انٹر کی داخلہ پالیسی میں بے قاعدگیاں کمپیوٹر سائنس میں میرٹ کم کرکے داخلے
میرٹ گرا کر سفارشی امیدواروں کو ایڈجسٹ کیا گیا، کالج پرنسپل، نشستیں بڑھا دی گئیں، بعض کالجوں میں گنجائش نہیں
ANKARA:
حکومت سندھ کے محکمہ کالج ایجوکیشن کی جانب سے کراچی کے سرکاری کالجوں میں انٹرسال اول کے داخلوں کے سلسلے میں کالج پرنسپلز کی شمولیت کے بغیر بنائی گئی داخلہ پالیسی میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں اور بدترین بدانتظامیوں کے معاملات سامنے آئے ہیں۔
کمپیوٹر سائنس فیکلٹی کے لیے دیے گئے داخلوں میں کراچی کے بعض بڑے اورتعلیم وتدریس کے حوالے سے اچھی شناخت رکھنے والے سرکاری کالجوں میں میرٹ کوکم کرکے داخلے دینے کا انکشاف ہواہے۔ اس بات کاانکشاف ''ایکسپریس''کی جانب سے کمپیوٹرسائنس کے داخلوں کے حوالے سے ان کالجوں کی میرٹ لسٹ کی جانچ پڑتال اوربعض پرنسپلز سے بات چیت میں ہوا۔
کراچی میں گزشتہ برس قائم کیے گئے کالج گورنمنٹ بوائز کالج غازی گوٹھ اسکیم 33میں ڈائریکٹرل جنرل کالجز سندھ کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی نے250طلبہ کوکمپیوٹرسائنس کی فیکلٹی میں داخلے دے ڈالے، اس کالج میں کمپیوٹرسائنس کا ایک ٹیچر بھی موجود نہیں، ذرائع دعوی کرتے ہیں کہ کالج میں کمپیوٹرکی لیب سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
''ایکسپریس''کے رابطہ کرنے پر کالج پرنسپل پروفیسرخالق راجپرنے 50 زائد طلبا کو داخلے دینے اور کالج میں کمپیوٹرٹیچرنہ ہونے کی بھی تصدیق کی۔ علاوہ ازیں مختلف سرکاری کالجوں میں اس سال نشستوں کی تعداد بڑھائی گئی ہے۔ آدم جی سائنس کالج میں نشستوں کی تعداد50 سے بڑھا کر153، اسلامیہ کالج میں 100سے 325،پی ای سی ایچ ایس فاؤنڈیشن میں 100سے 156،نیشنل کالج میں 50سے 211،جامعہ ملیہ کالج میں 100سے 235، اسی طرح دیگر کالجوں میں بھی نشستیں بڑھائی گئی ہیں۔ ایک کالج پرنسپل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ''ایکسپریس''سے گفتگومیں کہاکہ بعض سرکاری کالجوں میں میرٹ کم کرنے کے لیے ''کٹ آف مارکس''ہی گرادیے گئے ہیں۔
انھوں نے خاتون پاکستان کالج اورگورنمنٹ کالج ایس آر ای مجید اسٹیڈیم روڈ کی مثال دیتے ہوئے بتایاکہ خاتون پاکستان میں میرٹ 610پرختم کیاگیاہے جبکہ گزشتہ برس یہ میرٹ 688مارکس پر ختم ہوا تھا اسی طرح ایس آر ای مجید کالج میں میرٹ 611تک لے آئے ہیں یہ میرٹ گزشتہ برس 690 مارکس پر بند ہوا تھا۔
اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ کٹ آف مارکس کوگراکرسفارشی امیدواروں کومختلف کالجوں میں ایڈجسٹ کیاگیا ہے۔ ایس آر ای مجید کالج کے پرنسپل پروفیسرعقیل احمد نے رابطہ کرنے پر میرٹ کم ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں 250طلبا کی میرٹ لسٹ 611کٹ آف مارکس کے ساتھ بھجوائی گئی ہے، انھوں نے کہا کہ اصل مسئلہ کلاس رومز کاہے، ہم اتنے طلبہ کوکس طرح کلاس رومز میں ایڈجسٹ کریں گے، ہمارے پاس گنجائش نہیں ہے۔ بتایاجارہاہے کہ صرف کراچی کے بوائز کالجوں میں کمپیوٹرسائنس کی داخلہ نشستیں 1400سے بڑھاکرساڑھے 3ہزارسے بھی تجاوزکی گئی ہیں، گرلز کالجوں کی نشستیں ان کے علاوہ ہیں۔
واضح رہے کہ سندھ کے سرکاری کالجوںمیںانٹرسال اول کے داخلوں کے لیے ''سنٹرلائزڈداخلہ پالیسی''21سال قبل سن 2000میں پہلی بار شروع ہوئی تھی تاکہ کالجوں میں میرٹ پر اوربغیرکسی دباؤکے داخلے کیے جاسکیںازاں بعدپالیسی کوآن لائن کردیاگیاتھا اس پالیسی کوہرسال عملی جامع پہنانے کے لیے کراچی کے کالجوں کے سینئرپرنسپلز پر مشتمل کمیٹی قائم کی جاتی تھی جواس پورے عمل کوشفاف رکھنے کے لیے داخلوں کے آغاز سے اختتام تک پورے پروسس میں شامل رہتی تھی تاہم اس بار ایسانہیں کیاگیااورایک لاکھ سے زائد طلبہ کے داخلوں کے لیے پالیسی گریڈ17کے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹرراشد کھوسوکے ہاتھ میں دے دی گئی۔
''ایکسپریس''نے اس سلسلے میںاسسٹنٹ ڈائریکٹر راشدکھوسوسے بھی رابطہ کیااورخبرمیں موجود مندرجات کے حوالے سے دریافت کیا جس پر ان کاکہناتھاکہ ہم نے زائد داخلے اس لیے دیے کہ کالجوں میں طلبا کے لیے نشستیں دستیاب تھیںجبکہ ساتھ ساتھ ہم نے کراچی میں کالج بھی بڑھائے ہیں، 4 نئے کالج شروع کیے ہیں۔ کالجوں میں میرٹ نیچے آنے اورکٹ آف مارکس کم ہونے کے حوالے سے ان کاموقف تھاکہ یہ ہم نہیں کمپیوٹر(پروگرامنگ) کرتا ہے۔ میٹرک میں زیادہ پرسنٹیج پر طلبا کے پاس ہونے کے باوجود میرٹ نیچے آنے کے حوالے سے انھوں نے کہاکہ جو طلبا سی اور ڈی گریڈ میں پاس ہوئے ہیں انھیں بھی تو ایڈجسٹ کرناہے، کیپ کمیٹی میں سینئرپرنسپلزکوشامل نہ کرنے کے معاملے پر وہ کوئی اطمینان بخش جواب نہ دے سکے تاہم ان کایہ کہنا تھاکہ ریجنل سطح پر کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں ان میں پرنسپلز موجودہیں۔
حکومت سندھ کے محکمہ کالج ایجوکیشن کی جانب سے کراچی کے سرکاری کالجوں میں انٹرسال اول کے داخلوں کے سلسلے میں کالج پرنسپلز کی شمولیت کے بغیر بنائی گئی داخلہ پالیسی میں بڑے پیمانے پر بے قاعدگیوں اور بدترین بدانتظامیوں کے معاملات سامنے آئے ہیں۔
کمپیوٹر سائنس فیکلٹی کے لیے دیے گئے داخلوں میں کراچی کے بعض بڑے اورتعلیم وتدریس کے حوالے سے اچھی شناخت رکھنے والے سرکاری کالجوں میں میرٹ کوکم کرکے داخلے دینے کا انکشاف ہواہے۔ اس بات کاانکشاف ''ایکسپریس''کی جانب سے کمپیوٹرسائنس کے داخلوں کے حوالے سے ان کالجوں کی میرٹ لسٹ کی جانچ پڑتال اوربعض پرنسپلز سے بات چیت میں ہوا۔
کراچی میں گزشتہ برس قائم کیے گئے کالج گورنمنٹ بوائز کالج غازی گوٹھ اسکیم 33میں ڈائریکٹرل جنرل کالجز سندھ کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی نے250طلبہ کوکمپیوٹرسائنس کی فیکلٹی میں داخلے دے ڈالے، اس کالج میں کمپیوٹرسائنس کا ایک ٹیچر بھی موجود نہیں، ذرائع دعوی کرتے ہیں کہ کالج میں کمپیوٹرکی لیب سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
''ایکسپریس''کے رابطہ کرنے پر کالج پرنسپل پروفیسرخالق راجپرنے 50 زائد طلبا کو داخلے دینے اور کالج میں کمپیوٹرٹیچرنہ ہونے کی بھی تصدیق کی۔ علاوہ ازیں مختلف سرکاری کالجوں میں اس سال نشستوں کی تعداد بڑھائی گئی ہے۔ آدم جی سائنس کالج میں نشستوں کی تعداد50 سے بڑھا کر153، اسلامیہ کالج میں 100سے 325،پی ای سی ایچ ایس فاؤنڈیشن میں 100سے 156،نیشنل کالج میں 50سے 211،جامعہ ملیہ کالج میں 100سے 235، اسی طرح دیگر کالجوں میں بھی نشستیں بڑھائی گئی ہیں۔ ایک کالج پرنسپل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ''ایکسپریس''سے گفتگومیں کہاکہ بعض سرکاری کالجوں میں میرٹ کم کرنے کے لیے ''کٹ آف مارکس''ہی گرادیے گئے ہیں۔
انھوں نے خاتون پاکستان کالج اورگورنمنٹ کالج ایس آر ای مجید اسٹیڈیم روڈ کی مثال دیتے ہوئے بتایاکہ خاتون پاکستان میں میرٹ 610پرختم کیاگیاہے جبکہ گزشتہ برس یہ میرٹ 688مارکس پر ختم ہوا تھا اسی طرح ایس آر ای مجید کالج میں میرٹ 611تک لے آئے ہیں یہ میرٹ گزشتہ برس 690 مارکس پر بند ہوا تھا۔
اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ کٹ آف مارکس کوگراکرسفارشی امیدواروں کومختلف کالجوں میں ایڈجسٹ کیاگیا ہے۔ ایس آر ای مجید کالج کے پرنسپل پروفیسرعقیل احمد نے رابطہ کرنے پر میرٹ کم ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں 250طلبا کی میرٹ لسٹ 611کٹ آف مارکس کے ساتھ بھجوائی گئی ہے، انھوں نے کہا کہ اصل مسئلہ کلاس رومز کاہے، ہم اتنے طلبہ کوکس طرح کلاس رومز میں ایڈجسٹ کریں گے، ہمارے پاس گنجائش نہیں ہے۔ بتایاجارہاہے کہ صرف کراچی کے بوائز کالجوں میں کمپیوٹرسائنس کی داخلہ نشستیں 1400سے بڑھاکرساڑھے 3ہزارسے بھی تجاوزکی گئی ہیں، گرلز کالجوں کی نشستیں ان کے علاوہ ہیں۔
واضح رہے کہ سندھ کے سرکاری کالجوںمیںانٹرسال اول کے داخلوں کے لیے ''سنٹرلائزڈداخلہ پالیسی''21سال قبل سن 2000میں پہلی بار شروع ہوئی تھی تاکہ کالجوں میں میرٹ پر اوربغیرکسی دباؤکے داخلے کیے جاسکیںازاں بعدپالیسی کوآن لائن کردیاگیاتھا اس پالیسی کوہرسال عملی جامع پہنانے کے لیے کراچی کے کالجوں کے سینئرپرنسپلز پر مشتمل کمیٹی قائم کی جاتی تھی جواس پورے عمل کوشفاف رکھنے کے لیے داخلوں کے آغاز سے اختتام تک پورے پروسس میں شامل رہتی تھی تاہم اس بار ایسانہیں کیاگیااورایک لاکھ سے زائد طلبہ کے داخلوں کے لیے پالیسی گریڈ17کے ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹرراشد کھوسوکے ہاتھ میں دے دی گئی۔
''ایکسپریس''نے اس سلسلے میںاسسٹنٹ ڈائریکٹر راشدکھوسوسے بھی رابطہ کیااورخبرمیں موجود مندرجات کے حوالے سے دریافت کیا جس پر ان کاکہناتھاکہ ہم نے زائد داخلے اس لیے دیے کہ کالجوں میں طلبا کے لیے نشستیں دستیاب تھیںجبکہ ساتھ ساتھ ہم نے کراچی میں کالج بھی بڑھائے ہیں، 4 نئے کالج شروع کیے ہیں۔ کالجوں میں میرٹ نیچے آنے اورکٹ آف مارکس کم ہونے کے حوالے سے ان کاموقف تھاکہ یہ ہم نہیں کمپیوٹر(پروگرامنگ) کرتا ہے۔ میٹرک میں زیادہ پرسنٹیج پر طلبا کے پاس ہونے کے باوجود میرٹ نیچے آنے کے حوالے سے انھوں نے کہاکہ جو طلبا سی اور ڈی گریڈ میں پاس ہوئے ہیں انھیں بھی تو ایڈجسٹ کرناہے، کیپ کمیٹی میں سینئرپرنسپلزکوشامل نہ کرنے کے معاملے پر وہ کوئی اطمینان بخش جواب نہ دے سکے تاہم ان کایہ کہنا تھاکہ ریجنل سطح پر کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں ان میں پرنسپلز موجودہیں۔