دنیا کی 37 فیصد آبادی اب بھی انٹرنیٹ سے محروم ہے اقوامِ متحدہ
دنیا میں ڈجیٹل تقسیم اب بھی برقرار ہے اور دو ارب نوے کروڑ افراد اس سے کوسوں دور ہیں
لاہور:
اقوامِ متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا میں ہر تین میں سے ایک فرد کبھی بھی آن لائن نہیں ہوا۔ اس طرح کل دو ارب نوے کروڑ افراد اس سے محروم ہیں جو عالمی آبادی کا 37 فیصد ہے۔ اس کا انکشاف اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے ٹیلی کمیونکیشن بیورو نے کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ 2019 کے مقابلے میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں میں 17 فیصد اضافہ ہوا تھا اور اب مجموعی طور پر چارارب نوے کروڑ افراد آن لائن رسائی رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کورونا وبا کے تناظر میں لوگوں نے انٹرنیٹ سے رابطہ کیا اور اپنی معلومات میں اضافہ کیا۔
اس اضافے پر اقوامِ متحدہ نے مسرت کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اسی وبا نے عالمی انٹرنیٹ خلیج یا ڈجیٹل ڈیوائڈ کو بھی واضح کیا ہے۔ اس سے بچے اور اساتذہ بالخصوص متاثر ہوئے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ صورتحال مزید مشکل ہوگئی اور لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا۔
حیرت انگیز طور پر امریکہ کے پسماندہ اور غریب ترین علاقوں میں بھی لاکھوں بچے اور ان سے وابستہ اساتذہ بھی ہارڈویئر اور انٹرنیٹ سے دور تھے۔ اس طرح لاکھوں کروڑوں بچوں کا بہت زیادہ تدریسی نقصان ہوا ہے اور مزید ہورہا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا میں ہر تین میں سے ایک فرد کبھی بھی آن لائن نہیں ہوا۔ اس طرح کل دو ارب نوے کروڑ افراد اس سے محروم ہیں جو عالمی آبادی کا 37 فیصد ہے۔ اس کا انکشاف اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے ٹیلی کمیونکیشن بیورو نے کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ 2019 کے مقابلے میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں میں 17 فیصد اضافہ ہوا تھا اور اب مجموعی طور پر چارارب نوے کروڑ افراد آن لائن رسائی رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کورونا وبا کے تناظر میں لوگوں نے انٹرنیٹ سے رابطہ کیا اور اپنی معلومات میں اضافہ کیا۔
اس اضافے پر اقوامِ متحدہ نے مسرت کا اظہار کیا ہے۔ لیکن اسی وبا نے عالمی انٹرنیٹ خلیج یا ڈجیٹل ڈیوائڈ کو بھی واضح کیا ہے۔ اس سے بچے اور اساتذہ بالخصوص متاثر ہوئے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ صورتحال مزید مشکل ہوگئی اور لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوا۔
حیرت انگیز طور پر امریکہ کے پسماندہ اور غریب ترین علاقوں میں بھی لاکھوں بچے اور ان سے وابستہ اساتذہ بھی ہارڈویئر اور انٹرنیٹ سے دور تھے۔ اس طرح لاکھوں کروڑوں بچوں کا بہت زیادہ تدریسی نقصان ہوا ہے اور مزید ہورہا ہے۔