عالمی سرمایہ داری اور اس کے طلسماتی کردار
معتبر بورژوا ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق آج سے 20 سال قبل دنیا کی کل دولت 156 کھرب ڈالر تھی
GABORONE:
معتبر بورژوا ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق آج سے 20 سال قبل دنیا کی کل دولت 156 کھرب ڈالر تھی جو اب بڑھ کر 514 کھرب ڈالر ہوچکی ہے۔ چین 120 کھرب ڈالر کا مالک اور امریکا 90 کھرب ڈالر کا مالک ہے۔ کل دولت کے دو تہائی کے مالک 10 فیصد لوگ ہیں۔ کل دولت کا 68 فیصد دولت رئیل اسٹیٹ میں ملوث ہے۔
یعنی کے ایک تہائی دولت کے مالک 90 فیصد عوام ہیں۔ چین اپنی دولت کا بیشتر رقم تجارتی مد میں امریکا اور جاپان میں استعمال کرتا ہے اور امریکا چین میں بل گیٹس اپنی بیشتر دولت چین میں لگایا ہوا ہے اس لیے کہ وہاں سستی مزدوری ہے۔ اس کے باوجود عالمی سرمایہ داری (یعنی سامراج) کو لالچ اور ہوس کی انتہا نہیں۔ وہ پسماندہ ملکوں کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ اور پسماندہ ممالک کے حکمران کمیشن، کک بیکس، پرسنٹ ایج کی خاطر عالمی سرمایہ داروں کے احکامات کی بجاآوری کرکے عوام کا آخری خون کا قطرہ بھی نچوڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں۔
عالمی سرمایہ داری اپنے کچھ ایسے امداد کے نام پر ادارے بنا رکھے ہیں کہ امداد کی بجائے جونک کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس قسم کے ادارے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، کنسورشیم، ڈبلیو ٹی او، نافٹا وغیرہ بنا رکھا ہے۔ حال ہی میں ہمارے حکمران عوام کو بھوکا مارنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں اور آئی ایم ایف کے تمام احکامات کی بجاآوری کرچکے ہیں۔ جن میں پٹرولیم لیوی 4 روپے ماہانہ بڑھا کر 30 روپے تک لے جائیں گے، 350 ارب کی ٹیکس چھوٹ واپس لے لی جائے گی ترقیاتی بجٹ میں 200 ارب کی کٹوتی کی جائے گی، تمام اشیا پر 17 فیصد جی ایس ٹی لیا جائے گا اور بجلی فی یونٹ5 روپے کا اضافہ کرنا ہوگا۔ پاکستان جب وجود میں آیا تو عالمی مالیاتی اداروں سے ابھی قرض لینا شروع نہیں کیا تھا، اس وقت 3 روپے کا ایک ڈالر تھا۔
1971 میں چاول50پیسے کلو تھا جو اب 170 روپے کلو ہے۔ تنخواہیں یا آمدنی مہنگائی کے اعتبار سے نہیں بڑھیں۔ حکومت کا اعلان کردہ ایک غیر ہنرمند مزدور کی کم از کم تنخواہ 25000 روپے ہے جوکہ 90 فیصد مزدوروں کو نہیں ملتی۔ ہنرمندوں کو 25 یا 30 ہزار روپے سے زیادہ تنخواہ میسر نہیں۔ اس شدید مہنگائی میں عوام کا جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ مہنگائی سے تنگ آ کر عوام گداگری، چوری چکاری، ڈکیتی، عصمت فروشی، خودکشی، چھینا جھپٹی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب حکمرانوں کی شاہ خرچیاں، کھربوں روپے آف شور کمپنیوں میں خفیہ طور پر جمع رکھنے، ہر چیز درآمد شدہ فروخت کرنا، غیر ملکی دوروں پر کروڑوں روپے خرچ کرنا، پرتعیش ساز و سامان مغرب سے درآمد کرنا، علاج اور تعلیم امریکا اور یورپ سے حاصل کرنا، اسمبلی ممبران کی تنخواہوں میں ہر سال اضافہ کرتے رہنا، ہزاروں لاکھوں ایکڑ زمین کوڑیوں کے مول خرید کر اپنی ملکیت بنانا حسب معمول کا عمل ہو گیا ہے۔ دوسری جانب بھوک، لاعلاجی، افلاس، قرضوں، بے گھری، بے روزگاری اور مہنگائی سے تنگ آ کر روزانہ سیکڑوں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں۔
ایک جانب ایک شخص500 روپے کی سگریٹ کی ایک ڈبی خریدتا ہے تو دوسری طرف سارا دن مزدوری کرکے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے 500 روپے نہیں کما پاتا۔ آئی ایم ایف اور دفاعی اخراجات ہمارے لیے وبا ہیں۔ ہم اگر یہ کہیں کہ عالمی مالیاتی قرضوں کو خیرباد کہیں یا انھیں بحق سرکار ضبط کرلیں۔ اس لیے بھی کہ جتنا قرضوں کا سود ادا کرچکے ہیں وہ لیے گئے قرضوں سے زیادہ ہیں۔
فوراً سوال اٹھے گا کہ آئی ایم ایف سے قرضے نہ لیں تو معیشت کیسے چلے گی۔ یہی ہوگا کہ سڑکوں پر کاریں نظر نہیں آئیں گی، بسوں سے گزارا ہوگا یا سائیکلوں سے۔ بڑی بڑی سپر مارکیٹوں سے آن لائن سودا نہیں حاصل کرپائیں گے، چھوٹی چھوٹی پرچون فروشوں سے گزارا ہوگا بجلی نہ ہونے سے ہاتھ سے کپڑا دھونا پڑے گا۔ آج سے زیادہ نہیں 50 سال قبل گھروں میں واشنگ مشین تھی، فریج تھا، ٹی وی تھا اور نہ گھر گھر موٹر سائیکلیں۔ زندگی پرتعیش نہیں تھی مگر سادگی سے لبریز۔ بیماریاں بھی اتنی نہیں تھیں جتنی آج ہیں۔
اگر اپنے ملک کو جنگل بنا دیا جائے تو جنگلوں سے پھل، سبزی، شکار، لکڑی، بہتے ہوئے دریاؤں سے مچھلیاں خوب حاصل کرسکتے ہیں۔ جنگلوں کی بھرمار سے آکسیجن ملے گا، بیماریاں کم ہوں گی، بارشیں ہوں گی، سیلاب سے بچت ہوگی۔ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے نجات کا دوسرا راستہ مالیاتی قرضوں کو بحق سرکار ضبط کرلیا جائے۔ فوراً سوال اٹھے گا کہ پھر تو امریکا اور دیگر سامراجی ممالک معاشی بائیکاٹ کریں گے ۔ اگر بائیکاٹ کریں گے تو کم ازکم اتنا سامراجی غلبے کا بوجھ تو نہ رہے گا اور مہنگائی آسمان سے باتیں کرے گی۔
روس، چین، کیوبا، بولیویا، وینزویلا، شمالی کوریا، ایران، بیلاروس اور جن متعدد ممالک نے سامراجی مالیاتی اداروں کے قرضوں کو بحق سرکار ضبط کیا ہے وہ پائندہ ہیں اور معیشت بھی چل رہی ہے۔ اب ایسے اقدامات جتنے ہوتے جائیں گے سامراج مخالف قوتوں میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ جہاں تک ہمارے ملک میں حزب اختلاف کی سرگرمیاں ہیں وہ صرف ٹی وی ٹاک شوز اور تقاریر پر مبنی ہیں۔ عوام اپنے مسائل پر خود ہر روز احتجاج کرتے رہتے ہیں مگر حزب اختلاف اس پر بھی خاموش نظر آتی ہے۔
جیساکہ کراچی میںایک اسپتال کے ڈاکٹروں کو 11 ماہ سے تنخواہیں ادا نہ کرنے پر وہ پلے کارڈز اٹھائے دھرنا دے کر بیٹھے ہیں تو دوسری طرف ویکسینیٹرز جن میں بیشتر خواتین ہیں کو بھی تنخواہیں ادا نہ کرنے پر گورنر ہاؤس کے سامنے سڑک پر دھرنا دے کر بیٹھی ہیں۔ نرسیں بھی سڑکوں پر آنے کی تیاری کر رہی ہیں۔
اس طرح کے احتجاج آئے روز مزدور کسان طلبا، ڈاکٹرز، ہیلتھ ورکرز، اساتذہ، انجینئرز، ہاری کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کی صف میں حزب اختلاف نظر نہیں آتی۔ حزب اختلاف آئی ایم ایف، مہنگائی، بے روزگاری اور بے علاجی کے خلاف تقریر کرتی ہے اور ٹاک شوز میں بھی بولتی ہے۔ لیکن اس پر کوئی عملی اقدام نہیں کرتی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کم ازکم آئی ایم ایف اور مہنگائی کے خلاف ایک دن کا ملک گیر بنیادوں پر ہڑتال کا اعلان کرتی۔ حکومت نے صرف ایک ارب ڈالر کے عوض عوام کے سر پر مہنگائی کا پہاڑ گرا دیا ہے۔
اگر اس موقع پر حزب اختلاف کی جماعتیں کوئی ہڑتال کرتیں تو عوام الناس ان کا بھرپور ساتھ دیتی۔ اگر لانگ مارچ کے ذریعے حکومت کو ہٹانا ہے تو حزب اختلاف کو یہ اعلان کرنا چاہیے کہ وہ اقتدار میں آ کر آئی ایم ایف سے لاتعلقی اختیار کریں گے؟ اور دال، چاول، آٹا، چینی، تیل، گوشت، پٹرول، بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کتنی کمی کریں گے۔ عوام کو روزگار دیں گے؟ رہائش فراہم کریں گے؟ دفاعی اخراجات میں کمی کرکے تعلیم اور صحت کے بجٹ میں اضافہ کریں گے؟
حزب اختلاف ان مندرجہ ذیل مسائل کے حل کے لیے تجویز پیش کرکے میدان میں نکلیں اور بلاناغہ ہر چوک، سڑک، چوراہے، کھیتوں کھلیانوں، کارخانوں اور فیکٹریوں میں جاکر مہنگائی کے خلاف احتجاج کریں تو عوام ان کا بھرپور ساتھ دے گی ورنہ صرف یہ نعرے اقتدار کے حصول کے نعرے ہوں گے۔ ہرچند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی اسٹیٹ لیس سوسائٹی جوکہ محنت کشوں کا آزاد کمیون نظام پر مشتمل ہوگا اور ایک ایسا سماج ہوگا جہاں خوشحالی اور محبتوں کا راج ہوگا۔ ریاستیں ختم ہوکر دنیا ایک ہو جائے گی۔