نرمی نہیں تبدیلی
خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات نے اپنے قوانین پر نظر ثانی کرتے ہوئے کئی قوانین میں رد و بدل اور نرمی برتی ہے
خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات نے اپنے قوانین پر نظر ثانی کرتے ہوئے کئی قوانین میں رد و بدل اور نرمی برتی ہے اور یہ خلیجی ریاست کی تاریخ میں سب سے بڑی قانونی اصلاحات ہیں۔ ان کو ''اصلاحات'' کا نام دیا گیا ہے۔ اگرچہ ان اصلاحات کی تفصیلات ''ابھی آ رہی ہیں'' مگر جن اصلاحات سے پردہ اٹھ گیا ہے۔
ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلاحات کے نام پر عرب دنیا جس روشن خیالی کی دنیا میں قدم رکھ رہی ہے دراصل یہ اصلاحات اسی کا حصہ ہیں۔ جن اصلاحات کی جھلکیاں فی الحال سامنے آئی ہیں ان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اصلاحات کے نام پر عرب دنیا کو اس کے اسلامی تشخص کو خدا حافظ کہنے کی پوری تیاری کرلی گئی ہے۔ قانونی اصلاحات سے قبل ماورائے قانون ایسے اقدامات کیے جاچکے ہیں جو ہوا کا رخ متعین کرتے ہیں۔
یہ شاید پچھلے سال کی بات ہے کہ متحدہ عرب امارات کی روشن خیال قیادت نے اپنے علاقے میں مندر کی تعمیر کی نہ صرف اجازت دے دی بلکہ اس کے لیے ہر قسم کی سہولیات بھی فراہم کیں۔ حکمرانوں میں سے ایک قابل ذکر شخصیت نے مندر کی تعمیر کے ایک جلسے میں نہ صرف شرکت کی بلکہ ایک تقریر بھی کی تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ ریاست کے روشن خیال حکمران اب اپنے یہاں کام کرنے والوں کے مفادات کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ اور اس طرح بھارت کو خوش کرکے اپنے اقتصادی مفادات کو محفوظ کرلیا کہ بھارت متحدہ عرب امارات کی اقتصادی ترقی کے اہم ارکان میں سے ایک ہے۔
اس کا ایک انتہائی افسوس ناک پہلو یہ بھی تھا کہ مقرر موصوف نے ''جے شری رام'' کے مفہوم اور اس کے نتائج کو سمجھے بغیر اپنی تقریر بسم اللہ کے بجائے جے شری رام سے شروع کرکے بھارت کے ہاتھ میں مسلم کشی کا ہتھیار دے دیا۔
بھارت سے مسلسل خبریں آ رہی ہیں کہ وہاں بے لگام ہجوم کسی بے یار و مددگار مسلمان کو پکڑتا ہے اور اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ ''جے شری رام کا نعرہ لگاؤ'' اور اگر وہ نہیں لگاتا تو اس پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ اب کیا ان دہشت گردوں کے ہاتھ میں یہ ہتھیار بھی نہیں لگ گیا ہے کہ بھارتی مسلمانوں سے کہا جائے کہ امارات کے مسلمان تم سے پہلے کے اور تم سے اچھے مسلمان ہیں اب اگر وہ جے شری رام بول سکتے ہیں تو تم کیوں نہیں منہ سے پھوٹتے۔ جب یہ واقعات رونما ہوئے تھے تو اسی وقت بھارت ہی میں نہیں خود امارات میں بھی مسلمانوں کے مستقبل پر انا للہ پڑھ لی گئی تھی اور ملت کے بہی خواہ ماتم کناں رہے تھے۔
اب قوانین میں جو تبدیلیاں اور ''نرمیاں'' لائی گئی ہیں وہ چلا چلا کر کہہ رہی ہیں کہ کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں۔ معاملہ اب صرف بھارت کو خوش کرنے سے آگے بڑھ کر تمام ایسی طاقتوں کو خوش کرنے تک پہنچ گیا ہے جو اسلام کے کسی اصول کو نافذ اور کسی عقیدہ پر عمل پیرا ہونے کے سخت خلاف ہیں۔
بات اسلامی فوبیا کی نہیں ہے۔ اسلام فوبیا ایک گھڑی ہوئی بات ہے۔ دراصل یہود، ہنود اور اہل صلیب اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام کی تعلیمات ایسے عقائد پر استوار ہیں کہ اگر وہ معاشرے پر اثر انداز ہوئے تو ان کے نظریات، عقائد اور طرز حیات کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہے گی اس لیے وہ اسلام کو کسی طور، کسی جگہ سر اٹھانے کی مہلت نہیں دینا چاہتے۔
اب چند سالوں سے ان کا فلسفہ یہ رہا ہے کہ اسلام جن علاقوں میں وجود میں آیا اگر ان علاقوں میں ہی اسے غیر ضروری قرار دلا دیا جائے تو باقی دنیا کے مسلمانوں سے یہ مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ تمہارے مادری ملکوں میں جب اسلام کی شکل مسخ ہو چکی ہے تو تم کس بات پر اتراتے ہو؟ عربی الاصل ملکوں میں اسلام کی نئی صورت گری کی یہ خواہش دراصل ان اقوام کی مسلم دشمنی کی بدترین شکل ہے۔
اب ذرا وہاں ''قانونی اصلاحات'' پر نظر ڈالیے۔ ان اصلاحات کی ابھی صرف پہلی قسط سامنے آئی ہے دیگر تفصیلات بالاقساط جاری کی جائیں گی تاکہ کوئی غیر معمولی ردعمل نہ ہو۔ لیکن پہلی قسط ہی مسلم معاشرے کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہے کیونکہ 40 قوانین میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں ان کے مقاصد پہلی قسط کے اجرا سے ہی آشکار ہوگئے ہیں کہ ابتدائی مرحلے میں شادی سے قبل جنسی تعلق کے قیام، شراب نوشی اور غیرت کے نام پر قتل جیسے قوانین میں ''نرمی'' پیدا کی گئی ہے۔ نرمی یہ ہے کہ اگر کوئی جوڑا شادی سے قبل جنسی تعلق قائم کرلے تو اب نئے قوانین کے تحت یہ جرم نہیں ہوگا، البتہ ایسے تعلق سے پیدا ہونے والے بچے کی ذمے داریوں سے لاتعلقی برتنے والے والدین پر فوج داری مقدمات قائم کرکے دو سال تک سزا دی جاسکے گی۔
ملاحظہ ہو کہ یہ زنا کو قانونی شکل دینے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے اور یہ ساری کارروائی ایک مسلم ملک میں اسلام کے نام پر کی جا رہی ہے کہ شادی سے پہلے جنسی تعلق قائم کرسکتے ہو اگر اس کے نتیجے میں بچہ پیدا ہوجائے تو البتہ اس کی پرورش اور نگہداشت کی ذمے داری قبول کرنا ہوگی۔
گویا یہ زنا میں ملوث جوڑے کی پیٹھ ٹھونکنا ہے کہ اگر تم اپنے ثبوت زنا کو اپنی گردن میں ڈال لو تو پھر ہمیں تمہارے اس فعل پر اعتراض نہ ہوگا، وگرنہ گویا آزادانہ جنسی اختلاط کو تسلیم کرلیا گیا اور انسانی ہمدردی کے طور پر ایسے بچوں کی نگہداشت و پرورش کی ذمے داری کسی رفاہی ادارے پر ڈالنے کے بجائے والدین پر ڈال دی گئی ہے اور اسے ایک اعلیٰ اخلاقی قدر بنا دیا گیا ہے۔
شراب کے لیے وہاں کے موجودہ قوانین کیا ہیں اس سے ہم آشنا نہیں اب ان میں ''نرمی'' کے کیا معنی ہوں گے ؟ کیا شراب میں ''عرق گلاب'' ملا کر اسے حلال کرنے کی کوشش کی جائے گی یا ''معمولی'' مقدار میں شوق کرنے کو جائز قرار دیا جائے گا۔ اس کی تفصیلات بھی آج کے اخبارات میں شایع نہیں ہو سکی ہیں، توقع ہے کہ دھیرے دھیرے، آہستہ آہستہ چیزیں سامنے لائی جائیں گی تاکہ ذہن ہر بات کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوتا جائے۔
ہمارے خیال میں تو وہاں کے ایک انتہائی چھوٹے مگر خوش حال اور خوش فکر معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل کا رواج پہلے ہی ختم ہو چکا ہے اس لیے اس تکلیف کی ضرورت ہی نہیں ہوگی یوں بھی ان معاشروں کے بارے میں حقائق مشکل ہی سے منظر عام پر آتے ہیں ویسے ان ممالک کے بارے میں غیرت کے نام پر قتل کی خبریں اس طرح تو عام نہیں جیسے ہمارے ملک میں ہیں خدا جانے وہاں کی صورت حال کیا ہے اور اس میں نرمی کیا رنگ لائے گی۔
ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلاحات کے نام پر عرب دنیا جس روشن خیالی کی دنیا میں قدم رکھ رہی ہے دراصل یہ اصلاحات اسی کا حصہ ہیں۔ جن اصلاحات کی جھلکیاں فی الحال سامنے آئی ہیں ان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اصلاحات کے نام پر عرب دنیا کو اس کے اسلامی تشخص کو خدا حافظ کہنے کی پوری تیاری کرلی گئی ہے۔ قانونی اصلاحات سے قبل ماورائے قانون ایسے اقدامات کیے جاچکے ہیں جو ہوا کا رخ متعین کرتے ہیں۔
یہ شاید پچھلے سال کی بات ہے کہ متحدہ عرب امارات کی روشن خیال قیادت نے اپنے علاقے میں مندر کی تعمیر کی نہ صرف اجازت دے دی بلکہ اس کے لیے ہر قسم کی سہولیات بھی فراہم کیں۔ حکمرانوں میں سے ایک قابل ذکر شخصیت نے مندر کی تعمیر کے ایک جلسے میں نہ صرف شرکت کی بلکہ ایک تقریر بھی کی تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ ریاست کے روشن خیال حکمران اب اپنے یہاں کام کرنے والوں کے مفادات کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ اور اس طرح بھارت کو خوش کرکے اپنے اقتصادی مفادات کو محفوظ کرلیا کہ بھارت متحدہ عرب امارات کی اقتصادی ترقی کے اہم ارکان میں سے ایک ہے۔
اس کا ایک انتہائی افسوس ناک پہلو یہ بھی تھا کہ مقرر موصوف نے ''جے شری رام'' کے مفہوم اور اس کے نتائج کو سمجھے بغیر اپنی تقریر بسم اللہ کے بجائے جے شری رام سے شروع کرکے بھارت کے ہاتھ میں مسلم کشی کا ہتھیار دے دیا۔
بھارت سے مسلسل خبریں آ رہی ہیں کہ وہاں بے لگام ہجوم کسی بے یار و مددگار مسلمان کو پکڑتا ہے اور اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ ''جے شری رام کا نعرہ لگاؤ'' اور اگر وہ نہیں لگاتا تو اس پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ اب کیا ان دہشت گردوں کے ہاتھ میں یہ ہتھیار بھی نہیں لگ گیا ہے کہ بھارتی مسلمانوں سے کہا جائے کہ امارات کے مسلمان تم سے پہلے کے اور تم سے اچھے مسلمان ہیں اب اگر وہ جے شری رام بول سکتے ہیں تو تم کیوں نہیں منہ سے پھوٹتے۔ جب یہ واقعات رونما ہوئے تھے تو اسی وقت بھارت ہی میں نہیں خود امارات میں بھی مسلمانوں کے مستقبل پر انا للہ پڑھ لی گئی تھی اور ملت کے بہی خواہ ماتم کناں رہے تھے۔
اب قوانین میں جو تبدیلیاں اور ''نرمیاں'' لائی گئی ہیں وہ چلا چلا کر کہہ رہی ہیں کہ کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں۔ معاملہ اب صرف بھارت کو خوش کرنے سے آگے بڑھ کر تمام ایسی طاقتوں کو خوش کرنے تک پہنچ گیا ہے جو اسلام کے کسی اصول کو نافذ اور کسی عقیدہ پر عمل پیرا ہونے کے سخت خلاف ہیں۔
بات اسلامی فوبیا کی نہیں ہے۔ اسلام فوبیا ایک گھڑی ہوئی بات ہے۔ دراصل یہود، ہنود اور اہل صلیب اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام کی تعلیمات ایسے عقائد پر استوار ہیں کہ اگر وہ معاشرے پر اثر انداز ہوئے تو ان کے نظریات، عقائد اور طرز حیات کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہے گی اس لیے وہ اسلام کو کسی طور، کسی جگہ سر اٹھانے کی مہلت نہیں دینا چاہتے۔
اب چند سالوں سے ان کا فلسفہ یہ رہا ہے کہ اسلام جن علاقوں میں وجود میں آیا اگر ان علاقوں میں ہی اسے غیر ضروری قرار دلا دیا جائے تو باقی دنیا کے مسلمانوں سے یہ مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ تمہارے مادری ملکوں میں جب اسلام کی شکل مسخ ہو چکی ہے تو تم کس بات پر اتراتے ہو؟ عربی الاصل ملکوں میں اسلام کی نئی صورت گری کی یہ خواہش دراصل ان اقوام کی مسلم دشمنی کی بدترین شکل ہے۔
اب ذرا وہاں ''قانونی اصلاحات'' پر نظر ڈالیے۔ ان اصلاحات کی ابھی صرف پہلی قسط سامنے آئی ہے دیگر تفصیلات بالاقساط جاری کی جائیں گی تاکہ کوئی غیر معمولی ردعمل نہ ہو۔ لیکن پہلی قسط ہی مسلم معاشرے کے ہوش اڑانے کے لیے کافی ہے کیونکہ 40 قوانین میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں ان کے مقاصد پہلی قسط کے اجرا سے ہی آشکار ہوگئے ہیں کہ ابتدائی مرحلے میں شادی سے قبل جنسی تعلق کے قیام، شراب نوشی اور غیرت کے نام پر قتل جیسے قوانین میں ''نرمی'' پیدا کی گئی ہے۔ نرمی یہ ہے کہ اگر کوئی جوڑا شادی سے قبل جنسی تعلق قائم کرلے تو اب نئے قوانین کے تحت یہ جرم نہیں ہوگا، البتہ ایسے تعلق سے پیدا ہونے والے بچے کی ذمے داریوں سے لاتعلقی برتنے والے والدین پر فوج داری مقدمات قائم کرکے دو سال تک سزا دی جاسکے گی۔
ملاحظہ ہو کہ یہ زنا کو قانونی شکل دینے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے اور یہ ساری کارروائی ایک مسلم ملک میں اسلام کے نام پر کی جا رہی ہے کہ شادی سے پہلے جنسی تعلق قائم کرسکتے ہو اگر اس کے نتیجے میں بچہ پیدا ہوجائے تو البتہ اس کی پرورش اور نگہداشت کی ذمے داری قبول کرنا ہوگی۔
گویا یہ زنا میں ملوث جوڑے کی پیٹھ ٹھونکنا ہے کہ اگر تم اپنے ثبوت زنا کو اپنی گردن میں ڈال لو تو پھر ہمیں تمہارے اس فعل پر اعتراض نہ ہوگا، وگرنہ گویا آزادانہ جنسی اختلاط کو تسلیم کرلیا گیا اور انسانی ہمدردی کے طور پر ایسے بچوں کی نگہداشت و پرورش کی ذمے داری کسی رفاہی ادارے پر ڈالنے کے بجائے والدین پر ڈال دی گئی ہے اور اسے ایک اعلیٰ اخلاقی قدر بنا دیا گیا ہے۔
شراب کے لیے وہاں کے موجودہ قوانین کیا ہیں اس سے ہم آشنا نہیں اب ان میں ''نرمی'' کے کیا معنی ہوں گے ؟ کیا شراب میں ''عرق گلاب'' ملا کر اسے حلال کرنے کی کوشش کی جائے گی یا ''معمولی'' مقدار میں شوق کرنے کو جائز قرار دیا جائے گا۔ اس کی تفصیلات بھی آج کے اخبارات میں شایع نہیں ہو سکی ہیں، توقع ہے کہ دھیرے دھیرے، آہستہ آہستہ چیزیں سامنے لائی جائیں گی تاکہ ذہن ہر بات کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہوتا جائے۔
ہمارے خیال میں تو وہاں کے ایک انتہائی چھوٹے مگر خوش حال اور خوش فکر معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل کا رواج پہلے ہی ختم ہو چکا ہے اس لیے اس تکلیف کی ضرورت ہی نہیں ہوگی یوں بھی ان معاشروں کے بارے میں حقائق مشکل ہی سے منظر عام پر آتے ہیں ویسے ان ممالک کے بارے میں غیرت کے نام پر قتل کی خبریں اس طرح تو عام نہیں جیسے ہمارے ملک میں ہیں خدا جانے وہاں کی صورت حال کیا ہے اور اس میں نرمی کیا رنگ لائے گی۔