ناپاک جسارتوں کا یہ سلسلہ کب رکے گا
یہ سوال پاکستان بننے کے بعد سے لے کرآج تک توہین کے ہر واقعے کے بعد پاکستانی مسلمانوں کو ذہنی طور پر مضطرب کرتا ہے
لاہور:
میں حیران ہوں کہ آخر کیوں کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان میں روز کوئی نہ کوئی بد بخت و ملعون توہین رسالت، توہین صحابہ کرام ، توہین شعائر اﷲ اورتوہین کلام اﷲ کا ارتکاب کرتا ہے اور آخر کیوں ایسی ناپاک جسارتوں کے مرتکب ملعون سخت قوانین ہونے کے باوجود سزاؤں سے بچ جاتے ہیں،آج تک کسی ایک کو سزا نہیں ملی؟
یہ سوال پاکستان بننے کے بعد سے لے کرآج تک توہین کے ہر واقعے کے بعد پاکستانی مسلمانوں کو ذہنی طور پر مضطرب کرتا ہے۔ اس معاملے سے ریاست کی ( بلا تفریق حکمران وقت) مسلسل لاتعلقی اور چشم پوشی نے پاکستانیوں کو انتہائی پر تشدد اور المناک رویہ اپنانے پر مجبور کردیا ہے کہ جہاں، جو اور جب بھی توہین کا مرتکب ملے خود عدالت، جج اور قانون بن جاؤ۔ اورجس سے بعض اوقات مزید اذیت ناک حادثات جنم لیتے ہیں۔
اب آتے ہیں چند دن پہلے ضلع چارسدہ کی تحصیل تنگی کے علاقے مندنی میں قرآن پاک جلائے جانے کے دل دہلا دینے والے واقعہ اور اس کے رد عمل میں جنم لینے والے اس سے بھی بڑے حادثے کی طرف۔ واقعہ کے مطابق ایک بد بخت اور ملعون شخص نے قرآن مجید فرقان حمید کے نسخے کو جلا کر شعائر اللہ کی توہین کا مرتکب ہوا اوراپنے اس ناپاک عمل سے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے دلوں میں خنجر پیوست کردیا۔
اس پر جس مسلمان نے درد، غم، رنج اور دکھ کا اظہار نہیں کیا اس کے ایمان پر شک ہی کیا جاسکتا ہے اور شکر الحمدللہ مسلمان بحیثیت مجموعی شعائر اللہ کی توہین کو اپنی ذات، اولاد اور ابا و اجداد کی توہین سے ارب ہا درجہ زیادہ مشتعل ہوتے ہیں جو عین ایمان کی نشانی ہے۔ مندنی کے کیس میں پولیس نے مبینہ ملزم کو گرفتار کرلیا ہے لیکن اس واقعہ کی خبر جنگل میں لگی آگ کی طرح پورے علاقے میں پھیل گئی اور مندنی تھانہ کے باہر ہزاروں افراد پہنچ گئے۔ پولیس نے حالات قابو سے باہر ہوتے دیکھ کر ملزم کو وہاں سے کسی نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
مشتعل عوام کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کے شیل استعمال کیے جس سے کئی مظاہرین زخمی ہوگئے۔ پولیس فائرنگ کی خبر نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور احتجاج دوسرے علاقوں میں بھی پھیل گیا، سیکڑوں مشتعل مظاہرین نے زیم، جمال آباد، شکور اور ڈھکی میں پولیس چوکیاں نذر آتش کر ڈالیں۔ اگر جید علماء مظاہرین کو نہ روکتے تو یہ احتجاج پورے ملک میں پھیل سکتا تھا۔
ریاست اگر ماں نہیں تو ماں جیسی ضرور ہوتی ہے۔ بچہ جب بھی اذیت، تکلیف اور کسی آزمائش میں ہوتا ہے تو ماں کی طرف مدد کے لیے لپکتا ہے اور ماں بچے کو اپنے سینے سے لگا کر اس کو تسلی دے کر احساس دلاتی ہے کہ آپ پر کیے گئے جبر کے خلاف آپ کے ساتھ ہوں اور جب بچہ تھوڑا سا نارمل ہوجائے تو اس کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے اور اگر بچے میں کوئی غلطی ہو تو طریقے سے نشاندہی کرکے اس کی تربیت بھی کرتی ہے۔ اب اگر ہر بار ماں اپنے مظلوم بچے سے لاتعلقی کا مظاہرہ کرے تو بچہ ماں سے بھی باغی ہوگا اور انتقام لینے پر اتر آئے گا۔
یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ توہین جیسے حساس معاملات میں مسلسل بے رخی اور مصلحت کے تاثر نے عوام کو ریاستی اداروں سے اتنا مایوس کردیا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ میں لینے اور خود سزا دینے پر تل جاتے ہیں، اس جذباتی کیفیت میں اپنا سر ہتھیلی پر رکھ کر نکلتے ہیں، اب جو بندہ خود مرنے کے لیے تیار ہو اسے روکنے کے دو طریقے ہیں۔ اول یہ کہ بلا تاخیر اور حادثے کا انتظار کیے بغیر حکمت کے ساتھ انکو مطمئن کیا جائے اور ان کو یقین دلایا جائے کہ ملزم کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
اس آپشن کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد میں اہلیت اور درد دل اولین شرط ہے مگر بدقسمتی سے اس کا فقدان ہے۔ دوم یہ کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خاموشی اختیار کرکے احتجاج کو حادثے میں بدل دیں تاکہ سانحہ رونما ہوجائے ، جو ہمیشہ بنیادی حادثے سے بڑے حادثے کو جنم دینے کا باعث بنتا ہے۔
اس واقعے میں بھی یہی ہوا کہ مظاہرین پولیس سے مبینہ ملزم کی حوالگی کا مطالبہ کرنے لگے، مناسب طریقے سے مذاکرات نہ کرکے وقت ضایع کیا گیا اور اتنے میں کچھ شر پسند احتجاج میں شامل ہوگئے اور ایک پر امن احتجاج کو تشدد کی طرف لے گئے۔ مطالبات نہ ماننے کی آڑ میں احتجاج میں شامل شرپسندوں نے تھانے پر دھاوا بول دیا، تھانے کی دیوار اور گیٹ گرا دیے اور اندر داخل ہوگئے۔ چند مشتعل افراد نے تھانے میں ریکارڈ ، کھڑی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو آگ لگا دی۔
جب آگ لگتی ہے تو ہر چیز کو جلا دیتی ہے مذکورہ تھانے کا تمام عملہ مسلمان اور یقیناً مجھ جیسے کمزور مسلمانوں سے بہتر مسلمان ہوںگے، وہ نماز بھی پڑھتے ہوں گے، تلاوت بھی کرتے ہونگے، خیبرپختون خواہ کے اکثر تھانوں میں مسجد ہوتی ہے جس میں نماز باجماعت اور رمضان میں نماز تراویح کا باقاعدہ اہتمام ہوتا ہے۔
مسجد میں قرآن پاک کے نسخے بھی رکھے ہوتے ہیں، قرآن کی بے حرمتی پر احتجاج کرنے والے کیسے خود ان ناپاک جسارت کا ارتکاب کرسکتے ہیں؟ لیکن مبینہ طور پر جب مشتعل مظاہرین نے تھانے کو آگ لگائی تو وہاں موجود قرآن پاک کے نسخے بھی اس آگ کی لپیٹ میں آگئے۔ اگر کسی نے جان بوجھ کر آگ لگائی وہ اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتا، اگر قرآن کی بے حرمتی پر سراپا احتجاج بننے والے کسی مسلمان سے غیر دانستہ لگی تو وہ ساری زندگی اپنے اس فعل پر نادم رہے گا اور ضمیر کا قیدی بن کر موت کی آغوش میں چلا جائے گا۔ اللہ مقلب القلوب ہے اور وہ نیتوں کو جانتا ہے۔
پولیس نے اس احتجاج پرجن افراد کے خلاف ایف آئی آر کاٹی، ان میں جے یو آئی کے امیدوار برائے تحصیل ناظم حاجی دانشمند اور قومی وطن پارٹی کے امیدوار برائے تحصیل ناظم بھی شامل ہیں، 78افراد کو پر تشدد احتجاج کے الزام میں گرفتار کرکے جیل بھیجا جا چکا ہے۔ میری تحقیق کے مطابق ان افراد میں شاید دو یا تین ایسے افراد ہوںگے جو اس شرپسند ی کے مرتکب ہوئے جب کہ اکثریت ان مشران کی ہے جو لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے سے منع کر رہے تھے۔
مظاہرین سے مذاکرات کے لیے ایم پی اے خالد مہمند، جے یو آئی رہنما مفتی گوہر علی شاہ اور ابراہیم مہمند پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی تادم تحریر مذاکرات کا عمل شروع ہوچکا تھا۔ ممکن ہے جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں مذکراتی عمل کسی نتیجہ پر پہنچ چکا ہو۔ اس وقت جتنے لوگ گرفتار ہیں ان میں سے2یا3 شرپسند ہوں گے ، باقی لوگ علاقے کی سرکردہ شخصیات ہیں، جو پر امن احتجاج تو کر رہے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ ان شر پسندوں کو بھی روک رہے تھے جو جلاؤ گھیراؤ پر تلے ہوئے تھے۔
انتظامیہ کے پاس سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہوگی، جس کی بنیاد پر شرپسندوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جاسکتا ہے اور بے گناہوں کو رہائی دی جاسکتی ہے، اگر انتظامیہ گھن کے ساتھ گیہوں کو بھی پیسنے کی کوشش کرے گی تو اس سے علاقے میں اشتعال مزید پھیل سکتا ہے۔
چارسدہ میں جب حالات پر قابو نہ پایا جاسکا تو رات گئے ضلعی انتظامیہ کے افسران نے علاقے کے جید علماء مولانا سید گوہر شاہ، شیخ الحدیث مولانا محمد ادریس، مفتی عبداللہ شاہ اور پیر مفتی گوہر علی شاہ سے رابطے کرکے انھیں مشتعل مظاہرین سے بات چیت کرنے کے لیے آمادہ کیا، مفتی گوہر علی تو خود مظاہرین کے پاس گئے اور انھیں آمادہ کیا۔ پولیس کا موقف ہے کہ گرفتار ملزم کا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔
اب یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی کہ اس پاگل نے اپنے پاگل پن کا مظاہرہ کرنے کے لیے قرآن پاک کی توہین کا انتخاب کیوں کیا؟ یہ اتنا نازک اور حساس مسئلہ ہے کہ اس کی پوری تحقیق ہونی چاہیے کہ اس کی اس قبیح حرکت کا محرک کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا تھے۔ یہ بندہ مقامی نہیں اور جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا ہے وہاں کے پختون مسلمان راسخ العقیدہ اور بہت جذباتی ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ کسی سازش کے تحت لا اینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا کرنے کے لیے دشمن کا پلان ہو۔
ہمارے ہاں عموماً دیکھا گیا ہے لوگ امریکا یا مغربی ممالک کا ویزہ حاصل کرنے کے لیے بھی گھناؤنی حرکات کرتے ہیں، خصوصاً ناپاک جسارتوں میں ملوث مجرموں کو یہ ممالک پناہ دے سیاسی پناہ دیتے ہیں۔
پاکستان کے غیور مسلمان اپنے دین کے معاملے میں بڑے حساس ہیں، وہ سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں، شعائر اسلام کی توہین برداشت نہیں کرسکتے۔ یہی وجہ ہے جب جب اس ملک میں دینی حوالے سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی اور وہ سراپا احتجاج بن کر حکمرانوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جھنجھوڑ تے رہے، ریاستی اداروں کے دروازوں پر دستک دیتے رہے تاکہ قانون حرکت میں آئے لیکن انھیں ہمیشہ مایوس کیا گیا۔
ہر ذیشعور پاکستانی تشویش میں مبتلا ہے کہ آخر کب ناپاک جسارتوں کا یہ غلیظ سلسلہ رکے گا؟خدارا اب ریاست اپنی روش بدل کر اس کو روکے۔ اگرایسی ناپاک جسارتوں کے معاملات میں قانون کے مطابق انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا جائے تو کوئی مشتعل ہوکر قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی جرات نہیں کرے گا۔ اس واقعہ کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جائے اور اس کی تمام پہلوؤں پر باریک بینی سے تحقیقات کی جائیں، یہی وہ راستہ ہے جو ناصرف ایسی ناپاک جسارتوں کا راستہ روک سکتا ہے بلکہ لوگوں کو بھی قانون ہاتھ میں لینے سے روکے گا ، بس انصاف ہوتا ہوا نظر آئے۔