معاشی بحران کی سنگینی

عوام معاشی چارہ گروں سے مایوس ہوچکے ہیں، کشمکش زندگی سے تنگ آچکے ہیں، حکومت کو عوامی ریلیف کے لیے سوچنا چاہیے۔


Editorial December 04, 2021
عوام معاشی چارہ گروں سے مایوس ہوچکے ہیں، کشمکش زندگی سے تنگ آچکے ہیں، حکومت کو عوامی ریلیف کے لیے سوچنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

FAISALABAD: ملکی اقتصادیات کو ہولناک بحران کا سامنا ہے، معاشی مسیحاؤں کو مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے پیدا شدہ مسائل کے مجتمع طوفانوں نے بوکھلا دیا ہے، معیشت ایک بے پتوار سفینہ کی طرح منزل کی تلاش میں ہے۔

حکومت کوشش کر رہی ہے کہ کوئی سانحہ رونما ہوئے بغیر معاشی مسائل کا کوئی صائب حل نکلے مگر معیشت کو جہاندیدہ اور تجربہ کار معاشی ماہرین کی ہی ضرورت ہے جب کہ معاشی چارہ گروں نے جتنے بھی اقدامات اور پالیسی ساز فیصلے کیے ہیں ان کے نتیجہ میں صائب پیداواری نتائج نہیں نکلے، مارکیٹ میں شدید مندی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔

معیشت کو اعصاب شکن چیلنجز درپیش ہیں، کچھ روز قبل مشیر خزانہ شوکت ترین نے غربت، افراط زر اور مہنگائی کے سہ جہتی معاملات پر بحث کرتے ہوئے یقین دلایا تھا کہ کوئی منی بجٹ نہیں آئیگا، خدشہ ہے کہ سیاسی ارتعاش اور عدم مفاہمت سے جمہوریت کو نقصان نہ پہنچے، عوام اعصابی اور ذہنی طور پر تھک چکے ہیں حکومتی مشیر خزانہ عوام کو بہ اصرار اس پر زور دیتے رہے کہ ملک کو غربت نہیں مہنگائی اور افراط زر کے مسائل سے نمٹنے کے لیے مہلت درکار ہے، پاکستان مشکل میں ہے مگر یہ عارضی صورتحال ہے، ملک بحران سے نکل جائے گا۔

تاہم کوئی دن نہیں جاتا کہ معیشت اور اقتصادی انتشار میں اضافہ کی اطلاع نہیں ملتی، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سیاست دان اور اقتصادی ماہرین آئی ایم ایف کو مطعون کر رہے ہیں لیکن حقیقت اور ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیا جائے تو عالمی مالیاتی ادارہ کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ عالمی معیشت کو کسی بھی سانحہ اور سقوط سے دوچار نہ ہونے دے، مالیاتی فنڈ حکومت کے پاس پروگرام دینے خود نہیں آئی، حکومت خود لیت ولعل کے بعد آئی ایم ایف سے رابطہ پر مجبور ہوئی اور آج اگر آئی ایم ایف اپنی شرائط منوانے پرزور دے رہا ہے تو اس کی بھی ایک صائب وجہ ہے۔

مالیاتی ادارہ حکومت سے اپنے تحفظات پر کوئی گارنٹی چاہتا ہے، اسے ایک واضح یقین دہانی چاہیے کہ حکومت جو قرضے مانگ رہی ہے وہ واپس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں، آئی ایم ایف نے حکومت سے آمدنی کے حصول کے کئی آپشنز مانگے، ملکی سلامتی کے ادارہ، بیوروکریسی اور حکومتی غیر پیداواری مراعات میں کٹوتی سے بچت کرنے پر مالیاتی فنڈ کا اصرار درست تھا۔

جب حکومت کسی قسم کی جائز کٹوتی پر تیار نہیں ہوتی تو آئی ایم ایف کے پاس یہی آپشن ہے کہ وہ حکومت سے کہے کہ پھر آپ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائیں، آپ عوام کو مزید زیر بار کرتے ہیں، کیونکہ فیصلہ سازوں اور معاشی مسیحاؤں کے پاس عوام کو دینے کے لیے کوئی امید افزا پروگرام نہیں، کوئی پالیسی نہیں، چارہ گروں کے پاس حقیقت میں معیشت کے استحکام کا کوئی ٹھوس و موثر منصوبہ نہیں ہے۔

وہ اندھیرے میں ہاتھ پیر مار رہے ہیں، اور سارا الزام آئی ایم ایف کو دیتے ہیں، جو عالمی معیشت اور حکومتوں کے مالیاتی سسٹم کا نگران ہے۔ ضرورت حکومت کو ہے کہ وہ اکانومی کو مستحکم کرنے کی کوئی پالیسی بنائے، خود کفیل ہو جائے تاکہ آئی ایم ایف کی محتاجی ختم ہو جائے۔ لیکن حکومتی قرضوں کے بوجھ تلے ملک دب چکا ہے اور بوجھستان بن گیا ہے۔

چنانچہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج جمعرات کو بدترین مندی کی وجہ سے کریش کی صورتحال سے دوچار رہی، سود کی شرح میں مزید نمایاں اضافے کے خدشات، مہنگائی اور تجارتی خسارہ بڑھنے سے خوفزدہ ہوکر سرمایہ کاروں نے دھڑا دھڑ حصص فروخت کیے جس سے کاروبار کی ابتدا سے ہی مارکیٹ بدترین مندی کی لپیٹ میں رہی اور انڈیکس کی 45000 اور 44000 پوائنٹس کی نفسیاتی حدیں گر گئیں۔

مندی کے سبب 93 فیصد حصص کی قیمتیں گرگئیں جب کہ سرمایہ کاروں کے 3 کھرب 32 ارب 26 کروڑ 74 لاکھ 75 ہزار 411 روپے ڈوب گئے۔ نومبر کے دوران افراط زر کی شرح 11.5 فیصد تک پہنچنے کی وجہ سے بینکوں کی جانب سے اسٹیٹ بینک کو 3، 6 اور 12 ماہ کے ٹریژری بلوں کی نیلامی میں 10.53 فیصد سے 11.51 فیصد کی بلند شرح کی پیشکشوں نے اسٹاک مارکیٹ کو کاروبار کے آغاز سے ہی کریش کی صورتحال سے دوچار کیا کیونکہ سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ 14دسمبر کی نئی مانیٹری پالیسی میں سود کی شرح 50 یا 100 کے بجائے 150 بیسس پوائنٹس بڑھ جائے گی۔

کاروبار کے اختتام پر کے ایس ای 100 انڈیکس 2134.99 پوائنٹس کی کمی سے 43234.15 پوائنٹس پر بند ہوا ماہرین کا کہنا ہے کہ نومبر کے دوران ملکی درآمدات 8 ارب ڈالر سے متجاوز ہوگئی ہیں جب کہ تجارتی خسارہ بھی 5 ارب ڈالر سے تجاوز کرنے کے ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے جیسے عوامل کے باعث لسٹڈ کمپنیوں کی پیداواری و کاروباری لاگت میں بھی ڈھائی سے تین فیصد کے ممکنہ اضافے سے ان کی آمدنیوں پر بھی منفی اثرات ہوں گے لہٰذا اقتصادی محاذ پر ایسی منفی خبروں نے سرمایہ کاروں میں مایوسی کی فضا پیدا کر دی ہے۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں جمعرات کو کیپیٹل مارکیٹ کی تاریخ میں چوتھی بڑی تاریخ ساز مندی ریکارڈ کی گئی۔ اس سے قبل 11مارچ 2017 کو کے ایس ای ہنڈریڈ انڈیکس میں 2153پوائنٹس کی پہلی بڑی مندی رونما ہوئی تھی جب کہ 16 مارچ 2020 کو 100 انڈیکس میں 2375 پوائنٹس کی دوسری بڑی مندی ہوئی تھی پھر 18مارچ 2020 کو 2201 پوائنٹس کی تیسری بڑی مندی ہوئی تھی۔ جمعرات 2 دسمبر 2021 کی مندی مالی سال 2020-21 کی دوسری بڑی مندی جب کہ کیلنڈر سال 2021 کی پہلی بڑی مندی ریکارڈ کی گئی ہے۔

حکومت نے غیر معمولی حدت کی حامل معیشت کو ٹھنڈا کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ہوئے معاہدے کے تحت منی بجٹ کو حتمی شکل دے دی جس میں 6 کھرب روپے کی مالی ایڈجسٹمنٹس اور اخراجات کی کٹوتیاں شامل ہیں۔

اخبار کی رپورٹ کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام وفاقی حکومت کی جانب سے 5 ماہ قبل مالی سال 2022 کے لیے پیش کیے گئے ترقیاتی بجٹ کے اثرات کو واپس پلٹانے میں کردار ادا کرے گا۔ ان اقدامات کو پیشگی اقدامات کہا جا رہا ہے جو جنوری میں آئی ایم ایف بورڈ سے منظوری کے لیے پاکستان کی درخواست جمع کرانے کی راہ ہموار کریں گے، بورڈ کی منظوری سے ملک کے لیے ایک ارب ڈالر جاری ہوسکیں گے۔

دوسری جانب حکومت نے یوسف خان کو سیکریٹری خزانہ کے عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ پلاننگ ڈویژن کے حامد یعقوب شیخ کو تعینات کر دیا۔ جن ایڈجسٹمنٹس کو حتمی شکل دی گئی ہے اس میں حکومت نے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت اخراجات میں 2 کھرب روپے کی کمی اور حکومت کے عمومی اخراجات میں 50 ارب روپے کی کمی کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب ٹیکس استثنیٰ واپس لینے سے حکومت کو تقریباً 350 ارب روپے حاصل ہوں گے۔

آئی ایم ایف 7 کھرب روپے کے ٹیکس اقدامات کا خواہاں ہے جس میں ٹیکس استثنیٰ واپس لینا اور ٹیکس سلیبز پر نظرِ ثانی شامل ہے۔ تاہم رواں مالی سال کیے ہوئے معاہدے میں صرف 350 ارب روپے کا ٹیکس استثنیٰ ختم کیا جائے گا اور اشیائے خورونوش، کھاد اور کیڑے مار ادویات پر یہ استثنیٰ برقرار رہے گا۔

دریں اثنا ملکی درآمدات نومبر میں 8 ارب ڈالر کے ساتھ بلند ترین سطح پر پہنچنے سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور درآمدی ادائیگیاں بڑھنے سے ادائیگیوں کا توازن بگڑنے اور نومبر میں تجارتی خسارہ 5 ارب ڈالر تک پہنچنے جیسے عوامل کے باعث انٹر بینک مارکیٹ میں جمعرات کو ڈالر کی اڑان تیز رفتار رہی جس سے ڈالر کے انٹر بینک ریٹ 176روپے سے تجاوز کرکے تاریخ کی بلند ترین سطح پر بند ہوئے جب کہ اوپن ریٹ 177روپے سے تجاوز کرکے 178روپے پر آگیا۔

انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 95 پیسے بڑھ کر 176روپے 42 پیسے پر بند ہوئی جب کہ اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 1روپے کے اضافے سے 178 روپے پر بند ہوئی۔ رواں مالی سال کے آغاز سے اب تک انٹر بینک میں روپیہ کی قدر میں مجموعی طور پر 12 فیصد یا 18.88روپے کی کمی ریکارڈ کی گئی ۔

علاوہ ازیں مقامی صرافہ مارکیٹوں میں جمعرات کو فی تولہ اور فی 10 گرام سونے کی قیمتوں میں بالترتیب 850 روپے اور 729 روپے کا اضافہ ہوگیا جس کے نتیجے میں فی تولہ سونے کی قیمت بڑھ کر 123650روپے اور فی 10 گرام سونے کی قیمت بڑھ کر 106010روپے ہوگئی۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق بین الاقوامی بلین مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت میں9ڈالر کی کمی ہوئی اور عالمی مارکیٹ میں سونے کی فی اونس قیمت 1777 ڈالر کی سطح پر پہنچ گئی۔

حقیقت یہ ہے کہ ملکی اقتصادیات کو ''میڈ از ٹچ'' کا انتظار ہے۔ عوام معاشی چارہ گروں سے مایوس ہوچکے ہیں، کشمکش زندگی سے تنگ آچکے ہیں، حکومت کو عوامی ریلیف کے لیے سوچنا چاہیے، مہنگائی اور غربت کا خاتمہ جب کہ صورتحال کی بہتری سیاسی قیادت کی دور اندیشی اور عوام کی خیر خواہی سے ہی آسکے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔