بارِ گراں

کہتے ہیں کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے جو اپنے ایک ایک فرد کا خیال رکھتی ہے

کہتے ہیں کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے جو اپنے ایک ایک فرد کا خیال رکھتی ہے

ISLAMABAD:
کہتے ہیں کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے جو اپنے ایک ایک فرد کا خیال رکھتی ہے۔ اس کے دکھ، تکلیف، پریشانی، مسائل، مصائب و آلام کو دور کرنے کے لیے ماں جیسا کردار ادا کرتی ہے۔ دستور کے تحت ملک کے ہر ایک شہری کو تعلیم، صحت، روزگار اور رہائش فراہم کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔

ریاست کی دو بنیادی اور اہم ذمے داریوں میں شامل ہے کہ اول وہ شہریوں کو وہ تمام آئینی و قانونی حقوق فراہم کرے جو ایک آسودہ اور مطمئن زندگی گزارنے کے لیے لازم قرار دیے گئے ہیں۔ دوم یہ کہ تمام شہریوں کے جملہ آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے عدل و انصاف کا ایسا نظام متعارف کرائے جہاں ہر خاص و عام کو ایک جیسا انصاف میسر آئے۔ نظام انصاف کا شفاف ہونا معاشرے کے استحکام کی ضمانت ہوتی ہے۔ حضرت علیؓ کا قول صادق ہے کہ معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم و ناانصافی پر نہیں۔ بعینہ ایک مثالی فلاحی ریاست کے حوالے سے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ، جدید شہری نظام، پینے کے لیے صاف پانی کا انتظام، خوراک، رہائش، تعلیم، صحت اور باعزت روزگار کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمے داریوں میں شامل ہے۔

علاوہ ازیں اپنے شہریوں کے دیگر بنیادی مسائل جن میں بے روزگاری الاؤنس، معذوری الاؤنس، پنشن اور ضعیف العمری امداد جیسے اہم مسائل شامل ہیں ان کا حل تلاش کرنا بھی ریاست کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔ مزید برآں یہ کہ شہریوں کو سیاسی، سماجی اور معاشی انصاف کی فراہمی اور مذہب، عقیدہ، زبان، قومیت، رنگ و نسل و طبقاتی تفریق کا خاتمہ اور ایک پرسکون، آسودہ حال زندگی کے یکساں مواقع فراہم کرنا بھی ایک مثالی فلاحی ریاست کی ذمے داریوں میں شامل ہے۔

ایک عادل اور انسان دوست، ہمدرد، مخلص، انصاف پسند اور انسانیت کا درد رکھنے والے حاکم کو اپنی ذمے داریوں اور فرائض کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ کا معروف قول ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوک سے مرے گا تو اس کے لیے میں جواب دہ ہوں۔ اپنی رعایا کی ایک ایک حاجت پوری کرنا اور ضرورتوں کا خیال رکھنا حاکم وقت کی ذمے داری ہوتی ہے۔

کوئی بہانہ، کوئی دلیل، کوئی منطق، کوئی فلسفہ اور عذر اس ضمن میں قابل قبول نہیں ہوتا۔ اور جب حاکم وقت اول دن سے ریاست مدینہ کے قیام کے خواب دکھلانا شروع کردے تو عوام الناس کی امیدیں دوچند ہو جاتی ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے روح رواں وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل عوام کو ایسے سنہرے خواب اور سبز باغ دکھائے کہ جیسے ان کے اقتدار میں آتے ہی ایک نیا پاکستان جنم لے گا اور ریاست مدینہ کی طرز پر حکمرانی کا نیا رول ماڈل متعارف کروایا جائے گا۔


جہاں امیر و غریب سب کے لیے ایک قانون ہوگا، چھوٹے اور بڑے ہر وہ چور جس نے ملک کے وسائل اور قومی دولت کو لوٹا ان کا کڑا احتساب ہوگا، غریب و پسماندہ طبقے کو اوپر اٹھایا جائے گا ان کا معیار زندگی بلند کیا جائے گا، ماضی کے حکمرانوں نے قومی معیشت کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا کر اور آئی ایم ایف کی غلامی قبول کرکے ملک کو دیوالیہ کردیا ہے اور تحریک انصاف کی حکومت عالمی مالیاتی فنڈ کی غلامی کی زنجیروں کو کاٹ دے گی۔ غربت، مہنگائی و بے روزگاری کا خاتمہ کرنے کے لیے ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بنا کر دیے جائیں گے، عوام خوشحال اور ملک ترقی کرے گا۔

آج تحریک انصاف کی حکومت کو ساڑھے تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ وہ آج بھی ریاست مدینہ کے سحر سے باہر نہیں نکل سکی لیکن ملک اور عوام دونوں ان کے نئے پاکستان میں اپنی بقا اور زندہ رہنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ مسائل کی ڈور بجائے سلجھنے کے ایسے الجھتی جا رہی ہے کہ سرا تلاش کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔

مہنگائی کے عفریت نے ہر طبقے کو اپنے شکنجوں میں جکڑ رکھا ہے۔ روزمرہ استعمال کی اشیا عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ لوگوں کے گھروں میں غربت، بھوک، افلاس، ننگ، اور بیماری نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ نوبت خودکشیوں تک آچکی ہے۔

ایک بحران ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا بحران سر اٹھا لیتا ہے۔ کبھی آٹے کی قلت، کبھی چینی کا رونا، کبھی بجلی غائب، کبھی گیس ندارد، کبھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں برق رفتار اضافہ تو کبھی بجلی گیس کے ٹیرف میں بڑھوتری کی جاں بلب خبریں غرض آئے دن کوئی نہ کوئی نیا بحران جنم لے رہا ہے۔ عوام پاتال میں گرتے جا رہے ہیں۔ ان میں حکومت کے خلاف نفرت، غصہ اور بے چینی و اضطراب بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ بجائے مسائل کے ادراک اور ان کا قابل قبول حل تلاش کرنے کے ریاست مدینہ کے حکمران بودی دلیلوں کے سہارے خود کو بے قصور اور سابقہ حکمرانوں پر ملبہ ڈال کر عوام کو طفل تسلیاں دے رہے ہیں۔

موجودہ حکومت کے مشیر خزانہ آئی ایم ایف معاہدے کی کڑی شرائط پر بھی میٹھی گولیاں دے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف معاہدے پر ملکی معاشی ماہرین جن خدشات کا اظہار کر رہے ہیں مشیر خزانہ انھیں بے بنیاد قرار دیتے ہوئے حالات جلد کنٹرول کرنے کی پرانی تاویلیں پیش کر رہے ہیں کہ ٹارگٹڈ سبسڈی سے مہنگائی قابو میں آجائے گی۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق 7 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے اور طے شدہ شرائط کے مطابق آیندہ چند ماہ میں بجلی، تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنے سے مہنگائی کا طوفان جنم لے گا۔

برادر اسلامی ملک سعودی عرب سے سو ارب ڈالر کی امداد اپنی جگہ لیکن معاشی بحران سے جو امکانی منظرنامہ بنتا ہوا نظر آ رہا ہے اسے ملک اور عوام دونوں کے لیے اطمینان بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عوام میں مہنگائی کا مزید بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں اور نہ ہی ملک کو مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبانا دانشمندانہ طرز عمل قرار پائے گا۔ مناسب ہوگا کہ حکمران ملک اور عوام کو اس بارِ گراں سے نجات دلانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کریں۔
Load Next Story