فورٹ ولیم کالج اور اردو نثر نگار

10جنوری 1600 میں ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کے لیے آئی بعد ازاں سندھ پر حکومت کرنے کی ٹھانی

10جنوری 1600 میں ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کے لیے آئی بعد ازاں سندھ پر حکومت کرنے کی ٹھانی

کراچی:
فورٹ ولیم کالج کے قیام کا اصل مقصد تھا کہ انگریز یہاں کی زبانیں سیکھ کر رسم و رواج تہذیب و ثقافت سے واقف ہوکر اہل ہند پر برتری حاصل کرسکیں۔ انگریزوں کو پڑھانے کے لیے ایک طرف اردو نثر میں اضافہ بھی ہوا اور اردو نثر میں سادگی، سلاست، عام فہم نثر نگاری کا ایک رجحان پیدا ہوا۔ بالواسطہ طور پر اس کالج نے اردو نثر کی ترقی اور فروغ میں بھی کردار ادا کیا۔

10جنوری 1600 میں ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کے لیے آئی بعد ازاں سندھ پر حکومت کرنے کی ٹھانی۔ انگریز آہستہ آہستہ اپنی جڑیں گاڑتا رہا وہ چاہتا تھا پورے ہندوستان پر راج کرے شروع میں وہ بنگال، کلکتہ، بنارس تک کامیاب ہوا تھا مزید کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے کوشاں تھا وہ چاہتا تھا مکمل طور پر ہند پر حکومت کرسکے اس طرح آج کے دور میں جدید تحقیقات کو سمجھے مغربی طاقتوں اور اس کی جدید تخلیقات کو سمجھنے کے لیے ہمیں مغربی زبان و فن سیکھنا لازمی ہے۔

اسی طرح فورٹ ولیم کالج شمالی ہند کا وہ پہلا ادبی اور تعلیمی ادارہ ہے جہاں اجتماعی حیثیت سے ایک واضع مقصد اور منظم ضابطہ کے تحت ایسا کام ہوا جس نے اردو زبان و ادب کی خدمت کی۔ اس کالج کے ماتحت جو عملی او ادبی تخلیقات ہوئیں جہاں وہ ایک طرف عملی و ادبی حیثیت سے بڑی اہمیت رکھتی ہیں تو دوسری طرف اس کی اہمیت وافادیت اس بنا پر بھی ہے کہ ان تخلیقات اردو زبان و ادب کے مستقبل کی تعمیر نو میں حصہ لیا ۔

19اپریل 1778 میں گورنر جنرل لارڈ ویزل جب ہندوستان آیا وہ اپنا عہدہ سنبھالتے ہی یہاں کے نظم و نسق کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ انگلستان سے جو نئے ملازمین ایسٹ انڈیا کمپنی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے آتے ہیں وہ کسی منظم و باقاعدہ تربیت کے بغیر اچھے کارکن نہیں بن سکتے۔ گورنر جنرل لارڈ ویزل کے نزدیک ان ملازمین کی تربیت کے دو پہلو تھے۔پہلا یہ کہ ان نوجوان ملازمین کی عملی قابلیت میں اضافہ کرنا، اور دوسرا ان کو ہندوستانیوں کے مزاج اور ان کی زندگی کے مختلف شعبوں، ان کی زبان اور تاریخ سے واقفیت دلانا تھا۔

پہلے زبان سیکھنے کے لیے انگریز افسران کو خاص محاصل دی جاتی لیکن اس سے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوئے لہٰذا لارڈ ویزل نے ضروری سمجھا کہ انگریزوں کو یہاں حکومت کرنی ہے تو کمپنی کے ملازمین کا مقامی زبانوں ، ماحول سے آگا ہ ہونا ضروری ہے۔

یکم جنوری1799 ڈاکٹر جان گلکرائسٹ کی سربراہی میں ایک مدرسہ قائم کیاگیا جو بعد میں فورٹ ولیم کالج کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ گورنر جنرل لارڈ ویزل نے 10جولائی 1800 میں فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے قیام کا اعلان کیا۔ درس و تدریس کا سلسلہ 10نومبر 1800 سے شروع ہوا لیکن لارڈ ویزل کا حکم تھا کہ ترسیل 4 مئی 1800 تصور کی جائے۔ ڈاکٹر جان گلکرائسٹ ایک شعبہ مغربی علوم تصنیف و تالیف درس و تدریس کا مقرر کیا جو 13اگست 1800 سے 23نومبر1804 تک اپنی خدمات انجام دیتا رہا۔

اس کالج میں مختلف شعبے بنائے گئے اس میں اردو نثر کے علاوہ اسلامی فقہ، ہندو دھرم، اخلاقیات، قانون، معاشیات، جغرافیہ، ریاضی، تاریخ، فزکس ، کیمسٹری وغیرہ کے شعبے قائم کیے گئے۔ زبانوں کی تجویز کے لیے ہندوستانی زبانوں کے علاوہ عربی، فارسی، ہندی، سنسکرت ، مرہٹی، کنڑ، بنگالی و دیگر ہندوستانی شعبہ قائم کیے لیکن جو شعبہ سب سے زیادہ مشہور ہوا وہ اردو کا شعبہ تھا جس کو ہندوستانی شعبہ کا نام دیاگیا۔


ڈاکٹر جان گلکرائسٹ کو اردو زبان سے زیادہ محبت تھی وہ جب ہندوستان آئے نہ صرف اردو سیکھی بلکہ کئی کتب تصنیف کیں چوں کہ وہ فورٹ ولیم کالج میں ہندوستانی زبانوں کے سربراہ تھے لہٰذا پورے ہندوستان سے قابل افراد جمع کیے ان کو بحیثیت منشی ملازم کیا اور فارسی کی داستانوں کے تراجم کا کام جا ری رہا۔ چند تراجم سنسکرت دیگر بھاشا کے بھی ہوئے لیکن زیادہ تراجم فارسی سے اردو میں ہوئے۔ اخلاقیات، تاریخ کے موضوعات پر بھی کتب کا ترجمہ ہوا۔

فورٹ ولیم کالج میں ڈاکٹر جان گلکرائسٹ نے 46 (چھیالیس) منشی اور ہیڈ منشی تعینات کیے ان کو ماہانہ تنخواہ فورٹ ولیم کالج پابندی سے ادا کرتا۔ میرامن دہلوی کو اچھی کارکردگی پر جان گلکرائسٹ نے 500 پانچ سو روپے انعام دلوایا جب کہ ان کی چار سو روپے ماہانہ محاصل تھی۔

منشی میر امن دہلوی نے فورٹ ولیم کالج میں دو کتابیں لکھیں 1۔ باغ و بہار2۔ کنج خوبی۔ باغ و بہار قصّہ چہار درویش فارسی کا اردو ترجمہ اور ملا واعظ حسین کاشفی کی فارسی کی کتاب کا اردو ترجمہ گنج خوبی کے نام کیا۔ ہیڈ منشی سید حیدر بخش حیدری نے دس کتابیں لکھیں امین آرائش محفل جو قصّہ حاتم طائی کا اردو ترجمہ ہے، طوطا کہانی جو فارسی داستان کا اردو ترجمہ، قصّہ لیلیٰ مجنوں اور قصہ مہرو ماہ یہ فارسی کی داستانیں ہیں ان کا بھی اردو میں ترجمہ کیا۔ گل مغفرت، تاریخ قادری، نادر نامہ فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا۔

گلزار داس کے نام سے بھی بہار درش کا تجرمہ کیا۔ میر بہادر علی حسینی یہ ہیڈ منشی تھے ان کی مختلف تصانیف مشہور ہیں۔ سحر البیان کا نثری ادب ہے، میر حسن کی مثنوی سحر البیان انھوں نے نثر بے نظیر میں بیان کیا۔ اخلاق ہندی ان کی کتاب ہے جو مفرح القلوب کا ترجمہ ہے اور ترجمہ تاریخ آسام فارسی میں اس کا اردو ترجمہ میر بہادر علی حسینی نے کیا۔

نہال چند لاہوری نے فارسی زبان میں قصّہ گل بکاؤلی کا اردو ترجمہ رمز عشقکے نام سے کیا۔ پنڈٹ دیاشنکر نے مثنوی گلزار نسیم کو نظم میں بیان کیا۔ مرزا کاظم علی جواں نے کالی داس کے سنسکرت ناٹک شکنتلہ کا اردو میں ترجمہ کیا۔ مظفرعلی خان ولا نے قصّہ مادھومل اور کنڈلا کا اردو میں ترجمہ کیا بنیادی طور پر یہ داستان سنسکرت کی ہے۔ سنسکرت سے برج بھاشا میں پھر اردو میں ترجمہ کیا۔ مطہر علی خاں ولا نے قوروتواریخ کا ترجمہ آرائیں محفل کے نام سے کیا۔ گلستان سعدی کا باغ اردو کے نام سے ترجمہ بھی کیا۔ جلیل علی خان عشق نے چار کتابیں لکھیں ۔

داستان امیر حمزہ ، اکبر نامہ، گلزار چین، رسالۂ کائنات نے اردو میں ترجمے کیے۔ للو لال قومی سنسکرت داستان سنگھاسن کا اردو ترجمہ کیا پریم ساگر کے نام سے بھی کتاب شامل ہے۔

مندرجہ بالا کے علاوہ فورٹ ولیم کالج میں دیگر مصنفین کے نام شامل ہیں مولوی اکرام علی، مرزا علی لطف ، مولوی امانت اﷲ ، مرزا جان ، سعید حیدر الدین بہاری، مرزا احمد عطرت ،تارمی چند متر، مثل کندن لال، طوطا رام، گھنشام داس، مقبول احمد خان، مہر علی شوق ، رام چندر، کوپی لال ، سیال الدین ہمدم، رضی الدین خیال ان کے علاوہ دیگر شامل ہیں کیا خوب بات ہے فورٹ ولیم کالج اپنے اقتدا کے لیے قائم کیا لیکن یہ اردو نثر کی سادگی میں اس کا کردار ہے۔
Load Next Story