۔ اب دوسرے مرحلے میں ہم اسے محکمہ قانون کو بھیجیں گے اور پھر سمری کی شکل صوبائی کابینہ کو بھیج دیا جائیگا تاکہ اسے منظوری کے بعد قانون کی شکل دی جاسکے اوراس کے بائی لاز بن سکیں۔
سید نعیم عباس نے بتایا کہ موجودہ ایکٹ میں صرف مال برداری میں استعمال ہونیوالے جانوروں کو شامل کیا گیا تھا تاہم اب ہم نے جو تجاویز دی ہیں اس میں مال بردار جانوروں کے ساتھ گھریلو پالتو جانور، کتے، بلیاں اور آوارہ جانور بھی شامل کئے گئے ہیں۔ کسی بھی جانورپرتشدد،ضرورت سے زائد وزن لادنے، پالتو جانور کو مناسب خوراک نہ دینے، اس کی رہائش مناسب نہ ہونے پر بھی پنجاب لائیو اسٹاک کو چیکنگ اور خلاف ورزی پر جانور کے مالک کو جرمانے اور سزا کا اختیار ہوگا جبکہ جانور کو ریسکیو کرکے حفاظتی تحویل میں بھی لیا جاسکے گا۔
عنیزہ خان عمرزئی کا کہنا ہے کہ ایکٹ میں ترمیم کے لئے جو تجاویز دی گئی ہیں ان میں تمام قسم کے جانوروں پرتشدد اور انہیں مارنے کے خلاف سزائیں بڑھانے کی تجاویز ہیں۔ 5 ہزار سے 5 لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جاسکے گا جبکہ قید کی سزائیں بھی بڑھائی جائیں گی۔ اس میں یہ تجاویز بھی ہیں کہ اگر کوئی فرد انفرادی طور پر کسی جانور کو مارتا ہے تو اس کے لئے الگ سزا ہوگی تاہم اگر کسی ادارے میں جانوروں پرتشدد ہوتا ہے، ان کے حقوق کا خیال نہیں رکھا جاتا تو انہیں زیادہ جرمانہ کیا جائے گا۔
بیدیاں روڈ لاہور کے رہائشی محمد نعیم نے اپنے فارم میں شیروں سمیت کئی جنگلی جانور پال رکھے ہیں، جبکہ ان کا گھر بھی فارم سے متصل ہے۔ محمد نعیم کہتے ہیں انہیں بچپن سے ہی جنگلی جانوروں خاص طورپر شیروں سے بہت لگاؤ ہے ،ان کو پالنا ایک مہنگا شوق ہے مگروہ پورا کررہے ہیں۔ جنگلی جانوروں کو کھلے ماحول میں رکھنا چاہئے ، پنجروں میں رکھنا مجبوری ہے ،جانوروں کی ویلفیئر کے جو بھی قانون بنتا ہے وہ اس کا خیرمقدم کریں گے۔
ماہرین کے مطابق جانوروں کو کھیل تماشوں میں استعمال کرنا، کاروباری مقاصد، یا ذاتی شہرت کے لئے جانوروں کی تشہیربھی ان پرظلم تصورکیاجائیگااوراس پربھی جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔ اینٹوں کے بھٹوں، کان کنی اورزرعی شعبے میں آج بھی گدھوں اور گھوڑوں کا استعمال ہورہا ہے اور اس شعبے میں استعمال ہونے والے جانوروں کاکوئی خاص خیال بھی نہیں رکھا جاتا ہے۔